الہیٰ بخش موجودہ وقت کا تقابل اس وقت سے کرتا، جب اس نے سادی کو دیکھا تھا- اس سے ملا نہیں تھا تو اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ بڑے خسارے میں ہے- اب سادی اس کی نظروں کے سامنے ہوتی تھی، بہت قریب بھی ہوتی تھی- مگر اس سرشاری کی وہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جس میں اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا تھا، جس میں بھوک پیاس کا احساس بھی مٹ جاتا تھا- کوئی تکلیف، تکلیف نہیں رہتی تھی- وہ خوش رہتا تھا- خوش اور مست بے خود!
اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ قربت محبت کو کم کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اب اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ قربت محبت کو کم کر دیتی ہے- محبوب نظروں کے سامنے نہ ہو تو اس کا تصور بڑا ہوتا ہے- اس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوتی ہیں- اس کی خامیوں کا علم نہیں ہوتا- لہذا اس کا مرتبہ بلند ہی رہتا ہے-
تو کیا سادی کا مرتبہ کم ہو گیا ہے؟ اس نے سوچا اور اس سوال پر دیر تک سوچتا رہا- سادی کا مرتبہ کم نہین ہوا تھا- مگر یہ تھا کہ پہلے وہ عام انسان نہین لگتی تھی- جیسے کوئی خاص ہستی ہو ۔۔۔۔۔ آسمان سے اتری ہوئی- اب وہ ایک لڑکی لگتی تھی، جس پر وہ نکتہ چینی بھی کر سکتا تھا-
الہیٰ بخش خود کو ٹٹولتا رہا- سادی بہت اچھی، بہت پیاری لڑکی تھی- مگر اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ وہ بے حجابانہ اس سے گفتگو بھی کر لیتی تھی، جو اس کے خیال میں معیوب تھی- بلکہ شاید وہ اس ہر موضوع پر بات کر سکتی تھی- جبکہ ایسا صرف دوستوں کے درمیان ہو سکتا ہے-
یہ سوچتے ہوئے الہیٰ بخش کو خیال آیا کہ وہ ایک اہم بات نظر انداز کر رہا ہے- یہ اپنی تربیت ، اپنے ماحول اور اپنی سوسائٹی کے رسم و رواج کی بات ہوتی ہے کہ کیا معیوب ہے اور کیا نہیں- اس بنیاد پر کوئی کسی پر بے شرمی کا فتویٰ نہیں لگا سکتا- یوں تو سادی بھی اس پر اعتراض کر سکتی ہے- مثلاٰ یہاں بیت الخلا ہر گھر میں ہوتا ہے- جبکہ گاؤں میں فرع ھاجت کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں- شہر کے لوگ اسے بے شرمی قرار دیں گے- ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ اتنی زمین ہوتے ہوئے گھر میں بیت الخلا کی گنجائش کیوں نہیں نکالی جا سکتی ہے-
پھر اسے ایک اور خیال آیا- ہزارے میں نوکروں کے ساتھ ایسا سلوک بھی نہیں ہوتا- اتنی بے تکلفی سے بات کرنا تو دوسری بات ہے، کوئی نوکر کو اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتا- نوکروں کو منہ ہی نہیں لگایا جاتا- تو جب یہ بات ہزارے سے متصادم ہونے کے باوجود اسے بری نہیں لگتی تو دوسری باتیں بھی بری نہیں لگنی چاہئیں-
پھر اسے ایک اور خیال آیا- اسے سادی سے محبت ہے- بلکہ عشق ہے- تو عشق انسان کی خوبیوں سے نہین، خود انسان سے ہونا چاہئے- سادی کی بد ترین برائی سے بھی اس کا دل اس کی طرف سے برا نہین ہونا چاہئے- اور اس نے کوئی بالا ارادہ تو عشق نہین کیا- یہ جذبہ تو اس کے دل میں ڈالا گیا ہے- نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سادی کو کسی قیمت پر برا نہین سمجھنا چاہئے اور پھر کون جانے، یہ کتنے دن کا ساتھ ہے- اسے تو بس سادی کو خوش کرنا چاہئے-
قریب آنے سے ایک نقصان اور ہوا تھا- پہلے وہ آنکھیں موندتا تو وہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی تھی- گھنٹوں وہ اس سے باتیں کرتا تھا- باتیں تو وہ اب بھی کرتی تھی اس سے- لیکن اس میں وہ لذت نہین تھی- پہلے وہ کم سوتا تھا- سوتا تھا تو وہ اس کے خواب میں ضرور آتی تھی- اب وہ پہلے کی طرح سوتا تھا- زیادہ تر خوابوں سے محروم نیند صبح سو کر اٹھنے میں بھی وہ لذت نہیں رہی تھی-
الہیٰ بخش اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ محرومی بڑی ہے- پھر اسے خیال آیا کہ وہ نا شکری کر رہا ہے- باپ اسے ہمیشہ یہی تو سمجھایا کرتا تھا کہ شکر گزاری نہ چھوڑو- شکرگزاری ہے تو عشق بھی کر سکتے ہو- وہ دل ہی دلمیں توبہ کرنے لگا- اسے تو وہ ملا تھا جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا-
اس کے وجود میں شکر گزاری موج در موج امڈنے لگی- اتنے عرصے میں پہلی بار اس نے وہ سرشاری محسوس کی جو مہینوں اس کا معمول رہی تھی-
—————————-٭————————-
اس روز سعدیہ کسی گہری سوچ مین گم تھی- الہیٰ بخش نے کئی بار نظریں اٹھا کر عقب نما شیشے میں دیکھا- لیکن وہ سوچ میں گم رہی- وہ بھی پوری طرح ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا- لیکن اس کا دل پریشان ہو گیا- سادی پریشان تھی- لیکن کیوں ؟
اچانک سعدیہ نے اسے پکارا- “الہیٰ بخش ایک بات پوچھوں- سچ سچ بتاؤ گے؟”
“سادی بی بی ۔۔۔۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا” الہیٰ بخش نے سنجیدگی سے کہا-
“لیکن کبھی جھوٹ نہ بولنے والے بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں”
“پتا نہیں، میرے ساتھ تو آج تک ایسا نہین ہوا- خیر آپ پوچھیں”
“تم نے کبھی محبت کی ہے کسی سے؟”
“میں تو نسلی عاشق ہوں سادی بی بی!” الہیٰ بخش نے عقب نما شیشے میں دیکھا- سادی حیران نظر آ رہی تھی- ” کیا بات ہے- آپ کو اتنی حیرت کیوں ہوئی؟” اس نے پوچھا-
“مجھے اس جواب کی توقع نہیں تھی- اور وہ بھی ان الفاظ میں”
“جو سچ تھا، ویسے ہی کہہ دیا”
“ذرا وضاحت تو کرو”
“ہماری نسل ہی محبت کرنے والی نسل ہے” الہیٰ بخش نے گہرا سانس لے کر کہا- “ابا بچپن ہی سے مجھے عشق کی تلقین کرتے تھے- لیکن مجھے عشق نہیں ہوا- میں عشق سے لڑتا رہا- مجھے عشق برا لگتا تھا”
سادی اب بھی حیران نظر آ رہی تھی- الہیٰ بخش نے وضاحت کرتے ہوئے اسے اپنے جدی عشق کے بارے میں بتایا-
“پہلے تم نے کہا کہ تم نسلی عاشق ہو- پھر تم نے کہا کہ تن عشق سے لڑتے رہے- یہ تو متضاد بات ہے”
“ہاں سادی بی بی، میں لڑتا رہا- مگر اب عشق میری سمجھ میں آنے لگا ہے- اب میں محبت کرنے لگا ہوں ”
“کس سے”
“مجھے ہر انسان سے محبت ہے سادی بی بی، میں نے سمجھ لیا ہے کہ اللہ سے عشق کرنے کی یہی صورت ہے”
“پھر بھی یہ بتاؤ، کس سے محبت کرتے ہو تم”
“میں نے بتایا نا، ہر انسان سے- ماں باپ سے، بہن بھائیوں سے، رشتے داروں سے، آپ کے پاپا سے، کرمو چاچا سے، اظہر سے، آپ کی امی سے ۔۔۔۔۔۔ سب سے سادی بی بی”
“ادھر دیکھو” سادی نے کہا- الہیٰ بخش نے عقب نما شیشے میں دیکھا “تم نے میرا نام نہیں لیا- اس کا مطلب ہے، میں بالکل اچھی نہیں ہوں”
الہیٰ بخش نے نظریں جھکا لیں- “کسی کے منہ پر یہ کہنا جھوٹا جھوٹا لگتا ہے- اس لئے میں نے آپ کا نام نہیں لیا تھا”
“تو تم مجھے اچھا سمجھتے ہو؟ مجھ سے محبت کرتے ہو؟”
“جی سادی بی بی”
سادی شیشے میں اس کے عکس کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی- “ایک بات اور- آدمی ہر کسی سے برابری کی محبت تو نہیں کرتا، کسی سے کم، کسی سے زیادہ ہوتا ہے- یہ بتاؤ میرا کونسا نمبر ہے- مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو تم؟”
“یہ بتانا تو نا ممکن ہے بی بی، محبت آدمی نہ من سیر چھٹانک میں کرتا ہے، نہ گز فٹ انچ میں- سچ یہ ہے کہ میں خدا اور اس کے پیارے رسولﷺ سے عشق کرنا چاہتا ہوں- میں جانتا ہوں کہ انسان تو بس سیڑھیاں ہیں-”
سادی ے دیکھا تھا کہ اس کی محبت کے نام پر الہیٰ بخش کے چہرے پر رنگ دوڑ گیا تھا “یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں” اس نے کہا “اور میں اس محبت کی بات بھی نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔”
“محبت تو بس محبت ہوتی ہے ۔۔۔۔ کسی سے بھی ہو” الہیٰ بخش نے فلسفیانہ انداز میں کہا-
“میں تو پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کبھی کسی لڑکی سے بھی محبت کی ۔۔۔۔؟”
“ایک بات کہوں، برا تو نہیں مانیں گی سادی بی بی؟”
“کہو،،،،”
“یہ تو بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے- نہ تو کسی سے پوچھتے ہوں، نہ کسی کو بتاتے ہیں- اور آپ مجھ سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئں”
“کیوں- کیا حرج ہے اس میں”
“بس یہ اچھی بات نہیں”
“میں تو بس سمجھنا چاہ رہی ہوں کہ محبت کیسی ہوتی ہے- تم نے منع کیا ہے تو آئندہ ایسی بات نہیں کروں گی-”
الہیٰ بخش نے شیشے میں اسے غور سے دیکھا- “برا تو نہیں مانیں آپ؟”
“نہیں، غلط بات پر تم مجھے ٹوک سکتے ہو- یہ حق میں نے تمہیں دیا ہے”
الہیٰ بخش حیرت میں ڈوب گیا-
‘گڈ مارننگ الہیٰ بخش”
“گڈ مارننگ سادی بی بی”
اس صبح الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ سادی بہت خوش ہے- اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں- اس کی آواز میں چہکار تھی- وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں-
“آج آپ بہت خوش ہیں سادی بی بی؟” الہیٰ بخش نے پوچھا-
“میں ہر صبح بہت خوش ہوتی ہوں”
“لیکن آج ہمیشہ سے زیادہ خوش ہیں”
“ہاں، آج موسم بہار کا پہلا گلاب کھلا ہے”
الہیٰ بخش کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا- اسے یاد ہی نہیں تھا- کب سے اسے گھر یاد نہیں آیا تھا- نہ گھر، نہ اپنے علاقے کے موسم- فٹ پاتھ پر تھا تو ہمیشہ ایبٹ آباد کو یاد کرتا رہتا- اب ۔۔۔۔۔ اب اسے خیال بھی نہیں آیا کہ بہار آ گئی ہے-
“کیا بات ہے، تم اداس ہو گئے”
“بہار نے اداس کر دیا ہے- کاش ۔۔۔۔۔ میں اپنی طرف کی بہار آپ کو دکھا سکتا- ہمارے ہاں بہت بڑے گلاب کھلتے ہیں- ایسے کہ ہاتھوں کے پیالے کو ایک ہی گلاب بھر دے”
“تمہیں گھر یاد آتا ہے تو چھٹی لے کر کچھ دن کے لئے گھر کیوں نہیں چلے جاتے”
“دل ہی نہیں چاہتا جانے کو”
کچھ دیر خاموشی رہی- پھر سادی نے کہا “میری ایک بات مانو گے”
“کیوں نہیں- آپ کہیں تو”
“مجھے ڈر ہے کہ نہیں مانو گےاور شاید برا بھی مان جاؤ گے”
اس پر الہیٰ بخش چوکنا ہو گیا- “میں تو نوکر آدمی ہوں سادی بی بی، پھر ایسی کوئی بات ہے تو مجھ سے کہیں ہی نہیں”
“کہنی بھی ضروری ہے”
“ذرا گاڑی سائیڈ میں روکو” سادی نے فرمائش کی-
الہیٰ بخش نے موقع دیکھ کر گاڑی ایک طرف لگا دی- لیکن وہ اندر ہی اندر پریشان تھا کہ ایسی کون سی بات ہے، جس کے لئے گاڑی رکوائی گئی ہے- “جی سادی بی بی؟” اس نے شیشے میں سادی کے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا-
سادی نے اپنے پرس میں سے کچھ نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھائے “یہ لو، اس کے بعد میں تم سے کچھ کہوں گی”
الہیٰ بخش نے بے ساختہ ہاتھ بڑھا کر نوٹ تھام لئے- مگر پھر وہ پر سکون ہو گیا- “یہ کس لئے سادی بی بی”
“میں چاہتی ہوں کہ تم بہت اچھی پینٹ شرٹ، بہت اچھے شوز خریدو- میں چاہتی ہوں کہ کل صبح تم نئے کپڑے پہن کر باہر آؤ”
الہیٰ بخش کے چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی- “سادی بی بی، پیسے میرے پاس بھی ہیں- پوری تنخواہ بچ جاتی ہے میری- کوئی خرچ ہے ہی نہیں”
“میں جانتی ہوں لیکن یہ میری خوائش ہے”
“مجھے افسوس ہے سادی بی بی، یہ میں نہیں کر سکتا” الہیٰ بخش نے نوٹ پچھلی سیٹ پر گرا دئیے-
“کیوں نہیں کر سکتے”
“میں نے قمیص پتلون کبھی نہیں پہنی- مجھے عجیب سا لگے گا- تماشا بننے کا احساس ہو گا مجھے- یہ مجھ سے نہیں ہو گا سادی بی بی”
“مان جاؤ نا”
“نہیں مان سکتا سادی بی بی، آپ یہ پیسے رکھ لیں” الہیٰ بخش نے عاجزی سے کہا-
“آتنی سی بات میری نہیں مان سکتے” سادی روہانسی ہو گئی-
“میں مجبور ہوں سادی بی بی” یہ کہہ کر الہیٰ بخش نے گاڑی آگے بڑھا دی-
اس کے بعد پورے راستے خاموشی رپی- کالج آنے پر سادی اتری اور اس نے معمول کے مطابق الہیٰ بخش کو خدا حافظ کہا- لیکن اس کالہجہ بجھا بجھا سا تھا-
واپس آتے ہوئے خود الہیٰ بخش بہت دل گرفتہ تھا- یہ احساس اسے ستا رہا تھا کہ اس نے سادی بی بی کا دل دکھایا ہے- بات اتنی بڑی بھی نہیں تھی- بس وہ ہونق نہیں بننا چاہتا تھا اور وہ یوں بجھ گئی تھی، جیسے اس کے انکار سے اسے دلی تکلیف ہوئی ہو-
اس روز وہ دس منٹ پہلے ہی کالج پہنچ گیا- وہ گاڑی کے باہر کھڑا انتظار کرتا رہا- سادی بی بی آئی تو اس نے اس کے لئے دروازہ کھولا- سادی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی- الہیٰ بخش نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد عقب نما شیشے میں دیکھا- لیکن سادی کا چہرہ اسے نظر نہیں آیا- بالآخر الہیٰ بخش سے رہا نہیں گیا- “سادی بی بی ناراض ہیں مجھ سے؟” اس نے پوچھا-
“نہیں الہیٰ بخش ناراضی کیسی- ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے”
“میں تو زندگی میں کبھی اپنی مرضی نہیں کر سکا” الہیٰ بخش نے تلخی سے سوچا تا اب اس کے ساتھ کیا اپنی مرضی کرنی، جس سے دل کا، روح کا رشتہ جڑا ہے- اس نے بریک لگاتے ہوئے گاڑی سائیڈ میں روک دی- پھر اس نے پلٹ کر کہا “لائیے ۔۔۔۔۔ آپ کی خوشی کی خاطر میں آپ کی بات مانوں گا”
“یہ تو ذبردستی والی بات ہوئی” سادی نے افسردگی سے کہا “مین تو تمہیں خوش دیکھا چاہتی تھی”
الہیٰ بخش کو شرمندی ہوئی- واقعی، یہی بات ہنسی خوشی مان لینے میں کیا برائی تھی- “سادی بی بی مین شرمندہ ہوں” اس نے دھیرے سے کہا ” اور یقین کریں، میں خوشی سے یہ بات مان رہا ہوں”
اسی وقت الہیٰ بخش کی نظر پڑی- روپے پچھلی سیٹ پر وہیں پڑے تھے جہاں اس نے گرائے تھے- سادی نے انہیں چھوا بھی نہین تھا- اور خود اس نے بھی دھیان نہیں دیا تھا- سادی نے پیسے اٹھا کر اسے دئیے- اس نے بغیر گنے جیب میں رکھ لئے-
باقی سفر میں بھی سادی اسی جگہ بیٹھی رہی، الہیٰ بخش کو احساس تھا کہ وہ اب بھی ناراض ہے، لیکن گھر پہنچ کر گاڑی سے اترنے سے پہلے سادی نے کہا-“شکریہ الہیٰ بخش!” الہیٰ بخش کھل اٹھا- اسے لگا کہ اس سے کوئی گناہ سردز ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اور اب اس کا کفارہ قبول کر لیا گیا ہے-
———————–٭———————–
پینٹ شرٹ کی خریداری الہیٰ بخش کے لئے بڑا مسئلہ تھا- اس کا اسے تجربہ نہیں تھا- سادی کا خیال نہیں ہوتا تو وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتا-
اگلی صبح اس کے لئے آزمائش کی صبح تھی- وہ دیر تک گاڑی صاف کرتا رہا- سادی کے آنے سے دس منٹ پہلے وہ اپنے کوارٹر میں گیا اور کپڑے بدل کر یوں باہر نکلا جیسے کہین چوری کر کے آ رہا ہو- اس نے چوروں ہی کی طرح ادھر ادھر دیکھا- اتفاق سے کرمو چاچا بھی موجود نہیں تھا اور سادی آ چکی تھی- یہ پہلا موقع تھا کہ وہ پہلے آئی تھی-
وہ اسے دیکھ کر مسکرائی “اسلام و علیکم الہیٰ بخش!” یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے سلام کیا تھا، کیا یہ کوئی خاص دن ہے” الہیٰ بخش نے سوچا-
“وعلیکم اسلام بی بی” الہیٰ بخش نے اس کے لئے دروازہ کھولا
“سالگرہ مبارک الہیٰ بخش!” سادی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا-
الہیٰ بخش کی سمجھ میں پہلے تو کچھ بھی نہیں آیا اور جب بات سمجھ میں آئی تو اسے زبردست ذہنی جھٹکا لگا- اس نے تاریخ یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا- بالآخر اس نے سادی سے پوچھا “اج کیا تاریخ ہے سادی بی بی؟”
“22 اپریل”
الہیٰ بخش کو حیرت ہوئی- یہ واقعی اس کی سالگرہ کا دن تھا- اسے خود یاد نہیں رہا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہین تھی- وہ جہاں کا تھا، وہاں ان نخروں چونچلوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی- پھر بھی اسے اچھا لگا کہ سادی نے اسے اتنی اہمیت دی- مگر حیرت اپنی جگہ تھی کہ سادی کو کیسے معلوم ہوا-
اس نے یہ بات سادی سے پوچھ ہی لی-
“تم نے ہی بتائی تھی یہ تاریخ”
“میں نے” الہیٰ بخش نے حیرت سے کہا-
“ہاں، میں تم سے تمہارے متعلق پوچھتی رہتی ہوں- مجھے تو بہت کچھ معلوم ہے تمہارے بارے میں- تمہارا پتا بھی ہے میرے پاس”
الہیٰ بخش کو احساس ہوا کہ وہبہت زیادہ باتیں کرتا رہا ہے- لیکن نہیں ۔۔۔۔ باتیں تو سادی کرتی تھی- بلکہ وہ سوال بہت کرتی تھی ۔۔۔ وہ بس جواب دیتا تھا- اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے یعنی ۔۔۔۔ یعنی وہ اس کی پرواہ کرتی ہے-
اس پر الہیٰ بخش نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹ دیا- خوش فہمی پالنے کی اس کے پاس گنجائش نہین تھی- زمین اور اسمان کبھی نہیں ملتے- ہاں، آسمان نوازش کے بادلوں سے زمین کی سیرابی کا سامان ضرور کرتا رہتا ہے-
اس روز دونوں چپ چپ تھے- اپنی اپنی سوچوں میں گم، لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں، وہ خاموشی، خاموشی نہیں لگ ری تھی-
الہیٰ بخش نے گاڑی روکی- سادی نے اترنے سے پہلے اسے خوبصورت پھول دار کاغذ میں لپٹا ہوا ایک پیکٹ دیا- “یہ تمہاری سالگرہ کا تحفہ ہے”
“شکریہ سادی بی بی، لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی- آپ نے میری سالگرہ یاد رکھی- ورنہ ہم لوگ خود بھی اپنی سالگرہ یاد نہین رکھتے”
“تحفوں کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے الہیٰ بخش” سادی نے کہا ” تحفوں سے محبت بڑھتی ہے”
یہ کہہ کر وہ چلی گئی- الہیٰ بخش اس بات پر غور کرتا رہا- “ٹھیک کہتی ہو سادی بی بی، اس لئے تو اللہ اپنے بندوں کو تحفوں سے نوازتا رہتا ہے- لیکن بندوں کی محبت تو نہیں بڑھتی پھر بھی- کم از کم میرے جیسے بد نصیب بندوں کی”
پہلی بار باپ کی بات کا مفہوم اس کی سمجھ میں آیا تھا-
دوپہر کو وہ سادی کو کالج سے واپس لایا تو بیگم صاحبہ لان کے باہر کھڑی کرمو سے کچھ بات کر رہی تھیں- انہوں نے الہیٰ بخش کو جو اس حلیے میں دیکھا تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں- پھر ان کی پیشانی پر شکنیں ابھی آئیں- “یہ تم ہو الہیٰ بخش- ادھر تو آؤ ذرا” انہوں نے پکارا-
الہیٰ بخش سمجھ گیا کہ عزت افزائی کے فوراٰ بعد بے عزتی کا لمحہ بھی آ گیا ہے- یہ بھی رب کی عنایت ہے کہ سر غرور اٹھنے نہ پائے اور سر میں کوئی سودا جگہ نہ بنائے- وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیگم صاحبہ کی طرف بڑھا-
“یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے الہیٰ بخش؟” بیگم صاحبہ نے کڑے لہجے میں اس سے پوچھا-
“میں سمجھا نہیں بیگم صاحبہ”
“پینٹ شرٹ پہن کر بابو بننے کا شوق کب سے ہو گیا تجھے؟” بیگم صاحبہ نے زہریلے لہجے میں کہا-
“مجھے ایسا کوئی شوق نہیں ۔۔۔۔۔ نہ کبھی ہو گا- لیکن ۔۔۔۔۔۔” الہیٰ بخش کا لہجہ سخت ہونے لگا-
اسی وقت کتابیں ہاتھ میں لئے سادی بھی آ گئی- “کیا بات ہے امی”
“الہیٰ بخش نے سر گھما کر اسے دیکھا- وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی- اس کی نگاہوں میں التجا تھی- الہیٰ بخش موم ہو گیا-
“تمہیں کیا ضرورت ہے بیچ میں بولنے کی-” بیگم صاحبہ سادی پر الٹ پڑیں-
“ضرورت اس لئے ہے کہ میرا ڈرائیور ہے”
“میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس کے لئے وردی ضروری ہے- وردی ہو تو آدمی کو اوقات یاد رہتی ہے- اب تم ہی دیکھو، یہ ڈرائیور لگتا ہے کہین سے؟”
“مجھے اس سے کوئی غرض نہیں امی- وردی کو میں نے ہی منع کیا تھا- مجھے کوئی اعتراض نہیں، جو لباس چاہے،پہنے- بس مجھے تماشا نہیں بننا”
“سادی ۔۔۔۔ سادی ۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتیں- کم اوقات آدمی جب اپنی اوقات بھولتا ہے تو سر پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے-” بیگم صاحبہ کے لہجے میں بے بسی اور جنجھلاہٹ تھی-
“میں اپنی اوقات نہیں بھولا بیگم صاحبہ، نہ کبھی بھولوں گا” الہیٰ بخش نے تحمل سے کہا- “مجھے یاد ہے کہ میں فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا پینٹر ہوں- میں کبھی آپ کے سر نہیں چڑھوں گا”
“تو پھر یہ کپڑے کیوں پہنے تو نے- اس لباس میں سادی کی گاڑی کیوں لے کر گیا؟”
“میں کہہ رہی ہوں امی کہ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں” سادی نے غصیلے لہجے میں کہا “اور الہیٰ بخش صرف مجھے جواب دہ ہے- اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ بے شک اس سلسلے میں پاپا سے بات کر لیں- مجھے کوئی دوسرا ڈرئیور ملے گا تو پھر بھی یہی ہو گا- بات صرف الہیٰ بخش کی نہیں ہے”
“ٹھیک ہے آج اس سلسلے میں بات ہو گی- پھر دیکھوں گی- تم بھی بہت آپے سے باہر ہو رہی ہو” بیگم صاحبہ نے سادی کو لتاڑا “اچھا اب اندر جاؤ پلیز”
سادی پاؤں پٹختی ہوئی اندر چلی گئی- اس کے جانے کے بعد بیگم صاحبہ الہیٰ بخش کی طرف مڑیں- “دیکھو الہیٰ بخش، یہ تمہاری روزی کا معاملہ ہے- میں اس میں کوئی خرابی نہیں کرنا چاہتی- یہ بہت گناہ کا کام ہے- لیکن ۔۔۔۔۔”
“میں بہت عاجزی سے آپ سے ایک عرض کروں” الہیٰ بخش نے ان کی بات کاٹ دی- “سچ یہ ہے کہ میں فٹ پاتھ کی مزدوری میں بہت خوش تھا- اپنی اوقات میں خوش رہنے والا بندہ جو ٹھہرا- اور رزق دینے والا اللہ ہے- اپ اس معاملے میں میرے ساتھ کوئی رعایت نی کریں”
“تو پھر یہاں نوکری کیوں کر رہے ہو- چلے جاؤ فٹ پاتھ پر” بیگم صاحبہ نے ج کر کہا- “میں تمہیں فارغ کر دیتی ہوں”
“بات آپ کی ہیں، صاحب کی ہے- صاحب جی فٹ پاتھ والوں کو عزت دینے والے ہیں- ان سے میں انکار نہیں کر سکتا- آپ ان سے بات کر کے مجھے فارغ کرا دیں- میں ہنسی خوشی چلا جاؤں گا-”
“بہت چالاک ہوتے ہو تم غریب لوگ” بیگم صاحبہ نے زہریلے لہجے میں کہا- “اتنی تنخوا چھوڑ کر ہنسی خوشی چلے جاؤ گے- مگر وہ بیوقوف شیخ صاحب جو مل گئے ہیں تو خوب عیش کرو”
الہیٰ بخش کا چہرہ تمتما اٹھا- “تنخوا کی بات نہیں ہے- میں تین وقت کی روٹی پر بھی یہاں نوکری کر سکتا ہوں- صاحب جی کہہ کر تو دیکھیں”
“نہ وہ کہیں گے نہ تم جاؤ گے”
“چلیں آج میں خود بات کر لیتا ہوں صاحب جی سے کہ مجھے آزاد کر دیں”
بیگم صاحبہ گڑبڑا گئیں- جانتی تھیں کہ اس معاملے میں شیخ صاحب سخت ہو جائیں گے- وہ احسان ماننے والے آدمی تھے- ان کی خبر بھی لے لیں گے- “نہیں اس کی ضرورت نہیں الہیٰ بخش” انہوں نے نرم لہجے میں کہا- “بس اپی اوقات میں رہو- آئندہ ان کپڑوں میں گاڑی نہ چلانا- اب اپنے کوارٹر میں جاؤ”
الہیٰ بخش اپنے کوارٹر میں چلاگیا-
————————-٭————————
الہیٰ بخش نے وہ پینٹ شرٹ اور جوتے اپنے صندوق مین رکھ دئیے- اس نے عہد کیا کہ اب وہ انہیں کبھی نہیں پہنے گا- ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ انہیں جلا دے- لیکن اس نے فوراٰ ہی اس خیال کو رد کر دیا- وہ تو سادی کی عنات کی نشانیاں تھیـ وہ تو سنبھال کر رکھنے والی چیزیں تھیـں-
اسےا س تحفے کے بارے میں بہت تجسس تھا جو سادی نے اسے دیا تھا- اس نے سوچا تھا کہ رات کو سوتے وقت دیکھے گا کہ سادی نے اسے کیادیا ہے، مگر شام تک اس کا ضبط جواب دے گیا- اس نے اپنے کوارٹر کا دروازہ اندر سے بند کیا اور بڑی نزاکت سے پیکٹ کے اوپری کاغز کو کھولنے لگا- اس طرح کہ وہ پھٹے بھی نہیں-
پیکٹ سے ایک کارڈ بھی منسلک تھا- اس پر لکھا تھا ۔۔۔۔۔ الہیٰ بخش کے لئے سالگرہ کی دلی مبارکباد اور نیک خوائشات اور خلوص و محبت کے ساتھ- سادی- الہیٰ بخش نے کارڈ کو ایک طرف رکھ دیا- پھر اس نے پھول دار کاغذ بھی وہیں رکھ دیا-
کاغذ ہٹنے کے بعد اندر سے ایک پیکٹ نکلا- اس نے پیکٹ کو کھولا تو ایک پیکنگ برآمد ہوئی- پیکنگ میں سے ہلکے رنگ کی ایک بہت کوبصورت بوتل نکلی، جس میں زرد رنگ کا کوئی سیال بھرا ہوا تھا- وہ خوشبو تھی ۔۔۔۔۔ انگریزی خوشبو، الہیٰ بخش نے بوتل کے منہ پر لگے ہوئے کور کو ہٹایا- وہ اسپرے تھا-
الہیٰ بخش چند لمحے محبت سے اسے دیکھتا رہا- پھر اس نے بوتل کے ٹاپ کو دبایا- سیال کی پھوار اس پر گری- اس کا پورا کوارٹر مہک گیا- وہ بہت بھینی ۔۔۔۔ اور دلربا خوشبو تھی- الہیٰ بخش نے چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھا- اسے ڈر تھا کہ خوشبو کوارٹر سے باہر نکل جائے گی لیکن وہ اسے روک بھی نہیں سکتا تھا اور بولتی باتیں کرتی وہ خوشبو کسی کے کانوں میں پڑ گئی تو!
یہ کیسا خطرناک تحفی دیا ہے سادی نے-
اسے محاورہ یاد آیا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے- لیکن عشق کو تو اس نے بڑی کامیابی سے چھپا لیا تھا- کسی کوپتا نہیں چل سکاتھا کہ اسے سادی سے عشق ہے- مگر اب وہ پریشان تھا کہ اس خوشبو کو چھپانا، اس کے لئے آسان نہیں تھا-
اس نے بوتل کو کور لگا کر اس کی پیکنگ میں رکھا- اب وہ خوشبو کے تحلیل ہونے کا منتظر تھا- عشق اور عام خوشبو میں یہی فرق ہے- عام خوشبو تو ختم ہو جاتی ہے- لیکن عشق کبھی ختم نہیں ہوتا- اسی لئے وہ بلآخر پکڑا جاتا ہے-
مگر وہ خوشبو کچھ مختلف تھی- الہیٰ بخش کو محسوس ہوا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خوشبو تیز ہوتی جا رہی ہے- جب وہ خوشبو پھیلی تو منہ بند کلی کی طرح تھی اور اب جیسے خوشبو کی وہ کلی کھل رہی تھی- جانے پھول بنے گی تو کیا حال ہو گا- الہیٰ بخش نے سوچا-
وہ خوشبو میں گھرا بیٹھا خوشبو کے تحلیل ہونے کا انتظار کرتا رہا- جانے کتنی دیر ہو گئی-
اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ شام ڈھل چکی ہے اور کوارٹر میں اندھیرا ہو گیا ہے- پھر دروازے پر ہونے والی ہلکی سی دستک نے اسے چونکا دیا- وہ اس چور کی طرح گھبرا گیا، جسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہو- وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس تحفے کو کہاں چھپائے- گھبراہٹ میں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا-
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی-
الہیٰ بخش نے پھول دار کاغذ، کارڈ اور پیکنگ کو جلدی جلدی بکس میں رکھا- اتنی دیر میں دروازے پر تیسری دستک ہو چکی تھی- بکس بند کر کے وہ اٹھا تو اسے یہ احساس ہوا کہ خوبو کی آواز تو اور تیز ہو گئی ہے- وہ خوشبو کی شیشی تو چھپا سکتا ہے لیکن خوشبو کا گلا تو نہیں گھونٹ سکتا، جو پورے کوارٹر میں پھیلی ہوئی تھی- وہ دروازے پر گیا- چوتھی دستک نسبتاٰ بلند تھی-
“کون ہے؟” اس نے پوچھا-
“دروازہ کھولو، میں ہوں سادی”
الہیٰ بخش کا دماغ بھک سے اڑ گیا- سادی ۔۔۔۔۔۔ اور یہاں ۔۔۔۔۔۔
“دروازہ کھولو میں ہوں سادی”
الہیٰ بخش کا دماغ بھک سے اڑ گیا- سادی ۔۔۔۔۔۔ اور یہاں! وہ پتھر کا بت بن گیا- ساکت و جامد!
“دروازہ کھولو الہیٰ بخش”
الہیٰ بخش نے دروازہ کھول دیا- سادی ہوا کے جھونکے کی طرح اندر آ گئی- “کیا بات ہے- سو رہے تھے” اس نے پوچھا-
“نن۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ جج ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں”
“کوارٹر میں اندھیرا کر رکھا ہے- لائٹ کیوں نہیں جلائی”
“بس آنکھ لگ گئی تھی”
“سوری میں نے تمہیں ڈسٹرب کیا”
“ارے نہیں- سادی بی بی! آپ بتائیں کہیں چلنا ہے؟”
“نہیں، کہیں جانا نہیں ہے-” سادی نے کہا- “میں تم سے ملنے آئی ہوں- اپنا کوارٹر نہیں دکھاؤ گے؟”
“کیوں نہیں سادی بی بی! یہ آپ لوگوں کا دیا ہوا ہی ہے-‘ الہیٰ بخش نے کہا-“لیکن پھر بیگم صاحبہ کہیں گی میں اپنی اوقات بھول رہا ہوں”
“میں تم سے امی کی معذرت کرنے آئی ہوں” سادی نے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا- الہیٰ بخش نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی-
“امی نے تمہاری بہت بے عزتی کی- لیکن تم مائنڈ نہ کرو- امی ایسی ہی ہیں- وہ تو پاپا کو بھی نہیں بخشتیں” وہ کہتے کہتے رک گئی- “ارے ۔۔۔۔۔ یہ خوشبو!”
الہیٰ بخش نے چوروں کی طرح نظریں جھکا لیں
“کیسی لگی تمہیں؟”
‘نہت اچھی ہے سادی بی بی” الہیی بخش نے کہا- وہ کہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر بوتی بہت ہے- لیکن اس نے یہ بات نوک زبان پر روک لی-
“میں دراصل تم سے معافی مانگنے آئی ہوں” سادی نے کہا “میری بات ماننے کیوجہ سے تمہاری بہت بے عزتی ہوئی ہے”
‘ایسی باتیں نہ کریں سادی بی بی- آپ نہیں جانتیں میں نے زندگی بھر یہی کچھ دیکھا ہے، یہی کچھ بھگتا ہے- کراچی سے مجھے محبت اسی لئے تو ہے کہ مجھے سب سے زیادہ عزت اور محبت یہاں سے ملی ہے- یہاں آپ جیسے بڑے لوگوں سے بھی برابری کااحساس ملا ہے مجھے، ورنہ ایبٹ آباد میں، میں کیا تھا- جلاہے کی اولاد، جسے سادات کو بھی تعظیم دینی تھی اور خواتین کو بھی- میری تو اپنی نظروں میں بھی کوئی عزت نہیں تھی وہاں- آپ مجھے شرمندہ نہ کریں- میں نے برا نہیں مانا، کراچی میں صرف بیگم صاحبہ کا سلوک ہی ایسا ہے جس سے مجھے گھر یاد آ جاتا ہے”
“پھر بھی میں تم سے شرمندہ ہوں”
“اب ایسی بات نہ کیجئے گا”
سادی اب کمرے کا جائزہ لے رہی تھی- “اپنا کمرہ بہت صاف ستھرا رکھتے ہو تم” اس نے ستائشی لہجے میں کہا- پھر کتابوں کی چھوٹی سی الماری کی طرف بڑھی- “ارے واہ ۔۔۔۔ کتابیں تو اچھی خاصی ہیں تمہارے پاس”
“بس جی، سادی بی بی، یہی ایک شوق ہے میرا”
“اچھا شوق ہے- کتابوں سے دوستی ہو جائے تو آدمی تنہائی میں بھی اکیلا نہیں ہوتا”
“ٹھیک کہتی ہیں آپ”
سادی وہاں کھڑی کتابوں کے عنوان دہراتی رہی۔۔۔۔۔ “سڑک واپس جاتی ہے، شکست، برف کا پھول، ایک وائلن، سمندر کے کنارے، طوفان کی کلیاں، ایک گدھے کی سرگزشت، گدھے کی واپسی، گدھا نیفا میں، درد کی نہر۔۔۔۔۔۔۔ کرشن چندر بہت پسند ہیں تمہیں ؟” اس نے پوچھا
“جی سادی بی بی سب لکھنے والوں سے زیادہ-”
“آور یہ طرف شعری مجموعے ہیں” سادی بہت خوش نظر آ رہی تھی- “سیف الدین کا خم کاکل، ناصر کاظمی کا برگ نے اور دیوان، قتیل شفائی کا گجر، ساحر لدھیانوی کا پرچھائیاں اور گاتا جائے بنجارہ ۔۔۔۔۔۔ حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، واہ بھئی تمہارا ذوق بہت اچھا ہے”
“ذوق کا تو نہیں معلوم سادی بی بی، بس شاعری مجھے بے خود کر دیتی ہے”
“نسلی عاشق جو ٹھرے” سادی نے اس کی بات دہرائی- پھر بولی “شاعروں میں کون زیادہ پسند ہے تمہیں؟”
“پہلے ساحر بہت اچھے لگتے تھے- اب لگتا ہے ناصر کاظمی نے صرف میرے لئے شاعری کی ہے”
نیچے ابن صفی کی کتابیں رکھی تھیں- سادی ے حیرت سے اسے دیکھا “کہاں کرشن چندر، شاعری اور کہاں ابن صفی!”
“کبھی اداس ہوں، دل بوجھل ہو تو ابن صفی کو پڑھ لیتا ہوں- ہر ملال دھل جاتا ہے”
سادی اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو- کیا یہ وہی شخص ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جلاہا الہیٰ بخش، فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا پینٹر اور اس کا ڈرائیور- اس وقت الہیٰ بخش کا چہرہ اسے بہت روشن لگ رہا تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ ایسے تو پڑھے لکھے، دولت مند خاندانی لوگ بھی نہیں ہوتے-
الہیٰ بخش نے اس کی نظروں کی تپش سے گھبرا کر نظریں جھکا لیں-
سادی کی توجہ ایک کتاب نے کھینچ لی- پہلی بارش- ناصر کاظمی، اس نے کتاب باہر نکالی- کتاب کو دیکھنے کے بعد وہ بولی “کیسی خوبصورت کتاب ہے”
“جی ہاں، صرف خوبصورت چھپی نہیں ہے- شاعری بھی خوبصورت ہے- اب تک مجھے سب سے اچھی یہی کتاب لگی ہے-”
“تم نے پڑھی ہے؟”
“جی ہاں، پڑھی تو ہے لیکن ابھی تک غزل کا پہلا شعر تک نہیں سمجھ سکا ہوں- لگتا ہے، اسے سمجھنے میں پوری زندگی لگے گی-”
سادی کے دل میں اشتیاق پیدا ہوا- اس نے پہلی غزل نکال لی اور بہ آواز بلند مطلع پڑھا
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلی تیرا نام لکھا تھا
“واہ بہت اچھا شعر ہے- لیکن الہیٰ بخش یہ مشکل تو نہیں کہ اسے سمجھ نہ سکو”
“لفظوں کا معاملہ تو آسان ہے- میں اس شعر کی روح کو سمجھنا چاہتا ہوں”
“مجھے تو یہ شعر بہت سادہ اور آسان لگا ہے”
“تو مجھے سمجھا دیجیئے”
سادی سوچ میں پڑ گئی- پھر بولی “اب سمجھ میں آتا ہے کہ سمجھنے سے زیادہ کسی کو سمجھانا مشکل ہے- ویسے میرا خیال ہے کہ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی طرف ہے”
“یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں- لیکن میری تسلی نہیں ہوتی- یہ کون سے محبوب کی بات ہو رہی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا- ویسے سادی بی بی، یہ پہلی بارش مسلسل غزل ہے- یوں کہئیے کہ غزل کا جسم ہے اور روح نظم کی ہے- لہذا الگ سے ایک شور کو سمجھنے کے بجائے ملا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے- دیکھیں تو ۔۔۔۔۔۔
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بار امانت سر پہ لیا تھا
تو نے کیوں میرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں تیرے درشن کا پیاسا تھا
سادی بڑی توجہ سے سن رہی تھی- الہیٰ بخش کی آواز میں ۔۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں نہ جانے کیا تھا کہ سادہ سے وہ اشعار دل میں اترتے جا رہے تھے- ذہن میں ایسے سوال، ایسے اسرار سر اٹھا رہے تھے، جنہیں وہ سمجھ بھی نہیں پا رہی تھی-
اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے سامنے ایک بلکل مختلف الہیٰ بخش کھڑا ہے- وہ اب محض وجیہ و خوبرو دیہاتی نہیں، ایک خوبصورت اور معصوم روح کا مالک ایک عالم بھی تھا، جس کا سینہ علم عشق سے معمور تھا!
“اسم عظیم تو سمجھ میں آتا ہے سادی بی بی!” الہیٰ بخش کھوئے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا- “لیکن یہ صبر صمیم کیاہوتا ہے اور بار امانت کیاہے؟”
سادی کو محسوس ہا کہ ان سوالوں کے جواب اسے بھی کھوجنے ہیں- “الہیٰ بخش یہ کتاب مجھے دو گے- میں اس کا مطالعہ کرنا چاہتی ہوں”
“کیوں نہیں، لے جائیے” الہیٰ بخش نے بدستور کھوئے ہوئے لہجے میں کہا-
“دو تین دن میں واپس دے دوں گی”
الہیٰ بخش بری طرح چونکا “یہ تو میرے خیال میں اس کتاب کی توہین ہے” وہ بولا “ایک بات کہوں- برا تو نہیں مانیں گی؟”
“کہو، میں برا نہیں مانوں گی”
“یہ کتاب اس وقت نہ لے کر جائیے- میں کل آپ کو یہ کتاب دے دوں گا”
“ٹھیک ہے- اس میں برا ماننے کی تو کوئی بات نہیں-” سادی نے کہا “اچھا الہیٰ بخش، اب میں چلتی ہوں- شب بخیر”
“شب بخیر سادی بی بی”
وہ چلی گئی تو الہیٰ بخش کو اپنا کوارٹر ویران لگنے لگا، جیسے بہار آ کر رخصت ہو گئی ہو-
لیکن خوشبو کی آواز بلند ہو گئی تھی- وہ اپنے شباب پر تھی-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...