ہم اپنا وجود گوشت کے گرم ڈھیر میں پاتے ہیں اور اس کو زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں علم ہے کہ جسم میں تلی کا کیا فنکشن ہے؟ یا پھر tendon اور ligament میں کیا فرق ہے؟ ہمارے لمف نوڈ کیا کرتے ہیں؟ اور آپ دن میں آنکھ کتنی بار جھپکتے ہیں؟ پانچ سو بار یا ایک ہزار بار؟ ظاہر ہے کہ آپ کو اندازہ نہیں لیکن یہ اوسطاً چودہ ہزار بار جھپکی جاتی ہیں۔ یعنی کہ ایک عام روز میں جاگتے وقت یہ تئیس منٹ تک بند رہتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس سب کے بارے میں سوچنا ہی نہیں پڑتا۔ ہر دن کے ہر سیکنڈ میں جسم میں کھرب ہا کھرب ایونٹ ہو رہے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ہم اس عدد کا تصور نہیں کر سکتے لیکن ان کو ہونے کے لئے ہماری توجہ کی ضرورت نہیں۔
جب سے آپ نے یہ فقرہ پڑھنا شروع کیا تو اس ایک سیکنڈ میں جسم میں خون کے دس لاکھ سرخ خلیے بن چکے۔ یہ اب جسم کی شریانوں میں چکر کاٹ رہے ہیں اور آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ہر خلیہ جسم میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ بار چکر لگائے گا۔ خلیات کو آکسیجن فراہم کرے گا۔ اور پھر اس سب سے تھک ہار کر خاموشی سے ختم ہو جائے گا اور اپنے اجزاء دوسرے خلیات کو دے دے گا۔
مل ملا کر آپ میں سات ارب ارب ارب ایٹم ہیں۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا ہے آخر ان سات ارب ارب ارب ایٹموں کو کیا پڑی تھی کہ ملکر آپ بن گئے۔ آخر کار، یہ بغیر دماغ کے ناسمجھ ذرات ہیں جن میں کوئی سوچ نہیں۔ اور آپ کے جسم کے ایٹموں میں سے کوئی ایک بھی “آپ” سے خاص نہیں۔ یہ آتے جاتے رہیں گے۔ مسلسل تعمیرِ نو جاری رہے گی۔ ماحول اور بدن میں مادے کا تبادلہ جاری رہے گا۔ لیکن آپ کی زندگی کے دورانیے کے درمیان آتے جاتے یہ ایٹم اس وجود میں رقصاں رہیں گے۔ اور جسم کے ان گنت نظاموں کو تشکیل دیں گے اور چلائے رکھیں گے۔ یہ آپ کو شکل دیں گے اور آپ کو ایک انتہائی نایاب اور انمول تحفے سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی، جو کہ آپ کی زندگی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب اس سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے جتنا آپ کو احساس ہے۔ اگر آپ کو کھولا جائے تو آپ بہت بڑے ہیں۔ اگر آپ کے پھیپھڑوں کو کھول کر چادر کی طرح بچھایا جائے تو یہ ایک ٹینس کورٹ کو ڈھک دیں گے۔ اور ہوا کے لئے نالیوں کو سیدھا کیا جائے تو یہ کراچی سے ڈھاکہ تک پھیل جائیں گے۔ خون کی تمام رگوں کی لمبائی زمین کو ڈھائی بار چکر لگا لے گی۔ ڈی این اے کا غیرمعمولی مالیکیول، ایک خلیے میں ایک میٹر کا پیک ہوا پڑا ہے۔ اگر جسم کے تمام ڈی این کو ایک دھاگے کی صورت میں اکٹھا کر لیا جائے تو یہ دس ارب میل کا ہو گا۔ یہ پلوٹو سے بھی آگے نکل جائے گا۔
لیکن ایٹم صرف تعمیر کے بلاک ہیں اور خود میں زندہ نہیں۔ زندگی ٹھیک ٹھیک کہاں پر شروع ہوتی ہے؟ یہ بتانا آسان نہیں۔ قریب قریب ہر کوئی متفق ہے کہ زندہ اجسام کا بنیادی یونٹ ایک خلیہ ہے۔ ایک خلیہ میں بہت مصروف اشیا ہیں۔ رائبوزوم، پروٹین، ڈی این اے، آر این اے، مائیٹوکونڈریا کے علاوہ بھی بہت کچھ اور۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی خود میں زندہ نہیں۔ خلیہ ایک چھوٹے کمرے کی طرح ہے جو انہیں جگہ دیتا ہے۔ لیکن کسی طرح یہ سب اکٹھا ہو کر ہمیں زندگی دیتی ہیں۔ اور یہ حصہ سائنس کی گرفت میں ابھی نہیں ہے۔ (اور امکان ہے کہ شاید ہمیشہ ایسا ہی رہے)۔
اور شاید اس میں سب سے خاص شے یہ ہے کہ کوئی بھی انچارج نہیں۔ خلیے کا ہر جزو دوسرے اجزا سے آنے والے سگنلز پر ردِ عمل دیتا ہے۔ یہ سب ٹکرا رہے ہیں اور الجھ رہے ہیں جیسے بمپر کار کا تماشا ہو۔ لیکن کسی طرح سے ان سب رینڈم حرکات سے ایک بڑا ہی نفیس اور باربط ایکشن برآمد ہو جاتا ہے۔ نہ صرف خلیے کے اندر بلکہ پورے جسم میں۔ خلیات آپ کے جسم کے آفاق میں ایک دوسرے سے ہم آہنگی میں چلتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں کے خلیات سے رابطہ رکھتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...