عنایا اور زین کا نکاح ہونے کے بعد سب جوڑوں کو باہر باغچے میں بیٹھایا گیا ۔جہاں کھانے کا انتظام بھی تھا
کومل کو زمان کے ساتھ بیٹھآیا گیا ۔کومل بیچاری کا چہرہ سرخ انار ہو چکا تھا ۔کیونکہ زمان کی بتیسی باہر تھی ۔اور وہ کومل کو ساتھ لئے مختلف پوز بنانے میں مشغول تھا ۔جس پر اس کو بی جان کی سلوتیں سننے کو مل رہی تھیں پر وہ زمان ہی کیا جو آج سن لے ۔۔
"کومل ادھر دیکھو ۔”زمان نے سیلفی لینے لے انداز میں کیمرے اوپر کیا
"زمان جی!!! آپ بس کر دیں”” ۔کومل کو سمجھ نہ۔ آیا کے کیسے بلائے تو خاص بیوی والے انداز میں بولی
"اف !!زمان جی ۔۔بس اس ہی انداز پر تو نثار ہوئے ہیں ۔”وہ بھی ڈیھٹائی کے تمام ریکارڈ تھوڑ تے ہوئے بولا
"زمان !!” اب کی بار زرینہ بیگم نے آنکھیں دکھائی تو زمان تھوڑا باز آیا
عنایا اور زین بھی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔ زین خوش تھا پر زمان کی۔ طرح اچھل نہیں رہا تھا
"زین ۔” عنایا نے بور ہوتے ہوئے کہا
"ہاں بولو !!تھوڑاتمیز سے جیسے زین میری بات سنیں "۔ زین نے تپانے کے لئے کہا
"زین میری بات سنیں ۔مجھے بھوک لگ رہی ہے ذرا جا کر بریانی کی پلیٹ ہی لے آئیں ۔سب ہم۔ لوگوں کو بھول ہی گئے ہیں ۔عنایا نے زین سے کہا
"جا کے خود ہی کھا لو بندے کا۔ موڈ ہی خراب کر دیا ۔” زین کے سارے رومنس پر عنایا نے پانی ڈال دیا
زین کی بات سن کر عنایا نے حسرت سے کھانے کی طرف دیکھا
وجدان اور ہانیہ کی تصاویر شایان اپنے کیمرے میں عکس بند کر رہا تھا ۔
"وجی بھائی ۔تھوڑا مسکرایں تو سہی ۔”۔جس پر مسکرانے کی جگہ اس نے دانتوں کی نمائش کی اور ہانیہ کے پیچھے صوفے پر بازو رکھا جس پر ہانیہ کو تپ چھڑی۔پر خاموشی سے بیٹھی رہی ۔ جتنی بھی بد گمانیاں سہی وہ محرم تھا ۔جھجک فطرتی بات تھی ۔۔
بی جان اور باقی سب بڑے بچوں کو چھوڑ کر اندر جا چکے تھے ۔گھڑی شام کے چھے بجا رہی تھی ۔ آج لان میں محفل جمی تھی ۔ باہر بھی برقی قمقموں سے سجا یا گیا تھا
"ارے!! دولہے آج گانا سنائیں گے ۔” ارباز نے جان بوجھ کر تنگ کرنے کے لئے کہا ۔ پھر چوری سے ایک نظر دعا پر ڈالی اور نظروں کا زاویہ بدل لیا ۔کاش کوئی اس سے بھی پوچھ لیتا تو وہ خوشی میں پوری شاعری کی کتاب ہی لکھ دیتا
زمان نے سب سے پہلے گانا سنایا ۔
جس پر کومل بیچاری چہرہ جھکآئے بیٹھی رہی
زین نے بس شعر سنانے پر ہی اکتفا کیا ۔
اے عشق ہمیں ۔۔۔برباد نہ کر
رہ چھپ مگر ۔۔۔اظہار تو کر
کی اتنی محبّت۔۔۔ تم سے ہے
چرچا نہ کر ۔۔۔اقرار تو کر
جس پر عنایا نے لحاظ بالائے تاق رکھ کر پاس پڑا تکیہ جو اندر سے منگوایا تھا زین کو دے مارا
"بےشرم نہ ہو تو ۔”۔ساتھ بڑبڑائی
اب وجدان کی باری تھی ۔ جس پر سب ہی پر جوش تھے کے ایسے مواقعے کم ہی۔ ملتے ہیں ۔
"مجھے گانو ں سے کچھ خاص لگاؤ نہیں ۔پر میں غزل سنا سکتا ہوں” ۔تھوڑا سا جھک کر نہ محسوس انداز میں ہانیہ کے قریب ہوا جس پر وہ تھوڑا پیچھے کسکی ۔پر بے سود
جس پر اس نے بےبسی اور غصّے سے وجدان کو دیکھا جو اس نے نظر انداز کر دیا
"میرے بابا سناتے تھے ان کی پسندیدہ تھی "۔اس کی آواز تھوڑی نم ہوئی ۔پھر سر جھٹک کر ہانیہ کی طرف دیکھا ۔
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے،
شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی
، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا
، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا
، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں
، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہو گئی دوستی
، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی
، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی
، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے
عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے
، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی
، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے
آخری لائن اس نے ہانیہ کی آنکھوں میں جھانک کر کہا وہ جو سننے میں مگں تھی ایک دم جھ ججھک کر اپنی نظر جھکا گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجدان نکاح کے بعد ہانیہ سے بات کرنے کے موا قعے ڈھونڈ رہا تھا ۔تب ہی وہ دعا کے ساتھ جاتی دکھائی دی وہ بھی وجدان کے کمرے میں ۔۔وجدان حیرت سے ان کے پاس پہنچا تو دعا جو اس کے کمرے کے باہر کھڑی تھی
"۔وجی بھائی آپ پلیز ادھر روکنا ہانیہ اندر ہے آپ کے روم میں آپ کو کوئی مسلہ تو نہیں ہو گا ۔آپ کی منکو حہ ہی ہے۔ ۔مجھے ماما نے کچھ کام دیا تھا میں وہ کر کے آتی ہوں ۔” ۔دعا وجدان سے بولی
پہلی بات میرا نام وجدان ہے ۔۔ دوسری مجھے کوئی مسلہ نہیں بچے آپ جا کے چچی کی بات سن لو ۔۔ میں یہاں ہی ہوں ۔۔” اس نے مسکراہٹ کو کنٹرول کرتے ہوۓ سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔وجدان کی آنکھوں کی چمک بڑھ چکی تھی
وہ جو اپنا دوپٹے کو سیٹ کر رہی تھی کسی کی موجودگی کے احساس پر موڑی ۔۔وجدان کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔ وجدان کے کمرے میں بلیک تھیم تھا کمرے کو ایک گلاس وال کی مدد سے دو حصہوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے درمیان میں شیشے کا دروازہ تھا ایک بڑا سا پلانک تھا جو گلاس وال کے پار تھا دیواروں پر بھی بلیک کلر استعمال کر کے ڈیزائن بنائے گے تھے ۔۔
"آپ ۔۔ آپ ۔۔”۔ ہانیہ کے لب پھڑ پھڑائے اس کو سمجھ ہی نا آیا کے کیا بولے
"جی !!!!میں وجدان آپ کا شوہر نامدار "۔ اور ساتھ روم کا دروازہ بھی بند کر دیا ۔اس نے اس کی طرف قدم بڑھآئے
ہانیہ نے سائیڈ سے گزرنے کی کوشش کی پر وجدان نے ناکام بنا دی ۔ہانیہ نے پیچھے ہونے کی کوشش کی پر گلاس وال کے ساتھ جا کر ٹکڑائی ۔
ہانیہ!! ایک بار بس ایک بار کہہ دو کے تم میری ہو۔مجھے سے محبّت کرتی ہو ۔ یقین کرو میں ہر الزام اپنے سر لے لوں گا "۔ اپنے بازؤں کو ہانیہ کے دونوں اطراف ٹکاتے ہوئے ہانیہ پر جھکا
ہانیہ کو لاکھ بےا عتبار ی تھی وجدان سے ۔پر آج وہ اسکا محرم تھا ۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود اپنی تیز ہوتی دھڑکن کو روک نہیں پا رہی تھی ۔
وجدان نے اس کے کرل ہوئے بالوں کو پیچھے کیا اور جھک کر اس کے گال پر محبّت کی مہر ثبت کی ۔ ہانیہ سن سی کھڑی رہ گئی ۔وجدان اس کے ماتھے پر جھکا تو ہانیہ نے اپنا چہرے کا رخ پھیر لیا ۔جس پر وجدان نے مسکرا کر اس کے گال پر پھر سے محبّت کی نشانی چھوڑی ۔۔
وجدان کے اس بہکے انداز پر ہانیہ کے ہاتھ کپکپا اٹھے ۔
ہانیہ نے خود پر جھکے وجدان کو پیچھے دھکیلا ۔
"آپ ۔۔آپ سے کسی اچھی چیز کی امید نہیں تھی آپ نے دھوکے سے نکاح ہی کر لیا ۔ آپ کو پتا تھا میں راضی نہیں ہیں گی ۔ کا ہی بھی نہیں ۔” وہ ہمّت کر کے لرزتی آواز میں بولی
ہانیہ کی بات سن کر وجدان واپس تلخ دنیا میں لوٹا
"میں بھی انسان ہوں غلطی مجھ سے بھی ہو سکتی ہے ۔۔ میں محبّت کرتا ہوں تم سے کسی لڑکی کو پہلی نظر ڈال کر دوبارہ نہیں دیکھا ایک تم ہی تھی جس کے لئے دل ہار بیٹھا ۔۔میں نے بے اعتباری دکھائی تو محترمہ آپ نے کونسا اعتبار کر لیا مجھ پر ۔ہاں غلطی میری تھیں پر ایک بار آ کے مجھ سے پوچھا ۔کے ایسا کیوں ہوا "وہ اس کے کندہ جھجھور کر بولا
پھر تھوڑا پیچھے ہو کر گھرا سانس لیا
"تم !!!!سچ تو رہنے ہی دو اپنی کیے پر پردہ مت ڈالو ۔۔” ہانیہ کی آنکھوں میں۔ بے اعتباری ہی تھی ۔
پر معصوم سی ہانیہ(بقول وجدان کے ) کی شکل پر معصوم سا غصّہ دیکھ کر مسکرایا
"آج بھی یہ باتیں لے کر بہت گئی اب تو پوری زندگی ہے ۔۔ اور تم کیا ہوتا ہے ۔۔ مانا میں ۔ لندن رہا ہوں ۔۔ پر اگر جان وجدان مجھے” شاہ جی” کہو گی تو . اچھا لگے گا جان وجدان ۔” وہ اس کے چہرے پر آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ بولا ۔۔
اس کی آنکھیں جو اس کو ہمیشہ سحر میں جکڑ لیتیں تھیں آج بھی اس کو محسور کر ڈالا تھا ۔
۔۔
ہانیہ نے اس کے لمس پر سرخ انار چہرہ لئے
پیچھے ہونے کی کوشش کی ۔ پر پیچھے دیوارنے ناکام بنا دی
"تمھیں سچ جاننا ہے نا میں بتاتا ہوں اس شام کیا ہوا تھا ۔۔۔ جب میں کافی شاپ میں پھنچا تو ۔۔۔”
"ہانیہ !!!” ۔۔ دعا کی آواز پر پیچھے ہٹا ۔۔ اس کی بات ادھوری رہ گئی
”ہاں !! آ رہی ہوں ۔ ”
"بولو تم ۔”۔ وہ اس کو دیکھ کر بولی ۔۔
"تم نہیں شاہ جی ۔۔” وہ اس کی بے ادبی پر تلمیلا یا ۔۔
"ہانیہ آ بھی جاؤ ۔۔ ایک تو وجدان بھائی پتا نہیں کدھر غائب ہو گئے ہیں”
"اب تو بیوی ہو چلو اگلی ملاقات میں فرصت سے بتاؤں گا ” وجدان کی بات سن کر جلدی سے کمرے سے بھاگنے کی کوشش کی مگر شرارہ پاؤں میں آنے سے وجدان کے حصار میں آ گئی ۔
” گرنے کی کیا ضرورت تھی ویسے ہی بتا دیتیں میں آپ کو تھام لیتا "۔وجدان اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر محضو ظ ہوا
"تم ۔۔” ہانیہ نے اس کے حصار سے نکلتے ہوئے کہا
"تم نہیں شاہ جی ۔۔ ” وجدان مسکراتے ہوئے بولا
‘ہانیہ!!!! اندر ہی سو گیئی ہو کیا وجدان بھائی کا روم ہے ۔۔باہر نکلو "۔۔دعا نے دروازے پر زور سے دستک دی
"آ رہی ہوں بس” وہ کہہ کر باہر بڑھ گئی ۔اور وجدان مسکراتا ہوا پیچھے کی طرف چلتا ہوا بیڈ پر گرا اور ہانیہ کے بارے میں سوچ کر مسکرا دیا۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...