آج انعم اور سلطان عباد کی بارات کا فنکشن تھاسلطان فرہاد اور شیزہ کا ایک دن بعد رکھا گیا تھا ریحان صاحب نے ہال کی بجاے گھر میں ہی سب ارینجمنٹ کی تھیں بارات بس پہنچنے والی تھی بیوٹیشن انعم کو تیار کر چکی تھی وہ ریڈ کلر کے لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی
” ہاے کتنی پیاری لگ رہی ہو”
غنی اسکے گلے لگ گئی
“مجھے چھوڑو خود کو دیکھو کم ازکم لپ اسٹک تو لگا لیتی” انعم نے اسے گُھرکا
“تمھیں پتا ہے مجھے نہیں لگانی آتی” اسنے منہ پھلایا انعم اسکا بازو پکڑکر بیوٹیشن کے پاس لے آئی جو شیزہ کا میک اپ کر رہی تھی شیزہ پنک شرارے اور گولڈن سلیولیس شرٹ میں ملبوس تھی
“اس بُدھو کو بھی تیار کر دیں آپ پلیز جلدی” شیزہ نے ایک نظر غانیہ کو دیکھا اور طنزًا مسکراﺉ
” یہ تیار ہو بھی جاۓ گی تو کیا ہوگا کونسا اِسے پسند کرنے کوئی شہزادہ آرہا ہے”
غانیہ کا رنگ یکلخت پھیکا پڑ گیا
“جس نے اسے پسند کرنا ہے وہ کر چکے ہیں ویسے بھی غنی بہت پیاری ہے تم دیکھنا زرا سے میک اپ سے کتنی پیاری ہو جاۓ گی”
انعم نے اسکی سائیڈ لی
” اچھا کون پسند کر چکا ہے ہمیں بھی تو پتا چلے “شیزہ حیران ہوئی
“جب وقت آے گا پتا چل جاے گا” انعم بیوٹیشن کو میک اپ کا اشارہ کرتی شیزہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گئی
★ ★ ★ ★ ★
“عباد بات سنو بیٹا ”
وہ تیار ہوکر نیچے آیا تو سلطانہ بیگم نے اسے بلایا
“جی مما “وہ انکی طرف پلٹا بلیک شیروانی میں وہ بہت جچ رہا تھا
” ماشاءاللہ بہت پیارے لگ رہے ہو “انہوں نے بےاختیار اسکی بلاﺉیں لے ڈالیں وہ دھیرے سے مسکرا دیا
“اچھا بیٹا وہ فرہاد کا کچھ پتا ہے کہاں ہے وہ”
” نہیں مما میں نے تو اسے دیکھا ہی نہیں خیریت ہے نا” وہ حیران ہوا
” وہ نظر نہیں آرہا کمرے میں بھی نہیں ہے پتا بھی ہے اسے کہ آج اسکا ہونا کتنا ضروری ہے کیا کہوں گی میں سب کو کیوں نہیں آیا وہ” انہیں اپنی ناک کٹنے کی فکر تھی
” ڈونٹ وری مما میں دیکھتا ہوں” وہ انہیں تسلی دے کر باہر چلا گیا
★ ★ ★ ★ ★
“غنی بیٹا” وہ انعم کو ڈھونڈتی نیچے آئی تو صوفیہ بیگم نے اسے بلا یا
“جی “وہ انکی طرف آئی ” ارے واہ بھئی واہ میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے “انہوں نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
بلیک سٹائلش فراک اور سلور چوڑی دار پاجامےاور بلیک ہی حجاب میں وہ کوئی گڑیا لگ رہی تھی میک اپ نے اسکی لُک ہی بدل دی تھی وہ جھینپ گئی
” اچھا بیٹا ذرا یہ سوٹ تو موحد کے کمرے میں رکھ آؤ”انہوں نے اسے ایک شاپر پکڑاتے ہوئے کہا “جی میں” وہ بوکھلائی
” ارے وہ کمرے میں نہیں ہے ابھی بس جلدی سے رکھ کے آ جاو “وہ اسکی ہچکچاہٹ سمجھ چکی تھیں
“جی اچھا “وہ بیگ لے کر اوپر چلی آئی
کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اسنے ادھر ادھر ہاتھ مارے مگر کوﺉ بٹن نہ ملا وہ اندازے سے چلتی ہوﺉ بیڈ کیطرف آئی لیکن درمیان میں پڑے میز سے ٹکرا کرمنہ کے بل زمین پر گری میز کا کونا لگنے سے اسکا ہونٹ پھٹ گیا ایک ہلکی سی چیخ اسکے منہ سے نکلی عین اسی لمحے واش روم کا دروازہ کھلا اور موحد نے کمرے میں آکر لائٹ جلاﺉ غانیہ کو زمین سے اٹھتے دیکھ کر وہ حیران ہوا
” تم یہاں” اسنے ڈوپٹے سے خون صاف کیا
” جی میں یہ…” اسنے گرا ہوا شاپر اٹھایا مگر جیسے ہی وہ سیدھی ہوئی ایک زوردار تھپڑ اسکے منہ پر لگا وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی
” خوب جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کے انداز تمھیں کیا لگتا ہے تم یوں بن سنور کر مجھے اپنے جال میں پھنسا لو گی… ہوں” موحد نے اسکے دونوں بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا
” بھول ہے تمہاری… سمجھی ” اسنے آنسوو بھری نظریں اٹھا کر اسے دیکھا کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں اور بس یہی وہ لمحہ تھا جب موحد کو لگا اسنے اپنا سب کچھ ہار دیا ایک بار پھر سے وہ اسی راہ کا مسافر بن گیا جہاں سے وہ پہلے بھی نامراد لوٹا تھا اسکی گرفت خودبخود ڈھیلی پڑ گئی وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
“آنٹی نے بھیجا تھا مجھے خود نہیں آئی تھی میں “اسنے سسکاری بھری” اور مجھے کوئی شوق نہیں یہاں آنے کا جس طرح مجھے رلاتے ہیں نا آپ ایک دن آپ بھی روﺉیں گے… دیکھ لیجیے گا ” وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئی جبکہ موحد اسکے الفاظ پر غور کرتا رہ گیا تھا
★ ★ ★ ★ ★
بارات آ چکی تھی سلطان فرہاد کا کچھ پتا نہ تھا سطانہ بیگم اندر ہی اندر کڑھ رہی تھیں میمونہ بیگم کو انہوں نے کیسے مطمئن کیا تھا یہ صرف وہ ہی جانتی تھیں سلطان عباد سٹیج پر بیٹھا تھا ایاد اور فرجاد عباد کے دائیں طرف کھڑے تھے ایاد کسی بات پر ہنس رہا تھا جب اسکی نظر سامنے اٹھی اور اٹھی ہی رہ گئی اسنے منہ پر ہاتھ پھیر کر یقین کیا یہ کہیں خواب تو نہیں وہ بے خود سا اسے دیکھے گیا فرجاد نے اسکا کندھا ہلایا
” ہا،، کیا ہوا” وہ چونکا
” تم نے یہ کام کب سے شروع کر دیا” فرجاد نے اسے گھورا
” کونسا”
” لڑکیوں کو گھورنے کا”
” لڑکیاں نہیں صرف لڑکی” وہ مسکرایا فرجاد نے اسے پورا گھما کر اپنی طرف کیا” کیا معاملہ ہے یہ کیا چھپا رہے ہو”
” ارے کچھ نہیں آپکو ہی بتاوں گا سب بے فکر رہیں” خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی اسنے دوبارہ اسے دیکھنا چاہا مگر وہ وہاں سے جا چکی تھی” اوہ شٹ کہاں گئی یہ ” وہ اسکی تلاش میں نظریں گھمانے لگا
“اسے چھوڑو وہ سامنے دیکھو” ایاد نے اسے اشارے سے سامنے کی طرف دکھایا “ارے وہ تو بابا ہیں روز دیکھتا ہوں اُنہیں ” اسنے بے پرواہی سے کہا اورپھر سے اسے ڈھونڈنے لگا ” نہیں بیٹا وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں” فرجاد نے اسے سمجھایا
” اوہ ہاں” اب وہ بھی دیکھ چکا تھا وہ اسے کڑی نظروں سے گھور رہے تھے وہ فورا شرافت کے جامے میں آیا انسے کچھ بعید نہ تھا وہ اسکی یہہں کلاس لے لیتے
اور پھر سارے فنکشن میں وہ اسے ڈھونڈتا رہا مگر وہ دوبارہ کہیں نظر نہ آئی وہ اب بری طرح پریشان ہو چکا تھا کھانا کھایا جا چکا تھا اور اب رخصتی ہونے والی تھی مگر وہ سب سے بے نیاز ایک کونے میں بیٹھا رہا لیکن دو آنکھیں مسلسل اس پر جمی تھیں جو کب اسکی بے قراری نوٙؐٹ کر رہی تھیں مگر وجہ جاننے سے قاصر تھیں دو تین بار شیزہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ اسکی طرف متوجہ ہی نہ ہوا رخصتی ہو رہی تھی سب گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے فرجاد نے اسے آنے کا اشارہ کیا مگر وہ کسی ضدی بچے کی طرح وہیں جم کے بیٹھا رہا وہ صرف ایک بار اس سے بات کرنا چاہتا تھا اسے یوں بیٹھے نہ جانے کتنی دیر گزر گئی جب بالکل اچانک اسے سامنے سے وہ اندر کی طرف جاتی دکھاﺉ دی وہ بغیر کچھ سوچے اٹھا اور اسکے پیچھے بھاگا یہ جانےبغیر کہ کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہے
★ ★ ★ ★ ★
“اور اگر فرہاد کل بھی نہ آیا تو” میمونہ بیگم نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
” تو کیا ہوا میرا ایک اور بھی تو بیٹا ہے نا “سلطانہ بیگم فخر سے مسکرائیں
“ارے ہاں ماشاءاللہ وہ آپکے سب بچوں سے زیادہ خوبصورت ہے” میمونہ بیگم کی نظروں میں اسکا شاندار سراپا لہرایا
” اور ہاں یہ کچھ جیولری تھی جو میں نے شیزہ کے لیے لی تھی اسے کہیے گا کل یہ ضرور پہنے” لالچی لوگوں کو راضی کرنے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا “جی ضرور ” سلطانہ بیگم نے کچھ ڈبے میمونہ بیگم کے سامنے رکھے صوفیہ بیگم انکے لیے چاۓ لے آئیں
” ارے آپ نے ناحق تکلف کیا ” سلطانہ بیگم کپ تھامتے ہوئے بولیں
“کوئی بات نہیں” وہ سادگی سے مسکرائیں
” میں بس اب چلوں گی سب جا چکے ہیں وہاں اتنے کام بکھرے ہوں گے میں نے سوچا یہ جیولری دے آوں”
” جائیں گی کیسے میرا مطلب ہے اکیلے” میمونہ بیگم نے پوچھا
” نہیں فرجاد یہیں ہے باہر ہے ”
“ارے لو بھلا وہ باہر کیا کر رہا ہے میں بلا کر لاتی ہوں اسے “صوفیہ بیگم باہر کی جانب چل دیں
“شیزہ کہاں ہے بلایں اسے” سلطانہ بیگم نے شیزہ کا پوچھآ
” وہ کمرے میں ہے اوپر میں بلاتی ہوں” میمونہ بیگم اٹھتے ہوئے بولیں ” نہیں میں وہیں مل لیتی ہوں اس سے “وہ انکے ساتھ ہی چل پڑیں
★ ★ ★ ★ ★
غنی جونہی کمرے میں داخل ہوئی اسے لگا کوئی اسکے پیچھے ہے وہ جیسے ہی مڑی اسے چالیس سو واٹ کا جھٹکا لگااسکے منہ سے چیخ نکلی سلطان ایاد نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر ہاتھ رکھا
” آہستہ یار مروانا ہے کیا”
” تمممم چور لفنگے یہاں کیا کرہے ہو” وہ جھٹکے سے اس سے الگ ہوئی
” تم سے بات کرنی ہے مجھے ایک “وہ مسکرا کر بولا
” نہیں نکلو تم یہاں سے نکلو “وہ اسے دھکا دیتے ہوئے بولی
“میری بات سن لو پھر چلا جاوں گا “مگر وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی ایادنے فورًا دروازہ لاک کر دیا باہر سب سنتی شیزہ کو آگ لگ گئی یہ لڑکی مجھ سے ایاد کو نہیں چھین سکتی میں نہیں کرنے دوں گی ایسا اِسے وہ دل ہی دل میں سوچتی مڑی اور سامنے سے آتی سلطانہ اور میمونہ بیگم کی طرف بڑھی
★ ★ ★ ★ ★
“کیا کر رہے ہو تم یہ ،،، لاک کیوں کیا ڈور” غنی کو اب ڈر لگنے لگا
“تم صرف ایک بار میری بات سن لو” اسنے پھر سے التجا کی
“اگر کسی نے دیکھ لیا تو… پلیز دروازہ کھول دو” ابکے وہ روہانسی ہو گئی
“اوکے میں چلا جاتا ہوں مگرتم وعدہ کرو کہ کل میری بات ضرور سنوگی”
” ہاں وعدہ ” اسنے فورا ہامی بھری مگر اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتا باہر سے دروازہ زور زور سے بجنے لگا غانیہ کو لگا اسکی جان نکل گئی ہو ایاد کے چہرے پر بھی پریشانی کہ ساۓلہراۓمگر پھر کچھ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا
” تم ٹینشن مت لو میں سنبھال لوں گا” وہ غانیہ کا گال تھپتھپا کر دروازے کی طرف بڑھا دروازہ کھلتے ہی میمونہ بیگم آندھی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوئیں اور غانیہ کو بالوں سے پکڑ کر نیچے لے جانے لگیں ایاد ہکا بکا کھڑا رہ گیا
میمونہ بیگم اسےبالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر نیچے لے آئیں نیچے صوفیہ بیگم اور سلطان فرجاد بھی موجود تھے- غانیہ کو میمونہ بیگم کے شکنجے میں دیکھ کر صوفیہ بیگم تیزی سے آگے بڑھیں
” یہ… یہ کیا کر رہی ہو” وہ اسکے بال چھڑوانے لگیں
“ارے… آستین کا سانپ ہے یہ پہلے میرے بیٹے کو ورغلایا اب میری بیٹی کے گھر پہ نظر رکھ کے بیٹھی ہے ،،،ہاۓ اللہ۔۔۔ کتنی تیز لڑکی ہے شرم نہ آئی تجھے بے غیرت….”
وہ پھر سے غانیہ کی طرف بڑھیں غانیہ نفی میں سر ہلاتی پیچھے کو سٙرکی
” بسس… یہیں رک جائیں آگے مت بڑھیے گا “ایاد کی گرجدار آواز پہ سب نے پلٹ کر اُسے دیکھا
فرجاد اسکے لہجے پہ حیران ہی رہ گیا وہ مضبوط قدم اٹھاتا میمونہ بیگم کے سامنے آکھڑا ہوا
” ایسا کیا دیکھا ہے آپ نے جو اتنا گھٹیا الزام لگا رہی ہیں آپ اس معصوم لڑکی پر” اسکا لہجہ تیز اور بے لچک تھا
غنی نے جھٹکے سے سر اٹھایا اسے لگا جیسے تپتی دھوپ میں سایہ مل گیا ہو زندگی میں پہلی بار کوئی اسکے حق میں بھی بولا تھا کوئی اسکے آگے چٹان بن کر کھڑا ہوا تھا
” واہ بھئی واہ۔۔۔ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری… تم دونوں بند کمرے میں کیا گل کھلا رہے تھے؟؟… ہیں؟؟… بتاو ذدا،،، بہن تو نہیں ہے تمھاری پھر کیا رشتہ ہے تمھارا اس سے …؟بولو..” میمونہ بیگم کو اسکا غانیہ کی حمایت میں بولنا آگ ہی لگا گیا تھا
” کیا سن رہی ہوں میں یہ ایاد ”
ایاد کے جواب د ینے سے پہلے ہی سلطانہ بیگم اسکے سامنے آکر غصے سے بولیں
” اگر آپ لوگوں کو ایسا لگتا ہے تو ٹھیک ہے میں ابھی اس سے نکاح کرنے کو تیار ہوں” اسنے ٹھوس لہجے میں کہا اور غنی کو بازو سے پکڑ کر اٹھا کر اپنے برابر کھڑا کیا شیزہ تو تڑپ ہی گئی کیا
“بکواس کررہے ہو تم ہوش میں تو ہو “سلطانہ بیگم اس سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولیں “میں اس دو ٹکے کی لڑکی کو اپنی بہو ہرگز نہیں بناوں گی دماغ میں بٹھا لو یہ ”
غنی نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ایک بار پھر اوقات کا طعنہ کیا ساری عمر وہ صرف یہی سنتی رہے گی” اللہ” اسنے بےاختیار خدا کو پکارا
“بس مما آگے ایک لفظ مت کہیے گا آپ کو منظور ہے تو ٹھیک ورنہ میں یہ کام خود بھی کر سکتا ہوں”
“نہیں تم ابھی اور اسی وقت شیزہ سے نکاح کرو گے” آج ماں بیٹا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے شیزہ غنی کو دیکھ کر طنزًا مسکرای مگر ایاد کے جواب نے اسے ساکت کر دیا
” امپاسبل مما ایسا ممکن ہی نہیں ہے میں شادی کروں گا تو صرف اس سے ابھی اور اسی وقت ” اسنے غانیہ کی طرف اشارہ کیا
“بیوی ہے یہ موحد کی اس گھر کی بہو ہے” سلطانہ بیگم نے اسے روکنے کا آخری اور اپنی طرف سے کامیاب حربہ استعمال کیا
“واٹ “اسنے بے یقینی سےغنی کو دیکھا غنی کو سمجھ نہ آﺉ وہ کیا جواب دے اسنے بےبسی سے سر جھکا لیا
“کیا ہورہا ہےیہ “موحد نے اندر آتے سوال کیا
“آؤ…آؤ … تم بھی دیکھو اس کلموہی کے کارنامے “میمونہ بیگم پھر سے شروع ہو گئیں “پہلے میرے بچے کی خوشیوں کو نظر لگا گئی اب اس گھر کے داماد کو لے اڑنے کی کوشش میں ہے… ہاے اللہ… اس ناگن کو میرے بچے ہی ملے تھے برباد کرنے کو ڈاںن ہےیہ اِسے خوشیاں ہضم نہیں ہوتیں “انہیں اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل جانے کی فکر تھی
دوسری طرف غانیہ بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھی
“کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں” موحد نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا
“کچھ نہیں بیٹا تم اوپر جاؤ “صوفیہ بیگم نے اسے منظر سے ہٹانا چاہا
” کیوں جاۓ وہ اوپر ارے یہ تمہاری بیوی(صوفیہ بیگم انہیں نکاح کا بتا چکی تھیں )تمہاری ماں کی چہیتی اس کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے” ایاد نے مٹھیاں بھینچ کر خود کو بمشکل روکا اور موحد کی طرف مڑا مگر مقابل وجود کو دیکھ کر اسے مزید آگ لگ گئی یہی ہال موحد کا تھا اسنے خود پر کنٹرول کر کےایک قدم آگے بڑھا اور اسے سمجھانے کے انداز میں بولا ” دیکھو ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو …”
مگر اسکی بات منہ میں ہی رہ گئی چٹاخ کی آواز سے پورا ہال گونج اٹھا” کیا سن رہا ہوں میں کمینے انسان تیری جرّت کیسے ہوئی ہماری عزت سے کھیلنے کی ”
موحد نے اسے دھکا دیا صوفیہ بیگم اسکی طرف بڑھیں
“چھوڑو پوگل ہو گئےہو کیا ”
“دفعہ ہو جاو نکلو ورنہ جان سے مار دوں گا “موحد غرایا مگر وہ خاموش کھڑا رہا
“اور تم” وہ اب غنی کی طرف مڑا جو ہولے ہولے کانپ رہی تھی” تمہیں تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا “وہ جیسے ہی اسکی طرف بڑھا ایاد راستے میں آگیا
” ہاتھ بھی مت لگانا اسے یہ میں برداشت نہیں کروں گا اسکی آنکھیں سرخ ہو گئیں اسے غصہ آتا نہیں تھا اور جب آتا تھا توجلدی جاتا نہیں تھا اور غانیہ تو پھر اسکی محبت تھی کیسے برداشت کر لیتا وہ
“تم دفعہ نہیں ہوئے ابھی تک لگتا ہے تم ایسے نہیں جاؤ گے”
موحد نے اسکا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا اور بس سلطان فرجاد کی برداشت یہیں تک تھی
ایاد کو کوئی کچھ کہہ جاے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا تھا کجا کہ ہاتھ اٹھانا
اسکے ایک اشارے پر دروازے میں موجود اسکے گارڈ حرکت میں آئے اور موحد کو پکڑ کر اس پر پستول تان لیا
صوفیہ بیگم نے دل پر ہاتھ رکھ لیا ایاد نے غنی کا بازو پکڑا اور موحد کو دیکھ کر بولا
” بے فکر رہو جا رہا ہوں مگر خالی ہاتھ نہیں بے غیرت تو تم نے مجھے کہہ ہی دیا ہے اب بے غیرت پن بھی دیکھ لو چلو ایک ڈیل کرتے ہیں یا تو اپنی بہن دے دو یا بیوی”
” بکواس بند کرو ” موحد دھاڑا “ایاد کیا کر رہے ہو یہ ” سلطانہ بیگم نے بے بسی سے دانت کچکچاے
“اوہ شٹ تمہاری تو بہن ہی نہیں ہے چلو بیوی ہی سہی” وہ غانیہ پر نظر جماتے ہوے بولا” اور… یہ ”
اب وہ شیزہ کی طرف پلٹا” یہ جو بھی لگتی ہے تمہاری اپنی بیوی کی بدلے اس سے شادی کر لینا سمجھے “وہ قہر بھری نظر اس پر ڈالتا باہر کی جانب چل دیا غانیہ حیران و پریشان اسکے ساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی شیزہ بازی پلٹنے پر ساکت بیٹھی تھی یکدم اسکا سکتہ ٹوٹا اور وہ بھاگ کر ایاد کے سامنے جا کھڑی ہوئی” اس دوٹکے کی لڑکی کی خاطر تم مجھے ٹھکرا رہے ہو شیزہ حمدا نی کو پچھتاو گے تم دیکھنا اوقات ہی کیا ہے اسکی”
” جسٹ شٹ اپ” ایاد کے تھپڑ نے اسکی اوقات واضح کردی “ہٹو میرے راستے سے” وہ اسے دھکا دیتا روتی مچلتی غانیہ کو بازوں میں اٹھاکر باہر کی جانب چل دیا سلطانہ بیگم اسکے پیچھے لپکیں مگر فرجاد نے انہیں راستےمیں ہی روک دیا
★★★★★★★
“کیوں لاۓ ہو تم مجھے “غانیہ نے پوچھا
مگر وہ آرام سے ڈرائیونگ کرتا رہا
“سن کیوں نہیں رہے تم ” وہ چیخی
وہ ایک نظر اس پر ڈال کر مسکرایا اور پھر ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا
“کچھ دیر پہلے تو بہت بول رہے تھے اب کیا منہ سے زبان نکل گئی” اس نے اس کے بازو پر ہاتھ مارا
“آرام سے بیٹھو” وہ دھاڑا وہ سہم کر دروازے سے لگ گئی” اسے کیا ہوا ہے” اس نے سوچا
ایاد نے گاڑی سائیڈ پر روکی اور سیٹ کی پشت سے سر ٹکا لیا مؤ حد کی ضد میں وہ اسے لے تو آیا تھا پر وہ اسکی بیوی تھی اور اب وہ سوچ رہا تھا وہ کیا کرے
“بات سنو ” غانیہ نے ڈرتے ڈرتے پکارا
“ہوں “اس نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
“گاڑی کیوں روکی ہے یہاں ”
“تمہیں یہاں چھوڑ کر جاؤ ں گا “اسے شرارت سوجھی
“کیوں “وہ اچھل کر سیدھی ہوئی
“میری مرضی ” اس نے کندھے اچکاۓ
“نہیں نہیں پلیز نہیں انعم کہتی ہے رات کو سڑکوں پر بھوت ہوتے ہیں مجھے یہاں نہیں چھوڑنا پلیز ” وہ روہانسی ہوگئی
“تو پھر کہاں چھوڑو “اس نے دانتوں تلے زبان دبا کر اپنی ہنسی روکی
“واپس چھوڑ آئیں ” اسنے حل بتایا
“تو وہ تمہارا جلاد شوہر تمہیں زندہ جلا دے گا “اس نے دانت کچکچاۓ
“کونسا شوہر ؟؟”اس نے حیرت سے پوچھا
“کتنے شوہر ہیں تمہارے “ایاد نے اپنا سر پیٹ لیا
“ایک بھی نہیں ” اس نے رونی صورت بنا کر کہا
“کیا مطلب ؟؟وہ مؤحد تمہارا شوہر نہیں ؟؟”
“مؤحد بھائی ـ ـ ارے نہیں شادی تو ابھی ہونی تھی کل اگر آپ نہ لاتے مجھے ” اس نے ایسے بتایا جیسے اسکا عظیم نقصان ہوا ہو
“اوہ تھینک گاڈ ـ ـ وہ ریلیکس ہوا “پکی بات ہے نا ”
“ہاں نا اور آپ شکر کیوں کر رہے ہیں ” اسے غصہ آیا
“کچھ نہیں تمہیں سمجھ نہیں آۓ گی کوڑھ مغز ”
“کسں کو کہا کوڑھ مغز ـ ـ ـ تم ہو گے کوڑھ مغز ـ ـچور ڈاکو لفنگے ” وہ اس پر جھپٹی
“اوہو پاگل چھوڑو آرام سے بیٹھو یہاں نہیں تو ابھی اٹھا کر باہر بھوتوں کے پاس چھوڑ آوں گا ” اسنے ڈرایا
“تم مت تکلیف کرو یہ میں خود چلی جاتی ہوں زیادہ سے زیادہ مار ہی دیں گے نا مجھے،،، اچھا ہے مر ہی جاوں” وہ باہر نکلنے لگی
ارے نہیں ،،، کہاں جارہی ہو ،،، رکو ” اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا” میں بھلا تمہیں مرنے دوں گا ” یہ کہہ کر وہ تیزی سے گاڑی سٹارٹ کرنے لگا کہیں دوبارہ اسے کوئی دورہ نہ پڑ جاے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...