اقبال نے اپنی مشہور فارسی تصنیف ارمغانِ حجاز میں بڑے خوبصورت انداز میں ’’اناالحق‘‘ کے فلسفے کی حقیقت بیان کی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی نظم ’’اناالحق‘‘ سے ماخوذ اشعار مع ان کا ترجمہ اور تشریح پیش کر تا ہوں۔
اناالحق جُز مقامِ کِبریا نیست
سزائے اُوچلیپا ہست یا نیست
(ترجمہ ) : اناالحق مقام کبریا کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ (سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اناالحق کہے) تو سولی پر چڑھایا جائے کہ نہیں؟
دراصل اناالحق کہنا صرف باری تعالیٰ کو زیب دیتا ہے، لیکن پھر بھی بندگانِ خدا میں بعض سالکوں اور ملحدین کی زبان سے اناالحق اداہوا ہے۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے، سالک کے نصیب میں دار آئی اور ملحد کو براہ راست عذابِ الٰہی نے آلیا ۔ یہ دونوں الگ الگ فردِ واحِد تھے ۔ ان مثالوں سے جو حقیقت سامنے آئی وہ اقبال کی زبان میں سنیے ۔
اگر فردے بگوید سرزنش بہ
اگر قومے بگوید ناروا نیست
(ترجمہ ) : اگر ایک فرد اناالحق کہے تو وہ سزا کا مستحق ہے لیکن اگر ایک قوم ایسا کہے تو درست ہے ۔
جہاں تک فرد کا تعلق ہے، تو اس کی سزا کا فیصلہ اوپر ہوچکا ہے لیکن یہ دعویٰ کہ ایک قوم کو اناالحق زیب دیتا ہے، دلیل کا محتاج ہے۔ اقبال اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
بہ آں ملت اناالحق ساز گار است
کہ از خونش نمِ ہر شاخسار است
نہاں اندر جلالِ اُو جمالے
کہ اُو را نُہ سپہر آئینہ دار است
(ترجمہ ) : انا الحق کہنا اس ملت کو زیب دیتا ہے جو اپنے خون سے (باغ اور درختوں کی ) ہر ہر شاخ کو سیراب کرے ( اور وہ ایسی قوم ہو) جس کے جلال میں حُسن کا جمال پوشیدہ ہو۔ ایسی ملّت کی جو لا نگاہ (نو آسمان ) یعنی ساری کائنات ہے۔ انسان خدائے بزرگ و برتر کا نائب ہے اور صفاتِ خداوندی سے اس کو نوازا گیا ہے۔ اگر وہ بھر پور انداز میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے اور اپنی خداداد صلاحتیں نوع انسانی کی بہبود کے لیے بروئے کار لائے تو یقینا ایسے افراد سے جو ملّت جنم لے گی وہ خود کو انا الحق کہہ سکتی ہے۔ ایسی ملت کا وجود انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت ہے اس کے جلال میں بھی جمال پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف سے اگر سزا بھی دی جائے تو سزا پانے والے کو سزا میں لذّت نصیب ہوتی ہے ایسی ہی قوم دنیا میں تمام قوموں کی امامت کرتی ہے۔ جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں ۔
میانِ اُمّتاں والا مقام است
کہ آں اُمّت دوگیتی را امام است
نیا ساید ز کارِ آفرینش
کہ خواب و خستگی ، بَروے حرام است
ترجمہ : ایسی امّت تمام امّتوں میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے اور وہ دونوں جہانوں کی اِمامت اور قیادت کرتی ہے۔
وہ (ہمہ وقت )تخلیقی عمل میں مصروف رہتی ہے اور نیند اور تھکان اس پر حرام ہیں ۔
مندرجہ بالا آخری مصرعے میں اقبال کا اشارہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کی طرف ہے جس میں ارشادِ باری تعالیٰ سے (سورۃ البقرہ۔ اقتباس آیت نمبر ۲۵۵) ترجمہ : وہ نہ سوتا ہے نہ اسے اونگھ لگتی ہے ‘‘۔
یہ اوصاف خداوندی ہیں کہ نہ اس کو نیند آتی ہے اور نہ اونگھ (جو کہ تکان کی علامت ہے) لہٰذا جو امت ان اوصاف کی حامل ہوگئی اللہ کی نیابت اور قوموں کی امامت کی مستحق ہوگی ۔
اقبال ایسی قوم کی نشانیاں اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
وجودش شُعلہ از سوزِ دردن است
چُوخَس او را جہانِ چند و چون است
کند شرحِ انا الحق ہِمّتِ او
پئے ہر کُن کی می گوید َیکُوْن است
(ترجمہ ) : ایسی امت کا وجود ایک شعلہ ہے، جو اس کی ذات میں پوشیدہ آتش کا حصہ ہے، اور اس جہان کی تمام بے ثبات اشیاء اس کے آگے خس و خاشاک کی مانند ہیں۔
’’وہ جب کُن کہتی ہے تو نتیجہ اس کا( یقینا)یَکُوْن ہوتا ہے۔‘‘ یعنی ایسی قوم جو ارادہ کرتی ہے اور جو کام شروع کرتی ہے وہ ہر حال میں اسے پاپۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ اگلے بند میں ایسی امّت کے مزید اوصاف بیان ہوتے ہیں ۔
پرد در وُسعتِ گردوں یگانہ
نِگاہِ اُو بہ شاخِ آشیانہ
مہ و انجم گرفتارِ کمندش
بدستِ اُوست تقدیرِ زَمانہ
(ترجمہ ) : آسمانوں کی بلندیوں میں اس کی پرواز بے مثال ہوتی ہے۔ (وہ فضائوں میں گم نہیں ہوتی اور اپنے وجود کا تشخص برقرار رکھتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ خود اپنا آشیانہ گم کر بیٹھے ) اس کی نظر اپنے آشیانہ پر (جمی ) رہتی ہے۔
ایسی قوم چاند اور ستاروں پر اپنی کمند ڈالتی ہے اور زمانے کی تقدیر اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی تقدیر خود رقم کرتی ہے، بلکہ دوسری قوموں کی تقدیریں بھی اپنی تدبیر سے بدل دیتی ہے۔
آخری دو بندوں میں اقبال مِن حیثُ القَوم اہلِ اَنا الحق کی جمالی صفات اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
بباغاں عندلیبے خُوش صفیرے
بہ راغاں جرّہ بازے زُود گیرے
امیرِ اُو بہ سلطانی فقیرے
فقیرِ اُو بہ درویشی امیر ے
(ترجمہ ) : وہ باغوں میں خوش آواز بلبل ہے، اور پہاڑوں میں (اپنے شکار پر جھپٹنے والا ) شاہین ہے۔ ایسی قوم کے امیر بادشاہی میں فقیر اور اس کے فقیر درویشی میں امیر ہوتے ۔
اپنے ایک اردو شعر میں اقبال ایسے افراد کے لیے یوں گویا ہیں ۔
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
چنانچہ تلقین کرتے ہوئے مضمون کا اختتام کرتے ہیں ۔
بجامِ نَو کُہن مے از سُبو ریز
فروغِ خویش را بَر کاخ و کُو ریز
اگر خواہی ثمر از شاخِ منصور
بہ دل لَا غالِبَ اِلاَّ اللہ فروُ ریز
ترجمہ : اپنے نئے جام میں پرانی شراب انڈیل اور اپنی روشنی سے محل اور کوچے منور کر دے (یعنی اپنے عمل سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان کی یاد تازہ کر دے) اگر تو شاخِ منصور سے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنے دل پر لَاغالِبَ اِلا اللہ نقش کر دے۔
یہ شعر حاصلِ عُنوان ہے جس میں اقبال اپنی قوم کو ایک بار پھر بتاتے ہیں کہ تیری منزل کے حصول کا راز اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے میں مضمر ہے۔ اپنی نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں بھی یہی درس اقبال اس طرح دیتے ہیں۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شُجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی اِمامَت کا