انعم دو دن سے ہسپتال تھی اسے نروس بریک ڈاون ہواتھا غانیہ نے رو رو کر اپنے رب سے اس کی صحت کی دعا مانگی تھیں اور آج وہ ڈسچارج ہو کر گھر آرہی تھی اسنے اس کی پسند کے سب کھانے بنائے تھے ـ گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر وہ تیزی سے نیچے آئی انعم کو صوفیہ بیگم پکڑ کر اندر لا رہی تھیں اسے سہارا دینے کے لیے وہ آگے آئی تو مؤ حد نے اسے بازو سے پکڑ کر دھکیل دیا
“خبردار میری بہن کو ہاتھ مت لگانا پہلے ہی تمھارے کۓ کی سزا بھگت رہی ہے ” وہ اس کی بیماری کو کچھ اور ہی سمجھ رہا تھا
” نہیں بھائی اس میں اسکا کوئی قصور نہیں ہے آپ پلیز اسے کچھ مت کہیں ” انعم نے لب کاٹتی غانیہ کو دیکھ کر کہا
” قصور ہی اس کا ہے تمہیں نہیں پتا ؟؟”
“سب پتا ہے مجھے بلکہ مجھے ہی تو پتا ہے ” غانیہ نے آنسو بھری نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا تو انعم کے دل کو کچھ ہوا غانیہ تیزی سے بھاگ کر کمرےمیں چلی گئی
* * * * * * *
” ارے بھئی یہ کیا حالت بنا لی تم نے ” شیزہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
” تمہیں اب یاد آگیا دو دن ہو گۓ مجھے گھر آۓ کو ” انعم نے گلہ کیا
” ہاں بس میں کچھ مصروف تھی تم بتاو جومیں پوچھ رہی ” شیزہ کے یوں کہنے پر انعم نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا ” ہمم ـ ـ بس ویسے ہی ” انعم نے جھوٹ بولا
” نہیں کچھ تو ہے ”
” چھوڑو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ”
” ہاں کہو ”
“میں سوچ رہی تھی کہ مؤ حد بھیاکو سب کچھ سچ سچ بتا دوں غانیہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی سزا کاٹ رہی ہے ” اس نے شیزہ کو جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا وہ پہلے تو چونکی پھر اطمینان سے بولی ” ہاں بتا دو ویسے بھی اب مجھے اس گیم میں انٹرسٹ نہیں رہا
” گیم ـ ـ کسی کی زندگی برباد کر دی ہم نے اس کے کردار پر داغ لگا دیا اور تم کہہ رہی ہو گیم ” انعم کو غصہ آیا
” ہاں کیونکہ پہلے مجھے مؤ حد میں تھوڑا بہت انٹرسٹ تھا مگر اب مجھے میرے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہے لہٰذا تم چاہو تو اس ڈرامے کا ڈراپ سین کر دو ” یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور انعم کو ایک بار پھر پچھتاووں نے گھیر لیا
* * * * * * * *
سلطان مہراب اور ریحان صاحب پرانے جاننے والے تھے دونوں گھرانوں میں بہت کم آنا جانا تھا ریحان صاحب کی بہن کی شادی جس گھرانے میں ہوئی وہ سلطانہ بیگم کے رشتہ دار تھے اس طرح شیزہ کا ان لوگوں کے ہاں آنا جانا زیادہ تھا شیزہ نے ان کے صرف دو بیٹے دیکھے تھے سلطان فرجاد اور سلطان عباد ـ باقی دونوں چونکہ حال ہی میں تعلیم مکمل کر کے لوٹے تھے اس لیے وہ ابھی تک ان سے نہیں ملی تھی ـ انعم نے عباد کو ایک شادی میں دیکھا تھا جب وہ اپنی والدہ سلطانہ بیگم کے ساتھ وہاں آیاتھا ـ
شیزہ کی زبانی ہی سلطانہ بیگم کو انعم کی بیماری کا پتا چلا تو وہ ریحان صاحب کی طرف جانے کو تیار ہو گئیں انہیں انعم پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی اوپر سے اسٹیٹس بھی ایک جیسا تھا ـ
” مما کہاں جا رہی ہیں ؟؟” عباد نے انہیں تیار دیکھ کر پوچھا
” ارے اچھا ہوا تم آگۓ مجھے ریحان صاحب کی طرف لے چلو ”
” ریحان صاحب کون ؟؟” عباد نے حیرانی سے پوچھا
” ارے وہ جو اس دن لڑکی آئی تھی نا کیا نام تھا اس کا ؟؟ہاں انعم ـ ـ اس کے گھر ـ ـ سنا ہے اسے نروس بریک ڈاون ہوا تھا میں نے سوچا حال احوال پوچھ لوں آخر رشتہ داری بھی ہے نا ـ ـ ”
” کیا ؟ بریک ڈاون وہ کیسے ؟ ” وہ بے قرار ہوا ـ وہ تو بھول بھی گیا تھا اس بات کو لیکن کیا وہ لڑکی اس کی وجہ سے اس حال میں پہنچی ہے اگر ایسا تھا تو وہ کبھی خود کو معاف نہیں کر سکے گا ـ ” چلیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں ایڈریس بتا دیں ” اس نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا
” تھینک یو بیٹا سچ میں اگر ایاد یا فرہاد میں سے کسی کو کہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کھسک جاتے ” سلطانہ بیگم مسکرا کر بولیں اور فرنٹ ڈور کھول کر اس کے ساتھ نیٹھ گئیں ـ عباد اپنے ساتھ گارڈ نہیں رکھتا تھا اس بات پر کئی بار اسے بابا سے ڈانٹ پر چکی تھی مگر وہ کہتا کہ اسے چڑہوتی ہے اپنی رکھوالی سے ” مما بھیا بھی تو آپ کے بیٹے ہیں پلیز انہیں یوں اگنور مت کیا کریں ” عباد نے نرم لہجے میں انہیں احساس دلانا چاہا
” وہ میرا بیٹا نہیں صرف تمہارے بابا کا بیٹا ہے سمجھے ” انہوں نے ایک تیز نظر اس پر ڈال کر رخ موڑ لیا وہ بھی گہرا سانس بھر کر ڈرائیو کرنے لگا
* * * * * * * *
” بھیا میں آجاؤں؟؟” انعم نے مؤحد کے کمرے میں جھانک کر کہا
” آجاؤ گڑیا ” مؤ حد نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا اور کتاب بند کر کے رکھ دی
” بھیا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے”
” ہاں کرو بلکہ یہاں بیٹھو ” مؤ حد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا ” ہاں اب کہو ”
” وہ بھائی ـ ـ ” وہ ہچکچائی ” ہاں ہاں بولو ڈر کیوں رہی ہو ”
” بھائی غانیہ اس سب میں بے قصورہے یہ سب ہمارا پلان تھا ”
” کیامطلب؟؟” اور پھر انعم نے اسے سب کچھ بتا دیا ” بھیا میں خود غرض ہو گئی تھی میں یہ بھول گئی تھی کہ کسی کو دکھ دے کر میں خوش کیسے رہ سکتی ہوں عباد نے جب مجھے دھتکارا مجھے تب احساس ہوا اور شیزہ اسے تو صرف دوسروں سے کھیلنا آتا ہے ”
” بس یا اور کچھ بھی کہنا ہے تمہیں ” اس نے نفی میں سر ہلا دیا ” ٹھیک ہے جاؤ اب تم ” مؤ حد نے رخ پھیر کر کہا ” بھیا پلیز آپ مجھے ڈانٹیں کچھ کہیں مگر یوں اسطرح چپ نہ کریں پلیزبھائی میں گنہگار ہوں آپ کی مجھے معاف کر دیں ”
” نہیں تم میری نہیں غانیہ کی گنہگار ہو اس سے معافی مانگو ہماری عزت سے جو تم کھیلی ہو اس کی سزا تو تمہیں مل چکی مزید کیا سزا دے سکتا میں ” یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا اور انعم کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگیں
* * * * * * *
مؤ حد نیچے آیا تو سلطانہ بیگم اور عباد لاوٴنج میں بیٹھے تھے چونکہ وہ انہیں نہیں جانتا تھا اس لیے سلام لے کر آگے بڑھنے لگا جب عباد اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اس کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا ” مجھے سلطان عباد کہتے ہیں اور آپ ؟؟؟” عباد کے نام پر مؤ حد چونکا ” یہ کیوں آیا ہے ” اسے غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا ” مؤ حد ”
” آؤ بیٹا بیٹھو تم بھی ” صوفیہ بیگم نے اسے پکارا ” مما مجھے ضروری کام سے جانا ہے اس لیے معذرت ” وہ مسکرا کر کہتا نکل گیا
” آنٹی ” اس نے صوفیہ بیگم کو بلایا
” جی بیٹا ”
” میں انعم سے ملنا چاہتا ہوں آئی مین اگر آپ کو برا نہ لگے تو ان کی طبیعت پوچھ لوں ”
“ہاں ہاں ضرور بیٹا ” انہوں نے محبت سے کہا ” ہاجرہ جاؤ عباد بیٹا کو انعم کے کمرے تک چھوڑ آ ؤ ” انہوں نے ملازمہ سے کہا ـ ہاجرہ اسے انعم کے کمرے تک چھوڑ کر چلی گئی وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر ہولے سے دروازے پر دستک دی ” آجاو” اندر سے انعم کی آواز آئی وہ دھیرے سے اندر داخل ہوا انعم بیڈ پر دوسری طرف منہ کیے لیٹی تھی دروازے کی طرف چونکہ اس کی پشت تھی اس لیے وہ اسے دیکھ نہ پائی
” السلام وعلیکم ” اس نے گھمبیر لہجے میں سلام کیا وہ چونک کر سیدھی ہوئی
“آپ ـ ـ آپ یہاں ” اسے لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے
” جی ہاں میں یہاں ” وہ دھیمے سے مسکرایا ” میں آپکی خیریت پوچھنے آیا تھا کیسی طبیعت ہے آپکی ؟؟؟”
“میں ٹھیک ہوں آپ بیٹھیں پلیز ” اس نے اٹھتے ہوئے کہا
کافی دیر دونوں میں خاموشی چھائی رہی اس خاموشی کو عباد نے تورا “ایکچولی مجھے آپ سے معذرت کرنی تھی اس دن مجھے آپ سے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا آئم رئیلی سوری ” انعم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا کچھ دیر خاموشی سے دیکھتی رہی پھر گویا ہوئی ” نہیں آپ نے جو کیا بلکل ٹھیک کیا اگر آپ وہ نہ کہتے تو مجھے اپنی غلطی کا احساس کیسے ہوتا ”
“غلطی کیسی غلطی ؟؟” عباد نے حیرانی سے پوچھا مگر وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی ” محبت تو قسمت سے ملتی ہے دعاؤں سے ملتی ہے مگر میں نے سوچا اگر میں آپ کے اور اپنے درمیان سے ساری دیواریں گرا دوں گی تو آپ کو پا لوں گی دیواریں تو سب گر گئیں مگر میں پھر بھی خالی ہاتھ ہوں آپ کو پتا ہے اس کوشش میں میں نے کیا کیا کھویا ہے ؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی وہ اٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھا “پلیز آپ رویں تو مت دیکھیں ” اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا ” آپ اس بات کو اتنا سیریس لے لیں گی میں نے سوچانہیں تھا ایک لڑکی اپنے منہ سے محبت کا اظہار کر رہی ہے مجھے عجیب سا لگا ـ شاید میں کچھ ذیادہ ہی بول گیا ائم سوری اگین ” وہ نرم لہجے میں بولا
” اٹس اوکے ” انعم نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
“گڈ گرل اب بتائیں کیا کھویا آپ نے ” اس نے شرارت سے پوچھا تو انعم سوچ میں پڑ گئی کہ بتاۓ یا نہ پھر کچھ سوچ کر سب بتانے کا فیصلہ کر لیا ـ
* * * * * * *
مزنہ کو وہاں آۓ ناجانے کتنے دن ہو گئے تھے مگر اس نے ابھی تک کسی کو نہیں دیکھا تھا وہ نہں جانتی تھی کہ اسے وہاں کیوں بند کر کے رکھا ہوا ایک ملازمہ تھی جو اسے تین وقت کا کھانا دے کر چلی جاتی تھی اور مزنہ کے لاکھ پوچھنے پر بھی نہ بتاتی تھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ دروازہ کھلا اور ایک فیشن ایبل خاتون اندر داخل ہوئی اس کا لباس دیکھ کر شرم سے مزنہ نے آنکھیں پھیر لیں وہ چلتی ہوئی مزنہ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی
” کیسی ہو بے بی ؟؟کافی ریسٹ کر لیا اب تو ”
” کون ہو تم اور مجھے یہاں قید کیوں رکھا ہوا ہے ؟؟” مزنہ نے غصہ سے پوچھا
“ہا ہا ہا ہمیں میڈم تارا کہتے ہیں جانتی تو ہو گی ہمیں ” مزنہ کا دماغ گھوم گیا ” میڈم تارا لڑکیوں کو سمگل کرنے والی زمانہ بدنام ” وہ ٹکڑ ٹکڑ اس کی شکل دیکھنے لگی
“ارے یوں کیوں دیکھ رہی یو تمہارا بھائی خود چھوڑ کر گیا ہے تمہے یہاں بے ہوش تھی تم کافی بُری حالت تھی تمہاری ہم نے ۔ ۔ ۔” مزنہ نے چیخ کر اس کی بات کاٹی
“کہاں ہیں ولید بھائی مجھے ملنا ہے ان سے وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں تم جھوٹ بول رہی ہو ”
“ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور ملوائیں گے تمہیں ابھی تو تم ریسٹ کرو اتنا غصہ ٹھیک نہیں تمہارے لیے ” تارا بیگم لگاوٹ سے بولیں
” نہیں نہیں میں نہیں رہوں گی اس گندی جگہ پر ” وہ جلدی سے کھڑی ہوئی اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی تارا بیگم نے اسے بیڈ پر دھکا دیا ” تم یہاں سے نہیں جا سکتی ”
“کیوں کیوں نہیں جا سکتی ”
اب تم کبھی بھی یہاں سے نہیں جا سکتی کیونکہ پیسے دئیے ہیں ہم نے تمہارے تمہارا بھائی بیچ کر گیا ہے تمہیں اب تم ہماری اجازت کے بغیر یہاں سے قدم بھی نہیں نکال سکتی ” تارا بیگم غصے سے کہتیں دروازہ لاک کر کے چلی گئیں اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں جاتا دیکھتی رہی
* * * * * *
عباد کے جانے کے بعد انعم ہلکی پھلکی ہو گئی اس نے سب کچھ عباد سے شیئر کر لیا تھا اور اس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ غانیہ سے معافی مانگ لے یہی سوچ کر وہ اٹھی اور غانیہ کے کمرے میں آ گئی غانیہ نماز پڑھ رہی تھی وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی غابیہ نے جونہی سلام پھیرا اسکی نظر صوفے پر پڑی وہ حیران رہ گئی ” انعم تم یہاں خیریت ہے نا ” انعم اس کا جواب دینے کی بجائے اسکے پاس آکر بیٹھ گئی ” غانیہ مجھے معاف کر دو میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا میں سب جانتی تھی پھر بھی تم پر الزام لگایا میں بہت بُری ہوں غنی بہت بُری ” انعم کو روتا دیکھ کر غابیہ جلدی سے بولی ” نہیں کوئی بات نہیں میں تم سے ناراض نہیں ہوں ” غانیہ کے معصومیت سے کہنے ہر انعم نے اسے گلے لگا لیا ” تم بہت اچھی ہو سچ میں بہت اچھی ” غنی دھیرے سے مسکرا دی
💗💗💗💗💗💗
آٹھ بجے کاوقت تھا حویلی میں سب ناشتے کے ٹیبل پر موجود تھے یہ اس حویلی کا رواج تھا ناشتہ اور کھانا سب اکھٹے کھاتے تھے ” بابا ” ایاد نے باپ کو مخاطب کیا
” ہوں ” انہوں نے چاۓ کا سپ لیتے ہوئے اسے دیکھا
” میں اپنا الگ بزنس سٹارٹ کرنا چاہتا ہوں ” اس نے اطمینان سے سلطان مہراب کا سکون خاک میں ملایا
” کیوں ؟؟؟” انہوں نے اپنا اشتعال دباتے ہوئے کہا
” کیونکہ یہ میری خواہش ہے ” اس نے بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے کندھے اچکاۓ
” سن رہے ہو تم اپنے لاڈلے کی خواہش ؟؟” اب انہوں نے اپنا رُخ سلطان فرجاد کی جانب کیا
” جی سن رہا ہوں ” فرجاد کے اس قدر اطمینان سے کہنے پر انہیں مزید غصہ آیا سب ہاتھ روکے ان باپ بیٹا کو دیکھ رہے تھے
” ہر جائز و نا جائز بات مان کر تم نے اسے بگاڑا ہے مگر میں یہ قطعی نہیں مان سکتا اگر عباد اور فرہاد کو کوئی اعتراض نہیں تو اس شہزادے کو کیا مسلہ ہے ”
” بابا پلیز ـ ـ ” ایاد نے منہ بنایا
” کہہ دیا یہ نہیں ہو سکتا ” انہوں نے درشتی سے اس کی بات کاٹی ” اگر تم بزنس نہیں کرنا چاہتے تو فرجاد کے ساتھ ہاتھ بٹاؤ ” انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی ـ ایاد نے مسکین سی صورت بنا کر فرجاد کو دیکھا تو وہ مسکرا دیا
” بابا ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہا ـ ٹھیک ہے وہ اپنی زندگی جینا چاہتا ہے تو جینے دیں پابندی کیوں لگارہے ہیں شوق ہے اس کا پورا کرنے دیں ” فرجاد نے ہمیشہ کی طرح ایاد کی حمایت کی
” تمہاری انہی باتوں نے بگاڑا ہے اسے ـ ـ ـ میں نے پہلے بھی اس کی ہر بات مانی ہے مگر ـ ـ ”
” تو یہ بھی مان لیں ” فرجاد نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے آرام سے جواب دیا تو وہ گہری سانس بھر کر چُپ کر گۓ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ بزنس کے لیے پیسے نہ بھی دیں تو فرجاد ضرور دے دے گا اس لیے بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا
💗💗💗💗💗💗💗
” کہہ دیں یہ جھوٹ ہے پلیز کہہ دیں ” مزنہ نے ولید کو جھنجھورتے ہوئے کہا
” نہیں یہ سچ ہے سو فیصد سچ ” ولید کے اقرار پر وہ ششدر رہ گئی ـ کیا یہ تھی اس کی قسمت ـ اس کی قسمت میں بکنا ہی لکھا تھا ولید آج اس سے ملنے آیا تھا بلکہ ملنے نہیں اپنی بقایا رقم لینے جب میڈم تارا اسے مزنہ کے کمرے میں چھوڑ گئیں ـ ولید کے منہ سے سننے کے بعد اسے لگا تھا کہ اب وہ اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکے گی ـ اسکا جی چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے
” اب تم کہو گی کہ آپ اپنی بہن کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں تو پہلی بات تم میری بہن نہیں ہو بلکہ میرے سوتیلے باپ کی بیٹی ہو اور دوسری بات یہ جو پیسہ ہوتا ہے نا اس کے لیے ا نسان کچھ بھی کر سکتا ہے کچھ بھی ـ تم بھی کچھ عرصے بعد اس سب کو انجوائے کرنے لگو گی دیکھ لینا ” وہ کمینگی سے ہنسا مزنہ یکلخت ہوش میں آئی اورغصے سے اس کے چہرے پر تھوک دیا
” لعنت ہے تم پر بے غیرت انسان ـ بہن نہ سمجھتے یہ ہی سوچ لیتے کہ میرے باپ نے تمہے پالا ہے اپنے گھر میں تمہیں جگہ دی ایک بار تو سوچتے ان کے احسانوں کو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں میری بددعا ضرور لگے گی یہ دولت تمہارے کسی کام نہیں آۓ گی تڑپو گے تم ” وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی اور پھر چیزیں اٹھا کر اسے مارنے لگی ولید اپنے بچاؤ کے لیے باہر نکلا اور دروازہ لاک کر دیا مزنہ بے بسی سے روتے روتے جانے کب ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی
💗💗💗💗💗💗💗
سب اس وقت لاوٴنج میں بیٹھے تھے سلطان مہراب کوئی فائل پڑھ رہے تھے سلطان عباد اورسلطان فرہاد کوئی بزنس ڈسکشن کر رہے تھے جبکہ سلطان فرجاد اور سلطان ایاد ان سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے تھے ـ سلطانہ بیگم نے ملازمہ کو چاۓ لانے کا کہا اور خود صوفے پر بیٹھ گئیں ” مجھے آپ لوگوں سے بات کرنی ہے ” سلطان مہراب نے غور سے سلطانہ بیگم کے چہرے کو دیکھا اور فائل بند کر دی سلطانہ بیگم نے گلہ کھنکھار کر بات شروع کی ” ریحان صاحب کو تو آپ جانتے ہیں نا ،،،میں چاہتی ہوں کہ ہم ان کی بیٹی انعم کاہاتھ عباد کے لیے مانگ لیں ” عباد نے حیرت سے ماں کو دیکھا ” ریحان صاحب اچھے انسان ہیں فیملی بھی بہت اچھی ہے اور سب سے اہم بات ہمارے ہم پلٙہ بھی ہیں ” سلطانہ بیگم نے جیسے سب سے ضروری بات بتائی
” بھیا سے بھی پوچھ لیں وہ کہیں اور انٹرسٹڈ نہ ہوں ” ایاد نے شرارت سے کہا
” نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں جو آپ کو مناسب لگے ” عباد نے فرمانبرداری سے کہا
“اور فرہاد تم نے شیزہ کو دیکھا ہے نا کیسی لگتی ہے ؟؟” وہ اچانک اسکی طرف پلٹیں ” ٹھیک ہی ہے میں نے تو ایک دو بار ہی دیکھا کیوں کیا ہوا ”
“میں چاہتی ہوں کہ اس گھر میں دو دو شادیاں ہو جائیں تمہاری اور عباد کی،، رونق ہو جاے گی گھر میں ویسے بھی یہ ہی توعمر ہوتی ہے شادی کی”
” جب آپ سب پلین کر چکی ہیں تو ہمیں ڈائریکٹ شادی پر ہی انوائیٹ کر لیتیں ” سلطان مہراب نے طنز کیا
” آپ تو خواہ مخواہ غصہ ہو جاتے ہیں اب لڑکیاں دیکھنا تو ماں کا کام ہوتا ہے نا بس فیصلہ ہو گیا س سنڈے ہم باقاعدہ رشتہ لے کر جائیں گے ” انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی اور پھراپنے کہے کے مطابق اگلے ہی ہفتے وہ انعم کے گھر پہنچ گئں جہاں سے کچھ سوچ وبچار کے بعد رضا مندی دے دی گئی ـ میمونہ بیگم سے تو وہ پہلے ہی بات کر چکی تھیں اس لیے شیزہ کو آج رسماٙانگھوٹھی پہنانے جا رہی تھیں فرہاد چونکہ بزنس ٹور پر لندن گیا ہوا تھا تو انہیں فرجاد اور ایاد کو ساتھ لے کر جانا پڑا جہاں انکا شایانِ شان اسقبال ہوا وہ سب کھانا کھانے کے بعد لاوٴنج میں بیٹھے تھے جب سلطانہ بیگم نے کہا “میں نےتو ریحان صاحب کو بھی کہہ دیا تھا کہ ہم شادی جلدی کریں گے کم از کم ایک ڈیڑھ ماہ تک کیونکہ عباد اس کے بعد چھ ماہ کے لیے لندن جا رہا ہے اس لیے میں چاہتی ہوں کہ شادی جلدی ہو جاۓ ”
“جی بھابھی جیسا آپ کہیں ” میمونہ بیگم چاپلوسی سے بولیں وہ اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں
” بھئی شیزہ کو بلاؤ رسم تو پوری کر لیں ”
“جی بس آتی ہو گی پارلر گئی ہے آپ کو تو پتا ہے نا کہ ایسے موقع بار بار تھوڑی آتے ہیں لڑکی کی زندگی میں ”
“ہی ہی ہی لو جی وہ محترمہ ابھی سے پارلر گئی ہوئی ہیں جب شادی ہو گی تب پتا نہیں کیا بنے گا ” ایاد نے فرجاد کے کان میں گھس کر سرگوشی کی
“چپ کر کے بیٹھو بھابھی ہے تمہاری ” فرجاد نے اسے ڈپٹا
” تو میں کیا کہہ رہا ہوں ” اس نے منہ پھلایا
” لگتا ہے یہ دونوں بہت کلوز ہیں ایک دوسرے کے ” میمونہ بیگم نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا وہ جب سے آۓ تھے آکھٹے ہی بیٹھے تھے
” جی ہاں ہم میں بہت پیار ہے یہ میرے بہت اچھے بھائی ہیں اور دوست بھی ” سلطانہ بیگم کے بولنے سے پہلے ایاد بول پڑا سلطانہ بیگم نے غصے سے پہلو بدلا سلطان مہراب صاحب اپنی عادت کے مطابق خاموش بیٹھے تھے
” لو آگئی شیزہ ” میمونہ بیگم نے بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا “ہیلو آنٹی ” شیزہ کہتے ہی ان کے ساتھ بیٹھ گئی ـ اس کے حلیے کو دیکھ کر فرجاد اور ایاد نے ایک دوسرے کو دیکھا جب کہ سلطان مہراب نے رخ ہی بدل لیا ـ
“آؤ بیٹا ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے ”
“سوری آنٹی میں لیٹ ہو گئی ” یہ کہتے ہی اس کی نظر سامنے بیٹھے ایاد پر پڑی تو وہ پلک جھپکانا ہی بھول گئی فرجاد کو تو پہلے ہی دیکھ چکی تھی پر ایاد ـ ـ تو کیا اس کی شادی ایاد سے ہو رہی ہے کیونکہ میمونہ نے بتایا تھا کہ لڑکا بھی ساتھ آرہا ہے وہ ہواؤں میں اڑنے لگی اس کا خواب یوں پورا ہو گا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
منگنی کرنے کے بعد وہ لوگ چلے گئے شیزہ اپنی ماں کے گلے لگ گئی ” سو سویٹ مما ” میمونہ بیگم پہلے تو حیران ہوئیں کہاں وہ شادی کے لیے راضی نہ تھی اور اب …. پھر اسے بے تحاشہ خوش دیکھ کر مطمئن ہو گئیں ـ
💗💗💗💗💗💗💗
تم کیا جانو محبت کے ‘م ‘کا مطلب
مل جائے تو ‘معجزہ’ نہ ملے تو’ موت’
یہ محبت بھی بہت عجیب شے ہوتی ہے جو اسے پا نہیں سکتا وہ اسکا جوگی ہو جاتا ہے اور جو پا لیتا ہے وہ قسمت کا دھنی بن جاتا ہے مگر ایک ڈربھی ہوتا ہےکسی کو کھو دینے کا ڈر جدا ہوجانے کا خوف ،،،، شیزہ بھی خود کو دنیا کی خوش قسمت لڑکی تصوّر کر رہی تھی بغیر کسی ڈر کے،، بغیر کسی خوف کے اسے یقین تھا کہ جو اسکا ہے وہ صرف اسی کا ہے ایک غرور تھا سب پا لینے کا غرور اسے لگتا تھا سلطان ایاد صرف اسی کے لیے بنا ہے کوئی اسے نہیں چھین سکتا
کیا ایاد ،، شیزہ کا ہو سکے گا ؟؟
کیا شیزہ کا غرور خاک میں مل جائے گا ؟؟؟
کیا شیزہ کے یقین کو مات ہو جائے گی؟؟؟
کیا ایاد اپنی محبت سے دستبردار ہو جائے گا ؟؟؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...