شاکرہ بیگم تڑپ اٹھیں تھیں ۔۔ باپ بیٹے کی لڑائی کبھی اس حد تک نہیں پہنچی تھی۔۔۔
نصیبہ پھپھو سر تھام کر رہ گئیں
میں تم جیسے نافرمان شخص سے نوال کی شادی کبھی نہیں کروں گا ۔۔
شاہین صاحب انگلی اٹھا کر قطعی انداز میں بولے۔۔۔
فاتح نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔چہرہ خطرناک حد تک سرخ پڑ گیا تھا ۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں آپ نوال کی شادی میرے علاوہ کہیں اور کیسے کرتے ہیں ۔۔
اسکا چیلنجنگ انداز سب کو بری طرح خوفزدہ کرگیا ۔۔۔ وہ غصے میں پلٹا اور روشن کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے کو زور سے اچھال کر وہاں سے نکل گیا ۔۔۔ روشن کی چیخیں بلند ہونے پر تاشا برق رفتاری سے اسکی طرف بڑھی ۔۔۔
تم ٹھیک ہو؟؟ چائے تو نہیں گری نا تمہارے اوپر ؟؟؟
تاشا پریشانی اسکا جائزہ لینے لگی ۔۔۔
نہیں ۔۔ میں ۔۔۔ٹھیک ہوں ! وہ حیران پریشان سی ناواقف انداز میں سب کے اُترے چہرے دیکھنے لگی ۔۔۔ شاہین صاحب منظر سے غائب ہوگئے تھے ۔۔
نوال نے بھی کمرے میں آکر سر تھام لیا ۔۔۔ یہ سب جو بھی ہوا اسکی سمجھ سے بالاتر تھا ۔۔
پہلے ممانی کا تھپڑ ۔۔ اور اب شاہین ماموں نے بھی اس پر ہاتھ اٹھا کر اسے ضد دلا تھی ۔۔۔ نوال بے چاری بلاجواز انکے بیچ پس گئی تھی ۔۔۔ اسے اب فاتح کے غصے سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔۔ خدا جانے وہ کیا کرنے والا تھا ۔۔؟؟؟
فاتح بھائی دروازہ کھولیں ۔۔۔ تاشا روہانسی ہونے لگی۔۔۔
بابا کو ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے تھا مانتی ہوں۔۔ لیکن دروازہ تو کھولیں نا بھلا ہمارا کیا قصور ۔۔۔ اماں بہت پریشان ہورہی ہیں بھائی ۔۔ اس نے تھکے تھکے سے انداز میں دروازے سے ماتھا ٹکا لیا ۔۔
اب تم بھی زخموں پر نمک چھڑکنے آگئی ہو تاشا ۔۔ چلی جائو یہاں سے ورنہ میں برا پیش آئوں گا ۔۔
وہ انتہائی طیش سے بولا ۔۔
بھائی میں تو بس ۔۔۔ اس نے کہنا چاہا
پلیز یار جائو یہاں سے ۔۔ اب کی بار وہ دھاڑا تھا
تاشا کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں ۔۔ وہ غم و غصے سے بند دروازے کو گھورتی واپس پلٹ گئی ۔۔ انا پرست انسان کی انا کو چوٹ پہنچی تھی وہ خود بھی غصے کی آگ جل رہا تھا۔۔ اور اپنے ساتھ جُڑے ہر رشتے کو بھی تکلیف پہنچا رہا تھا ۔۔۔تاشا جا چکی تھی
وہ ہنوز بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے اضطراری کیفیت میں پائوں زوروں سے ہلانے لگا ۔۔۔ غصہ تھا کہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔۔ دل چاہ رہا تھا اس آگ میں سارا جہاں پھونک ڈالے ۔۔
نوال سعید ۔۔۔ تمہاری وجہ سے آج مجھے دوسرا تھپڑ پڑا ہے ۔۔ تمہیں یہ بہت مہنگا پڑے گا ۔۔۔
وہ غصے میں نہ جانے کیا کیا سوچنے لگا تھا ۔۔۔ پھر اشتعال کو دبانے کی خاطر اٹھا اور گاڑی کی چابی لے کر کمرے کے بیکڈور سے باہر نکل گیا ۔۔۔ دل میں مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اب کچھ دن اس گھر کے مکینوں کو اپنی شکل نہیں دکھائے گا ۔۔۔
_________________________________________
اسی طرح وہ تینوں اگلے دن رات کے اندھیرے میں جنت قدوسی کے بنگلے میں خفیہ طور پر گھس چکے تھے ۔۔۔ حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ وہاں کوئی ذی روح تک موجود نہیں تھی ۔۔۔ چار سوں پھیلے اندھیرے اور سناٹے نے انکا استقبال کیا ۔۔۔ اسی اثنا میں گیٹ پر ایک چمچماتی گاڑی آرکی ۔۔۔ ان کی مقابل عمارت میں محو انتظار نایا نے کھڑکی کے پردے ہٹا کر یہ منظر دیکھا اور اس خالی عمارت سے باہر نکلنے لگی تھی ۔۔ اچانک اسے غیر معمولی سا احساس ہوا ..دیکھا دیکھی کسی کی فولادی گرفت نے اسکی گردن کے گرد کلائی کی گرفت تنگ کردی ۔۔۔
اسکے لبوں سے دبہ دبہ سا احتجاج خارج ہونے لگا ۔۔۔ آفیسر ۔۔۔؟ سب ٹھیک ہے نا؟؟؟
جنت کی جانب بڑھتے وہ دونوں ہی غیر معمولی آواز پر بری طرح سے چونکے تھے۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔۔وہ اپنے دفاع میں سر توڑ کوشش کرنے لگی ۔۔ دائم اور فیصل خطرہ بھانپ کر مقابل عمارت کی طرف دوڑنے لگے ۔۔۔ جہاں بہت سے مصنوعی ماسک والے چہروں نے انکا استقبال کیا۔۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ انہیں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا ۔۔ دائم نے اسے بچالیا تھا ورنہ آج وہ دم گھٹنے کے بعث مر چکی ہوتی ۔۔
فیصل گھبرا کر کمرے کی دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔
یہ لوگ کون ہیں ؟؟؟
بن بلائے مہمان ۔۔ وہ تینوں اپنی پوزیشن پر چھپ کر انکا مقابلہ کرنے کا منصوبہ ترغیب دینے لگے ۔۔۔ وہ لوگ جو بھی تھے ان کی آمد سے پہلے ہی بلڈنگ میں چھپ کر بیٹھے تھے اور موقع تلاش کر رہے تھے ۔۔۔
یہ فرائی پین نیچے کروگی یا راپنزل کی طرح ہر آنے والی شخصیت کو زہنی معزور کرکے چھوڑو گی ۔۔۔
نایا کے کان میں چسپاں آلے پر تنزیہ جملے ابھرے۔۔
یہ تو آنے والی شخصیت پر ڈپینڈ کرتا ہے ! ویسے حیرت کی بات ہے نا ؟؟ ایک انٹیلیجنس آفیسر کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ کارٹون دیکھ سکے ۔۔ ؟؟؟
وہ بلا کی حاضر دماغ تھی ۔۔۔ ۔۔دائم اسکی بات پر ہلکا سا ہنسا۔۔۔
اپنی بیٹی کو کمپنی دینی پڑتی ہے
ریئلی؟؟ اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔
آپکا ٹارگٹ بھاگ رہا ہے آفیسر ۔۔ فیصل نے کمرہ لاک کرنے کے بعد کھڑکی سے نیچے جھانکتے ہوئے کہا ۔۔ اور باہر نکل کر تیزی سے سیڑھیان چڑھتا اگلے فلور پر جانے لگا ۔۔۔
لو اپنے رشتے داروں کو سنبھالو ۔۔میں اسکے پیچھے جارہی ہوں ۔۔اس نے اپنے تئیں فرائی پین فیصل طرف اچھالا وہ بر وقت کیچ نہیں کر پایا نتیجاً پین اسکے پیشانی پر آلگا ۔۔۔
اوئییی ماں۔۔ آپ لوگوں کو فرسٹریشن نکالنے کے لئے میں ہی ملتا ہوں کیا ؟؟؟ درد سے بلبلاتا ہوا سر تھامے درد کی ٹھیسیں دباتا اسے کوسنے لگا ۔۔۔
میں اس ڈرائیور کے پیچھے جاتا ہوں تم لوگ اس ایریا کو کور کرنا۔۔ ابھی اس نے پیش گوئی کی ہی تھی کہ فیصل بات کاٹ کر بول پڑا
محترمہ تیزگام جاچکی ہیں
یہ لڑکیاں اتنی جذباتی کیوں ہوتی ہیں ۔۔دائم بڑبڑایا ۔۔ اور فون ملا کر کان سے لگایا ۔۔۔
بلڈنگ نمبر چار کے دوسرے فلور پر کچھ گرے ہوئے لوگ حد سے گر چکے ہیں ان کی زرا خیر خبر تو لو یار ۔۔۔
دائم ابرو کھجاتا اطراف میں گرے لوگوں کو دیکھ کر بولا ۔۔ اور فون بند کردیا ۔۔
میں سامنے والی عمارت میں ہوں فیصل ، اس نے فیصل کے لئے پیغام چھوڑا جو نہ جانے کہاں بھٹک رہا تھا ۔۔۔ لاک کو مخصوص جیکٹ سے اٹیچ کرکے کیبل کے ذریعے دوسری عمارت کی بالکونی میں آپہنچا ۔۔۔ فیصل ہانپتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ کر عمارت کے اگلے حصے میں پہنچا تو خالی کھڑکی اسکا منہ چڑا رہی تھی ۔۔ یعنی وہ اس پار چلا گیا ۔۔
جلدی آئو ، اس سے پہلے کوئی اور جائے۔۔
میں پھر بتائے دیتا ہوں میں کوئی سرکس کا جوکر ہوں ، نہ ہی آپکی طرح ٹرینڈ ایجنٹ کیپٹن کچھ تو خیال کریں ۔۔ کوئی دوسرا طریقہ ڈھنڈیں، میں گر کے مر ور جائوں گا ۔۔۔ وہ نیچے جھانک کر اونچائی سے گھبرا کر بولا ۔۔۔
آنا ہے تو آئو ورنہ مرو ادھر ہی!
دائم نے بے مروتی کی حد کردی ۔۔۔
یہ جنت مجھے جہنم پہنچا کر ہی دم لے گی ۔۔۔ اس نے کڑھ کر سوچا دائم کی بے مروتی اسے اسوقت چابک کی طرح لگی تھی اس نے غیر تحفظ کا مظاہرہ کیا۔۔۔
باتیں بھگارنا بند کرو اور جلدی آئو وقت بہت کم ہے !
اسکا لہجہ سخت ہوا
خ اللہ جی قسم کھا کہ کہتا آگے کبھی بھی ایسے بے مروت لوگوں کے جھانسے میں نہیں آئو گا، بس اس بار بچا لینا ! وہ گڑگڑا کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر بولا ۔۔۔
پتا نہیں ایجنسی کہاں سے اس نمونے کو ڈھونڈ کر لائی ہے ! دائم کو تپ چڑھنے لگی ۔۔
گہری گہری سانس لے کر کیبل کی ہک جیکٹ سے جوڑی اور اللہ کا نام لے کر کھڑکی سے نیچے کود گیا ۔۔۔ وجود کو کیبل سپرد کرتے ہی اسکی چیخیں نکل گئیں ۔۔۔ رات کے تاریک سناٹے میں اسکی چیخیں خاموشی کو چیرتی ہوئی فضا میں بھیانک ارتعاش پیدا کرنے لگیں ۔۔۔ بالکونی تک پہنچتے ہی دائم نے اسکے منہ پر ہاتھ جماکر چیخوں کا گلا گھونٹا ۔۔۔ اسی اثنا میں موجودہ بالکنی کی کھڑکی سے کسی نے باہر جھانکا ۔۔۔ اور دروازہ بند کردیا ۔۔۔
دائم نے مایوسی سے لب بھینچے ۔۔۔
تمہاری وجہ سے بنا بنایا کھیل بگڑ گیا بیوقوف ! جھک کر شوزوں سے باریک سی تار نکالی اور اسکے دیکھتے ہی دیکھتے کھڑکی کا لاک کھول دیا ۔۔۔
اب اندر جائو اور کام ختم کرکے ہی آنا ،سمجھے ؟؟؟؟ مڑ کر سختی سے تاکید کی گئی ۔۔
فیصل نے سر ہلاتے ہوئے جیسے ہی کھڑکی سے اندر قدم رکھا ۔۔۔ گلاس وال کے پار پانیوں میں بھیگتے وجود کو دیکھ کر اسکی روح فنا ہونے لگی ۔۔۔۔
چھی چھی ۔۔۔کتنی بری بات ہے کسی کے کمرے میں جھانکنا جب کوئی شاور لے رہا ہو استغفراللہ ۔۔ توبہ توبہ !
وہ بڑبڑاتے ہوئے الٹے قدموں واپس ہوا ۔۔۔
اب کیا تکلیف ہے ؟؟ دائم کا بس نہیں چل رہا تھا اسکا گلہ دبا دیتا ۔۔
کیپٹن قسم سے مجھسے نہیں ہوگا یہ ۔۔ اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تو؟؟ ، اور ویسے بھی کسی کے کمرے میں اس وقت تانکا جھانکی کرنا اخلاقیات کی توہین ہے ، میں نہیں جائوں گا ! دائم نے ضبط سے لب دانتوں تلے دبائے ۔۔۔
تم مشن پر آئے ہو ، خالہ کے گھر نہیں ! جاتے ہو یا میں تمہیں اس عمارت سے دھکا دے کر شہید قرار دے دوں ؟؟؟ اس دھمکی پر وہ انتہائی بے چارگی دائم کو دیکھنے لگا ۔۔۔ خدانخواستہ آپ پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے ۔۔۔
وہ نیم آمادہ ہوا ۔۔۔
یہ نوبت نہ آئے اسی لئے اپنی بیوی کو پہلے ہی طلاق دے کر فارغ کر چکا ہوں ، اسی لئے تمہارے خدشات بےکار ہیں ۔۔ اب جائو ۔۔انتہائی تلخ حقیقت اس نے تمخسر اور تنز میں لپیٹ کر اسکے منہ پر ماردی ۔۔۔ فیصل اس انکشاف پر حیرت سے دیدے پھاڑ کر دیکھنے لگا ۔۔ سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔ زیادہ حیران کس بات پر ہونا چاہیئے
اسکے شادی شدہ ہونے پر یا طلاق یافتہ ہونے پر ۔۔۔! اسکے چہرے پر چھائی تاریک سنجیدگی دیکھ کر فیصل ڈر گیا ۔۔ خاموشی مڑا اور محتاط قدم اٹھانے لگا ۔۔۔
اس سے پہلے وہ ڈاکومنٹس اور لیپ ٹاپ کو چھیڑتا ۔۔۔ جنت کمرے میں موجود ہیولے کو دیکھ کر چیخی ۔۔۔ فیصل گھبرا کر اس سے بھی تیز چیخا تھا ۔۔۔ دائم نے تحمل سے سانس طویل سانس کھینچی ۔۔۔
اب اسے ہی کوئی پیش قدمی کرنی تھی ۔۔۔
اس نے اگلے ہی لمحے اسکی مخصوص رگ دبا کر اسے بے ہوش کردیا ۔۔
میری شکل کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔؟؟ یا اب بھی رائتہ پھیلانا باقی ہے ۔۔ جائو جلدی سے کام مکمل کرو ۔۔
دائم دبہ دبہ غرا کر جنت کو اٹھا کر بیڈ پر لٹانے لگا ۔۔ چند ثانیے گزرتے ہی وہ اپنا کام دکھا کروہاں رفو چکر ہو چکے تھے ۔۔ نایا نے بھی ٹرانسمیٹر ڈرائیور کی گاڑی اور فون فکس کردیا ۔۔ وہ باآسانی اسکی فون کالز ٹریس اور سن سکتے تھے ۔۔ واپسی کے وقت تاہم اندھیرا تھا مگر اسکی چھٹی حس بار بار اسے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے ۔۔ اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا ۔۔اور خاموشی سے واپس کاٹیج آگئی۔۔۔
کون لوگ تھے وہ کچھ پتاچلا ؟؟
وہ لونگ کوٹ اتارتے ہوئے پرسوچ انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔ پتا چل جائے گا کچھ گھنٹوں تک تفتیش جاری ہے ۔۔
جواب دائم کی طرف سے آیا تھا ۔۔
تم لوگوں کو ایسا نہیں لگا جیسے کوئی ہمارا پیچھا کر رہا تھا ؟ وہ الجھن بھرے انداز میں پوچھنے لگی۔۔
دونوں رک کر اسے دیکھنے لگے ۔۔
نہیں تو آپ سے کس نے کہا۔۔۔؟
میری سکس سینس نے ۔۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔۔
آپ کی سِکس سینس رات کے گھپ اندھیرے میں بھی کام کرتی ہے کیا۔۔فیصل نے اسکی بات ہنسی میں اُڑائی
نایا جوابا خاموشی رہی ۔۔
تم لوگوں کو یاد ہے میں نے کہا تھا یہاں سے کچھ دوری پر انڈین اپنی فلم کہ شوٹنگ کر رہے ہیں ۔۔ وہ لوگ اب وہاں نہیں ہیں
اسکی بات پر توڑ جوڑ کرنے کے بعد وہ اب بولا تھا
وہ دونوں انتہائی حیرانی سے دائم کو دیکھنے لگے۔۔ جس نے منٹوں میں نتیجہ اخذ کرلیا تھا ۔۔
کیا خیال ہے ؟؟؟ وہ نایا کی جانب متوجہ ہوا ۔۔
کیا کہا جا سکتا ہے۔۔ ان کے بارے ہم کچھ نہیں جانتے حتی کہ ان کے چہرے تک نہیں دیکھے ہم نے۔۔ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ! نایا نے کہا
ہوسکتا ہے وہ ایجنٹ ہوں ؟یا ھانی سے کوئی تعلق ہو؟
فیصل کی آنکھیں حیرت سے ابل کر باہر آنے لگیں ۔۔
ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی بھی ایجنٹ نہ ہو!
حد درجہ طمانیت بھرے انداز میں دائم کا جواب سن کر وہ پلٹ کر کمپیوٹر پر جھک گیا.۔۔
دوسرے لفظوں میں تم یہ کہنا چاہتے ہو ھانی کو علم ہوچکا ہے ہماری موجودگی کا۔۔اسی لئے اسکے لوگ ہمیں فالو کررہے ہیں
نایا الجھ کر رہ گئی تھی ۔۔ جبکے دائم کا دماغ کوئی منصوبہ ترتیب دینے لگا ۔۔
___________________________________________
ڈاکٹر صاحبہ ؟؟؟ شششش؟؟؟ اٹھئیے ؟؟ کل تو آپ نے ناک میں دم کیا ہوا تھا ۔۔گھر جانے کی رٹ لگا رکھی تھی اب یہاں خواب و خروش کے مزے لوٹ رہی ہیں ؟؟
درباس نے جھک کر پانی کے چھینٹے اسکے منہ پر مار کر جگانا چاہا ۔۔ وہ جو پہلے سے ہی اس موقع کے تلاش میں تھی ۔۔ سائید ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھا کر اسکے اوپر اچھال کر برق رفتاری سے بھاگی ۔۔ اور داخلی دروازہ باہر سے لاک کردیا ۔۔۔
واٹ دا ہیل؟؟؟وہ بوکھلا کر زوروں سے سر جھٹکنے لگا ۔۔۔. بند دروازے کو دیکھ کر اسے افسوس سا ہونے لگا ۔۔
بیوقوف لڑکی ۔۔ وہ زہر لب بڑبڑا کر گیلے بالوں کو جھٹکنے لگا ۔۔ عمارا جو ایک بار بھاگی تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا ۔۔۔ روڈ سے اسے ٹیکسی مل گئی تھی ۔۔۔اس نے گھر پہنچ کر فیروزہ کو کرایہ ادا کرنے کا کہا اور اپنے کمرے میں آکر ہی سکون کا سانس لیا ۔۔۔
بابا کہاں ہیں فیروزہ ؟؟؟ وہ بے تابی سے پوچھنے لگی ۔۔
جی وہ تو آج صبح ہی اسلام آباد گئے ہیں کہہ رہے تھے ایک آدھ ہفتہ لگے گا انہیں ۔۔۔ وہ سب چھوڑیں آپ بتائیں ؟؟ کیسا رہا آپ کا ٹرپ؟ کہاں کہاں گئے آپ لوگ؟؟؟؟ فیروزہ پرجوش سی ہوکر پوچھنے لگی ۔۔۔
وہ جو بالوں کو مٹھیوں میں قید کیئے پریشان حال سی بیٹھی تھی ۔۔۔ حد درجہ حیرانی سے چہرہ اٹھا کر دیکھنے لگی ۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا فیروزہ ؟؟ کیس ٹرپ؟ تمہیں پتا بھی ہے میں کہاں سے آرہی ہو؟؟؟
لو جی ۔۔ آپ ٹرپ پر گئیں تھیں آپ کے سارے دوست واپس آگئے لیکن آپ اور ماہین بیبی وہیں رک گئیں ۔۔ صاحب بتا رہے تھے کہ آپ کچھ دنوں تک آئیں گیں ۔۔
فیروزہ کی باتیں سن کر وہ دنگ رہ گئی ۔۔۔
یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو فیروزہ؟؟؟
ماہین تو مر چکی تھی ۔۔۔!!! اسکی آنکھوں کے سامنے اسے گولی ماری گئی تھی ۔۔
باجی لگتا ہے آپ تھک گئیں ہیں ۔۔ میں آپ کے لئے چائے اور پین کلر لے کر آتی ہوں ۔۔ وہ کہہ کر اٹھ گئی ۔۔۔
عمارا ہنوز شاک کی پوزیشن میں بیٹھی رہی ۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بابا نے فیروزہ سے جھوٹ کیوں بولا؟ وہ بال لپیٹ کر سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی اور کریڈل اٹھا لیا ۔۔ مگر اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ احسان صاحب فون نہیں اٹھا رہے تھے ۔۔۔ وہ فون کریڈل پر پٹخ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی ۔۔ یہ سب کیا چل رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔ دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔ اس نے سر جھٹک کر شاور لیا اور لباس تبدیل کرکے پین کلر کھائی ۔۔ کمفرٹر کھینچ کر لیٹ گئی۔۔۔ بار بار کسی کا گھمبیر لہجہ اسکے کانوں میں گونجنے لگا ۔۔ وہ اپنے بیڈروم میں بھی غیر محفوظ سا محسوس کرنے لگی خود کو۔۔۔
اس نے مجھے اتنی آسانی سے کیوں جانے دیا ؟؟؟ اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی ۔۔۔
_______________________________________
رامس کے کبھی معذرت خواہاں تو کبھی محبت سے لبریز پیغامات اسے مسلسل موصول ہورہے تھے ۔۔نوال نظرانداز کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی شائستہ بیگم کی طرف سے صاف انکار ہوچکا تھا۔۔ان کے بلاجواز انکار نے سب سے زیادہ تکلیف نوال کو پہنچائی تھی۔۔
‘میں تمہارے گھر کے پچھلے حصے کی طرف ہوں نوال پلیز ایک بار میری بات سن لو ‘
اللہ اکبر ۔۔۔ دیکھو تو زرا نوال ۔۔ رامس کا کیا میسیج آیا ہے روشن کی شاکڈ آواز پر اس نے فون اسکے ہاتھ سے جھپٹا ۔۔ یہ لڑکا پتا نہیں کیا چاہتا ہے اب ۔۔۔ ماں تو انکار کرچکی ہے مگر لگتا ہے بیٹا بھی زمانے بھر میں رسوا کرکے چھوڑے گا ۔۔ وہ آزردگی سے بولتی فون سلب پر پٹخ کر کھڑکی سے پچھلے حصے کا منظر دیکھنے لگی ۔۔۔
سنو نوال مت جانا ۔۔۔کیا پتا وہ کس ارادے سے آیا ہو ۔۔ روشن کو خوف محسوس ہوا ۔۔ نوال اسکا تفکر بھرا چہرہ دیکھ کر رہ گئی ۔۔
جانا تو پڑے گا روشن ۔۔ اس شخص کا دماغ ٹھکانے لگانے ضروری ہے ورنہ یہ پتا نہیں کب تک مجھے ایسے ہی تنگ کرتا رہے گا ۔۔ وہ سینے پر پھیلا دوپٹہ سر پر اوڑھنے لگی ۔۔۔ تم کہتی ہو ٹھیک ہے لیکن مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یار ۔۔۔
تم کسی سے ذکر مت کرنا ۔۔ اگر کوئی میرا پوچھے تو کہہ دینا میں اپنے کمرے میں ہوں ۔۔ وہ کہہ کر ارد گرد یا جائزہ لے کر باغیچے میں آگئی۔۔ رامس کا حلیہ اس وقت واقعی قابل رحم تھا ۔۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑ گئی تھی۔۔۔
اب تم کیا چاہتی ہو رامس ایسے مجھے یہاں بلا کر۔۔۔ تمہاری ماں نے بلاجواز اس رشتے سے انکار کردیا میں نے تم سے شکوہ تک نہیں کیا ۔۔ لیکن اسکے باوجود تم میرے پیچھے پڑے ہو ۔۔ خدارا اب بس بھی کرو ۔۔ چلے جائو یہاں سے ۔۔۔
یہ سب تمہارے لئے آسان ہوگا نوال میرے لئے بہت مشکل ہے بلکے یوں کہو کہ ناممکن ہے ۔۔ میں نے تم سے محبت کی ہے یار زندگی میں پہلی بار ۔۔میں تمہیں کسی طور چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔۔ میں امی کو منا کر دوبارہ تمہاری گھر بھیجنا چاہتا ہوں تم پلیز ایک بار تو اپنے گھر والوں سے بات کرو ۔۔ انہیں کہو مان جائیں ۔۔۔ وہ ملتجی ہوا
یہ ناممکن ہے رامس ۔۔ میرے لئے آج تک ماموں ہی سارے فیصلے کرتے آئے ہیں ۔۔ اور مجھے ان کی محبت پر کوئی شک نہیں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا ۔۔۔ اس نے دو ٹوک کہا ۔۔
ایسے تو مت کہو یار ۔۔ کم از کم تم تو میرا ساتھ دو ۔۔۔ وارفتگی سے کہتے ہوئے اس نے اسکے ہاتھوں کو قید کیا ۔۔۔
وہ کرنٹ کھا کر دور ہوئی ۔۔۔
رامس تم چلے جائو یہاں سے اس سے پہلے کوئی تمہیں دیکھ لے ۔۔ میرے لئے بہت مشکل ہوجائے گی ۔۔ پلیز چلے جائو ۔۔ اب کوئی فائدہ نہیں ۔۔
یو باسٹرڈ ۔۔
فاتح کے لئے مزید برداشت کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا ۔۔ ہاتھ میں پکڑی فٹبال پوری وقت سے اسکے منہ پر ماردی ۔۔۔ فاتح کب آیا ؟؟ نوال کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑنے لگے ۔۔
فاتح ۔۔ چھوڑو اسے ۔۔ جانے دو
اچھا ۔۔؟؟ تمہیں بہت تکلیف ہورہی ہے ۔۔ تم سے تو میں بعد میں نپٹتا ہوں ۔۔ وہ رامس کو کالر سے گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے جانے لگا ۔۔۔ نوال کو یاس نے آگھیرا ۔۔ وہ اپنی حرکت پر پچھتانے لگی
فاتح اس حرکت کا کیا رنگ نکالے گا۔۔؟؟ اس نے پریشانی سے سر تھام لیا ۔۔۔
کیا کیا تم نے اس کے ساتھ؟؟؟ اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر نوال ٹھٹھک گئی ۔۔۔
اسکی کھال ادھیڑ کر اپنے کمرے کا قالین نہ بنوا لیا تو میرا نام فاتح نہیں ۔۔۔ اور تم یہ جو گری ہوئی حرکت کر رہی تھی اسکے ساتھ یہاں اندھیرے میں ۔۔ اگر میں سب گھر والوں کو بتاد۔۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تم میرے بارے میں اس طرح کی باتیں کرو ۔۔ وہ مجھے کئی دنوں سے میسیج کر رہا تھا ۔۔ اور میں صرف یہاں اسکا دماغ ٹھکانے لگانے آئی تھی ۔۔ اگر یقین نہ آئے تو خود دیکھ لو ۔۔ وہ فون اسکے سامنے پٹخ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔
اسکا چہرہ لہو ٹپکارہا تھا ۔۔۔ فون کو طیش کے عالم پھینک کر وہ زور سے اس پر ضربیں لگانے لگا ۔۔
_______________________________________
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا ۔۔ اسکا زہن دھیرے دھیرے بیدار ہونے لگا ۔۔ کسی احساس کے تحت وہ خوفزدہ سی ہوکر اٹھ بیٹھی ۔۔۔ اسکی پہلی نظر کمرے میں حرکت کرتے ہیولے پر پڑی ۔۔ وہ خوف سے حرکت تک نہیں کر سکی تھی ۔۔۔
تم تو اندھیرے میں سونے کی عادی نہیں تھی ۔۔ لگتا ہے عادتیں بدل لیں تم نے ۔۔ اک مانوس سی آواز سناٹے زدہ ماحول میں گونجی ۔۔۔
ک۔۔ کون ؟۔۔۔ عمارا کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پر گیا ۔۔۔
تمہارا شوہر ۔۔۔
انتہائی طمانیت بھرے انداز میں وہ پلٹ کر بولا
عمارا کا دل قید پنچھی کی مانند پھڑپھڑانے لگا ۔۔ اس نے حسب عادت سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے لاکٹ کو مٹھیوں میں جکڑنا چاہا ۔۔۔ جو اب غائب تھا ۔۔۔
تم اسے بہت پیچھے چھوڑ آئیں تھی ۔۔۔ شاید اب تمہیں ضرورت نہیں رہی ۔۔۔ اس نے افسوس بھری سانس لے کر لاکٹ اسکی طرف بڑھایا۔۔
ابر۔۔۔ا۔۔۔ہیم ؟؟؟ اسکی آواز کپکپائی ۔۔۔ وہ صدیوں کے بعد اسکی آواز سن رہی تھی ۔۔۔
ایک پل کے لئے لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔ اگلے پل آنکھ کھلے گی اور سب حقیقت سے برعکس ہوگا
ابر۔۔۔ا۔۔۔ہیم ؟؟ تم ۔۔۔واقعی زندہ ہو ۔۔؟؟؟ بے یقینی ہی بے یقینی تھی ۔۔ آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اسکی گالوں پر پھسلنے لگے ۔۔۔
تمہیں خوشی نہیں ہوئی مجھے دیکھ کر ۔۔؟؟
اس نے لاکٹ دوبارہ مٹھی میں دبا کر خفگی سے کہا ۔۔۔ عمارا تو جیسے اسے سن ہی نہیں رہی تھی ۔۔ اسکی سماعتیں مفلوج ہوچکیں تھی وہ بے اختیار اس سے لپٹ گئی ۔۔۔
تم کہاں چلے گئے تھے ؟ تمہیں احساس بھی ہے میں نے تمہیں کتنا یاد کیا ؟ اسکی سسکیاں عروج پر تھیں۔۔
سب بتائو گا ۔۔ مجھے چھوڑو تو سہی ۔۔۔ اسکے لہجے میں کوئی گرمجوشی نہیں تھی ۔۔۔ دل تو چاہ رہا سالوں کا غبار ابھی اسی وقت نکال دے ۔۔۔مگر اس نے خود پر جبر کیئے رکھا۔۔ البتہ وہ اسکے لیئے طویل سزا مقرر کرچکا تھا ۔۔ جس میں وہ کسی کی قسم کی نرمی برتنے کا حامی نہیں تھا ۔۔ عمارا اسے کسی طور چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی ۔۔۔ اسے جانے کیوں یہ خوف لاحق تھا ۔۔وہ پھر اس سے دور چلا جائے گا
اچھا رونا تو بند کرو ۔۔؟؟ عمارا ؟؟؟
ابراہیم نے اسے تھام کر خود الگ کیا ۔۔
تم کہاں چلے گئے تھے ؟اور کب آئے ؟ تم نے بتایا نہیں؟؟ نہ ہی تم مجھ سے ملنے آئی۔۔ وہ پھر سے رودی ۔۔
اک تمہیں ہی میری خبر نہیں تھی ۔۔ میں تو ایک پل بھی تم سے غافل نہیں رہا ۔۔ وہ شکوہ کن لہجے میں بولا۔۔
اسکی سرخ رنگت زیرو والٹ کے بلب کی ملگجے سی روشنی میں بہت دلفریب معلوم ہورہی تھی ۔۔ابراہیم نے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا
خیر چھوڑو یہ بتائو کیسی ہو تم ؟؟؟ وہ عام سے لہجے میں سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر کافی کا کپ اٹھائے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ عمارا پل بھر کو سناٹے میں رہ گئی ۔۔۔ بلب نے کمرے کو روشنی بخش دی تھی اور شاید اسکے حواسوں کو بھی ۔۔۔ وہ شاکی نظروں سے اسکی صورت دیکھنے لگی ۔۔۔ جو انتہائی اطمینان سے کافی لبوں سے لگاتا یہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے گی؟؟؟
لمبے بالوں کی جگہ ۔۔نفاست سے سجے بال ۔۔سر سے کیپ بھی غائب تھی ۔۔۔ بڑھی ہوئی شیو کی جگہ ہلکی ہلکی داڑھی نے لے تھی ۔۔۔ وہی وارفتہ نگاہیں حد درجے نرم لہجہ ۔۔۔ وہ بس اسے دیکھے گئی ۔۔۔ وہ ابراہیم تھا ۔۔ یا درباس ؟ سچ اور جھوٹ کے بیچ فرق کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا ۔۔۔
ایک منٹ ؟؟؟ تم ۔۔۔۔ تم۔۔۔تم وہی ہونا ؟؟؟ کیا مزاق ہے یہ ؟؟ کونسا نیا کھیل کھیل رہے ہو میرے ساتھ؟؟؟
وہ غصے اور بے بسی سے غرائی ۔۔
دیکھو میرے ساتھ کھیل مت کھیلو؟ میں مزید برداشت نہیں کرسکتی؟ آنسوئوں کے ہیجان سے اسکی آواز کپکپائی ۔۔۔ ابراہیم کو حیرانی نہیں ہوئی تھی
تم واقعی مجھے بھول گئی ہو عمارا ۔۔۔ ورنہ تم پہلی فرست میں ہی پہچان جاتی ۔۔۔ میں تو تمہاری خوشبو تک سے واقف ہوں ۔۔ ایک تم ہی ہو سنگدل ۔۔ ویسی کی ویسی جو براہراست مجھے دیکھ کر بھی جھٹلا رہی ہو ۔۔۔ وہ کپ ٹیبل پر رکھ کر اسکے پاس چلا آیا ۔۔
اسکا پل میں تو تولہ اور پل میں ماشہ رویہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔
یہ یاد ہے یاں اسے بھی بھول گئی ۔۔۔ ؟؟ اس نے آستین سے شرٹ کھینچ کر اسکی توجہ دلائی ۔۔۔ بلاشبہ یہ اسی کا سگنیچر تھا ۔۔۔ جو کبھی اس نے ایک بار شرارت سے ابراہیم کی کلائی پر کھینچ دیا تھا ۔۔ جو اب اس نے اپنی کلائی پر ٹیٹو کروالیا تھا ۔۔۔
عمارا تم کبھی نہیں سمجھو گی ۔۔ نہ مجھے ۔۔ نہ میری محبت کو۔۔ وہ اسکی الجھن بھری نگاہوں سے زرا خفا ہوکر بولا ۔۔
تو تم وہاں کیا کر رہے تھے ان لوگوں کے بیچ ؟اور تو اور ان لوگوں نے بہت سے غلط کیئے تھے؟ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا؟ وہ الجھ کر رہ گئی تھی ۔۔۔
میں اپنی جاب کر رہا تھا اور وہ پہچان عارضی تھی ۔. وہ مختصر سا بولا عمارا کے زہن میں بہت سے سوالات جنم لینے لگے ۔۔ لیکن اس نے جھٹک دیئے ۔۔ اب تو اسے یہیں رہنا تھا ۔۔ پھر کبھی پوچھ لے گی
کیا ماہین سچ میں مرگئی؟ وہ خود کو روک نہیں پائی ۔۔ تمہیں ماہین کی اتنی پرواہ کیوں ہے عمارا ہے ۔۔ یا یوں کہو کہ تم علی کی ویل ویشر بننا چاہتی ہو ؟؟
ابراہیم کا لہجہ تلخ ہوگیا ۔۔۔
تم اتنے اکھڑے اکھڑے کیوں ہو مجھ سے ابراہیم؟؟ ان ہتک بھرے الفاظوں پر اسکی آنکھیں میں آنسو جھلملانے لگے ۔۔ کیونکہ تم نے میرے بعد ہر وہ حرکت کی جو مجھے ناپسند تھی ۔۔۔ تم جانتی ہو تمہارا کسی سے فری ہونا مجھے پسند نہیں تھا تم نے اس کے باوجود وہی سب کیا؟ کیا سوچا تم نے کہ میں مر گیا ہوں ۔۔ تو تم آزادی سے تعلقات بڑھا سکتی ہو سب کے ساتھ ۔۔ وہ پھٹ پڑا ۔۔
عمارا کو اس لمحے پرانے ابراہیم کی جھلک دکھائی دی ۔۔ میں نے تو کسی سے بھی تعلق نہیں بڑھائے ۔۔ وہ روہانسی ہونے لگی وہ اسکے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ پتا نہیں وہ اتنا کیوں بدگمان ہوگیا تھا اس سے ۔۔۔ ابراہیم نے اس کے جھوٹ پر سرد نگاہوں سے گھورتے ہوئے کئی تصویریں نکال کر اسکے سامنے پھینک دیں ۔۔۔
عمارا کی نظروں کے سامنے بے ساختہ ویٹر کا چہرہ آنے لگا جس نے علی ہاتھ پر چائے گرادی تھی ۔۔
وہ ویٹر تم تھے ؟ اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔
بد قسمتی سے میں اپنی بیوی کی غیر مرد کے ساتھ اس ملاقات کا گواہ ہوں ۔۔
اسکے چہرے پر کاٹدار مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔۔ عمارا کو اسکے الفاظ چابک کی طرح لگے تھے ۔۔۔ اسے اس وقت بری طرح سے رونا آرہا تھا ۔۔۔ اس کچھ کہنے کی خاطر منہ کھولا ہی تھا ابراہیم کا فون بجنے لگا ۔۔ وہ اٹھا اور باہر نکل گیا ۔۔۔ عمارا بہت دیر تک اسکا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہیں آیا ۔۔شاید وہ اسے بغیر بتائے ہی جا چکا تھا۔۔۔
تم بہت بدل گئے ہو ابراہیم ۔۔ وہ سسکتی ہوئی بیڈ پر گر سی گئی ۔۔۔ آنسو گالوں سے پھسل کر تکیہ بگھونے لگے ۔۔۔
_______________________________________
اگلی صبح کی خوشآئند بات یہ تھی کہ انہیں جنت کی جانب مثبت جواب موصول ہوا تھا۔۔ اور انہیں سارا ڈیٹا مل چکا تھا جو تذفات کی بینک کے لاکرز میں موجود تھا ۔۔ اب مسلہ یہ تھا اگر وہ لاکر سے کوئی چیز نکال لیتے تو بینک کی انتظامیہ اسی لمحے مطلوبہ شخص کے سیل فون پر آگاہی کا پیغام بھیج دیتی ۔۔۔ اور انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ جنت اور اسکا ڈرائیور دونوں ہی ھانی کے ایجنٹ ہیں ۔۔۔ ان میں سے کسی کے بھی سیل فون پر آگاہی کا پیغام موصول ہو سکتا تھا ۔۔۔ اس لئے وہ تینوں بیک وقت یہ کام سر انجام دے رہے تھے ۔۔ نایا ڈرائیور کے پیچھے ۔۔ جبکے فیصل جنت پر نظر رکھے ہوئے تاہم دائم بینک سے ڈیٹا اور تمام نسخوں کی روبری کرنے والا تھا ۔۔۔ فیصل فوٹو گرافر کی حیثیت سے چن لیا گیا ۔۔ جنت نے اسے اپنے رہائش گاہ پر طلب کیا تھا ۔۔۔ وہ مخصوص طور پر تیار ہوا تھا۔۔دائم اسے بار بار یاد دلا رہا تھا کہ اسکے کتے کا نام جیک ہے اور باپ کا نام جوزف ہے ۔۔ دھیان رہے جب تم اسے مخاطب کرو تو ان باتوں کا خاص خیال رکھنا اس طریقے سے ظاہر کرنا کہ تم اسکے بہت بڑے مداح ہو اور اسکی خوبصورتی کے دیوانے ہو ۔۔۔
وہ کوئی کوتاہی برداشت کرنے کے حق میں نہیں تھا
جو کہ میں نہیں ہو ۔۔ فیصل جوابا زیر لب بڑابڑیا
آفیسر تم بھی ہوشیار رہنا ۔۔
جیسے آپ کا حکم کیپٹن ۔۔ اسکا سعادت مندانہ جواب دائم کو نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا ۔۔
اگر وہ اسکے سامنے ہوتی تو یقیننا اسے مسکراتے دیکھ کر غش پڑ جاتا ۔۔۔ وہ سوٹد بوٹد مصنوعی حلیے اور شناخت کے ذریعے مینجر کے ہمراہ بینک کے دوسرے حصے میں پہنچ چکا تھا ۔۔ مینجیر اسے لاکرز کے باہر چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔۔ وہ برق رفتاری سے ہاتھ چلانے لگا ۔۔۔
ہیلو جنت ۔۔جیک انکل ہائو آر یو ؟؟؟
ان باپ بیٹی کو آتا دیکھ کر احتراما اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
جیک میرے ڈوگی کا نام ہے ۔۔ پاپا کا نام جوزف ہے
جنت کے کڑے تیوری لئے جھلا کر بولی ۔۔.
نایا اور دائم بیک وقت قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے ۔۔
اوہ اچھا ۔۔ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہوگی شاید ۔۔
فیصل نے بمشکل بات سنبھالی ۔۔ ان دونوں کے قہقہے اس وقت جلے پر نمک چھڑکنے کے مترداف تھے ۔۔
خیر تم سے کہا تھا ۔۔۔ٹھیک نو بج کر تیس منٹ پر آنا تم پہلے ہی آ گئے ۔۔۔ یہ تمہاری دوسری غلطی ہے
جنت تنفر سے بالوں کو جھٹکا دیتی صوفے پر براجمان ہوگئی
سوری اگین۔۔!وہ خفیف سا مسکرایا
جبکے اسکا باپ بیگانوں کی طرف ناشتے کے ٹیبل پر کھانے میں مصروف نظر آنے لگا ۔۔۔یہ سچ میں باپ بیٹی ہی ہیں؟ وہ شک میں پڑ گیا۔۔
خیر سب چھوڑو ۔۔ میں اپنے پرانے فوٹوگرافر سے بہت تنگ تھی ۔۔ وہ بڈھا بہت دقیانوس انسان تھا ۔۔ اگر تمہارا فن مجھے پسند آیا تو میں تمہیں منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہو ۔۔ کل ایک چھوٹا سا ٹیسٹ رکھا ہے تمہارے لیئے ۔۔۔ کلب آجانا وہیں شوٹنگ کریں گی ۔۔
میں نے ڈاکومنٹس نکال لئے ہیں۔۔ پیغامی میسیج کسی بھی وقت آتا ہوگا سنبھال لینا۔۔
دائم نے ڈاکومنٹ سے نپٹ کر لاکر بند کردیا ۔۔ باہر مینیجر اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔۔۔ فیصل غیر توجہی سے جنت کی باتیں سنتا مشکل میں پڑ گیا ۔۔ اب وہ کیا کرے ؟ فون جنت کی گود میں پڑا تھا ۔۔۔ ملازمہ کو جوس لاتے دیکھ کر اس نے نا محسوس طریقے سے پیروں کو حرکت دیتے ہوئے قالین فرش سے تہس نہس کردیا ۔۔ ملازمہ کا پائوں بری سے پھنس گیا اور جوس چھلک کر جنت کے نفیس کپڑوں کو آلودہ کرگیا ۔۔
بیوقوف جاہل عورت ۔۔ وہ چیختی ہوئی وہاں سے اٹھ گئی ۔۔ ملازمہ گھبرا کر صفائی کا سامان لینے دوڑی تو فیصل نے فون اپنے قبضے میں لے لیا ۔۔۔
ٹیکسٹ ملا؟ دائم میجنیر کے ہمراہ چلتا ہوا راہداری کی دوسری طرف مڑ گیا ۔۔
ہاں مگر فون پر پاسورڈ ہے ۔۔ کم از پندرہ سیکنڈ لگیں گے ۔۔ وہ دبی دبی سرگوشیاں کرتا پلٹ کر ایک نظر لاتعلق بیٹھے اسکے باپ پر بھی ڈال رہا تھا ۔۔۔
انہیں تم پر شک بھی نہیں ہونا چاہیئے آخر کو تمہاری صلاحتیں کس کام کی ہیں ۔۔
دائم گاڑی میں آبیٹھا ۔۔ نایا بھی اس شخص کے آفس سے نکل آئی تھی۔۔۔ فیصل باقی رہ گیا تھا ۔۔ ہیل کی ٹک ٹک پر وہ گھبرا کر مڑا ۔۔۔
کیا کر رہے ہو تم میرے فون کے ساتھ؟؟؟
کچھ نہیں ۔۔ میں دیکھ رہا تھا یہ کام کر رہا ہے یا نہیں اس میں پانی نہ چلا گیا ہو۔۔وہ اطمینان سے کہہ کر فون اسے تھمانے لگا ۔۔۔
ہمارا کام مکمل ہوچکا ہے فیصل ۔۔۔ اب جنت سے جان چھڑائو اور واپس آجائو ۔۔
اسکے اگلے پیغام پر وہ آہ بھر کر رہ گیا ۔۔
آپ اپنے سابقہ فوٹوگرافر کو کتنی قیمت ادا کرتی تھی ۔۔؟؟ اب تو وہ ایسی حرحکت کرنے پر آمادہ تھا کہ جنت خود اسے اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتی ۔۔
ایک شوٹ کا پانچ لاکھ ۔۔۔
بس پانچ لاکھ ؟؟؟ پھر تو آپ مجھے بھی پانچ لاکھ دیں گی
اسکا یک دم بدلتا انداز جنت کو پریشان کر گیا ۔۔۔
میں نے تمہیں کہا نا اگر تمہارا فن مجھے پسند آیا تو میں تمہیں من مانگی قیمت دوں گی جنت تڑخ کر بولی
اس منہ پر آپ مجھے منہ مانگی قیمت دیں گی ! فیصل نے انگلی اسکے میک اپ زدہ چہرے کی طرف اٹھائی ۔۔
بکواس بند کرو اور دفع ہوجائو یہاں سے جنت تو بھڑک اٹھی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن سچ سے منہ موڑنا تو خود کو دھوکہ دینے کے برابر ہے ڈیئر جنت
وہ مہذب شخص کی طرح کوٹ درست کرتا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ انتہائی کرجاتی ۔۔ لمبے چوڑے حبشیوں کو دیکھ کر فیصل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی.۔۔
فیصل بھاگ لے اب ۔۔ ورنہ بھاگنے کے قابل نہیں رہے گا تُو ۔۔ اس نے خود سے کہا اور داخلی دروازے سے نکلتے ہیں سر پٹ دوڑ لگا دی ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...