’’آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے مسٹر شیخ۔۔۔۔۔ میں جارہی ہوں گھر واپس۔۔۔۔۔ اور آپ پر اور آپ کے اس گارڈ پر نا صرف مجھے حراساں کرنے بلکہ بیچ راہ میں ایک معصوم انسان کی جان لینے کا پرچہ بھی کٹواؤ گی‘‘ رستم کوو دھمکی دیتی وہ دروازے کی جانب مڑی تو رستم نے آنکھوں سے بہادر خان کو اشارہ کیا جس نے سر خم کرکے انا کی کلائی دبوچ لی اور اسکا ہاتھ زور سے کھینچے اسے اوپر رستم کے پاس لیجانے لگا
انا نے نجانے کتنے وار کیے بہادر خان کے ہاتھ پر مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا
بہادر خان نے ایک جھٹکے سے انا کی کلائی چھوڑی تو وہ جھٹکا کھاتی رستم کے سینے جالگی۔۔۔۔۔۔ جس نے ایک بازو سے اسکی کمر تھامی اور دوسرے سے اسکے بالوں کی پونی نکالی۔۔۔۔۔۔ لمبے بال ابشار کی مانند پیچھے کمر پر پھیل گئے تھے۔۔۔۔ بہادر خان تو سر جھکاتا وہاں سے چلا گیا جبکہ انا نے رستم کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی تو اسنے مزید گرفت کو تنگ کردیا۔۔۔۔۔۔ اسکی گردن میں منہ چھپالیا۔۔۔۔۔۔ انا کی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔ اسے رستم کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کر پاتی رستم کے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر آن ٹھہرے تھے۔۔۔۔۔۔ رستم کی گرفت مزید سخت ہوگئی۔۔۔۔۔۔ وہ انا کو سزا دے رہا تھا اسے ٹھکڑانے کی اسے تکلیف دینے کی
انا نے پورا زور لگا کر خود کو رستم سے پرے دھکیلا اور ایک تھپڑ کھینچ اس کے منہ پر دے مارا۔۔۔۔۔۔ رستم کے چہرے پر یکلخت سرد مہری چھائی۔۔۔۔۔ اسے انا کے کھلے بالوں کو مٹھی میں دبوچا تو انا کی چیخ نکل گئی
’’آج تک کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ رستم شیخ کو انکار کرسکے اور تم نے یہ ہمت کی۔۔۔۔۔۔ اور تو اور مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا‘‘ رستم غصے سے پھنکارا
’’ہاں اٹھایا ہاتھ میں نے تم اور دوبارہ اٹھاؤں گی۔۔۔۔۔۔ انسان نہیں درندے ہوں تم سنا تم نے۔۔۔۔۔ درندے ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کتنے گھٹیا اور گرے ہوئے انسان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں‘‘ انا بھی غصے سے بولی
’’آئیندہ سے مجھ سے تم کر کے بات کی تو جان نکال دوں گا اور کیا کہا درندہ ہوں میں تو کیوں نا تمہیں درندہ بن کر دکھا ہی دوں‘‘ اسے دیوار سے لگائے دونوں بازو ایک ہاتھ میں جکڑے دوسرے سے اسکا منہ دبوچے رستم دوبارہ اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور تب تک پیچھے نہیں ہٹا جب تک انا کے لبوں سے خون رسنا نہیں شروع ہوگیا۔۔۔۔ اپنی کاروائی دیکھتا رستم ایک بار پھر اس پر جھکا مگر اب کی بار نشانہ اسکی گردن تھی۔۔۔۔۔۔۔ انا نے بہت لگایا۔۔۔۔۔۔ رستم اپنی تشنگی میں اس قدر گم تھا کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہوا اس نے کب انا کے دونوں ہاتھ آزاد کردیے اور اسی کا فائدہ اٹھاتے انا نے پاس پڑا گلدان رستم کے سر پر دے مارا۔۔۔۔۔ تکلیف سے رستم پیچھے ہوا تو انا نے اسے دھکا دیا۔۔۔۔۔ نیچے جانے کا فائدہ نہیں تھا بہادر خان باہر ہی کھڑا تھا اسے یقین تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے وہ جلدی سے نظروں میں آتے سب سے پہلے کمرے میں چھپ گئی اور اسے لاک لگا لیا
رستم جو سر تھامے انا کی کاروائی دیکھ رہا تو وہ کھل کر مسکرا دیا۔۔۔۔۔۔ آج انا کسی بھی صورت اس سے بچنے والی نہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں پہنچتے ہی انا کو سب سے پہلا خیال زرقہ کو کال کرنے کا آیا۔۔۔۔۔۔ اس نے فورا سے اپنا موبال شرٹ کی پاکٹ میں سے نکالا اور زرقہ کو کال کی۔۔۔۔۔۔ ایک ، دو، تین۔۔۔۔۔۔۔۔ نجانے کتنی کالز گئی مگر زرقہ نے نمبر نہیں اٹھایا
’’پرنسز!!‘‘ رستم کی پراسرار آواز اسے کمرے کے پار سے سنائی دی
’’پلیز زرقہ کال اٹھاؤ پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بچالو زرقہ۔۔۔۔۔‘‘ وہ فون کال سے لگائے یہی بولے جارہی تھی جب کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا
انا کا چہرہ سفید پڑگیا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں رستم کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ماتھے سے خون کی ہلکی سے لکیر نکلی تھی
’’تت۔۔۔تم اندر کیسے آئے؟‘‘ انا کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی
’’پرنسز مت بھولو یہ ولا میرا ہے‘‘ رستم مسکراتے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکی طرف آیا
’’دد۔۔۔۔دور رہوں مجھ سے‘‘ زرقہ کو کال ملائے وہ پیچھے کو ہوتے بولی جبکہ رستم اسکی جانب قدم اٹھانے لگا جیسے شکاری شکار کی جانب اٹھاتا ہے
’’پپ۔۔پلیز رستم میرے پاس مت آؤ پلیز‘‘ انا نے دونوں آنکھیں میچ لی تھی۔۔۔۔۔ ایک پل کو رستم کے قدم رکے
’’نہیں رستم اس کی بات مت سننا۔۔۔۔ یاد ہے نا تمہیں اسے اپنا بنانا ہے نہیں تو وہ کبھی تمہاری نہیں ہوپائے گی‘‘ وہ آواز پھر سے اس کے اندر سے بولی
رستم کو یہی سہی لگا۔۔۔ آج وہ ہر حال ، ہر صورت میں انا کو اپنی بنالینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ اگر ایک بار وہ یہاں سے نکل گئی تو پھر زندگی بھر وہ اسے مل نہیں پائے گی
رستم کے قدموں میں مزید تیزی آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بلکل انا کے سامنے جاکھڑا ہوا جو دیوار کے کونے میں دبکی کھڑی تھی
رستم اپنے دایاں ہاتھ سے اسکے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹ کی جانب کو چھونا چاہا
’’ہاتھ مت لگاؤ مجھے گھٹیا آدمی!!‘‘ انا چلائی اور اسکا ہاتھ جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔ اور بس یہی سے انا کی بربادی شروع تھی
رستم نے جبڑے بھینچے سرخ آنکھوں سے اس کو دیکھا اور بازو کو جکڑتے اپنے سامنے کھڑا کیا
’’آج کی رات تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میری ہوجاؤ گی انا‘‘ اسکے کان کے پاس سرگوشی کرتے اسنے ایک جھٹکے سے اسکے گلے سے ڈوپٹا کھینچ نکالا۔۔۔۔۔۔ اور اسے بیڈ کی جانب دھکا دیا
فون تو گر کر ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔۔ انا آنکھوں میں خوف لیے رستم کو دیکھنے لگی جس پر شیطان سوار تھا
’’نہیں رستم ۔۔۔۔۔ تم ایسا نہیں کروں گے۔۔۔۔۔ رستم پلیز‘‘ انا بیڈ پر پیچھے ہوتے بولی
’’تم نہیں آپ۔۔۔۔۔ مجھے آپ بلاؤ‘‘ رستم بیڈ کی جانب بڑھتا سرد لہجے میں بولا
انا نے آس پاس نظر دوڑائی مگر اسے کچھ نظر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے رستم نے اسے پاؤں پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔۔۔ انا زور سے چلائی۔۔۔۔۔ جس کو رستم اپنے ہونٹوں سے دبا گیا۔۔۔۔۔۔ انا اسکی گرفت میں مچلتی رہی مگر رستم اس پر حاوی ہوگیا تھا
’’پلیز رستم پلیز نہیں۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دے پلیز۔۔۔۔۔۔ رستم نہیں کرے‘‘۔۔۔۔۔ انا کی چیخیں، اسکا رونا، اسکی آہیں، اسکی منتیں کچھ بھی کام نہیں آیا
’’آج ہم ایک ہوجائے گے پرنسز۔۔۔۔ اور پھر تم مجھ سے کبھی دور نہیں جا پاؤ گی‘‘ اسکے کان میں سرگوشی کرتا رستم اس پر مکمل طور پ قابض ہوگیا
پوری رات ولا میں انا کی چیخیں گونجتی رہی۔۔۔۔۔ سب لوگوں نے سنا۔۔۔۔ مگر کان بند کرلیے۔۔۔۔۔۔۔۔ نجانے پوری رات کتنی بار رستم نے اسکا استعمال کیا۔۔۔۔۔ اسکی عزت کو پامال کیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج رستم بہت خوش تھا، وہ خود کو مکمل محسوس کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ کسی اور کی زندگی برباد کرکے وہ اپنی زندگی مکمل کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔ جاگنگ سے واپس آکر وہ گنگناتا کمرے میں داخل ہوا تو اسکے ماتھے پر بل پڑگئے۔۔۔۔۔ وہ واشروم میں کپڑے چینج کرنے گیا تھا۔۔۔۔۔ اسے شاور لیکر کپڑے چینج کرنے میں گھنٹہ لگ گیا تھا۔۔۔۔۔ مگر جب واپس آیا اور بیڈ پر نظر گئی تو اب آنکھوں میں تشویش ابھری۔۔۔۔ وہ آرام دہ چال چلتا وہ بیڈ کی جانب بڑھا
’’پرنسز اٹھ جاؤ صبح ہوگئی۔۔۔‘‘ کھلی آنکھوں سے چھت کو گھورتی انا کا گال تھپتھپاتا وہ فکرمند لہجے میں بولا
انا کی آنکھوں میں نمکین پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا
بیڈ پر لیٹا وہ وجود اپنے اوپر بیتی داستان خاموشی سے سنا رہا تھا۔۔۔۔۔ اسکا چہرہ تھپڑوں کی وجہ سے لال ہوگیا تھا۔۔۔ جبکہ ہونٹوں پر خون اب جم چکا تھا۔۔۔۔ گردن پر موجود نیلے نشان اسکے ساتھ ہوئی زیادتی کا واضع اور پختہ ثبوت تھے کہ انا جعفری سب کچھ ہار چکی ہے۔۔۔۔۔ اپنا مان، عزت سب کچھ۔۔۔۔۔ کرب سے اس نے آنکھیں موند لی۔۔۔۔۔۔
’’پین ہورہا ہے کیا؟‘‘ اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر رستم نے پریشان کن لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔ انا نے بس اسے خالی نظروں سے گھورا جو اب اسکی گردن پر موجود زخموں کا معائنہ کررہا تھا
رستم نے جھک کر دھیرے سے اسکے ماتھے کو ہونٹوں سے چھوا تو یکدم انا کے وجود میں ہلچل مچی۔۔۔۔ ایک بار پھر سے اسکی چیخیں پورے ولا میں گونج اٹھی
’’پرنسز۔۔۔۔۔پرنسز کیا ہوا ہے؟ تم ٹھیک ہوں؟ پرنسز؟‘‘ رستم پریشان ہوا
وہ تو یوں تھا جیسے اسے معلوم ہی نہیں ہوں کہ اسنے کیا کیا ہے
’’دد۔۔۔۔دور رہوں مجھ سے۔۔۔۔۔ دور رہوں۔۔۔۔۔ دور رہوں مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔ دورررر رہوں‘‘ انا چیختی بیڈ سے اٹھی اور کمرے سے باہر کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھ کر رستم کو غصہ آگیا۔۔۔۔ وہ کس حلیے میں سب کے سامنے جارہی تھی
’’انا بےوقوف مت بنوں۔۔۔۔۔ واپس آؤ کہاں جارہی ہوں۔۔۔۔۔ کیوں اپنی عزت لٹانے پر تلی ہوں؟‘‘
انا تو اسے یہ بھی نہیں کہ سکی کہ اسکی عزت لٹ چکی ہے اور لٹیرا اسکے سامنے معصومیت کی چادر اوڑھے کھڑا ہے
’’آااا!!!‘‘ وہ بالوں میں مٹھی میں دبائے زور سے کھینچتی چلائی
’’تم نے مجھے برباد کردیا رستم شیخ۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔۔ ختم کردیا مجھے۔۔۔۔۔۔۔ میری عزت، میرا مان میرا وقار سب کچھ ختم کرڈالا تم نے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے زندہ درگور کردیا تم نے۔۔۔۔۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔۔۔ شدید نفرت۔۔۔۔۔ تم گھٹیا انسان ہوں رستم شیخ۔۔۔۔۔ تم تو مرد کہلانے کے بھی قابل نہیں‘‘ وہ بالوں کو مٹھی میں جکڑے اونچا اونچا چلانے لگی
اسکی حالت دیکھ کر ایک پل کو رستم کی آنکھوں میں تاسف کا عنصر ابھرا مگر صرف ایک لمحہ۔۔۔۔۔رستم کی آنکھیں دوبارہ سرد ہوچکی تھی
وہ جبڑے بھینچے انا کو دیکھنے لگا جو پاگلوں کی طرح خود کو نوچ رہی تھی اور آخر کار وہ بیہوش ہوکر زمین پر جاگری
رستم فورا س آگے بڑھا۔۔۔ اسے باہوں میں اٹھائے بیڈ پر لایا اور ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ اسکے نزدیک اسکا جرم کوئی اتنا بڑا نہیں تھا۔۔۔۔ وہ انا سے محبت کرتا تھا اس سے شادی کرنا چاہتا تھا تو کل رات جو بھی ہوا اس میں کچھ غلط نہیں تھا بلکہ وہ تو اسکا حق تھا
رستم نے انا کو ہوش دلانے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔۔۔ پانی کے چھینٹے مار کر بھی ہوش دلانا چاہا۔۔۔۔۔ جب اسے انا کا بیہوش ہونا عجیب لگا۔۔۔۔ اسنے فورا انا کی کلائی تھام کر نبض چیک کی جو بہت سلو تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکن بھی مدھم پڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم نے فورا بیشتر اسکا لباس بدلا اور باہوں میں اٹھائے اسے لیکر ولا سے باہر نکلا
’’بہادر خان!!‘‘ رستم نےاسے آواز دی جو سر جھکائے فورا اسکے سامنے آکھڑا ہوا
’’جلدی سے گاڑی نکالو ہمیں ہسپتال جانا ہے‘‘ رستم نے اسے آرڈر دیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ بہادر خان نے ڈروائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی
اس نے رستم سے وجہ نہیں مانگی تھی۔۔۔۔۔۔ وجہ وہ خود بھی جانتا تھا۔۔۔۔۔ اسنے بیک مرر سے رستم کو دیکھا جو پریشان سے انا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اسے اپنے مالک پر ترس آیا
’’فکر مت کرے ماسٹر ملکہ ٹھیک ہوجائے گی‘‘ بہادر خان نے جواب دیا۔۔۔ اسے ایک پل کو بھی انا پر ترس نہیں آیا۔۔۔۔ وہ واقعی اپنے مالک کا غلام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ابھی بھی صرف رستم کی فکر تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال آتے ہی انا کو ایمرجینسی میں لیجایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرز تو اسکی کنڈیشن دیکھتے ہی ماجرہ سمجھ گئے تھے اسی لیے یہ کیس فی میل ڈاکٹرز کو دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ انا کو بیچ میں ایک دو بار ہوش آیا تھا مگر اسنے پھر سے چیخنا چلانا شروع کردیا تھا۔۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھ کر وہاں موجود ہر ایک ڈاکٹر کے دل سے اس جانور کے لیے آہ نکلی تھی
’’مسٹر شیخ کیا آپ میرے کیبین میں آسکتے ہے؟‘‘ سینیر ڈاکٹر اسے دیکھتے بولی تو وہ سر ہلائے ان کے پیچھے چل دیا
’’بیٹھیے‘‘ کرسی کی جانب اشارہ کرتے وہ بولی
’’پیشینٹ آپکی کیا لگتی ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے تحمل سے بات شروع کی
’’شی از مائی فیانسی‘‘ رستم بےلچک لہجے میں بولا جو ڈاکٹر کو تھوڑا عجیب لگا
’’دیکھیے مسٹر شیخ آپ کی فیانسی کے ساتھ کئی بار زیادتی کی گئی ہے جس کی وجہ سے بلڈ لاس بھی بہت ہوا ہے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر رکی
’’اور؟‘‘ رستم کی آنکھوں میں ہلکی سی فکر تھی
’’اور شائد وہ کومہ میں چلی جائے‘‘ ڈاکٹر دھیمے لہجے میں بولی
’’کیا بکواس ہے یہ۔۔۔۔‘‘ کرسی سے اٹھتے رستم دھاڑا
’’دیکھیے مسٹر شیخ سکون سے میری بات سنیے۔۔۔۔۔ پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے۔۔۔۔ انکو گہرا دماغی دھچکا لگا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں انہیں کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔ اور اگر وہ یونہی رہی تو یا تو وہ اپنا دماغی توازن کھو دے گی یا پھر کومہ میں چلی جائے گی‘‘ ڈاکٹر اسکے غصے کو دیکھتی دھیرے دھیرے بولی
رستم کوئی جواب دیے بنا باہر نکل آیا۔۔۔۔۔۔ انا کو پرائیویٹ وارڈ میں شفٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ جہاں ایک ڈاکٹر اور دو نرسز اسکے لیے اپائینٹ کی گئی تھی۔۔۔۔۔ اور رستم کے حوالے سے تو اسے مزید ٹریٹمینٹ مل رہا تھا
پچھلے ایک ہفتے سے انا بےہوش تھی۔۔۔۔۔ اسے ہوش آتا تو وہ چیخنے چلانے لگ جاتی۔۔۔۔۔۔ رستم بھی ایک ہفتے سے اسکے پاس ہی تھا
’’کیا؟ کیا بکواس کررہے ہوں تم؟‘‘ فون پر وہ چلایا
’’نہیں میں نہیں آسکتا۔۔۔۔۔ دماغ خراب ہوگیا ہے تم لوگوں کا۔۔۔۔ ایک کام بھی میرے بغیر ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔۔۔۔ میں آج رات ہی آرہا ہوں اور تم لوگ تیار رہنا اپنی موت کے لیے‘‘ غصے سے پھنکارتے اسنے کال کاٹی
’’بہادر خان‘‘ وہ دھاڑا
انا جس کو ابھی ابھی ہوش آیا تھا رستم کی دھاڑ سن کر وہ دہل گئی۔۔۔۔۔ جب بہادر خان کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔
’’جی ماسٹر؟‘‘ موؤدب سے کھڑے بہادر خان نے سر جھکایا
’’میری اور اپنی آج ترات سنگاپور کی فلائیٹ بک کرواؤ‘‘ وہ بولتا انا کو دیکھنے لگا جسکا دماغ تو بیدار تھا مگر آنکھیں بند
’’مگر سر ملکہ؟‘‘ بہادر خان تشوتش سے بولا تو رستم نے اسے گھورا
’’اسکی فکر تم مت کروں میں ہوں۔۔۔۔ تم بس جاؤ اور ہماری سیکیورٹی کو الرٹ کردوں ۔۔۔۔۔۔ شائد ہمیں وہاں دو تین دن لگ جائے‘‘ رستم نے پلان بتایا۔۔۔۔ روم میں اس وقت صرف وہی تین تھے
ڈاکٹرز اور نرسز بہت کم انا کے روم میں آتی تھی۔۔۔۔۔۔ صرف تب جب اسے ڈرپ لگانی ہوں یا چیک اپ کرنا ہوں یا پھر جب انا کو دروا پڑتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ رستم ہر وقت سائے کی طرح اسکے ساتھ رہتا تھا
’’میں بہت جلد واپس آؤ گا پرنسز‘‘ اسکا ماتھا چومتے وہ بولا تو انا نے اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے روکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم سنگاپور جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔ انا کو یہی صحیح موقع لگا خود کا بچانے کا۔۔۔۔۔۔۔ رستم کے تعینات کیے گاڑز کی ڈیوٹی شام کے چار بجے چینج ہوتی تھی اور اس وقت انا کے روم کے باہر کوئی گارڈ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ صبح کی ڈیوٹی دیتے گارڈ چار بجے چلے جاتے جبکہ سام کی ڈیوٹی دیتے گارڈز تقریبا چار بج کر چھ یا سات منٹ پر وہاں پہنچتے۔۔۔۔۔۔ رستم کو گئے دس دن ہوچکے تھے۔۔۔۔۔ ان دس دنوں میں انا کوفی حد تک ریکور کرچکی تھی۔۔۔۔ مگر وہ خوف ابھی بھی اس میں باقی تھا۔۔۔۔۔ وہ یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی اور وہ سینیر ڈاکٹر کو بھی بتا چکی تھی رستم کے بارے میں اور ان سے مدد مانگی تھی جس پر وہ راضی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ آج اسکا ہسپتال میں گیارہواں دن تھا۔۔۔۔۔۔ وہ کب سے چار بجنے کا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ انا نے پہلے سے ہی ڈاکٹر کو اپنے گھر کا اڈریس دے دیا تھا۔۔۔۔ وہاں جاکراس ڈاکٹر نے انا کے سارے کاغذات اور پاسپورٹ وغیرہ اٹھا لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہی اس ڈاکٹر کو فریج پر ایک نوٹ بھی چپکا ملا تھا جو وہ ساتھ ہی لے آئی تھی
انا کی ٹکٹ لندن کی ٹکٹ کنفرم ہوچکی تھی۔۔۔۔ جس رات رستم نے اسکے ساتھ زبردستی کی تھی اسی شام زرقہ ارجنٹلی لندن چلی گئی تھی اپنے ماں باپ سے ملنے۔۔۔۔۔ اس نے فریج پر نوٹ چپکایا تھا جہاں اسنے اپنے جارے کے بارے میں انا کو بتایا تھا اور وہ نمبر بھی لکھ دیا تھا جو وہ وہاں جاکر یوز کرے گی۔۔۔۔۔۔ زرقہ نے نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ اس نے کئی بار انا کے نمبر پر کال کرنے کی کوشش کی مگر اسنے رسیو نہیں کی۔۔۔ انا کو یاد آیا کہ شام اسکا موبائل ڈیڈ تھا۔
چار بج چکے تھے۔۔۔۔۔ انا کے روم کے باہر کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ چہرے پر ماسک لگائے وہ اپنے روم سے نکلی اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہ ہسپتال کی لابی میں پہنچی۔۔۔۔۔۔۔ جہاں دوسری جانب سے دونوں گارڈز اسی کی طرف آرہے تھے۔۔۔۔۔ ماسک لگانے اور کپڑے چینج کرنے کی وجہ سے وہ اسے پہچان نہیں سکے تھے۔۔۔۔۔ انا نے بھی منہ دوسری جانب موڑ لیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں جب تک اسکے پاس سے گزر نہیں گئے تب تک انا درود کا ورد کرتی رہی۔۔۔۔۔ ان کے جاتے ہی وہ جلدی سے ہسپتال کی پچھلی سائڈ پر گئی۔۔۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ وہ لوگ سب سے پہلے روم کھول کر اسے دیکھے گے اور اگر وہ انہیں نا ملی تو فرنٹ پر موجود سیکیورٹی کو الرٹ کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ جبکہ بیک سے کوڑا وغیرہ نکالا جاتا تھا اسی لیے وہاں صرف ایک معذور گارڈ موجود تھا۔۔۔۔۔۔ گیٹ سے نکلتے ہی اس کی سپیڈ تیز ہوگئی۔۔۔۔وہاں موجود کیب رکوا کر وہ فورا اس میں بیٹھی اور ائیرپورٹ جانے کا کہاں ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی فلائیٹ پونے چھ کی تھی اور ابھی ٹائم ساڈھے چار سے اوپر ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے کیب کی سیٹ پر اپنی پشت ٹکا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کو سنگاپور میں دس گیارہ دن لگ گئے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ ڈرگز سمگل کرتا تھا مگر اس بار آرمی کی وجہ سے بہت سا مال نا تو پاکستان آپایا تھا اور نا ہی باہر جا پایا۔۔۔۔۔۔۔ سنگاپور میں موجود پارٹی سے کانٹریکٹ ختم کرنے کو کہا تھا انہیں بھی بہت لاس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے رستم وہاں معملات سیٹل کرنے گیا تھا اور اب ٹائم لگ گیا تھا۔۔۔۔ ایسا کوئی دن نہیں تھا جب اسے انا کی یاد نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ اب اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ انا کے ساتھ تھوڑا غلط کرگیا تھا
’’کوئی بات پرنسز میں کل آرہا ہوں نا منا لوں گا تمہیں‘‘ خود سے بات کرتے وہ مسکرایا
’’بھئی کسے منانا ہے؟‘‘ وجدان نے اسکے پاس آکر پوچھا
وجدان اور رستم بچپن کے دوستے تھے اور وجدان رستم کے ہر کام سے باخبر ہوتا تھا مگر اس بار جو معرکہ رستم نے مارا تھا اسکا علم تو وجدان کو بھی نہیں تھا
’’اپنی پرنسز کو۔۔۔۔ اپنی انا کو‘‘ رستم دھیما سا مسکرایا
’’یار۔۔۔۔۔ بس بھی کردے وہ لڑکی تجھے انکار کرچکی ہے تو بھی ایسا کر اسے بھول جا۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ ہم سنگاپور میں ہے۔۔۔۔۔۔ قسم لے لے ایک سے بڑھ کر ایک مال ہے یہاں پر۔۔۔۔۔ یہی کوئی دیکھ لے۔۔۔ مگر وہ تیری نہیں‘‘ وجدان وسکی پیتے بولا
’’مجھے صرف میری پرنسز چاہیے۔۔۔۔۔ اور تمہیں کس نے کہہ دیا وہ میری نہیں۔۔۔۔ وہ میری ہے وجدان میں اسے اپنا بنا چکا ہوں۔۔۔۔ اس پر اپنے نام اور محبت دونوں کی چھاپ چھوڑ چکا ہوں میں‘‘ وہ جنونی لہجے میں بولا تو وجدان کا ہاتھ کانپا
’’رستم!! تم نے کیا کیا ہے اس کے ساتھ؟‘‘ وجدان کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔۔۔۔ جبکہ رستم پرسکون سا مسکراہ دیا
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا اسکا موبائل بجا۔۔۔۔۔۔ نمبر پاکستان کا تھا۔۔۔۔۔۔ اور اسکے گارڈ کا تھا جسے اس نے انا کی حفاظت کے لیے تعینات کیا تھا
حفاظت اور انا کی اچھا مذاق تھا۔۔۔۔۔۔ رستم شیخ یہ بھول چکا تھا کہ انا کو اس سے محفوظ رہنے کی ضرورت ہے کسی اور سے نہیں
’’ہیلو؟‘‘ رستم نے اچھنبے سے کال اٹھائی
’’یو باسٹرڈز۔۔۔۔‘‘ زور سے وائن کا گلاس زمین پر مارتے وہ بولا
’’تو تم کہاں مر گئے تھے۔۔۔۔۔ میں کل صبح تک پہنچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں نے انا کو نہیں ڈھونڈا تو تیار رہنا قبروں میں اترنے کے لیے‘‘ رستم نے کال کاٹی اور بہادر خان کو فون کیا
’’بہادرآج کی ٹکٹ کرواؤں پاکستان کی۔۔۔۔۔ نہیں خیریت نہیں ہے انا ہسپتال سے غائب ہے مجھے فوری طور پر پہنچنا ہے‘‘ رستم نے بہادر خان کو بتایا تو وجدان کا ماتھا ٹھنکا
’’انا ہسپتال؟‘‘ وجدان خود سے بولا
’’رستم ۔۔۔۔۔ رستم‘‘ وجدان نے اسے بلایا جو موبائل پر لگا تھا
’’ایک منٹ‘‘ اسے روکتا وہ بہادر کی آئی کال سننے لگا
’’کیا فلائیٹ مل گئی؟ کب کی اچھا گھنٹے بعد کی ٹھیک ہے تم پیکینگ کروں میں ہوٹل آرہا ہوں‘‘ رستم نے اسے جواب دیا اور موبائل رکھا
’’رستم انا ہسپتال میں کیا کررہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ڈونٹ یو ڈئیر ٹو سے می کہ تم نے اسے کوئی نقصان پہنچایا ہے‘‘ وجدان اسکا بازو غصے سے پکڑتا بولا
’’وہ میری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں اسکے ساتھ جو بھی کروں یہ میرا مسئلہ ہے اور تم اس سے دور رہوں نہیں تو جان نکال دوں گا‘‘ رستم اسے سرخ آنکھوں سے وارن کرتے بولا اور ایک جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کرواتا وہاں سے نکل گیا
وجدان نے فورا سے غازان اور کاشان کو صورتحال کا کال کے ذریعے بتایا اسنے خود بھی پاکستان کی ٹکٹ بک کروا لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن پہنچتے ہی اس نے کیب کروائی اور زرقہ کے گھر کا اڈریس دیا وہ جانتی تھی زرقہ نے بتایا تھا کہ اب اسے اڈریس رٹ چکا تھا۔۔۔۔۔۔ کیب اپنی منزل پر آکر رک گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انا کرایہ ادا کرتی کیب سے باہر نکلی تو اسکی آنکھوں میں حیرت در آئی یہ گھر نہیں کوئی محل تھا۔۔۔۔۔۔۔ گیٹ پر موجود گارڈز کو اپنی شناخت بتاتی وہ اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی زرقہ بڑی سی سمائل لیے اسکا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انا نے اسے دیکھا تو آنکھوں میں پھر سے ننھے موتی جگمگا اٹھے اور پھر اچانک ہی اندھیرا چھا گیا
’’انااااا!!!!!‘‘ اسکے زمین پر گرتے وجود کو دیکھ کر زرقہ چلائی اور تیزی سے اسکی جانب بھاگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...