انعم کیا بول رہی ہو تم ؟؟؟
کیسا نشان ؟؟؟
سر ۔۔یہ دیکھے ساجد کا ہاتھ دکھایا
ساجد کے ہاتھ پر کچھ ہلکے زخم ھیں
کسی سوئیوں کے یا پھر ہاں
انعم کو۔ جیسے کچھ یاد آیا ہو
جیسے چوڑیاں سر
ریان حیران ہوا چوڑیاں
اسکا مطلب کوئی لڑکی ہے
یس سر ہو سکتا ہے ساجد نے اپنے بچاو کے لئے قاتل کا ہاتھ پکڑا ہو
انعم نے حل نکالا
ہممم اور کچھ ریان نے مزید پوچھا
سر ڈنڈا وہاں موجود تھا جس سے ساجد کو مارا گیا
انعم نے ساجد کی سر کی رپورٹ دکھائی
سر زخم بہت گہرا ہے ساجد اپنے آپ کو جبھی سمبھال نہیں پایا
بہت طاقت سے مارا گیا ہے مطلب انعم لڑکی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی
یس سر یہ بھی ایک پہلی ہے
ہممم اور انعم ۔۔۔اور کچھ
سر ساجد کے ہاتھ کو کچلہ گیا ہے اس پر جوتے کے نشان ا چکے تھے جو میں نے لے لیے ۔۔۔انعم نے ریان کو دیکھا جو ساجد کے ہاتھ کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا
انعم ہاتھ کو کچلنا مطلب کوئی غصہ یا نفرت کی وجہ
اور جوتے کے نشان اس سے کچھ پتا چلا
ریان نے کچھ سوچ کر پوچھا
جوتے کے سائز یعنی 9 نمبر
انعم نے اپنے چارٹ بورڈ پر 9 کا ھندسہ لکھا
جوتے کے سائز سے لگ رہا ہے کہ ایسے بڑے جوتے کسی مرد کے ہو سکتے ھیں عموما ۔۔
ریان نے انعم سے پوچھنے والے انداز میں کہا ہو جیسے
یس سر ہو سکتا ہے ۔۔
اور کچھ بھی پتا چلے تو کال کرنا
ریان کہہ کر چلا گیا
کیس سمجھ میں ا چکا تھا اب اسے سامنے لانا تھا ۔۔۔
ساجد کی تدفین ہو گئی
آمنہ بے حال تھی
صباء کو اپنا غم پھر سے یاد اگیا تھا
بیا کو ایک کمرے میں بند کر دیا تھا
آج دو دن گزر گے تھے ریان بیا سے ملنے آیا ۔۔
دروازہ کھلا ۔۔
بیا نے شکایتی نظروں سے ریان کو دیکھا
ریان نے افسوس بھری نظروں سے دیکھا ۔۔
بیا دیوار سے ٹیک لگاے زمین پر بیٹھی تھی
ریان بیا کے قریب جا کر بیٹھا
بیا اپنی کلائی سے رومال اتار چکی تھی رومال اسکی گود میں تھا اور گھٹنوں کے گرد اپنے بازووں کا ہالہ بنا کر بیٹھی تھی
بیا ۔۔۔۔
ریان نے بیا کی کلائی دیکھی اور اس میں چوڑیوں کے زخم کے کچھ کچھ نشان رہ گے تھے
ریان نے آنکھیں زور سے بند کر کے سر کو نفی میں ہلایا ..
بیا نے آنکھیں بند کر کے سر دیوار سے ٹکایا ۔۔
اور ہونٹ ابھی بھی سوجھا ہوا تھا بولنے اور مسکرانے میں ابھی بھی تکلیف ہو رہی تھی
لیکن آج اسے ریان کو سب کچھ بتانا چاہتی تھی
بیا کسی ہو تم ؟؟؟ ریان نے اسکی حالت دیکھ کر پوچھا
بیا زخمی سا مسکرائی
جب جسم سخت بخار کی تپش سے جھلس رہا ہو اور ذہن منتشر خیالوں سے الجھ رہا ہو اور آنکھوں میں خواب مر رہے ہوں اور محبت کے نام سے ڈر رہے ہوں اور پلکیں آنسوؤں کی بجائے خون برسا رہی ہوں اور خوشیاں دور کھڑی ترسا رہی ہوں اور ناک اداسی سونگھ رہی ہو اور سوچ افسوس گوندھ رہی ہو ۔۔۔
بیا کی آواز ریان کے کانوں میں رس گول رہی تھی
لیکن درد صاف نظر آرہا تھا
جس سے ریان کو بھی تکلیف ہو رہی تھی
پر بیا نے ابھی بھی آنکھیں بند کی ہوئی تھی
زبان زخم چانٹ رہی ہو اور راتیں ہجر کاٹ رہی ہوں اور ہونٹ کرب کو چوم رہا ہو اور طوفان ارد گرد جھوم رہا ہو اور چہرہ مرجھانے کے سفر پر نکلا ہو اور خواہشوں کا زرہ زرہ پگھلا ہو اور دکھوں کی سیاہی روشنی ہٹا رہی ہو اور تنہائی آپ کا غم بنٹا رہی ہو اور دل میں ٹوٹ پھوٹ کا سما برپا ہو اور ہولناکیوں سے بندہ خوب تڑپا ہو اور کانوں میں تکلیف کی چیخیں سنائی دے رہی ہوں اور دردیلی نظروں کو وحشت دکھائی دے رہی ہو ۔۔۔
بیا کے اندر اتنا درد تھا ریان کو بیا پر ٹوٹ کر پیار آیا
ریان جانتا تھا بیا بلکل ٹوٹ چکی ہے
آواز میں درد گامزن ہو اور رونے کا بےانتہا من ہو اور ہر نس ٹِیس سے مس ہونے کو ہو اور عمرِ رواں کی جیسے بس ہونے کو ہو اور پاؤں میں زہریلے چھالے پڑ رہے ہوں اور غم و رنج سلام کر رہے ہوں اور آتی سانس جاتی سانس جیسی ہو اور بانہوں میں لپٹی عجیب بےچینی ہو اور بدن کا رنگ زرد پڑ رہا ہو اور من کے خانے میں گرد بڑھ رہی ہو ۔۔۔
ڈوپٹّہ اذیت کی چادر معلوم ہورہا ہو اور وجود خود کا غم معلوم ہورہا ہو اور کپڑے سوگ کی خوشبو سے مہک رہے ہوں اور حواسِ خمسہ جیسے بہک رہے ہوں اور بال ماتم میں بِچھ رہے ہوں اور منظر بدنما سے دِکھ رہے ہوں اور ہاتھ نفرت کا لمس محسوس کر رہے ہوں اور حادثے خود سے مانوس کر رہے ہوں اور دھڑکن خوف کی وجہ سے بےاختیار ہورہی ہو اور موت گلے لگانے کو تیار ہورہی ہو یعنی روح جسم کے زندان سے باہر آنے کو ہو گویا کہ یہ تھکی ہوئی جان بس اب جانے کو ہو ۔۔۔
پھر اس وبال میں بھی ؛ ہاں اس حال میں بھی
میں صبر کے ساتھ سب کچھ سہہ رہی ہو۔۔۔
تو بتاؤ میں کیسی ہوگی ؟؟
بیا نے ابھی بھی آنکھیں بند کی ہوئی تھی
ریان نے بیا کی کلائی پر موجود زخموں پر ہاتھ پھیرا
بیا نے ہاتھ کھینچا ۔۔
بیا کا چہرہ آنسو میں بھیگا ہوا تھا
ریان نے بیا کے آنسو صاف کئے
بیا نے اپنا درد اپنے ہم درد کے سامنے رکھ دیا تھا
ریان بیا کا ہر درد ختم کرنا چاہتا تھا پر یہ اس سے ہو نہیں رہا تھا
ریان نا چاھتے ہوے بھی سوالات پوچھنے لگا
یہ زخم کیسے ؟؟؟ریان نے بیا سے پوچھا
ساجد نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی
زبردستی میرا ہاتھ پکڑا تھا تو چوڑیاں ٹوٹی پھر چوٹ آگئی ۔۔
میں ساجد سے ہاتھ چھڑانے کے لئے چھری اٹھائی پر میں نے نہیں مارا
بیا کا ظرف ٹوٹا ۔۔۔
اور صنم کے روم سے جب نکلی تب جو بتایا کیا سب سچ تھا ؟؟؟
کیا تم نے کوئی چیز چھپائی ہوئی تھی ؟؟ ریان کا دل کر رہا تھا کہ کچھ نا پوچھو ۔۔
پر اسے اپنی محبّت پر بھروسہ تھا اسکی کھوئی ہوئی عزت واپس لانی تھی
سچ تھا سب ریان ۔۔بیا کے اب الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رہے تھے
ریان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا …
اور چھپایا کیا تھا بیا ؟؟؟
دیکھو مجھے پتا ہے لیکن تم سے سننا چاہتا ہوں
بیا اٹھی ۔۔اور الماری کی طرف بڑھی
ریان بھی اٹھا ۔۔۔
بیا کے اٹھنے سے گود میں پڑا رومال گرا جیسے ریان نے پچھان لیا تھا اور حیران ہوا ۔۔
بیا نے ایک پیک گفٹ نکالا اور ریان کے سامنے رکھ دیا
ریان نے اجنبی نظروں سے دیکھا
یہ گفٹ کیسا اور کیوں چھپایا
بیا اب سارے بوجھ ختم کرنا چاہتی تھی
کھول کر دیکھ لو
ریان نے کھولا تو اس میں ریان کے نام کی ایک نازک سی چین تھی
بیا یہ ؟؟؟
بیا شرمندہ سی ہوکر نظریں جھکائی بیٹھی تھی ۔۔
بیا تم نے گناہ کیا ہے تمیں سزا تو ملنی ہے
بیا نے حیرت سے دیکھا
ریان میں نے سچ میں سچ میں کچھ نہیں کیا
جھوٹ اب سارے پکڑے گے ھیں
اور سزا بھی میں ھی سناؤ گا تمیں
پر ریان
پر ور کچھ نہیں
بیا مایوس ہو کر ریان سے چہرہ پھیر کر کھڑی ہوگئی
اور ایک لبھی سانس لی
ریان آپ تو سمجھے
بیا ریان کی طرف پلٹی
تو ریان ایک گھٹنے کے بل پر زمین پر بیا کے قدموں میں تھا
اور خوبصورت سی رنگ ریان نے بیا کی طرف بڑھائی
بیا حیران تھی
ریان مسکرایا
بولو بیا کیا تمیں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے میرے ساتھ
بیا کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اسکے سارے زخم بھر گے تھے سارے آنسو خوشی میں بدل گے تھے
بیا نے ہاتھ بڑھایا تو ریان نے رنگ پہنائی
بیا کو خوشی کے ساتھ عجیب سے گھبراہٹ بھی تھی
ریان کھڑا ہوا
فکر مت کرو داد جی اور سامنے بھی پہنا دوگا
بیا شرما گئی