’’تو کیا تم ساتھ چلو گی؟‘‘ اس نے الٹا اسی سے سوال کر دیا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’گھر میں اس وقت کوئی نہیں۔ دادی اماں تنہا ہیں۔ آپ کچھ دیر رک جائیے سب آ جائیں گے تو پھر چلی جائیے گا۔‘‘ وجیہ کا ارادہ اسے سمجھانے کا تھا۔ وہ نفی میں سر ہلا کر باہر نکل آئی۔ وجیہ اس کے پیچھے گیٹ تک آئی تھی۔ ہر ممکن طریقے سے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ راضی ہی نہیں ہو رہی تھی۔
’’آپ اس وقت جائیں گی کس پر ۔ گاڑی تو واصق بھیا لے گئے ہیں۔‘‘ اس نے اسے منانے کو آخری حربہ استعمال کیا۔
’’اس کوئٹہ جیسے بڑے شہر میں ٹیکسیوں کا کال نہیں ہے۔ بڑی امی آئیں تو انہیں بتا دینا۔ میں بھیا کے ہاں ہوں۔‘‘ دو ٹوک انداز میں جواب دے کر وہ گیٹ عبور کر آئی۔
یہ شہر تو نہیں البتہ یہ علاقہ اس کے لئے بالکل ہی انجان تھا اس کے باوجود اس نے رسک لے لیا تھا۔ بس اسٹینڈ پر کافی وقت کھڑے ہو کر انتظار کرنے کے باوجود کوئی ٹیکسی نہ ملی تو اس نے دور سے آتے بند رکشے کو ہاتھ دے دیا۔ اسے آج ہر حال میں اپنے گھر جانا تھا۔ ایسی ضد پہلی دفعہ اس کے اندر پیدا ہوئی تھی کہ وہ نتائج کی پروا کئے بغیر چلی آئی تھی۔ وہ سارا راستہ واصق کے روّیے پر کڑھتی رہی۔ رکشے نے بھی خاصی دیر لگا دی تھی۔ خوا مخواہ میٹر بڑھانے کے چکر میں تھا۔
اللہ اللہ کر کے وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی بھابی بے چینی سے کاریڈور میں ٹہلتی مل گئی تھیں اسے دیکھتے ہی بھاگی ہوئی قریب آئیں۔
’’السلام علیکم بھابی۔‘‘ انہیں دیکھ کر وہ بے پناہ خوش ہو گئی تھی۔ فوراً سلام کیا اور گلے سے لپٹ گئی مگر انہوں نے اسے خود سے جدا کر دیا۔
’’کس کے ساتھ آئی ہو؟‘‘ بہت غصیلہ انداز تھا پوچھنے کا ۔ وہ چونکی۔
’’اکیلی۔‘‘
’’میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں تمہیں کھینچ کر طمانچہ رسید کروں۔ جانتی ہو پورے دو گھنٹے پہلے تم گھر سے نکلی تھیں اور اب آ رہی ہو۔ اب تک تمہاری ساس کے کوئی دس فون آ چکے ہیں۔ایک دفعہ واصق خود بھی چکر لگا گیا ہے۔ سارا گھر پریشان ہو رہا ہے تمہارے لئے ۔ کچھ تو خیال کر لیا ہوتا۔ کتنی انسلٹ ہوئی ہے تمہاری وجہ سے۔ ایسی کونسی مصیبت آ گئی تھی جو یوں تمہارا منہ اٹھائے چلے آنا بہت لازمی تھا۔‘‘ غصے سے انہوں نے اسے اچھی خاصی سنا ڈالیں۔ وہ جو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی ایک دم رو پڑی۔
’’سب ڈانٹ لیں مجھے ۔ میں ہی بری ہوں۔ اب میں اپنے گھر بھی نہیں آ سکتی۔‘‘
’’اپنے گھر آنے ملنے ملانے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ونیزے! ساس شوہر کوئی گھر پر نہیں، کسی سے اجازت نہیں لی، کچھ بتایا نہیں اور چلی آئیں تم ، کچھ تو خیال کیا ہوتا ، تمہارے اس فعل پر انہوں نے کیا سوچا ہو گا۔‘‘
’’ایسا کون سا گناہ کر لیا ہے میں نے ۔ صرف اپنے گھر ہی تو آئی ہوں۔ میں اب قیدیوں کی سی زندگی نہیں گزار سکتی ۔ کہا بھی تھا نہیں کرنی مجھے شادی، ترس گئی ہوں اپنے گھر کو، لوگوں کے گھر رہتے ہوئے اب شرم آتی ہے۔‘‘
’ونیزے…..‘‘ بھابی نے دکھ سے دیکھا۔ ’’تم کسی غیر کے گھر میں تو نہیں ہو۔ اپنے سسرال میں ہو، شوہر کے گھر میں۔‘‘
’’ہوتا ہو گا…..مجھے نہیں پتا ۔‘‘ اس نے ایک دم سر جھٹکا۔ ’’ میں اس لئے تو شادی پر راضی نہیں ہوئی تھی کہ اب بھی اپنے گھر میں آنا نصیب نہ ہو۔‘‘
’’ونیزے ! میری جان ، میری بہن، تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں۔ وہ محبوب رحمانی کیسا زخمی شیر بنا ہوا ہے، روز دھمکیاں دیتا ہے کہ ہم نے تمہاری شادی کر کے اچھا نہیں کیا۔ اپنے بھائی کی ہی حالت دیکھو۔‘‘ انہوں نے مصالحتاً انداز میں سمجھانا چاہا کچھ بات اس کی عقل میں آئی تھی تو چپ رہی۔
’’بھیا کہاں ہیں؟‘‘
’’اپنے کمرے میں۔‘‘ وہ خاموشی سے ان کے پاس آ گئی۔ وہ سوئے ہوئے تھے انہیں بغیر ڈسٹرب کئے وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ لائونج میں آئی تو وہ فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں۔ اسے بھی اشارے سے پاس بلایا۔
’’تمہاری ساس ہیں۔‘‘ انہوں نے اس کی سوالیہ نظروں کا جواب دیتے اسے ریسیور تھمایا۔
’’ہیلو۔‘‘
’’ونیزے !میری بیٹی ! ٹھیک ہونا ۔ بھلا یہ کیا حرکت تھی؟‘‘ انہوں نے اس کی آواز پہچان کر فوراً کہا۔
’’میں ٹھیک ہوں آنٹی!کتنی دفعہ تو میں نے یہاں آنے کو کہا تھا مگر آپ بھی تو۔‘‘
’’ہم بھی تو تمہارے بھلے کے لئے منع کر رہے تھے۔ اب تم گھر سے مت نکلنا میں واصق کو بھیج رہی ہوں اس کے ساتھ فوراً گھر آئو۔‘‘ انہوں نے فوراً حکم سنایا تو وہ سٹپٹا گئی۔
’’مگر آنٹی….‘‘
دوسری طرف سے انہوں نے بغیر کوئی بات سنے فون رکھ دیا تھا۔ اس نے بھی ریسیور پٹخا۔
’’میں کہیں نہیں جائوں گی۔ جو بھی آئے بتا دیجئے گا اسے۔‘‘ بھابی سے کہتے، پائوں پٹختے وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’بری بات ونیزے ! تم تو بہت اچھی لڑکی ہو ، کبھی ضد نہیں کی۔ اب ایسی حرکتیں کیوں کر رہی ہو۔ ابھی تو صرف تمہاری شادی کو دس دن ہی ہوئے ہیں اور تم یوں منہ اٹھائے بغیر کسی سے اجازت لئے یہاں چلی آئیں۔‘ انہوں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے کہا۔ وہ رو پڑی۔
’’میں کیا کروں ، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ تا۔ صرف میری وجہ سے بھیا زخمی ہو گئے۔ واصق کو بھی صرف میری وجہ سے شادی پر راضی ہونا پڑا تھا۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے میں سب پر بوجھ ہوں۔‘‘
’’نہیں میری جان کیوں سوچتی ہو تم ایسے۔ تم تو ہم سب کی جان ہو۔ واصق نے کچھ کہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے بہت ہی پیار سے اس کے اشک صاف کرتے ساتھ لگاتے پوچھا تو بے اختیار اس کا سر نفی میں ہل گیا۔ دل تو چاہ رہا تھا بھابی کو سب کہہ سنائے ۔ اسے کسی ہمدرد، ہم راز کی اشد ضرورت تھی مگر وہ پھر بھی نفی کر گئی۔
’’واصق بہت ہی اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ ہم نے بہت ہی دیکھ بھال کر اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے۔ تم جس طرح کی سیدھی سادی اور بے وقوف ہو اس کے لئے واصق جیسے شوہر ہی سوٹ کرتا ہے ۔ بہت چھان پھٹک کر ہم نے یہ شخص ڈھونڈا ہے۔ بہت ہی ذہین ہے۔ تمہیں پتا ہے وہ خود ہی محبوب رحمانی کو اس کے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ اپنے خفیہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اس کے اگلے پچھلے سارے کالے کرتوت کھول رہا ہے۔ دیکھنا صرف چند دن کی بات ہے پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا انشا اللہ۔ پھر تم جب چاہے ، جس وقت چاہے روز آنا مگر ابھی جب حالات نارمل نہیں ہیںخود پر تمہیں کنٹرول کرنا ہو گا۔ ہم تو صرف اس لئے منع کر رہے ہیں کہ تمہاری شادی اور اپنے تمام راز کھل جانے کے خوف نے اسے بہت نڈر کر دیا ہے کسی بھی وقت وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اسی لئے احتیاط لازمی ہے۔ ‘‘ بھابی نے اسے بہت اپنائیت و رسانیت سے سمجھایا تو اس نے سر ہلا دیا۔
یہ واصق کیوں بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ۔‘‘ ان کی یہ بات اس کے پلّے نہیں پڑی تھی۔
’’نری سیدھی ہو تم ۔ بھئی وہ اس گھر کا داما د ہے ۔ اب ہم سب کے دکھ سکھ سانجھے ہیں پھر وہ خفیہ انٹیلی جنس میں ہے تو کیا اس کے اس عہدے کا ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ بھابی نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو وہ نا سمجھی میں دیکھے گئی۔
’’انٹیلی جنس میں۔‘ ‘ یہ خبر اس کے لئے بالکل نئی تھی۔ اس نے تو کبھی نظر اٹھا کر واصق کو خاص انداز سے دیکھا بھی نہیں تھا کجا کہ اس کے متعلق معلومات اکٹھی کرتی۔ جس طرح اچانک بہ حالت مجبوری وہ اس کی زندگی میں داخل ہوا تھا اسی طرح وہ ابھی تک اس بات سے بھی بے خبر تھی کہ وہ کیا کرتا ہے؟ کہاں جاتا ہے؟ کیوں جاتا ہے؟ اگر رات کو دیر سے لوٹتا ہے تو کیوں لوٹتا ہے؟
’’ہاں بھئی انٹیلی جنس میں۔ کیا تمہیںنہیں علم ۔ ‘ ‘ اب بھابی نے حیرت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ’’ارے تم تو واقعی بدھو ہو۔‘‘ اس کے نفی میں سر ہلانے سے بھابی نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ اس خطاب پر خفا بھی نہ ہو سکی۔
’’وہ کوئی عام نہیں، اسپیشل انٹیلی جنس کا آفیسر ہے۔ انڈر گرائونڈ لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اب تک تو وہ کتنے اہم کیسز سر انجام دے چکا ہے۔ پچھلے ہی ماہ وہ پشاور سائیڈ میں ایک بہت بڑے مافیا گروپ کو پکڑوا کر آیا ہے چونکہ اسے کسی نئے کیس کے لئے آرام دینے کے لیے دو ماہ کی چھٹی دی گئی تھی اسی لئے وہ آج کل محبوب رحمانی پر کام کر رہا ہے۔‘‘ بھابی نے کافی تفصیل سے بتایا تو اس کا جی چاہا اپنی عقل پر ماتم کرے۔ وہ اتنے عرصے سے بے خبر تھی اور کسی نے اسے کسی بات کی بھنک بھی تو نہیں پڑنے دی تھی۔
بعد میں بھابی اس سے واصق کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔ واصق اسے لینے آیا تو بھابی نے اسے بھیا کی طرف سے مطمئن کرتے رخصت کیا۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے وہ اندر کے بجائے باہر کے نظاروں میں غرق رہی۔
’’جب میں نے آپ کو منع کر دیا تھا کہ فی الحال میں آپ کو یہاں نہیں لا سکتا تو یہ حماقت سر انجام دینے کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘واصق بہت دیر تک اپنا غصہ کنٹرول کرتا رہا تھا۔ مگر اس کی یوں بے توجہی اور باہر کے نظاروں میں دلچسپی دیکھ کر کہے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
’’میرا دل چاہ رہا تھا بھیا بھابی سے ملنے کو ، اپنا گھر دیکھنے کو، آپ کون سا میری بات مان رہے تھے۔ ‘‘ بہت ہی معصوم اور سادے انداز میں اس نے جواب دیا تھا۔ واصق کا جی چاہا کس چیز سے گاڑی دے مارے ، یعنی ’’اندھے کے آگے رونا، اپنے نین کھونا‘‘ والی مثل فٹ آ رہی تھی
’’میرا دل چاہ رہا تھا بھیا بھابی سے ملنے کو ، اپنا گھر دیکھنے کو، آپ کون سا میری بات مان رہے تھے۔ ‘‘ بہت ہی معصوم اور سادے انداز میں اس نے جواب دیا تھا۔ واصق کا جی چاہا کس چیز سے گاڑی دے مارے ، یعنی ’’اندھے کے آگے رونا، اپنے نین کھونا‘‘ والی مثل فٹ آ رہی تھی۔
وہ جویریہ کو چھوڑ کر امی اور چچی کے ہمراہ گھر لوٹا تو وجیہ سے علم ہوا کہ وہ تنہا ہی اپنے گھر جانے کو نکل گئی ہے۔ وہ بے انتہا پریشان ہو گیا تھا۔ بے حد اسپیڈ سے گاڑی دوڑاتے وہ وہاں پہنچا تھا مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ اسی پریشانی میں وہ واپس گھر لوٹا تھا شاید گھر واپس چلی گئی ہو۔ پچھلے تین گھنٹوں سے وہ کس قدر پریشان ہوا تھا یہ وہی جانتا تھا۔
’’بہت ہی ناشائستہ حرکت تھی یہ۔ کم از کم اپنی حیثیت کے متعلق ہی سوچ لیا ہوتا۔‘‘
’’میں اپنی حیثیت اچھی طرح جانتی ہوں۔‘‘ حیثیت کے لفظ نے ونیزے کے اندر مرچیں سی بھر دی تھیں۔ ’’آپ نے یہی تو کہا تھا، میں بہت ہی عام سی لڑکی ہوں ، عام سی سوچ والی، عام سی ذہنیت کی حامل ایک سطحی لڑکی تو پھر کس حیثیت کی بات کرتے ہیں آپ جبکہ میں تو پہلی نظر سے لے کر اب تک کچھ بھی نہیں جان پائی۔ یہ تک نہیں کہ آپ جاب کیا کرتے ہیں۔ اگر آج بھابی نہ بتاتیں۔‘‘ بہت ہی سنجیدگی سے کہتے اس نے دوبارہ چہرے کا رخ باہر کی طرف کر لیا۔ کہنا تو وہ اور بھی بہت کچھ چاہتی تھی با تیں تو اور بھی بہت تھیں جو دل و دماغ کو الجھائے ہوئے تھیں خاص طور پر روشانے والی گرہ جس نے دل کے ساتھ ساتھ دماغ کے بھی دروازے بند کر دئیے تھے۔ وہ کہنا بھی چاہتی تھی ، سب کچھ کلیئر کرنا چاہتی تھی مگر اس کی خود داری وانا نے اسے روک دیا تھا۔
X X X
عصر کی نماز کے بعد وہ نہا کر اوپر ٹیرس پر آ گئی ۔ الجھے بالوں کو برش سے سلجھاتے وہ ادھر سے اُدھر ٹہلتی رہی۔ پھر تھک کر کرسی پر بیٹھ کر یونہی ورد کرنے لگی۔ دادی اماں عصر کی نماز کے بعد اپنا زیادہ تر وقت جائے نماز پر وظیفے کرتے اور قرآن پڑھتے گزار دیتی تھیں۔ جب سے رمضان شروع ہوا تھا ان کی عبادت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا ۔ ان کی دیکھا دیکھی اکثر اس کی زبان پر بھی کوئی نہ کوئی ورد جاری رہتا تھا۔ اسے ورد کرتے کافی وقت گزر گیا تو مغرب سے کچھ پندرہ منٹ پہلے وہ نیچے اتر آئی۔ ارادہ کمرے میں جانے کا تھا کہ راستے میں پڑے فون کی بیل بج اٹھی۔ اپنے کمرے میں جانے کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر فون اٹینڈ کیا۔
’’ہیلو۔‘‘ بالوں میں انگلیاں پھیرتے اس نے ریسیور کان سے لگایا۔
’’یہ واصق جہانگیر احمد کا گھر ہے نا۔‘‘ دوسری طرف سے پوچھا گیا تھا۔ وہ قدرے چونک کر پوری جان سے متوجہ ہوئی۔
’’آپ کے لئے ایک بری خبر ہے۔ ان کا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ آخری خبر ہے کہ ان کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔‘‘
اطلاع دینے والا جو کوئی بھی تھا اس نے اس کے حواسوں پر گویا بم پھوڑا تھا۔
’’واٹ؟‘‘ وہ بے اختیار چیخ اٹھی۔ ریسیور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔ ’’نہیں۔‘‘ اسے اپنے ہونٹوں پر سختی سے ہاتھ جماتے ہوئے اس نے اپنی بلند ہوتی چیخوں کو روکنا چاہا۔ مگر آواز اس کے اعصاب کو منتشر کرتی جا رہی تھی۔
’’کار ایکسیڈنٹ ۔‘‘ اس نے نفی میں بری طرح سر ہلایا۔ ’’واصق کی ڈیتھ۔‘‘ وہ قالین پر گھٹنوں کے بل گری اور سر زمین پر ٹیک گئی۔
’’آنٹی …..‘‘ ضبط کھوتے ہی وہ بے اختیار چیخیں مارے گئی۔ اس کی دلدوز چیخیں سن کر سب کے سب بھاگے آئے تھے۔ افطاری سے صرف پندرہ منٹ پہلے کا وقت تھا سب ہی گھر پر تھے۔
’’ونیزے …..کیا ہوا ۔ میری جان؟‘‘ سب سے آگے امی تھیں اسے یوں گھٹنوں کے بل اوندھے منہ گرے دیکھ کر انہوں نے جھنجوڑ ڈالا۔ شاک کی سی کیفیت میں ونیزے نے اپنا سر اٹھایا۔ بے یقینی سے امی کو دیکھا۔
’’آنٹی…..وہ…..‘‘ فون کی طرف اشارہ کرتے وہ بول نہیں پائی تھی ۔ سب نے فون کی طرف دیکھا۔ ریسیور نیچے لٹک رہا تھا۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
’’آنٹی ! فون …..واصق‘ ‘ اس کے نیلے ساکن ہونٹ پھڑ پھڑائے اور پھر ساکت ہو گئے ۔ وہ بے ہوش ہو کر امی کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔
X X X
وہ صبح نو بجے گھر سے نکلا تھا۔ سب ضروری معلومات اکٹھے کرتے رپورٹس کرتے کرواتے مختلف لوگوں سے ملتے جلتے اس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ۔ عصر سے کچھ پہلے وہ ایس ایس پی قیوم ثقلین کے دفتر میں آ گیا۔ ساری معلومات اسے مہیا کرتے ، اسے بریفنگ دیتے ، کچھ وقت وہاں لگ گیا تھا۔ قیوم ثقلین کے آفس سے باہر آ کر اس نے ایک سکون بھری سانس لی۔ گویا سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ اب اس کا ارادہ گھر جانے کا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ موبائل پر امجد بھیا کی کال آ گئی۔ انہوں نے اسے اپنے آفس بلوایا تھا ۔ اس نے وقت دیکھا ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ابھی افطاری میں میں کافی وقت تھا وہ بغیر تاخیر کئے ادھرآ گیا۔
’’امجد صاحب اندر ہیں۔‘‘ آفس میں ایک دم داخل ہونے کے بجائے اس نے سیکرٹری سے پوچھا تو اس نے سر ہلا دیا۔ وہ تھینکس کہتا اندر داخل ہو گیا۔ امجد بھائی کے پاس محبوب رحمانی بیٹھا ہوا تھا۔ شاید کوئی بات ہو رہی تھی۔ وہ امجد بھیا کو سلام کرتا آہستگی سے کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا۔ خاموشی سے امجد اور محبوب رحمانی کی باتیں سنتا رہا۔ دونوں ہی غصے میں تھے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو برے نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
’’میرا خیال ہے محبوب رحمانی صاحب آپ کو جو بھی صفائیاں پیش کرنی ہیں وہ کورٹ میں جا کر دیں ۔ اب وہ پہلے والی صورتحال نہیں رہی کہ آپ کے اثر و رسوخ کے آگے ہم چپ ہو جائیںگے۔جس کا یہ نوٹس آپ کو آ ج ملا ہے، اس طرح کا ایک اور نوٹس کل خود چل کر آپ کے پاس آئے گا۔ براہ مہربانی اب آپ جا سکتے ہیں جو کچھ بھی کہنا ہے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں کہیے گا۔ پلیز۔‘‘ وہ کافی دیر سے سنتا رہا تھا ۔ جب اس نے ونیزے کا نام لیا تھا تو وہ مزید برداشت نہیں کر سکا تھا۔ ایکدم اسے ٹوک گیا۔ وہ اسے دیکھنے لگا۔
’’تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملے میں بولنے والے۔‘‘ غصے سے پوچھا۔
’’مجھے واصق جہانگیر احمد کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ نے پہچان لیا ہے۔ ونیزے میری بیوی ہیں ان کے متعلق کچھ بھی کہنے یا غلط سوچ بھی ذہن میں لانے کی کوشش کی تو بھی آپ کے لئے خطرناک ثابت ہو گی۔ آپ کے پاس میری بیوی کے متعلق انکل جواد حسن کی جو بھی وصیت ہے وہ کورٹ میں پیش کیجئے گا۔ اس کے غلط ہونے کو ہم ثابت کریں گے اور اب آپ دیکھ کیا رہے ہیں یہاں سے چلے جائیں۔ اولاً تو آپ کو یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، اگر اتنی جرأت کر لی ہے تو حد میں رہیے ورنہ میری ایک کال کرنے کی دیر ہے اور آپ کے وارنٹ جاری ہو جائیں گے۔‘‘ بہت ہی ٹھوس ، ٹھہرے لہجے میں خاص تحکم تھا ۔ وہ محبوب رحمانی تو کچھ بول ہی نہ سکا۔ ایک دم باہر جانے کو مڑا، دروازے کے قریب رک کر اس نے واصق کو گھورا۔
’’دیکھ لوں گا میں تجھے بھی۔ میں بھی کوئی عام آدمی نہیں ہوں۔ فی الحال ایک پانسہ تمہارے نام سہی۔ فیصلہ میرے ہی حق میں ہوگا۔ دیکھ لینا۔ یہ ففٹی پرسنٹ شیئرز کسی بھی قیمت پر بھی تم لوگوں کے حق میں نہیں دوں گا۔ ایسا مز ا چکھائوں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے۔ ‘‘ دھمکی دیتے ہی وہ باہر نکل گیا تھا۔
واصق سر جھاڑتے امجد بھائی کو مطمئن کرنے لگا۔
’’کچھ نہیں کرے گا یہ شخص ۔ آپ پلیز ریلیکس ہو جائیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ انہوں نے سر ہلایا۔
’’میں آج سب قانونی کاروائی مکمل کر آیا ہوں۔ ایس ایس پی قیوم ثقلین سے بھی مل چکا ہوں۔ انشااللہ وہ کل صبح تک گرفتار ہو جائے گا۔ اینڈڈونٹ وری۔‘‘
’’تھینک یو سو مچ واصق۔ رئیلی آئی ایم ویر ی گریٹ فل ٹو یو۔‘‘ نہایت تشکر بھری آواز میں انہوں نے کہا تو وہ ہنس دیا۔
’’اوکے…..یہ میرا فرض تھا۔ یقینا آپ بھی قبول کریں گے۔‘‘
’’بیٹھو۔‘‘ اس کے برجستہ جملے پر وہ مسکرا دیئے پھر کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں امجد بھائی، میں صبح سے گھر سے نکلا ہوا ہوں۔ اب چلوں گا۔ کافی دیر ہو گئی ہے گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
واصق ان سے اجازت لے کر آفس سے نکل آیا۔
آہستہ روی سے گاڑی چلاتے وہ آئندہ پیش آنے والی صورتحال کی پلاننگ کرنے لگا تھا ۔ راستے میں پھولوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کی نظر بلا ارادہ پھولوں کے ہار اور گجروں پر ٹھہر گئی۔ ذہن میں چاندنی سا بھرا ونیزے کا خوبصورت سراپا در آیا۔ شادی کی رات اسے کنگن پہناتے ہوئے اس نے اس کی کلائیوں میں سجے گجرے تھے جو بھینی بھینی مہک دیتے ونیزے کے لئے ڈھیر سارے گجرے خریدنے کو خود بخود دل چاہا۔ اس سمے وہ یہ بالکل نہیں سوچنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے کس حد تک برگشتہ ہے۔ بس دل کہہ رہا تھا کہ اس کے لئے ڈھیر سارے پھول گجرے خریدے۔
وہ ایک گاڑی پارک کر کے دوسری طرف کی سڑک کے سرے پر واقع دکان کے اندر چلا گیا۔ اپنی پسند کے پھول، گجرے اور موتیوں کے ہار لے کر وہ باہر نکل آیا ۔ اسے سڑک پار کر کے دوسری طرف کی سڑک کی سائیڈ پر پارک کی گئی کار کی طرف جانا تھا۔ سڑک پر کافی رش تھا۔ وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے سڑک پار کرنے لگا۔ اتنی احتیاط کے باوجود ایک گاڑی بہت اسپیڈ سے اس کی طرف بڑھتی آ رہی تھی ۔ اس نے بھاگ کر خود کو گاڑی کی پہنچ سے دور ہونے کی کوشش کی تھی مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ گاڑی اسے بری طرح اچھالتی زن سے آگے بڑھ گئی۔ شاپنگ بیگ سے پھولوں کا گلدستہ ، گجرے اور موتیوں کے ہار نکل کر ارد گرد سڑک پر بکھر گئے تھے۔
’’ونیزے ! کیسی ہے اب ؟‘‘ امجد بھائی فون سنتے ہی پہنچ گئے تھے۔ ساتھ میں صبیحہ بھابی بھی تھیں۔ دونوں ہی آدھ گھنٹہ پہلے ہونے والے فون پر بھاگے چلے آئے تھے۔
’’ڈاکٹر چیک کر کے گیا ہے۔ کہتا ہے ، کوئی شاک پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہ بے ہوش ہو گئی ہیں۔ انجیکشن لگا گیا ہے شاید گھنٹے کے اندر ہوش میں آ جائے۔ ‘‘ شہروز نے بتایا ۔ بے ہوش بستر پر لیٹی ونیزے کو دیکھتے سب ہی پریشان تھے۔
’’واصق کو کئی دفعہ فون کیا ہے مگر اس کا سیل کوئی رسپانس ہی نہیں دے رہا۔ بیل جا رہی ہے اور وہ ریسیو ہی نہیں کرتا۔‘ ‘ چچی جان نے بھی بتایا سب کے چہرے کسی ان ہونی کے خوف سے اترے ہوئے تھے۔
’’انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ فکر مت کریں۔‘‘ ونیزے کا ہاتھ تھام کر اسے ایک نظر دیکھ کر بھابی نے بھی تسلی دی۔
’’افطاری سے کوئی پچاس منٹ پہلے وہ میرے پاس تھا۔ پھر جلدی گھر جانے کا کہہ کر نکل آیا تھا۔ حیرت ہو رہی ہے وہ چلا کہاں گیا ہے۔ وہ بھی بغیر انفارم کئے۔‘‘ بھیا بھی متفکر تھے۔
ابھی وہ سب بیٹھے آنے والی گمنام کال پر ہی گفتگو کر رہے تھے کہ خرم بھاگا آیا۔
’’امی! وہ واصق بھیا آ گئے ہیں۔‘‘ آتے ہی اس نے حواس باختگی سے بتایا گویا سب کو نئی زندگی ملی تھی۔ سب سب ہی تیزی سے باہر بھاگے تھے۔
واصق سامنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ۔ امی ، دادی کی تو اسے دیکھتے ہی چیخیں نکل گئیں ۔
’’واصق۔‘‘ امی تڑپ کر آگے بڑھیں۔ ایکدم اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا۔’’یہ…..یہ کیا ہوا واصق ؟‘‘ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ گلے میں بھی رسی لٹک رہی تھی جس میں واصق کا بازو تھا ۔ ہاتھ بھی زخمی تھا۔ شرٹ بری طرح خون سے رنگی اور پھٹی ہوئی تھی۔ چہرے، ہاتھوں گردن پر جا بجا خون جما ہوا تھا۔
’’بس ایک ہلکا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ شکر کریں ، وہ تو میری نظر پڑ گئی تھی کار پر ۔ پائوں فوراً آگے بڑھا لیا۔ ورنہ کار نے تو اچھا خاصا اچھال کر پھینکا تھا۔ شاید زندگی تھی جو دوسری طرف سڑک پر کھڑی پھلوں کی ریڑھی پر جا گرا تھا اور بچت ہو گئی ۔ ورنہ…..‘‘ بات ادھوری چھوڑ کر وہ ہنس پڑا تھا۔ دادی اماں نے بے اختیار اسے ساتھ چمٹا لیا۔ کتنے حوصلے کا وہ مظاہرہ کر رہا تھا۔
’’میرا تو دل ہول رہا تھا۔ دو گھنٹے پہلے ایک فون آیا تھا۔ ونیزے نے ہی ریسیو کیا تھا۔ پتا نہیں کس کا تھا؟ کیا کہا تھا؟ ونیزے تو ابھی تک بے ہوش پڑی ہے۔‘‘ امی نے بتایا ۔
’’کیا …..ٹھیک تو ہے وہ ؟‘‘ بے اختیار اپنا درد بھلائے ان سے پوچھا۔
’’ہاں…..تھوڑی دیر تک ہوش میں آ جائے گی۔‘‘ اس نے سکون بھرا سانس لیا۔
امی گیلے تولئے سے اس کے چہرے گردن اور بازوئوںپر موجود خون کے دھبے صاف کرنے لگی تھیں۔ اسے پھولوں کا یاد آ گیا۔ پہلی دفعہ خود سے اس کا دل کوئی چیز لانے کو چاہا تھا مگر …..واصق کو بہت افسوس ہونے لگا مگر وہ فون کس نے کیا تھا۔ وہ الجھنے لگا۔ کچھ وقت اسی طرح سب کے درمیان بیٹھے گزر گیا۔
’’مجھے اپنے کمرے میںجانا ہے یار ۔‘‘ اس طرح بیٹھے رہنے سے اسے اپنی دکھتی ٹانگ میں درد کی مزید ٹیسیں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ شہروز کو اشارہ کر کے کہا تو وہ اسے سہارا دیتے اس کے کمرے کے باہر چھوڑ گیا۔ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اس کی ٹانگ پر بھی چوٹ لگی تھی۔ اور بھی نجانے کہاں کہاں اندرونی چوٹیں آئی تھیں۔ لڑکھڑاتی ٹانگ سمیت وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ ونیزے کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ پیروں کو جوتوں سے آزاد کر کے تھوڑا سا اوپر کی طرف کھسکتے اس نے تکئے سے ٹیک لگائی ۔
کار تو اسے اچھال کر اس تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی کہ وہ دوسری طرف ریڑھی پر گرتے اچھل کر سڑک پر گرا تھا۔ سر اور ٹانگ کی چوٹ تبھی لگی تھی۔ بازو بھی خاصا زخمی ہوا تھا۔ سڑک پر گرنے کے بعد چند لمحوں تک تو اسے اپنا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔ پانچ دس منٹ بعد حواس بحال ہوئے تو لوگوں کے ہجوم کو چیرتا اپنی گاڑی لئے پہلے ہاسپٹل پہنچا تھا۔ وہاں زخموں کی ڈریسنگ کروانے میں کافی وقت لگ گیا تھا۔ بار بار گھر سے کال آ رہی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ اصل میں وہ انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہاں آ کر وہ ونیزے کی طرف سے خود پریشان ہو گیا تھا۔
’’لو یہ دودھ پی لو اور یہ شرٹ بھی لائو اتارو۔‘‘ امی دودھ کا گلاس لیے اندر چلی آئیں۔ پھر اس کی پھٹی خون آلود شرٹ کے بٹن کھولنے لگیں۔ الماری سے ایک سادہ سوٹ نکال کر صوفے پر رکھا۔
’’دیکھو یہ ونیزے ابھی تک حواس میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ کسی شاک سے بے ہوش ہوئی ہے روزے کی حالت میں تھی، جب بے ہوش ہوئی تھی۔ دس منٹ بعد ہی روزہ افطار ہو گیا تھا۔ اور یہ اسی طرح پڑی ہوئی ہے۔‘‘ دوسری طرف آکر اس کی طرف بغور دیکھتے ہوئے امی نے کہا۔
’’تم دودھ پی کر کپڑے بدل لینا پھر میں کھانا بھی لاتی ہوں۔‘ ‘ پریشانی سے کہتے وہ باہر نکل گئیں اس نے بہت آہستگی سے ونیزے کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
’’ونیزے …..‘‘ چند منٹوں بعد اس کی پلکوں میں ہلکی سی لرزش ہوئی تو اس نے بے اختیار پکارا۔
’’ونیزے! پلیز آنکھیں کھولو، دیکھیں یہ میں ہوں …..واصق…..‘‘ اس پر جھک کر اسے پکارتے اس نے اس کا بازو بھی ہلایا۔ وہ پوری آنکھیں کھول کر اسے یک ٹک دیکھے گئی۔
’’واصق…..‘‘ اس کے ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی، پھر آنکھوں سے قطرہ قطرہ دل پگھلنے لگا۔ واصق اس پر جھکا ہوا تھا۔ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ باقی کچھ اور اسے نظر نہیں آیا۔ یونہی لیٹے لیٹے اس نے ہاتھ اٹھا کر اس کے سر پر بندھی پٹی پر پھیرا۔
’’کیا ہوا ہے؟ کیسا فون تھا؟‘‘ اسے روانی سے آنسو بہاتے ہونٹ کچلتے دیکھ کر اس نے دوبارہ پوچھا تو وہ باآواز پھُوٹ پھُوٹ کر مزید رونے لگی۔
’’پلیز ونیزے ……کیا بات ہے؟‘‘ واصق نے اس کا بازو ہلایا تو وہ اٹھ بیٹھی۔
’’یہ…..یہ …….کیسے ہوا؟ اس کے سر کی طرف دیکھتے ونیزے نے پوچھا تھا آنکھیں بدستور بہہ رہی تھیں۔
’’یہ…..بس یونہی۔‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا۔ ’’ جھوٹ بولتے ہیں آپ ۔‘‘ اب اسے سب یاد آ گیا تھا ۔ وہ گمنام کال اور اس پر دی جانے والی اندوہ ناک خبر اور اب واصق کی موجودہ حالت ۔ وہ سب شاک تھا تو اس نے سنا تھا یا یہ سب جھوٹ تھا جو وہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ولیمے کے بعد رات کو نیند میں دیکھا جانے والا خواب بھی یاد آ گیا ۔ اسی لئے چیخ کر کہا۔ ’’وہ فون پر کوئی کہہ رہا تھا کہ آپ کا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور اور آپ کی ڈیتھ ہو گئی ۔‘‘ ٹھہر ٹھہر کر بتاتے وہ اس کے سینے پر سر ٹکاتے رو پڑی تھی۔ اس سمے اسے اپنی بھی خبر نہ تھی۔ بس یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے اس کے جسم سے جان کھینچ لینے کی کوشش کی ہو۔ بری طرح رو رہی تھی۔ واصق پہلے تو رکا پھر اس کے گرد اپنا بازو پھیلا دیا۔
’’میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔ جس نے یہ خبر دی ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ بلیو می…..دیکھیں میں ٹھیک ہوں۔بس ہلکا سا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور تو کچھ نہیں۔‘‘ گہرے بلو سوٹ میں وہ بغیر دوپٹے کے تھی۔ بال کھلے ہوئے تھے۔ ساری پشت پر بکھرے ہوئے تھے ۔ واصق نے آہستگی سے اس کے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔ آج تو وہ اپنی بھی کیفیت نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ شاید موت کو بہت قریب سے دیکھنے کا اثر تھا۔
’’فون پر کس نے اطلاع دی تھی؟ ‘‘ یونہی روتے اس نے پوچھا تو اس نے ایک طویل سانس لی۔ ’’پتا نہیں۔ ہو گا کوئی میرا مہربان ہی۔ آپ پریشان مت ہوں۔ پتا کروالوں گا میں۔‘‘
امی ٹرے میں کھانا سجائے داخل ہوئیں تو اس نے بہت آہستگی سے ونیزے کو خود سے جدا کیا۔
’’امی آ گئی ہیں انہیںکچھ بتانے یا پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ، خاص طور پر کال کے بارے میں۔‘‘ آہستگی سے اس کے کان میں سر گوشی کے سے انداز میں اس نے باور کرایا۔
’’شکر ہے ونیزے کو ہوش آیا۔…..‘‘ ٹرے بستر پر رکھ کر انہوں نے ونیزے کے قریب جگہ پکڑی۔ ’’وہ فون کیا تھا۔ تم بے ہوش کیوں ہوئیں؟‘‘ بڑی فکرمندی سے اس کا ہاتھ سہلاتے انہوں نے پوچھا تو وہ واصق کو دیکھنے لگی جس نے اسے کچھ بھی بتانے سے منع کر دیا تھا۔
’’ایکسیڈنٹ کے وقت میں ونیزے سے ہی بات کر رہا تھا۔ میرا خیال ہے میرے بے اختیار بلند ہونے والی چیخ انہوں نے سن لی ہو گی۔ کیوں ونیزے…..‘‘ بات بناتے اس نے ٹرے اپنی طرف گھسیٹی وہ نا سمجھی میں سر ہلا گئی اور کیا کر سکتی تھی بھلا جبکہ ذہن اب کال کرنے والے کی طرف الجھا ہوا تھا۔
’’ونیزے !چلو تم بھی کھانا کھا نا شروع کرو۔ کچھ نہیں کھایا تم نے اسی لئے بے ہوش ہو گئی تھی۔‘‘ امی نے واصق کی سالن والی پلیٹ اس کے سامنے رکھی اور ساتھ میں دوسری چیزیں بھی۔‘‘ باہر تمہارے بھیا بھابی آئے ہوئے ہیں۔ تمہاری بے ہوشی کا سن کر آئے تھے۔ کھانا کھا لو تو پھر تم دونوں ان سے مل لینا۔‘‘ اس کی پشت پر بکھرے سلکی بال سمیٹ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس نے خاموشی سے سر ہلایا تو وہ باہر نکل گئیں۔
’’پلیز کھانا کھائیں ۔‘‘ واصق نے اس کی طرف روٹی بڑھاتے اسے متوجہ کیا تو وہ چپ کر کے عمل کرنے لگی۔
شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ وہ پہلی دفعہ بطور خاص ایک ہی جگہ پر بیٹھی ایک پلیٹ میں کچھ کھا رہی تھی۔ واصق کے روّیے پر اور اس کو زندہ سلامت دیکھ کر اس کے اندر ایک گہری طمانیت کا احساس جا گا تھا۔
واصق کی تمام سر توڑ کوششیں رنگ لے آئی تھیں اس نے محبوب رحمانی کی کرپشن کے دھوکہ دہی اور غبن کے متعلق اکٹھی کی جانے والی تمام معلومات پولیس کے حوالے کر دی تھیں۔ وہ گرفتار ہوا تو سب نے ہی سکھ کا سانس لیا ۔ خاص طور ونیزے نے۔ جس کی جان صرف اسی وہم میں اٹکی رہتی تھی کہ ابھی کچھ نہ ہو جائے۔ واصق جہانگیر کے ایکسیڈنٹ کے بعد تو وہ ہر وقت اچھی خاصی ڈری سہمی رہنے لگی تھی۔ یہ نئی خوشخبری ملی تو بے حد پر سکون ہو گئی۔
رمضان ویسے ہی چل رہا تھا۔ دوسرا عشرہ ختم ہونے میں ابھی تین روزے باقی تھے۔ اتنے بڑے گھر میں اتنے لوگوں کی موجودگی میں رمضان کے روزے رکھنا اسے بہت زیادہ دل پرور عمل لگتا تھا۔ سحری اور افطاری کے اوقات میں خوب ہلچل مچی ہوتی تھی۔
وہ نماز تراویح ادا کر کے باہر دادی اماں کے تخت پر آ بیٹھی۔ روزانہ وہ نماز کے فوراً بعد سو جاتی تھی مگر آج نیند نہیں آ رہی تھی۔ واصق آ ج رات ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا ۔ عشا کی اذان کے بعد نکل گیا تھا اور اب رات کے گیارہ بج رہے تھے اور اس کی واپسی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ باقی سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے تھے ۔ ان سب کو صبح جلدی اٹھنا تھا۔ وہ کمرے میں جانے کے بجائے تخت پر ہی لیٹ گئی۔
ادھر اُدھر کی باتوں کو سوچتے ، اس کے ذہن میں پھر روشانے کا خیال در آیا۔ ساتھ ہی واصق کا تصور بھی جاگا۔ ایکدم اس کا دل اچاٹ ہوا تھا۔ اک نئے احساس سے بھر آیا۔ جی چاہ رہا تھا کہ وہ پھُوٹ پھُوٹ کر رو ئے۔ اب وہ پہلے کی طرح خود کو ’’آئی ڈونٹ کیئر ‘‘ کہہ کر کنوینس نہیں کر سکتی تھی۔ اب تو معاملہ ہی اور تھا۔ پہلے تو اس کبھی واصق جہانگیر کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا تھا اسی لئے اس کا روّیہ اتنا تکلیف نہیں دیتا تھا۔ مگر جب سے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اسے اپنے اندر کے موسموں کی بھی خبر ہو گئی تھی۔ ساتھ یہ احساس بھی کہ وہ تو اسے کبھی ناپسند نہیں رہا تھا۔ دل کو تو شروع سے ہی اچھا لگتا تھا بس اگر درمیان میں یہ روشانے نام کا کانٹا نہ ہوتا تو وہ مطمئن ہر کر ایک پر سکون ازدواجی زندگی کا لطف اٹھا رہی ہوتی۔ اب تو محبوب رحمانی بھی گرفتار ہو چکا تھا کسی قسم کی کوئی فکرمندی نہیں تھی۔ جب سے اسے واصق کی اپنے اور بھیا کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کا علم ہوا تھا تو دل میں موجود جمی ہلکی سی ناگواری و ناپسندیدگی کی لہر بھی اتر چکی تھی۔ وہ شاید اپنی اس بدلتی کیفیت کا ذکر واصق کے سامنے بھی کر دیتی اگر درمیان میں روشانے کی گرہ نہ ہوتی۔ ایک دونوں میں تو یہ احساس اور زیادہ ستانے لگا تھا۔ جب بھی کوئی ایسا خیال آتا آنکھیں بھر آتی تھیں۔ مزید ستم یہ تھا کہ واصق نے جب سے محبوب رحمانی گرفتار ہوا تھا اس پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی۔ گفتگو بھی بس برائے نام ہی ہوتی تھی۔ وہ یونہی سوچتے سوچتے سو گئی۔
بارہ بجے بہت خاموشی سے ڈپلی کیٹ چابی سے داخلی دروازے کا لاک کھول کروہ اندر داخل ہوا تھا۔ جب سے محبوب رحمانی والا کیس اس نے اپنے ہاتھ میں لیا تھا یونہی رات گئے لوٹنا پڑتا تھا۔چابی جیب میں ڈالتے وہ بے دھیانی میں اپنے کف لپیٹتے اپنے کمرے کی طرف بڑھامگر تخت پر ونیزے کو سوتے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ یہ خلاف توقع بات تھی ورنہ روز ہی جب وہ گھر لوٹتا تھا تو وہ اپنے کمرے میں سو چکی ہوتی تھی۔ اندر بڑھنے کے بجائے وہ تخت کے قریب چلا آیا۔
اس کے کھلے سیاہ لمبے تکئے اور تخت پر بکھرے اس کے وجود کو بھی ڈھانپے ہوئے تھے۔ دوپٹے کا یک پلوبازو سے لپٹا ہوا تھا تو دوسرا زمین پر گرا ہوا تھا اور اتنی بے خبر سوئی ہوئی تھی کہ گردوپیش کی کوئی خبر نہ تھی۔ رات کے اس پہر جب سب لوگ سو چکے تھے اس وقت گھر کے مردوں میں کوئی باہر نکل آتا اسے یوں اس طرح بے خبری کی نیند لیتے دیکھ لیتا تو کتنا عجیب لگتا۔ واصق جہانگیر کو اس خیال سے ہی کوفت ہوئی۔
اس نے تیزی سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ارادہ اسے اٹھانے کا تھا مگر جب نظر اس کی دراز پلکوں میں اٹکے آبی موتیوں پر پڑی تو ہاتھ خود بخود کندھے کے بجائے چہرے کی طرف بڑھا۔ بہت آہستگی سے اس کے قریب بیٹھا تھا۔ بہت نرمی سے پلکوں میں اٹکے شفاف چمکتے آبدار موتی چن لئے۔ بے اختیار اسے بغور دیکھتا رہا۔ بے خبری کی نیند لیتی وہ کچھ اور شے لگ رہی تھی۔ حسین اتنی کہ نظر اس کے شفاف چہرے پر سے پھسلتی جا رہی تھی یا شاید وہ بہت دنوں بعد اسے یوں بغور دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ سوچتے سوچتے سوئی تھی اسی لیے چہرے پر کچھ کربناک سی مایوسی بھی رقم تھی وہ اندازہ نہ کر سکا۔
رات کے اس پہر موسم خنک ہو گیا تھا۔ نومبر کا مہینہ چل رہا تھا۔ سردی بہت زیادہ تو نہیں مگر اچھی خاصی تھی کہ اب بغیر لحاف اور ہیٹر کے سونا مشکل تھا جبکہ ونیزے نہ صرف بغیر کسی گرم کپڑے اور شاک کے تھی بلکہ اس نے جو سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا وہ اتنا باریک ریشمی تھا کہ اس سرد موسم کی مناسبت سے موزوں نہیں تھا۔
وہ پتھر نہیںتھا کہ اسے اس حالت میں دیکھ کر کچھ محسوس نہ کرتا۔ یہ لڑکی تو اس کے دل میں دھڑکتی تھی رگ رگ میں اتری ہوئی تھی مگر بات ساری پسند ، اعتماد اور یقین کی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اس نے اپنے لئے جو بد اعتمادی ، ناپسندیدگی و بے یقینی کی گہری چھاپ دیکھی تھی وہ اسے ہمیشہ اپنی ایک حد میں رہنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ میاں بیوی کا جو ریلیشن شپ دونوں کے درمیان ہے وہ کیا ڈیمانڈ کرتا ہے۔ اس نے اس سے اول روز اس جو باتیں کہی تھیں ان پر ابھی بھی قائم تھا۔ جسم واقعی کبھی بھی اس کی ضرورت نہیں رہا تھا پھر تو یہ ونیزے تھی اس کے دل کی پہلی خواہش، محبت ، عزت و آبرو۔ اسے اس کی رضا سے دلی آمادگی و خود سپردگی کے جذبے سے مخمور ہو کر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اعتماد، یقین محبت و اعتبار کے جذبوں کو بنیاد بنا کر اس کے ساتھ ساری زندگی بتانے کی خواہش رکھتا یہی وجہ تھی کہ وہ امی کی دھمکی کے آگے فوراً ہار گیا تھا۔ اپنی محبت کا یقین اسے سونپ کر اس کی محبت و اعتماد کا یقین خود کو بخشنا چاہتا تھایوں کہ درمیان میں کوئی خلش باقی نہ رہے۔ کسی ناپسندیدگی و ناگواری کی چبھن دل کو تڑپائے۔ اب وہ یہ سب کیسے برداشت کر لیتا۔ اس کی ناپسندیدگی وبے توجہی اس کے لئے ایک کڑا امتحان بنی ہوئی تھی۔ واصق نے ایک گہرا سانس لیا۔ نیچے گرا دوپٹے کا پلو اٹھا کر اس پر ڈال دیا۔
رات بتدریج ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔ ہاتھوں کو آپس میں ملتے اس نے اس کا کندھا ہلایا۔
’’ونیزے۔‘‘ ساتھ میں آواز بھی دی۔
وہ کسمسائی تھی، کروٹ بدلی تھی کہ اس کا سر تکئے سے ڈھلک کر اس کی گود میں آ گیا۔ ریشمی کالی گھٹا نے ایکدم اس کی گود میں بسیرا کیا تھا۔ خوشبو کے جھونکے واصق کو اپنے اندر اترتے محسوس ہوئے۔ نرم و نازک ڈال کے اس ساحر وجود کے ضرب کی آگ واصق کے وجود کو جھلسانے لگی تھی۔ دل کی انہونی خواہش انگڑائی لے کر بیدار ہوئی تھی۔
’’ونیزے…..‘‘ بمشکل خود کو سنبھالتے اس نے اسے دوبارہ آواز دی۔ اس پکار پر اس نے آنکھیں کھولیں تو بے دھیانی میں اسے دیکھے گی۔ اس کے ذہن میں صورتحال واضح نہیں ہوئی تھی۔
’’آپ یہاں کیوں لیٹی ہوئی ہیں……پلیز اندر کمرے میں چلیں۔‘‘ واصق کی آواز اسے غفلت کی دنیا سے باہر کھینچ لائی تھی۔ لمحے میں اپنی موجودہ حالت کا احساس ہوا۔ یکدم جھٹکے سے اپنا سر اس کی گود سے نکالا اور اٹھ بیٹھی ۔ واصق کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر دل کی دھڑکن یوں آئوٹ ہوئی کہ سنبھلنا بھول گئی۔ رخسار دہک اٹھے تھے۔ حیا کی لالی نے گہری لپیٹ میں لے لیا تھا۔ فوراً اپنے سینے پر دوپٹہ پھیلاتے اس نے واصق کی طرف سے رخ بھی بدلا تھا۔
’’آ…..آ…..آپ……کب آئے؟‘‘ دل کی طرح زبان بھی لڑ کھڑا رہی تھی۔
واصق جو اسے بغور دیکھ رہا تھا اس کے لئے یہ سارا منظر بالکل نیا تھا۔ گھبرایا گھبرایا سا یہ وجود سرخ چہرہ ، اور حیا کی ردا میں لپٹا یہ خوبصورت انداز۔ یہ سب چند روز پہلے والی ونیزے کے اندر تو نہیں تھا۔
’’بس ابھی …..‘‘ واصق نے ایک گہری سانس لی۔ ’’آپ اتنی دیر باہر مت رہا کیجئے۔‘‘ وہ نیچے جھک کر جوتا پہن رہی تھی۔ سفید کبوتر جیسے پائوں کالی سینڈل میں خوب جچتے تھے۔ جھکنے سے اس کے لمبے گھنے ریشمی بال آگے آ گئے تھے۔ چہرہ چھپ گیا تھا ۔ جیسے اچانک چاند کالے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں ہو جائے۔ انداز لوٹنے والا تھا۔ یہ وار بھی دل پر لگا۔ ایک ایک نقش جذب کرنا، ایک ایک ادانوٹ کرنا واصق تو پہلے ہی دل ہارا ہوا تھا۔ اس کی اس خاص بیویوں والی ہدایت بھی بہت دھیان سے سنی تھی۔ وہ ایک گہرا سانس خارج کرتے اٹھ کھڑا ہوا۔ ونیزے نے بھی مزید کچھ نہیں پوچھا تھا۔ بس دونوں خاموشی سے آگے پیچھے کمرے میں داخل ہو گئے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...