سائیکلوں کا سیلاب سا آیا ہوا تھا
اب ہم جرمنی سے نکل کر ہالینڈ میں سفر کر رہے تھے۔ ہالینڈ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی نسبتاً میدانی علاقے پر آباد ہے۔اس سے فائدہ اٹھا کر ہالینڈ والوں نے ہر طرف نہروں کا جال بچھا دیا ہے۔ یہ چھوٹی بڑی بے شمار نہریں ان کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں جس سے یہ لوگ سونا اُگا کر پوری دنیا میں سپلائی کرتے ہیں۔ ہالینڈ کا گوشت، پنیر، مکھن، خشک دودھ، دودھ کی دیگر بہت سی مصنوعات ، سورج مکھی کا تیل اور اس سے متعلق مصنوعات ، بھیڑ اور گائے کا گوشت، بھیڑ کی اون ، کھالیں اور دیگر بہت سی زرعی مصنوعات ہالینڈ سے تقریباً پوری دنیا میں جاتی ہیں۔ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ چند گھنٹوں میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا جا سکتا ہے لیکن ڈچ قوم نے اپنی زمین کے ایک ایک چپے کو انتہائی قیمتی بنا دیا ہے۔ وہ اپنی زمین کے ایک ایک انچ کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں اور اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔
ڈچ محنتی اور دلیر قوم ہے۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ اس قوم نے بھی دنیا کے کتنے ہی ممالک کو صدیوں تک اپنے زیرِنگیں رکھا ۔ اس چھوٹے سے ملک کے بظاہر بھولے بھالے سے نظر آنے والے لوگوں کو دیکھتے ہوئے ا ن کی تاریخی کامیابیوں پر رشک آتا ہے ۔ یقین نہیں آتا کہ صدیوں پہلے سفر کی دشواریوںکے باوجود یہ یورپ سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے کتنے ہی ممالک پر قبضہ کرنے اور صدیوں تک اُسے قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہے ۔ انگریزوں کی طرح انہوں نے بھی دنیا بھر سے اکٹھی کی ہوئی دولت کو اپنے ملک اور اپنے عوام کی ترقی کے لئے اس طرح استعمال کیا ہے کہ موجودہ نسلوں کو پکے مکانات سے لے کر نہریں اور پل سب کچھ بنا بنایا مل گیا ہے ۔ ملک ترقی کے سب سے اوپر والے زینے پر کھڑا ہے۔ عوام اس سے مستفیض ہو کر مکمل خوشحال اور زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ ان کی گزشتہ نسلوں کو جاتا ہے جنہوں نے طویل اور کامیاب جنگی مہمات سے خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو ایک عظیم قوم بنا دیا ۔ انہوں نے دنیا کے کتنے ہی ممالک کی دولت کو اپنی سرزمین پر منتقل کر کے آنے والی کی نسلوں کا مستقبل محفوظ کر دیا ۔
یہ وہی دور تھاجب ہندوستان میں نواب اور راجے عیاشیوں میں مصروف تھے۔ بادشاہ اور شہزادے حکومت حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا تھا اور عوام کسی مضبوط لیڈر شپ کے بغیر منتشر، نادار، بے بس اور کمزور تھی۔ لوگ انگریزوں کی تجارتی کمپنی (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی فوج میں نوکری حاصل کر کے فخر کرتے تھے۔ وہی ایسٹ انڈیا کمپنی جو تاجروں کے بھیس میں آئی اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستا ن کو تاجِ برطانیہ کا غلام بنا لیا ۔ اس وقت جب برطانیہ میں عظیم الشان عمارتیں بن رہی تھیںہندوستانی ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے۔ ا س وقت انگریز، ڈچ اور فرنچ پوری دنیا پرچھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی اپنی قوموں کو معاشی طور پر مضبوط کیا بلکہ بین الاقوامی برادری میں نمایاں مقام بھی حاصل کر لیا۔ اب بھی سلامتی کونسل سمیت دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم میں ان ممالک کو خاص حیثیت حاصل ہے۔ خصوصاََبرطانیہ اور فرانس کو ۔
ہالینڈ معاشی استحکام حاصل کرنے کے بعد اب بین لاقوامی سیاست میں زیادہ فعال نہیں ہے۔ اس کا بھی انہیںفائدہ ہے۔ وہ خواہ مخواہ دوسروں کی جنگوں میں حصہ نہیں لیتے اور نہ بلاوجہ لوگوں کو اپنا دشمن بناتے ہیں۔ انہیں دفاع پر زیادہ رقم نہیں خرچ کرنا پڑتی۔ یہی رقم عوام کی بہتری ، تعلیم، علاج معالجے اور رسل و رسائل کے ذرائع بہتر کرنے لئے استعمال ہوتی ہے۔
ہالینڈ میں ہر طرف نہریں ہی نہریں ہیں۔مولی نے بتایا ’’ یہ نہریں جو گرمیوں میں زمینوں کی سیرابی کے کام آتی ہیں سردیوں میں برف میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لوگ ان پر اسکیٹنگ کرتے ہیں‘‘
گویا اتنی محنت سے بنائی گئی نہریں صرف سال کے چھ ماہ استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کو ا للہ نے ایسے موسم سے نوازا ہے کہ سال کے بارہ مہینے نہ تو پانی جمتا ہے اور نہ سڑکوں پر برف جمتی ہے۔ فصلوں کو پانی ہر وقت دیا جا سکتا ہے۔ سڑکوں اور عمارتوں کی مرمت اور تعمیر کا کام بھی سال کے بارہ مہینے بلا رکاوٹ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی طرح کئی کئی دن مسلسل برف باری جاری نہیں رہتی جہاں سارے تعمیراتیکام بند ہو جاتے ہیں ۔ یہ اندازہ لگا نا مشکل ہے کہ ڈچ ، سوئس اور جرمن قوموں کو سال کے یہ چھ ماہ بھی کام کرنے کے لئے مل جاتے تو ان کے تعمیراتی کاموں کی حد کیا ہوتی۔
نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے صبح جو کسلمندی میرے اُوپر طاری تھی اب دور ہو چکی تھی۔ ویسے بھی اس پورے دورے میں پوری نیند لینے کا کم ہی موقع ملا تھا۔ روزانہ چار پانچ گھنٹے ہی سونے کے لئے ملتے تھے۔ بلکہ ہم خود بہت کم سوتے تھے۔ سارا دن گھومنے پھرنے میں صرف ہو جاتا اور رات میں محفل جم جاتی۔ بعد میں مولی نے ہمیں بتایا’’ جتنے زندہ دل لوگ اس گروپ میں شامل ہیں اتنے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ‘‘
ہم میں سے آدھے سے زیادہ رات کو دیر تک بیٹھنے پینے پلانے اور گپ شپ کے شوقین تھے۔ اس تفریحی سفر میں نہ تو ہم نیند کی زیادہ فکر کر تے تھے اور نہ ہی پیسہ خرچ کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیرس کی کیبرے نائٹ ، سوئٹزر لینڈ میں پہاڑ کی چوٹی کے مہنگے سفر اور ایمسٹرڈم میں سمندر میں موجو د جہاز میں چائنیز ڈنر کی مہنگی عیاشی کے لئے رقم دینے میںایک دو کو چھوڑ کرکسی نے تامل نہیں کیا تھا۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگوں کا مطمعِ نظر یہ تھا کہ یہ سفر زندگی میں ایک دفعہ کر رہے ہیں۔ اسے کنجوسی یا نیند کی نذر نہ کریں اوراس کا ایک ایک لمحہ بھر پور طریقے سے انجوائے کریں۔
شام پانچ بجے ہم سطحِ سمندر سے نیچے واقع یورپ کے قدیم شہر اور ہالینڈ کے درالخلافہ ایمسٹرڈم پہنچے۔ اس شہر کا پہلاتاثر یہی تھا کہ یہ انتہائی قدیم اور تاریخی عمارات پر مشتمل ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ نہروں کا جال سا بچھا ہے۔ لوگ کاروں، بسوں اور سائیکلوں کے ساتھ ساتھ فیری کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔ پرانی پرانی عمارتوں کے آگے درجنوںسائیکلیں کھڑی نظر آرہی تھیں۔ سڑکوں پر بھی بے شمار لوگ سائیکلوں پر سفر کررہے تھے۔ سائیکل سواروں کی تعداد ڈرائیونگ کرنے اور پیدل چلنے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔ پرانی اور بھدی بھدی سی سائیکلیں تھیں لیکن انہیں چلانے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں خوبصورت اور خوش لباس تھے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں گرمیوں کے اس موسم میں رنگ برنگی نیکریں اور ٹی شرٹس پہنے آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے سائیکلیں چلاتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ شام کے اس وقت سڑکوں پر جیسے سائیکلوں کا سیلاب سا آیا ہوا تھا۔ سائیکلوں کا اتنا استعمال میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
آسٹریلیا میں بھی کچھ لوگ شوق سے سائیکل چلا کر کام پر جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہفتے میں ایک دفعہ ویک اینڈ پر لمبی سائیکلنگ کر کے ورزش کرتے ہیں۔لیکن یہاںسائیکلوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سڈنی اور آسٹریلیا کے دوسرے شہر اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے کا سفر بہت طویل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مثلا ً سڈنی میںبلیک ٹائون سے سٹی سنٹر جانا ہو تو پچاس ساٹھ کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ لیورپول سے شہر کے مرکزی حصے کا سفر بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ بعض علاقے مثلاً پنرتھ، رچمنڈ، پام بیچ اور کیمبل ٹاوٗن وغیرہ شہر سے اس سے بھی زیادہ فاصلے پر ہیںپھر بھی وہ سڈنی شہر کا حصہ ہیں۔ اس لئے اتنی دور سائیکل پر نہیں جایا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں ایمسٹرڈم اور دوسرے یورپین شہر کافی گنجان آباد ہیں۔ آسٹریلین شہروں کے مقابلے میں سڑکیں تنگ ٹریفک اورآبادی کا دباوٗ زیادہ ہے۔ ہالینڈ میں سائیکلوں کا استعمال ایک رواج اور روایت بن چکا ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جہاں ٹریفک زیادہ نہیں ہے وہاں بھی سائیکل کا استعمال عام ہے۔ یہ بہت صحت مند رواج ہے۔ یہ لوگ جو سائیکلوںپر آ اورجا رہے تھے یقیناً اپنی گاڑی خریدنے اور چلانے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ زیادہ تر لوگوں کی گاڑیاں گھروں میں موجود ہوں گی۔ سائیکل و ہ اس لئے چلاتے ہیں کہ اس سے ان کی ورزش ہوتی ہے۔ سڑکوں پر دھواں اور ٹریفک کا رش نہیں ہوتا۔ شہر کی آب وہوا صاف اور پرسکون رہتی ہے ۔ پیٹرول کی بھی بچت ہوتی ہے جو پوری قوم کی معیشت کے لئے مفیدہے۔ اس طرح پوری قوم بحیثیت مجموعی صحت مند اور خوشحال رہتی ہے۔ کاش یہ رواج پاکستان میں بھی عام ہو جائے۔ جہاں گاڑیوں کے رش دھوئیں اور شور و غل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
ہوٹل جانے سے پہلے ہماری بس ایک ڈائمنڈ فیکٹری میں جا کر رکی۔ اس فیکٹری کی سیر ہمارے پروگرام کا حصہ تھی۔ یہاں ہم نے ہیرے کاٹنے ، تراشنے اور مختلف شکلوں میں ڈھالنے کا عملی مظاہرہ دیکھا۔ خام ہیرے (تراش خراش سے پیشتر والے ) بھی ہمیں دکھائے گئے ۔ ہمیں ہیروں کی ایک دکان میں بھی لے جایا گیاجہاں مختلف زیورات اور گھڑیوں میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ مختلف مالیت کی ان گھڑیوں اور زیورات کو دکھانے کا مقصد یہی تھا کہ سیاح ان میں سے کچھ خریدیں گے۔ ہمارے علاوہ کئی اور گروپ بھی فیکڑی کی سیر کر رہے تھے۔ کئی سیاحوںنے اپنی پسند کی چیزیں خریدیں۔ زیادہ تر نے ونڈو شاپنگ پر اکتفا کیا۔ وہاں کافی اور اسنیکس سے ہماری تواضع کی گئی اور فیکڑی کا کچھ معلوماتی لٹریچر بھی ہمارے حوالے کیا گیا۔ ہیروں کی فیکٹریاں ہالینڈ کی صنعت کا نہایت اہم حصہ ہیں۔
ایمسٹرڈم میں ہمارا قیام نووٹل میں تھا۔نوووٹل ہوٹل پہنچے تو طبعیت خوش ہو گئی۔ بہت صاف ستھرا اور خوبصورت ہوٹل تھا۔
جوانیوں کی شراب بھی چھلکنے لگتی تھی
ڈیڑھ دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم باہر نکلے تو ہماری کوچ تیار کھڑی تھی۔آج شام ہمارا ڈنر ایمسٹرڈم کے ایک مہنگے چائنیز ریستوران میں تھا۔ یہ ریسٹورنٹ شہر کے مرکزی حصے سنٹرل اسٹیشن کے قریب اور پسینجر ٹرمینل( Passenge Terminal) کے سامنے پانی میں کھڑے جہاز پر واقع تھا۔ آج کا یہ ڈنر بھی ان اضافی عیاشیوں میں سے ایک تھاجس کے لئے ہم نے الگ سے رقم ادا کی تھی۔ جہاز کی سیڑھیوں پر اور پھر اس کے اندر پہنچے تو ایسے لگا جیسے کسی محل میں داخل ہو گئے ہوں۔ سرخ دبیز قالین ، باوردی موٗدب بیرے، ایرکنڈیشنر کی خنکی میں ایک دلربا سی خوشبو اور مدھر موسیقی نے جیسے ہمیں کسی انوکھی اور پرتحیر دنیا میں پہنچا دیا ۔ اس انتہائی رومانٹک ماحول میں دھیمی دھیمی روشنیوں نے ایک عجیب سا جادوئی حسن پیدا کر دیا تھا۔ اس چار منزلہ ریستوران کی تیسری منزل پر ہماری سیٹیں مخصوص تھیں۔ بیروں نے سیٹیں ڈھونڈنے اور ان پر بیٹھنے میں ہماری مدد کی۔
ایک میز پر ہم آٹھ افراد بیٹھے تھے۔ جس میں میرے علاوہ جسٹن ، جوزی، جولی ، باب ، اسمتھ وغیرہ تھے۔ دراصل یہ سگریٹ نوشوں کا گروپ تھا۔ سگریٹ نوشی کی مشترکہ عادت کی وجہ سے ہم اکثر اکھٹے نظر آتے تھے۔اس عادت کے علاوہ اب ایک دوسرے سے ہماری دوستی بھی ہو چکی تھی۔ سب سے زیادہ قہقے اور ہنسی مذاق ہمارے ٹیبل سے ہی سنے جا تے تھے ۔ کھانے کا مینو کافی طویل اور مشکل تھا ۔میر ی ہدایت کے مطابق مجھے سی فوڈ مہیا کر دیا گیا۔ جس میں تلی ہوئی مچھلی ، پران ، سلاد ، آلو ، مچھلی کی کری ،سبزیاں ، فرائی کئے ہوئے چاول، دال اور ایسی ہی چیزیںشامل تھیں۔ میرے ٹیبل کے باقی ا فراد نے شاید ہی کوئی ڈش چھوڑی ہو۔ کسی کو بھی مختلف ڈشوں کے بارے میں صحیح علم نہیں تھا۔ وہ بس مینو پر انگلی رکھ کر ہر وہ چیز منگوا رہے تھے جو وہاں درج تھی۔ اس طرح ہمارا ٹیبل نوع بہ نوع کھانوں سے بھر گیا۔ ان کی منطق یہ تھی کہ اس ڈنر کے لئے ہم نے خاصی بڑی رقم دی ہے تو کیوں نہ اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود میز پر آدھے سے زیادہ کھانے بچے ہوئے تھے۔ درحقیقت اس ڈنرکا بل اتنا تھا کہ اس ضیاع کے بعد بھی ریستوران والوں نے بہت زیادہ کمایا تھا۔
کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد رنگ برنگی شرابوں کی ٹرالی مسلسل محوِ گردش رہی۔ لوگ اس سے بھی دل کھول کر استفادہ کر رہے تھے۔شراب کے رنگوں کے ساتھ ساتھ حُسنِ ساقی نے بھی ماحول رنگین کیا ہوا تھا۔مختصر سے لباس کے ساتھ یہ حسینائیں جب جھک کر جام لبریز کرتیں تو ان کی جوانیوں کی شراب بھی چھلکنے لگتی تھی۔ لوگ ہونٹوں اور آنکھوں دونوں سے پی رہے تھا۔ کئی لوگوں کو شراب کے ساتھ کافی اور چائے پیتے میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ لگتا تھا کہ بھائی لوگ کسی چیز کو چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ وہ دی ہوئی رقم کے پیسے پیسے کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ یہاں کھانے کے معاملے میں کئی لوگ بہت ندیدے ہوتے ہیں۔خصوصاً مفت کی کوئی چیز چھوڑنے کے روا دار نہیں ہو تے۔ اس معاملے میں غریب امیر اور چھوٹا بڑا ہر شخص یکساں رویے کا حامل ہے۔ مفت کی ہر چیز کا ذائقہ انہیں ہمیشہ بھا تا ہے۔ زیادہ کھانے اور پینے کے بعد پارٹی کے اندر اور باہر نکلتے ہی ا لٹیاں کرنے کی بے شمار شکایتیں ہوتی ہیں۔ کئی لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی میں گندگی پھیلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہوٹلوں اور کلبوں میں سے اکثر دھکے دے کر نکالے جاتے ہیں۔ ایسے مناظر جمعے اور ہفتے کی رات اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو واقعات مجھے یاد آ رہے ہیں۔
مجھے آسٹریلیا آئے ہوئے چند ہی ہفتے ہوئے تھے۔ میں کچھ دوستوں کے ساتھ سڈنی شہر کے قریب ایک سبرب سری ہلز میں ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ ایک شام جاب کے بعد گھر پہنچا تو بھوک زوروں پر تھی۔ میرے دوستوں میں سے ابھی تک کوئی بھی نہیں آیا تھا۔کچن میں دیکھا تواگلے دن کا باسی سا لن فریج سے باہر رہنے کی وجہ سے بساند سی چھوڑ چکا تھا۔ لبنانی روٹی بھی پرانی سخت اور کائی زدہ سی تھی۔ شام کاکھانا ہم گھر میں بناتے تھے ۔ دوسرے ساتھی وہاں نہیں تھے اس لئے میں نے کھانا بنانے کی تیاری شروع کر دی ۔اتنی دیر میں ڈور بیل بجی ۔دروازہ کھولا تو میرے دوستوں میں سے ایک کی گرل فرینڈ اس سے ملنے آئی تھی ۔میں نے اسے بتایا کہ میرا دوست اس وقت وہاں نہیں ہے شاید تھوڑی دیر میںآجائے۔ اس نے پوچھا’’ اگر تم برا نہ مانو تو کیا میں یہاں بیٹھ کر اس کا انتظار کر سکتی ہوں‘‘
میں نے کہا ’’کیوں نہیں ! ضرور بیٹھو۔ وہ ابھی آتا ہی ہو گا ‘‘
اسے بٹھا کر میں کچن میں چلا گیا تا کہ کھانا بنانے کی تیاری کر سکوں ۔ وہ میرے پیچھے وہیں چلی آئی اور بولی’’ تم کیا کر رہے ہو؟ ‘‘
میں نے چاول نکالتے ہوئے کہا’’ ڈنر تیار کرنے لگا ہوں‘‘
کہنے لگی’’ اس وقت کچھ بنا ہوا نہیں ہے؟ دراصل مجھے پاکستانی کھانا بہت پسند ہے‘‘
لگتا تھا میری طرح اسے بھی بھوک ستا رہی تھی ۔
میں نے کہا’’ یہ کل کا کھانا ہے باسی ہو چکا ہے میں اسے پھینکنے والا تھا‘‘
اس نے پتیلی پر سے ڈھکنا اٹھایا۔چمچ سے تھوڑا سا سالن نکال کر چکھا اور بولی ’’یہ تو بہت مزیدا ر ہے‘‘
میں نے کہا’’ لیکن یہ خرا ب ہو چکا ہے۔ یہ روٹی بھی پرانی اور کھانے کے قابل نہیں ہے‘‘
بولی ’’مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ۔کیامیں یہ لے سکتی ہوں۔مجھے پاکستانی کھانے اچھے لگتے ہیں‘‘
میں حیرانگی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ میرے بتانے کے باوجود وہ باسی اور خراب کھانا کھانے پر اصرار کر رہی تھی ۔وہ میرے دوست کی گرل فرینڈ تھی۔ اس لئے اسے منع بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے خود ہی ایک پلیٹ میں بساندزدہ سالن نکالا۔ پھر کائی زدہ سوکھی ہوئی روٹی پر یہ سا لن رکھا اور رول بنا کر مزے سے کھا گئی۔ میں ڈر رہا تھا کہ ایک دو نوالے لینے کے بعد وہ کھانا پھینک کر الٹیاں نہ شروع کر دے۔ لیکن اس حسینہ نے یہ کھانا ایسے کھایاجیسے یہ اس کی زندگی کا سب سے مزیدار کھانا ہو۔ یہ بات بعد میں درست بھی ثابت ہو ئی۔ اس نے مجھ سے اجازت لے کر کسی دوست کو وہیں سے فون کیا اور اسے بتایا ’’میں نے آج انتہائی لذیذ پاکستانی کھانا کھایا ہے۔ اتنا مزہ مجھے پہلے کبھی نہیں آیاجتنا یہ کھانا کر آیا ہے‘‘
یہ بات اس نے فون پر ایک دو اور دوستوں اوراپنی ماں کو بھی بتائی ۔میں ڈر رہا تھا کہ خراب کھانا کھاکر وہ بیمار ہو گئی تو ہمارے لئے مصیبت بھی کھڑی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ وہ سڈنی بھر میں دوستوں اور رشتہ داروں کو فون کر کے اس کھانے کی تعریف کرتی رہی۔ حتیٰ کہ میرا دوست آگیا اور میری جان چھوٹی ۔
جہاں تک بسیار خوری کا تعلق ہے اس میں بھی کئی لوگوں کا جواب نہیں ۔ متذکرہ فلیٹ میں ہم نے ایک مرتبہ چھوٹی سی پارٹی رکھی۔ ہمارے ایک دوست کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ بہت اچھا کھانا بناتے تھے۔ کراچی والوں کے ذائقے دار اور تیز مرچ مسالوں والے کھانے مجھے بھی بہت پسند ہیں۔ پسندیدگی کے باوجو د تیز مرچوں والے کھانوںکی اب تک مجھے عادت نہیں پڑ سکی۔ ایساکھانا اچھا بھی لگتا ہے لیکن ہر نوالے کے بعد پانی کا گھونٹ لیتا ہوں تو نوا لہ حلق سے اترتا ہے۔ میرے دوست نے اپنے ہاتھوں سے اس دن بہت لذیذ بریانی بنائی۔ اس نے حسبِ عادت مرچیں اتنی تیز رکھیں کہ کہ پہلا چمچ لیتے ہی میں سی سی کر اٹھا ۔ بڑی مشکل سے میں آدھی پلیٹ کھا پایا۔ اسی پارٹی میں میرے دوست کا ایک مقامی کولیگ بھی مدعو تھا ۔ وہ پہلی دفعہ پاکستانی یا بھارتی کھانا کھانے جا رہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے کبھی مرچوں والا کھانانہیں کھایا تھا ۔ اسے جب یہ تیز مرچوں والی بریانی کی پلیٹ پکڑائی گئی تو سب کنکھیوں سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اس نے پہلا چمچ لیا تو جیسے اس کے گلے میں اٹک گیا۔ آہستہ آہستہ اُس نے نیچے اتارا ۔پاس رکھی ہوئی کوک کی بوتل سے ایک گھونٹ لیا اور دوسرا چمچ منہ میں ڈال لیا۔ تیز مرچیںکھانے سے اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوتے گئے۔ چہرہ لال سے لال سرخ ہوتا گیالیکن وہ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا چمچ حلق میں اتارتا چلا گیا۔ اس دوران اس کے چہرے پر سردی کے باوجود پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے حتیٰ کہ اس کی پلیٹ ختم ہو گئی۔ میرے دوست نے اس کی پلیٹ دوبارہبھر دی ۔ اس نے بلا تردد پکڑ لی اور تھوڑی دیر میں وہ بھی صاف کر دی۔ وہ سی سی بھی کر رہا تھا، معدے میں جلن کی وجہ سے کو ک کے گھونٹ بھی لے رہا تھا، چہرے سے پسینہ بھی پونچھ رہا تھا، لیکن اس نے ہاتھ نہیں روکے۔ حتیٰ کہ وہ پلیٹ بھی خالی ہو گئی۔ ایک اچھے میزبان کی حیثیت سے میرے دوست نے اس سے تیسری پلیٹ لینے کے لئے کہا۔ اس وقت سب حاضرین حیران رہ گئے جب اس نے وہ بھی لیلی۔ نہ صرف لے لی بلکہ وہ بھی کھا گیا۔
یہ انتہائی غیر معمولی بات تھی۔ ایک تو یہ کہ وہ شخصجس نے ساری زندگی مرچوں والا کھانا کھا یا ہی نہیں تھا اسے بہت تیز مرچوں والا کھانا کھانا پڑرہا تھا ۔یقیناً یہ تیز مرچیں اس کے لئے بھی تکلیف دہ تھیں۔ اس کے باوجود وہ لگاتارکھاتا جارہاتھا۔ دوسری غیر معمولی بات یہ تھی کہ وہ اتنا زیادہ کھا گیا تھا کہ عام صحتمند آدمی کے کھانے سے تین گنازیادہ تھا ۔ گھر جا کر خدا جانے اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے باہر فٹ پاتھ پر الٹیاں کرتا رہا ہو۔
ایمسٹرڈم کے پانی میں تیرتے اس خوابناک ماحول والے ریستوران میں کھانے کی باتیں کرتا ہوا میں کہیں سے کہیںپہنچ گیا۔ اب واپس ایمسٹرڈم چلتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہم باہر نکلے تو ایمسٹرڈم شہر کے اس مرکزی حصے میں رات کے نو بجے ہر چہار جانب رونق ہی رونق تھی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ ان میں بہت سے سیاح تھے جو دنیا کے مختلف ملکوں سے ہالینڈ کی سیر کرنے آئے تھے۔ اس وقت ایمسٹرڈم شہر روشنیوں اور رنگوں سے عبارت نظر آتا تھا۔ دریا کے ہر دو جانب رہائشی عمارتیں، ریستوران، کلب، دکانیں اور دریا میں کشتیاں رنگوں اور روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ یہ کشتیاں رنگ و نور کا مرقع نظر آرہی تھیں۔
شو کیسوں میں سجی عورتیں
موسم خنک مگر خوشگوار تھا۔ سردی زیادہ تھی نہ گرمی ۔ موسم گرما کی راتیں یورپ کے ان شہروں میں بہترین موسم کی حامل ہوتی ہیں۔ دن کے اوقات میں اگر قدرے گرمی ہو بھی تو رات کو وہ ناپید ہو جاتی ہے۔ ہلکی سی خنکی جسم و جان کے لئے باعثِ تسکین ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھیوں میںزیادہ تر صرف دو کپڑوں میں ملبوس تھے۔ تا ہم کچھ بوڑھے مرد اور عورتیں ہلکے سویٹر وغیرہ بھی پہنے ہوئے تھے۔
ان بوڑھے جسموں میں گرمی کی لہر دوڑانے کے لئے مولی ہمیں کوچ میں بٹھا کر دریا کے اس پار ریڈ لائٹ ایریا میں لے گئی۔ ایمسٹرڈم کا سرخ روشنی والا یہ علاقہ شہر کا سب سے بارونق اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے باعثِ کشش ہے۔ یہ علاقہ چوبیس گھنٹے بھانت بھا نت کے لوگوں سے اٹا رہتا ہے۔ قدرے تنگ گلیاں، بے شمار ریستوران اور نائٹ کلب اس علاقے کی پہچان ہیں۔ سب سے زیادہ قابلِ ذکر اس علاقے کے قحبہ خانے ہیں۔ وہاں میں نے انوکھا منظر دیکھا۔ جسم فروش عورتیں فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ ایستادہ بہت سے شو کیسوں میں کھڑی ہو کرگاہکوں کو ترغیب دے رہی تھیں۔ شوکیسوں میں کھڑی ان عورتوں نے اتناہی لبا س پہنا ہوا تھا جتنا دنیا میں آنے والے نومولود بچے نے پہنا ہوتا ہے۔ سیاحوں اور ان عورتوں کے درمیان شیشے کی بس باریک سی دیوار تھی۔ یہ شیشہ چونکہ نظر نہیں آتا اس لئے کئی سیاح ہاتھ بڑھا کر انہیںچھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ عورتیں مردوں کی ہوس بھری نظروں اور اشاروں کا جواب بھی دے رہی تھیں۔ شیشے کی دیوار کے پیچھے کھڑی ان برہنہ عورتوں کا یہاں کوئی شمار نہیں تھا۔ یہ بازار بہتطویل اور کئی گلیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کی ہر گلی میں ایسے ہی مناظر ہیں۔
ایمسٹرڈم میں اس بازار کا سائز دیکھ کر ایسے لگتا تھا کہ ہالینڈ کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ آمدنی ہوگا۔ مولی نے بتایا’’ ایمسٹرڈم کا یہ علاقہ ہالینڈ میں اس کاروبار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کا سلسلہ ایمسٹرڈم شہر کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلا ہواہے۔ علاوہ ازیں دوسرے شہر اور قصبے بھی انسانی جسموں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار میں پیچھے نہیں ہیں۔ ہم اس بازار میں جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے توں توں فشارِخون بھی بڑھ رہا تھا۔ ادھر یہ عورتیں ہر دروازے پر کھڑی سیاحوں کو اندر آنے کی ترغیب دے رہی تھیں۔ بعض دامن تھام لیتیں اور بعض ہاتھ پکڑ کر اندر لیجانے کی کوشش کرتیں ۔
میں نے سڈنی ، لندن اور بنکاک میں بھی ریڈ لائٹ ا یرئیے کے مناظر دیکھے ہیں لیکن ایمسٹرڈم اس معاملے میں سب سے بازی لے گیا تھا۔ سڈنی میں کنگز کراس کے قحبہ خانوں کے دروازوں پر عام طور پر مرد کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کو پکڑ پکڑ کر اندر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار اندر کام کرنے والی عورتیں بھی دروازے پر آکر کھڑی ہو جاتی ہیں لیکن وہ تھوڑا بہت لباس پہنے ہوتی ہیں۔ ایمسٹرڈم کے اس بازار ِحسن کا طریقہ سب سے جدا اور منفردہے۔ اس بازار میں آنے ولا مرد اگر خرید ار نہ بھی ہو تو ونڈو شاپنگ تو کر ہی لیتا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں۔ کیونکہ یہ تماشہ سر ِبازار ہوتا ہے۔ مولی اپنے گروپ کی عورتوں کو کہہ رہی تھی’’ اپنے اپنے مردوں پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو وہ آپ کے ہاتھوں سے پھسل کر کسی دروازے میں داخل ہو جائیں اور آپ ہاتھ ملتی باہر رہ جائیں‘‘
مولی نے تو یہ بات مذاق میں کہی تھی لیکن میں نے دیکھا کہ اکثر بوڑھے ہر شوکیس کے پاس ٹکٹکی باندھ کر کھڑے ہو جاتے۔ حتیٰ کہ ان کی بیویاں انہیں ٹہوکا دے کر آگے جانے کے لئے کہتیں۔ بعض نے عملی طور پر مردوں کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ کئی اپنے مردوں کے ندیدے پن پر انہیں سرِ بازار ٹوک رہی تھیں۔ مولی نے پھر کہا’’ باقی مردوں کے ساتھ تو ان کی پاسبانِ عقل موجود ہیں لیکن طارق اکیلا ہے۔ اس پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کہیں کھو نہ ہو جائے‘‘
میں نے کہا’’ میرے گم ہونے کا اس لئے خطرہ نہیں ہے کہ اس بازار سے زیادہ کشش میرے لئے اپنے گروپ کے لوگوں خصوصاً اپنی رہنما میں ہے‘‘
مولی نے دزدیدہ نظرو ں سے جولی کی طرف دیکھ کر کہا ’’ اس بازار کی اپنی کشش ہے جس سے بچ نکلنا کسی بھی مرد کے لئے آسان نہیں ہے‘‘
’’ ان بے لباس جسموں میں میرے لئے کشش نہیں ہے۔ نہ مجھے کوئی بہکاسکتا ہے البتہ تمھیں کھلی چھٹی ہے ‘‘
مولی کی بے باکانہ باتوں کے جواب میںمیں کچھ زیادہ ہی بے باک ہو گیا تھا۔ وہ ناٹی بوائے کہہ کر آگے چل پڑی۔ مولی نے مذاق میں میرے اوپر نظر رکھنے کے لئے کہا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کہیں گم نہ ہو جاوٗں مگر میں سچ مچ گم ہو گیا۔
دراصل مجھے ایک پاکستانی ریستوران بلکہ کچھ پاکستانی بھائی نظر آ گئے ۔ اس ریستوران کے باہرسائن انڈین فوڈ کا تھا اورسائن کے نیچے لفظ’’ حلال‘‘ تحریر تھا۔ ریسٹورنٹ کے دروازے پر تین پاکستانی کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہی میرے رکنے کا سبب بنے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ کسی پاکستانی کا ریسٹورنٹ ہے۔یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا میں بہت سے پاکستانی’’ انڈین فوڈ ‘‘کے نام سے پاکستانی ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ حالانکہ برصغیر پاک و ہند کے کھانے تقریباً ایک جیسے ہیں لیکن یورپی دنیا میں انہیں انڈین فوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں بھی بہت سے پاکستانی گوروں کی آسانی کے لئے اسی نام سے اپنے ریستوران چلاتے ہیں ۔ تا ہم کچھ ریستوران جو پاکستانی گاہکوں کے بل بوتے پر چلتے ہیں وہاں باقاعدہ پاکستانی ریستوران لکھا نظر آتا ہے۔ برطانیہ میں انگریز پاکستانی کھانوں سے بخوبی آشنا ہیں اور انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔تا ہم جس طرح یہاں پاکستانیوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں آسٹریلین بھی پاکستانی کلچر اور اُن کے کھانوں سے آگاہی حاصل کر لیں گے کیونکہ ایک دفعہ جس کو پاکستانی کھانوں کا چسکا لگ گیا پھر اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے
میر اندازہ درست نکلا۔ اس ریستوران کی انتظامیہ پاکستانی تھی۔ درمیانے سائز کے ہال میں چند میزوں پر اس وقت صرف پاکستانی بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ان چند پاکستانیوں کے علاوہ کوئی اور گاہک وہاں نہیں تھا۔میںکھانا کھا کر آیاتھا جو میری زندگی کے مہنگے ترین کھانوں میں سے ایک تھا۔ اس کے بعد مزید کچھ کھانے کی گنجائش نہیں تھی۔ دراصل میں ہالینڈ میں بسنے والے کسی پاکستانی سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں کے پاکستانیوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرنا مقصود تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے آبائی علاقے کی ایک فیملی یہاں ایمسٹرڈم میں کہیں رہائش پذیر تھی۔ ان سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ اُن میں میرا ایک ہم جماعت دوست بھی تھا۔ یورپ کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میں اس کا فون نمبر لانا بھول گیا تھا۔ اس پاکستانی ریسٹورنٹ اور اس میں موجود چند پاکستانیوں کو دیکھ کر مجھے اُن کی یاد آگئی۔ میں نے سوچا شاید اِن میں سے کوئی اُنہیں جانتا ہو۔
کاوٗنٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا ’’ میں پاکستانی ہوں اور آسڑیلیا سے سیر کے لئے یہاں آیا ہوں۔ پاکستانی ریسٹورنٹ دیکھا تو چلا آیا ۔ سوچا شاید کسی پاکستانی بھائی سے ملاقات ہو جائے‘‘
ان صاحب نے خوش دلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ’’ہو جی ! آپ بالکل صحیح جگہ پر آئے ہیں ۔ یہ ریسٹورنٹ پاکستانیوں کا ہے اور پاکستانیوں کے لیے ہے۔ ویسے میرا نام جمشید بٹ ہے اور میں سوہنے شہر لاہور کا ہوں۔ آپ اتنے دُور آسٹریلیا سے ہمارے مُلک میں آئے ہیں تو ہمارے مہمان ہوئے نا جی! آئیں میرے ساتھ میں دوسرے دوستوں سے آپ کو ملواتا ہوں‘‘
بٹ صاحب کائونٹر سے باہر نکل آئے۔ وہ مجھے ایک میز پر لے گئے جہاں چار پاکستانی جو ان بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ بٹ صاحب نے ان سے میرا تعارف کروا یا اور مجھے بتایا کہ یہ سب اُن کے دوست ہیں۔ سب نے میرا تپاک سے استقبال کیا اور مجھے کرسی پیش کی۔ بٹ صاحب بھی چند منٹ بعد ہمارے ساتھ آبیٹھے۔ انہوں نے کھانے کے لئے پوچھا تو میں نے معذرت کر لی’’ کھانا تو میں کھا کر آیا ہوںتاہم چائے پی لوں گا‘‘
بٹ صاحب بولے’’ اوہ جی! کھا کر آئے ہیں تو کیا ہوا ۔پاکستانی کھانا تو نہیں کھایا نا! گوروں کے کھانے جتنے مرضی کھالیں، پاکستانی کھانا آئے تو گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ آپ حکم کریں کھائیں گے کیا؟‘‘
’’بٹ صاحب! آپ کا بہت شکریہ ! کھانے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ ورنہ جتنی محبت سے آپ پوچھ رہے ہیں میں منع نہیں کرتا‘‘
بٹ صاحب اس بے تکلفی سے بولے جو برسوں کی آشنائی کے بعد پیدا ہوتی ہے’’اوہ جی! مرزا صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیںکہ گنجائش نہیں ہے۔ یہ چار مسٹنڈے جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اور میں خود بھی کچھ دیر پہلے پیٹ بھر کر کھانا کھاکر فارغ ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی کوئی تازہ ڈش ہمارے سامنے آجائے تو ایک منٹ میں اُسے چٹ کر جائیں گے۔ اوہ جی! پنجابی جوان ہو کر آپ کھانے سے ڈرتے ہیں‘‘
بٹ صاحب کی بے تکلفی کے جواب میں، میں بھی قدرے بے تکلف ہو گیا’’ معاف کیجئے گا!میں پنجابی تو ہوں لیکن بٹ نہیں ہوں۔ سارے پنجابی اتنے خوش خوراک نہیں ہوتے جتنے ہمارے کشمیر ی بھائی ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں کھانے میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘
بٹ صاحب میرے مذاق سے بہت خوش ہوئے’’ اوہ جی! خوش خوراکی کا تو مجھے علم نہیں لیکن خوش مزاجی میں آپ بھی بٹ ہی لگے ہو۔ ویسے میرے ان دوستوں میں سے دو تو اصلی والے بٹ ہیں اور دوسرے دو بٹ نہ ہونے کے باوجود عادات و اطوار میں ہم سے بھی زیادہ بٹ ہیں‘‘
’’ میری طرح ان پر بھی بٹوں کی صحبت کا اثر ہو گیا ہوگا‘‘ سبھی میری بات پر ہنس پڑے۔
وہ سارے دوست خوش مزاج اور ملنسار تھے۔ اگلے دو گھنٹے ان کے ساتھ ایسے گزرے جیسے چند منٹ گزرتے ہیں۔ جب یہ محفل برخواست ہوئی تو یوں لگاکہ ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ جمیل، اصغر، رب نواز، اور افضل نامی ان نوجوانوں نے اپنی محبت، حُسن سلوک اور مہمان نوازی کے جذبے سے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں انہیں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ اس دوران جمشید بٹ صاحب نے لاہوریوں کی مہمان نوازی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اور اپنی بات منواتے ہوئے ہمیں گرماگرم سیخ کباب، تکے اور نان کھلوا کر ہی چھوڑا۔ ان کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی کہ دوسرا کھانا جتنا بھی کھا لیں پاکستانی کھانے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اس کے بعد حلوے اور سبز چائے کا دور چلا تو پاکستان کی یاد تازہ ہو گئی۔
جمشید بٹ کے ان چاروں دوستوں کو ابھی تک ہالینڈ کی مستقل سکونت نہیں ملی تھی۔ رب نواز اور افضل حصولِ علم کے لئے وہاں آئے تھے۔ ان کو ڈگریاں ملنے والی تھیں جو خوشی کی بات تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پریشانی کی بات بھی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ویزے کی میعاد بھی ختم ہو رہی تھی۔ جبکہ متوسط طبقے کے یہ نوجوان ہالینڈ میں رہ کر اپنے اپنے خاندانوں کی معاشی بہتری چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں ان ڈگریوں کے باوجود پاکستان میں کوئی بڑی جاب ملنے کی انہیں توقع نہیں تھی۔ علاوہ ازیں ان کے اہلِ خانہ نے ان کی تعلیم کے لئے نہ صرف اپنی تمام جمع پونجی صرف کر دی تھی بلکہ قرضے تلے دب چکے تھے ۔ اس کثیر سرمائے کی واپسی صر ف ہالینڈ میں رہ کر ممکن تھی۔ لیکن انہیں ہالینڈ میں رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہالینڈ میں ان کا قیام غیر قانونی ہو جاتا جس کی وجہ سے وہ کوئی اچھی جاب حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اوپر سے پکڑے جانے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔ اس صورتِ حال سے وہ پریشان تھے۔
رب نواز اور افضل نے خودسے درپیش تمام صورتِ حال مجھے بتا دی۔ وہ آسٹریلیا مائیگریٹ ہونے کے بارے میں معلومات بھی چاہتے تھے۔
آسٹریلیا میں مائیگریشن کے لئے جو معلومات مجھے حاصل تھیں وہ میں نے ان کے گوش گزار کر دیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں سوالات اور جوابات کا سلسلہ شروع ہو ا تو جمشید بٹ جو اچھے خاصے کاروبار کے مالک تھے سمیت سب دوستوں نے ان معلومات میں دلچسپی لی۔ وہ سبھی اپنے اپنے حالات کے تحت آسٹریلیا میں مستقل سکونت حاصل کرنے میں کامیابی یا ناکامی کے بارے میں جاننے کے خواہاں تھے۔ ان چاروں نوجوانوں کی دلچسپی تو سمجھ میں آتی تھی کہ وہ ابھی تک ہالینڈ میں’’ پکے‘‘ نہیں تھے لیکن جمشید بٹ سے میں نے پوچھا ’’ آپ تو عرصے سے یہاں ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ آپ کا اپنا یہاں کاروبار ہے۔ پھر آسٹریلیا کسی لئے جانا چاہتے ہیں؟‘‘
جمشید بٹ نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہ لگاتے ہوئے کہا ’’ اوہ چھڈو جی ہالینڈنوں! ا یتھے کی رکھیا اے۔ نہ کرکٹ ہے نہ گرمی ہے اور نہ انگریزی ۔ میں جب پاکستان میں رہتا تھا تو ٹی وی پر آسٹریلیا میں ہونے والے کرکٹ میچ دیکھا کرتا تھا۔ ان میچوں میں آسٹریلین گوریاں جس لباس اور جس انداز میںوہاں بیٹھی نظر آتی تھیں وہ آج تک مجھے نہیں بھولا۔ یہاں سال کے چھ ماہ سردی کی قبر میں گزارنے پڑتے ہیں۔ اوپر سے گوریوں نے پورے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔ کیا فائدہ ہوا جی اتنے دُور آنے کا۔بس یوں سمجھیںکہ ہر سال ہماری زندگی کے چھ ماہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یورپ کے باسیوں کی آپ لوگوں کے مقابلے میں سمجھو آدھی عمر ہوتی ہے۔ باقی آدھی تو سردی، اندھیرے اور بارش کی نذر ہو جاتی ہے۔ آپ لوگ اچھے ہیںجہاں سال کے بارہ مہینے دھوپ اور روشنی ہوتی ہے۔ اوپر سے وہ سرسبز کرکٹ گراوٗنڈ اور اُس میں بیٹھی اور لیٹی گوریاں جیسے مجھے وہاں بلاتی رہتی ہیں۔ ویسے میں نے سُنا ہے کہ وہاں سمندر کے کنارے (Beaches)بھی غضب کے ہیں ۔اگر کرکٹ گرائو نڈ میں ایسا لباس ہوتا ہے تو وہاں کیسا ہوتا ہوگا‘‘
میں نے بٹ صاحب کی باتوں پر ہنستے ہوئے کہا ’’وہاں ہوتا ہی نہیں یا اتنا کم ہوتا ہے کہ لباس کے علاوہ باقی سب کچھ نظر آتا ہے۔‘‘
’’ پھر تو آسٹریلیا ہی اچھا ہے۔ مجھے اگر وہاں جانے کا موقع مل جائے تو سب کچھ بیچ باچ کر آسٹریلیا چلا جاوٗں گا ۔وہاں بھی پاکستانی ریسٹورنٹ کھولوں گا ۔لیکن کسی سنہری دھوپ اور سفید ریت والے بیچ پر جہاں سارا دن آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع ملے اور رات کو خواب بھی رنگین نظر آئیں‘‘
جمشید بٹ کی باتوں پر سبھی ہنس رہے تھے۔ میں نے پوچھا ’’بٹ صاحب ! آپ اتنے عرصے سے ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ ریسٹورنٹ بھی آپ نے ایسے علاقے میں کھولا ہے جہاں حسینوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ ابھی تک آپ کا شوق پورا نہیں ہوا؟‘‘
’’اوہ جی! یہ شوق بھی کبھی پورا ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں اس بازار میں ایسے ایسے بڈھے نظر آ تے ہیں جن کے پاوٗں قبر میں ہوتے ہیں۔ تنکا توڑنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن ان کی آنکھوں میں ہوس کے شعلے لپک رہے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے مرزا غالبؔ صاحب نے انہی کے لئے لکھا تھا۔
اگر ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے
رہنے دو ابھی میناو ساغرمیرے آگے
اگر ان بڈھوں کا شوق ابھی تک پورا نہیں ہوا تو میں نے تو پنجاب کی پیڑے والی لسی پی ہوئی ہے‘‘
سب خوا ب بکھر چکے ہیں
جمشید بٹ کی دلچسپ باتوں سے سبھی محفوظ ہو رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ جمیل اور اصغر اپنے قہقہوں کے باوجود کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تفکرات کی پرچھائیاں اس خوشگوار ماحول میں بھی نظر آرہی تھیں۔علاوہ ازیں وہ سُن زیادہ رہے تھے اور بول کم رہے تھے۔ میں نے ان کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا’’’کیوں بھئی ! آپ لوگ کچھ خاموش خاموش لگ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟‘‘
جمیل نے کہا’’ نہیں جی! ایسی تو کوئی بات نہیں ! ہم تو اس محفل سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے ہیں‘‘
میں نے پوچھا’’ رب نواز اور افضل نے تو بتایا ہے کہ وہ طالب علم ہیں۔ آپ لوگوں کو یہاں کی مستقل سکونت مل چکی ہے یا نہیں؟‘‘
اس دفعہ اصغر نے جمیل کی طرف دیکھا اور سر جھکاتے ہوئے کہا ’’نہیں جی! ہم تو ان سے بھی زیادہ پریشان ہیں کیونکہ ہمارے ویزے ختم ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل کا بیک وقت سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے آپ کو پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیوں سے بچانا اور چھپ چھپا کر نوکری کرنا۔ ظاہر ہے ان حالات میں کوئی اچھی نوکری بھی نہیں مل سکتی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کل کیا ہو گا ؟ ایک دبیز اور لامتناہی اندھیرے کے سوا دور دور تک اور کچھ دکھائی نہیں دیتا‘‘
میں جمیل اور اصغر کے مسائل بخوبی سمجھ سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا میں میرے بہت سے دوست اور جاننے والے ایسے ہی مسائل سے گزرے ہیں۔ بعض اب بھی گزر رہے ہیں۔ ان سب کی الگ الگ کہانی ہے۔ لیکن ان سب کا مشترکہ مسئلہ معاشی ہے۔ وہ اپنی اور اپنے کنبے کی معاشی بہتری اور بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کا رُخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بیروزگاری ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سفارش ، رشوت اور لاقانونیت بھی انہیں ان ممالک کی طرف ہجرت پر اکساتی ہیں۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا خصوصاً ٹی وی مغربی طرزِ زندگی کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ بھی نوجوانوں کو بلا سوچے سمجھے ادھر کا رُخ کرنے کی ترغیب کا باعث بنتا ہے۔
انسا نوں کی غیر قا نونی اسمگلنگ کر نے وا لے گروہ ان نو جو انوں کے جذبات و حالات کا ناجائز فا ئدہ اٹھا کر، بڑی بڑی رقمیں بٹور کر، مختلف طریقوں سے انہیں ان مما لک کی سر حدوں کے اندر تو دھکیل دیتے ہیں لیکن انہیں تصویر کا دوسرا رُخ کو ئی نہیں دکھا تاکہ وہاں جا نے کے بعد ان پر کیا بیت سکتی ہے۔ غیر قا نو نی طور پر کسی ملک میں جا نا شا ئد اتنا مشکل نہیںجتنا وہاںسیٹل ہو نا اور قا نونی حیثیت حاصل کرنا ہے۔اس انتہائی تکلیف دہ ، طویل اور مشکل عملکے دوران ان نو جوا نوں پر کیا کچھ بیتتا ہے اس کا علم اگر پاکستان میںسب لوگوں کو ہو جائے تو شا ئد بہت سے نو جوان سنبھل جا ئیں۔ اور جذبا تی فیصلے کر نے سے پہلے کچھ سوچ بچار کر لیں۔اس طرح نہ صرف وہ خود کو پیش آنے والی بہت سی مشکلات سے بچ سکیں گے بلکہ والدین کی جمع پو نجی اور زندگی بھر کا سر ما یہ انسا نوں کے ان اسمگلروںکے ہا تھوں گنوا نے سے بھی بچ جائیں گے۔
اصغر اورجمیل کے مو جو دہ حا لاتسن کر آسٹریلیا میں مو جو د بہت سے احباب کی کہا نیا ں میر ے دماغ میں گردش کر نے لگیں۔ میں نے سلسلہ کلام جا ری رکھتے ہو ئے ان سے پو چھا ,,آپ لو گ ہالینڈ آئے کیسے تھے؟‘‘
اس دفعہ جمیل نے کہا ,,یہ ایک لمبی کہا نی ہے۔ مختصر یہ کہ ہم کچھ سیا ست دا نوں کے ہا تھوں کا کھلو نا بن کر گھر سے بے گھر ہو ئے ہیں‘‘
,,اگر تم لو گ محسوس نہ کرو تو اپنی کہا نی سنا دو کہ انسا نوں کی یہی کہا نیاں جہاں دوسروں کی دلچسپی کا با عث بنتی ہیں وہاں کسی کے لئے سنبھلنے اور ٹھو کر سے بچنے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں،،اپنے اس سفر نا مہ کو احاطہِ تحریر میں لانے کے خیال سے میں نے کہا ۔میرے سوال کے جوا ب میں جمیل نے جو بتا یا وہ اسی کی زبا نی ملاحظہ فر ما ئیے۔
,, آپ یہ سن کر حیرا ن ہو ںگے کہ میں جو یہاں ریستورا نوں میں بر تن ما نجھتاہوں میڈیکل کا لج کا طا لبعلم تھا۔ سا ڑھے چا ر بر س کا کورس میں نے کا میا بی سے مکمل کر لیا تھا اور میرے ڈاکٹر بننے میں صرف اٹھارہ ماہ کا مختصر عرصہ با قی رہ گیا تھا۔ڈاکٹر بننا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش اور میرے والدین کا خواب تھا۔آج میر ی یہ خواہش حسرت بن گئی ہے اور میر ے والدین کے خوا ب ادھورے رہ گئے ہیں۔ڈاکٹربن کر معزز شہری ، والدین کا سہارا اور دکھی انسا نیت کی خدمت کا فرض ادا کر نے کی بجائے آج میں لوگوں کے جھو ٹے بر تن ما نجھ رہا ہوں ۔اس سے زیا دہ قدرت کی ستم ظریفی کیا ہو سکتی ہے۔
میری طرح اصغر بھی انجینئر بننے کے قریب تھا۔ ہم دو نوں اپنی سہا نی اور خوا ب ناک منزل سے اتنے قریب تھے کہ آج دو نوں کو یقین نہیں آرہا کہ وہ سب خوا ب بکھر چکے ہیں ۔ہماری منزل ہا تھ آتے آتے اتنی دور چلی گئی کہ دور دور تک دکھا ئی نہیں دیتی ۔ ہما رے اور ہمارے خا ندا نوں کے مستقبل تبا ہ ہو چکے ہیں ۔
ہماراقصو ر صرف اتنا تھا کہ ہم دو نوں اپنے دوستوں اور اپنے کا لجوں میں ہر دلعزیزطالبعلم تھے۔اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے ہمیں آہستہ آہستہ سیا ست کے خارزار میں کھینچ لیا۔ہم انہیں دوست اور کلاس فیلو سمجھتے رہے لیکن وہ کچھ سیا سی جما عتوں کے تنخواہ دار ایجنٹ تھے۔انہیں اسی مقصد کے لئے کا لجوں اور یو نیورسٹیوںمیںبھیجا جا تا ہے کہ وہا ں کے بھو لے بھا لے طا لبعلموں کو بہلا پھسلا کر سیا ست کے گندے کھیل میں اس طرح ملوث کر دیا جا ئے جس سے اس ان سیا سی جما عتوں کو نو جوا ن اور جذباتی کا رکن ملتے رہیں جنہیں وہ سیا سی غنڈہ گردی ،توڑ پھوڑ،احتجاج اور مظاہروں کے لئے استعمال کر تے ہیں۔ ان میں سے بعض باقاعدہ مجرم بن جا تے ہیں۔ وہ توڑ پھوڑ،مظاہرے،غنڈہ گردی اور قتل تک سے گریز نہیں کر تے۔ہمیں شروع میں یہی بتا یا گیا کہ اپنے کا لج کے طا لبعلموں کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کر نا ہے۔ بعد میں ہمیں ملک میں جمہوریت،آزادی اور انسا نی حقوق کی علمبرداری کا خوبصورت نعرے دے کر مزید آگے بڑھا دیا گیا۔ہمیں اپنے ساتھ ساتھ ملک کا مستقبل بہتر بنا نے کی ڈیوٹی سنبھا لنے کے لئے کہا گیا۔غرضیکہ کا لج اور یو نیورسٹی میں جلسے جلوس کر تے کرتے ہم سیا سی جلسوں اور سڑکوں پر چلنے والی تحریکوں میں آگے سے آگے بڑھتے رہے۔اس دوران ہمیں سو چنے اور سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ہماری کم عمری،نا تجربہ کا ری اور جذباتی پن سے فا ئدہ اٹھا کر اپنے اور ملک کے سنہرے مستقبل کے ایسے سہا نے خوا ب ہماری آنکھوں میں سجا دیے گئے کہ ہمیں اس کے سواکچھ دکھا ئی ہی نہیں دیتا تھا۔
اس کے با وجود ہمیں کچھ عرصے میں اس سیا ست دا ن کے دوغلے پن اور گندی سیا ست کا علم ہو گیا۔وہ جس طریقے سے ہمیں کھلو نا بنا کر اپنی سیا ست کی دکا ن چمکا رہے تھے آہستہ آہستہ ہمیں اس کا احسا س ہو گیا۔کیو نکہ ایسے سیا ست دان عوا م کے سا منے کچھ اور کہتے ہیں اور کر تے اس کے بر عکس ہیں۔انہیں صرف کر سی درکار ہو تی ہے۔عوام کی بہتری اور ملک کا مستقبل ان کے اصل ایجنڈے میں کہیں نہیں ہو تا۔ یہ صرف لو گو ں کو بے وقوف بنانے کے لئے نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سیا ست دا نوں کے قریب رہ کر ہمیں ان کے کردار اور عمل کو جا نچنے اور پر کھنے کا مو قع ملا تو ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ وہ جس طریقے سے ہمیں استعمال کر کے ہمارے مستقبل کو بر باد کر رہے تھے اس کا بھی ہمیں احساس ہو گیا لہذا ہم نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔لیکن ان سیا ست دا نوں کا ما فیا اتنا مضبوط اور ہمارے ارد گردپھیلایا گیاجا ل اتنا پرُ پیچ ہو تا ہے کہ اگر کوئی اس سے نکلنا بھی چاہے تو نہیںنکل سکتا۔ کیو نکہ یہ لوگ اپنے شکار کو آسا نی سے کھو نے کے قائل نہیں۔ خاص طور پر وہ جو اُن کی اصلیت سے وا قف ہو جائے۔
ہما رے سا تھ بھی یہی ہوا ۔جب انہیں ہمارے ارادوں کا علم ہو ا تو ہمیں قتل کے کیس میں ملوث کرا دیاگیا۔یہ کیس مخالف پا رٹی کی طرف سے تھا۔لیکن ہمیں علم تھا کہ ہمارے نام ’’اپنوں‘‘ نے دئیے ہیں۔ قتل کے اس کیس سے میرا یا اصغر کا کو ئی تعلق نہیں تھا۔ جس جگہ یہ قتل ہوا ہم وہاں مو جو د ہی نہیں تھے۔ ایف آئی آر میں ہمارا نا م درج کرانے کے بعداس سیا ست دان نے ہمیں عملاً اغوا کر کے نامعلوم جگہ پر بند کر ا دیا۔ بظاہر ہمیں پو لیس سے بچا یا جا رہا تھالیکن اس سے ہما رے خلاف کیسمزید مضبوط ہو گیا ۔پولیس نے اسے ہما رے فرار سے تعبیر کیا اور ہمیں اشتہا ری ملزم قرار دے دیا گیا۔
اس طرح ہمارے سنہرے مستقبل پر تا ریکی کا ایسا پردہ ڈال دیا گیا کہ یہ تاریکی سا ری زندگی نہ ختم ہو سکے گی۔ ہم نہ جانے کب تک اس تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔ ہم اپنے والدین اور گھر والوں کے لئے سہارا بننے کے بجائے بوجھ بن گئے ہیں۔ان کے ماتھے کے کلنک بن گئے ہیں۔پولیس انہیں تنگ کر رہی ہے ۔ ہم چھپتے چھپتے یہاں پر دیس کی خاک چھاننے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔ نہ ہمیں یہا ں اپنا کوئی مستقبل دکھا ئی دیتا ہے اور نہ اپنے وطن اور عزیز و اقارب کو دیکھنے کی کو ئی امید نظر آتی ہے‘‘
جمیل کی زبانی ان کی طویل اور درد بھر ی کہانی سننے کے دوران ہم سب جذباتی ہو گئے۔ خصوصاًجمشید بٹ تو با قاعدہ رو رہا تھا۔ یہ آنسو اس کے حساس اوردرد بھرے دل کی گوا ہی دے رہے تھے۔یہ وہی شخص تھا جو تھوڑی دیر پہلے اپنے قہقہوں سے محفل کو زعفرانِ زار بنا ئے ہوئے تھا ۔اور اب اپنے دو ہم وطنوں کی دُکھ بھری کہا نی سن کر آنسو بہا رہا تھا۔ شائد یہی انسا ن کے زندہ ضمیر کی علا مت ہے۔تھوڑے توقف کے بعد میں نے جمیل سے پو چھا’’ ان حا لات میں آپ لو گ یہاں ہا لینڈ میں کیسے پہنچے؟‘‘
اس دفعہ اصغر نے جو اب دیا ’’یہاں بھی ہمیں ان لو گوں نے ہی پہنچا یا ہے، جنہوں نے ہمیں ان حا لات تک پہنچا یا ہے۔ ہمیں بتا یا گیا کہ ہما رے خلاف کیس اتنا مضبو ط ہے کہ ہمیں پھا نسی بھی ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں تھا نے میں جا کر رپورٹ کر نا اور کیس کا سا منا کر نا مو ت کے منہ میں جا نے کے مترا دف ہے۔ اس طرح خوفزدہ کر نے کے بعد ہمیں یہی ایک صورت بتائی گئی کہ ہم ملک سے با ہر بھاگ جائیں۔ہمارے پا سپورٹ اور ویزے کا بندو بست بھی انہوں نے ہی کیا۔ جس کے نتیجے میں آج ہم یہاں آپ کے سا منے بیٹھے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد ہمیں حالات کا تجزیہ کر نے کا مو قع ملا ۔کچھ دوستوں سے مزید معلومات بھی ملیں تو پتہ چلا کہ ہمارے خلاف یہ سازش اسی سیا ست دان نے کی تھی جس کا جھنڈا لے کر ہم سڑکوں پر مظاہرے کر تے رہے۔ دراصل یہ قتل بھی اسی نے کرا یا تھا ۔اس سے اس کو کئی فائدے ہو ئے ۔ایک تو اس نے اپنے مخالف کو راستے سے ہٹا دیا ۔ دوسرا یہ کہ مخالف پارٹی پر رعب قائم کر لیا۔تیسرا قا تل کو صا ف بچا لیااور چوتھا یہ کہ ہم جو اس کی اصلیت سے وا قف ہو گئے تھے اورہمارے سامنے آنے سے اصل قا تل اور اس کے پیچھے چھپے چہرے کے سا منے آنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کو اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور کر دیا تھا۔ وہ اب بھی عوا م کا ہمدرد، اصولی سیا ست دا ن اور ملک کی بہتری چاہنے وا لا مقبول رہنما بن کر اہم کر سی پر برا جمان ہے اور ہم بے گناہ ہو تے ہو ئے نا کردہ گناہوں کی سزا کا ٹ رہے ہیں۔ نہ جا نے یہ سزا کب ختم ہو گی؟ ختم ہو گی بھی یا نہیں؟‘‘
اصغر نے اپنی با ت ختم کی تو کا فی دیر تک کو ئی کچھ نہیں بولا۔اس کی غم ناک روداد کے دوران سا غرؔ صدیقی کا یہ شعر میرے ذہن میں گردش کر تا رہا ۔
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کا ٹی ہے
جا نے کس جر م کی پا ئی ہے سزا یا د نہیں
جمشید بٹ اور اس کے سا تھیوں کے سا تھ میرا تعارف صرف دو گھنٹے پہلے ہو ا تھا۔ ان دو گھنٹوں میں، میں ان کے سا تھ اتنا گھل مل چکا تھا جیسے برسوں کی شنا سائی ہو۔یہ صرف جمشید بٹ کی زندہ دلی اور ہموطنوں سے اس کی محبت کی بدولت تھا۔ ورنہ یو رپ کی تیز رفتار زندگی میں اپنے کارو بار اور وقت کی قربا نی دے کر کسی کے لئے کو ئی کم ہی وقت نکا ل پا تا ہے ۔ پا کستا ن کی روایتی مہمان نوازی اور با ہمی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو مغربی دنیا کے لئے ایک مثا ل اور ہمارے لئے خدا کی نعمت ہے۔ ورنہ یہاں یورپی زندگی میں ان چیزوں کا تصور ہینہیں۔
رات کے اس وقت ریستوران میں گا ہک برا ئے نا م ہی تھے۔ اگر کو ئی ا کّا دکّا آ جا تا تو بٹ صا حب کا ملا زم اسے نبٹا دیتاتھا۔ بٹ صا حب ہما رے سا تھ بیٹھے نہ صرف مصروفِ گفتگو تھے بلکہ ہما ری خاطر مدارت بھی کر رہے تھے۔ ایسے کر دار خال خال اور نا قا بلِ فرا موش ہو تے ہیں۔ میں آج تک جمشید بٹ کی زندہ دلی اور اس کے دوستوں کی کہا نیاں دل و دماغ میں بسا ئے ہو ئے ہوں ۔میری دعا ہے کہ خدا ان سب کے مسا ئل حل کرے اور انہیں زندگی میں خوشی ،سکون اور امن نصیب فرمائے۔ آمین۔
رات دو بجے جمشید بٹ نے مجھے نووٹل ڈراپ کیا۔ میں اتنا تھک چکا تھا کہ ہو ٹل کے با ر میں سا تھیوں کو دیکھنے کے لئے نہیں گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ ان میں سے کچھ ابھی تک وہاں بیٹھے پینے پلا نے میں مصروف ہوں گے۔ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ایک دو گھنٹے مزید بیٹھنا پڑ سکتا تھا۔ میں نے استقبا لیہ سے اپنے کمرے کی چا بی لی اور سیدھا اوپر چلا گیا ۔لباس تبدیل کر کے نرم بستر پر دراز ہوا تو کچھ دیر تک ایمسٹر ڈم کے سرخ روشنی وا لے علا قے کے منا ظر آنکھوں کے سا منے فلم کی طرح چلتے رہے ۔کبھی جمشید بٹ،جمیل،اصغر، رب نواز اور افضل سے ہو نے وا لی گفتگو دل و دماغ میں گو نجتی رہی۔ آہستہ آہستہ نیند ان خیالوں پر غالب آتی گئی اور میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کرسو گیا۔
میں پنجا بی وی بو ل لینا آں
اگلی صبح میری آنکھ ٹیلیفو ن کی گھنٹی سے کھلی۔آج کا دن ہم گروپ سے آزاد تھے۔ جہاں دل چا ہے اپنے طور پر گھو منے پھرنے جا سکتے تھے۔ میں رات دیرسے سو یا تھا۔ اس سے پچھلی را ت بھی پوری نیند نہیں لے سکا تھا۔ اس لئے میراارادہ تھا کہ آج دیر تک سو کر سا ری کسر پو ری کروں گالیکن ٹیلیفون کی گھنٹی نے میرے ارادوں پر پانی پھیرتے ہوئے میر ے سہا نے خوا بوں کا سلسلہ منقطع کر دیا ۔میں نے گھڑی پر نظر ڈا لی تو صرف آٹھ بجے تھے ۔گو یا مجھے میرے پرو گرا م سے دو گھنٹے پہلے جگا دیا گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اتنی صبح یہ مہر با نی کی کس نے ہے۔اس سوال کا جوا ب پا نے کے لئے میں نے ٹیلیفون اٹھا یا جو مسلسل بجے جا رہا تھا ۔میری ہیلو کے جوا ب میں کسی نے ڈچ زبا ن میں پتھر لڑھکائے جو ظاہر ہے میری سمجھ میں نہیں آئے ۔میں نے انگریزی میں کہا ,,سوری ! مجھے ڈچ نہیں آتی ۔کیا آپ انگریزی میں بات کر سکتے ہیں ،،
’’اوہ پا پا جی!انگریزی نوں چھڈو! میں پنجا بی وی بو ل لینا آں،،
میں نے پہچا ن لیا !
اگرچہ اظہر کو ملے ایک عرصہ بیت گیا تھالیکن اس کا مخصوص لہجہ میں نہیں بھو لا تھا ۔اظہر میرا بچپن کا دوست اور سکول میںہم جما عت تھا۔ اس کے دو بڑے بھا ئی عرصہ ِدرا ز سے یہاں ہا لینڈ میں مقیم تھے۔ اظہر نے تعلیم مکمل کر لی تو وہ بھی یہاں چلا آیا ۔بعد میں ان کے والدین اوردو کزن بھی یہیں آگئے۔ اس طرح ہا لینڈ میں ان کے خا ندا ن کے کا فی لو گ اکٹھے ہو گئے تھے ۔اسکو ل سے نکلے تو اس کے بعد میری اظہر سے ملا قا ت نہیں ہوئی۔آج اتنے عرصے کے بعد ا س کی آواز سنُی توایسے لگا جیسے کل ہی کی با ت تھی جب ہم بیگ اٹھائے اکٹھے اسکو ل جا تے تھے ۔لمحے بھر میں میرے خیالات نے حال سے ما ضی اورپھر حال تک کا سفر کر لیا ۔میں نے کہا’’ اظہر کے بچے ! اتنی صبح تم نے مجھے یہی بتا نے کے لئے فو ن کیا ہے کہ تمھیں پنجا بی آتی ہے،،
’’صرف فو ن نہیں کیابلکہ ابھی تمھیں ملنے بھی آرہا ہوں۔ اب اتنی بھی صبح نہیں ہے۔ اس وقت تک ہم اسکو ل میں پہنچ کر ایک پیریڈ ختم کر چکے ہو تے تھے۔ لگتا ہے اب تمھا ری عا دتیں بگڑ چکی ہیں ،،
,, عا دتیں تو اس وقت بھی ایسی ہی تھیں‘‘ میں نے ہنستے ہو ئے کہا ’’لیکن اس وقت ما سٹر صاحب کے ڈنڈوں کا ڈر ہو تا تھا ،،
,, بس سمجھو !کہ آج وہی ڈنڈا میرے پا س ہے۔ جلدی سے اٹھ کر تیا ر ہو جاؤ۔میں پندرہ منٹ میں تمھا رے ہو ٹل پہنچ رہا ہو ں ،،
’’لیکن تمھیں میرے با رے میں بتا یا کس نے ہے ؟،، میری آنکھ اب پو ری طرح کھل چکی تھی اور میں اظہر کے اس طرح فون کر نے پر حیرا ن ہو رہا تھا
اظہر نے کہا ’’یہ میں تمھیں وہیں آکر بتا ؤں گا۔مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ رات تم کہاں گھو متے رہے ہو۔اسی لئے میں نے کہا تھا کہ تمھاری عا دتیں بگڑ چکی ہیں ،،
لگتا تھا کہ وہ حسب ِ عا دت تنگ کر نے کے موڈ میں ہے۔ اس لئے میں نے سوا ل جوا ب کا سلسلہ اس کے آنے تک ملتوی کر دیا اور فون بند کر کے شاور کی تیا ری کر نے لگا۔
گزرے برسوں میں اظہر میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ ویسے بھی بچپن سے جو انی تک کے سفر میں انسا ن میں قدرتی طور پر بہت تبدیلی آجا تی ہے ۔ آنکھوں اور چہرے کے خدو خا ل کی وجہ سے میں نے اُسے بآسا نی پہچا ن لیا۔ اس نے بھی ہو ٹل کی لا بی میں ایک نظر دوڑا نے کے بعد میری طرف بڑھنا شرو ع کر دیا۔ ویسے بھی ہم دونوں کے سوا کو ئی اور ایشیائی وہاں نظر نہیں آرہا تھا۔اظہر بہت تپاک بلکہ دبا دبا کر ملا۔بچپن میں دبلا پتلا اور مریل سا ہو تا تھا لیکن اب میری پسلیاں توڑنے پر تلا ہو ا تھا۔میں نے کہا,,اب بس بھی کرو !کہیں اس پر دیسی کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر نہیں کر دینا۔ لگتاہے ہا لینڈ کا گوشت اور مکھن تمھیں خوب راس آیا ہے،،
خدا خدا کر کے ا س نے جا ن چھوڑی تو میں نے سکون کی سا نس لیتے ہوئے کہا ,,تم ذرا بھی نہیں بدلے ۔ اب بھی ویسے ہی شرارتی ،ضدی اور دوسروں کو تنگ کرنے وا لے ہو۔ اب تو تم نے شا دی بھی کر لی ہے۔ تمھاری بیوی بیچا ری پر کیا گزرتی ہو گی،،
دراصل اظہر نے کچھ عرصہ پہلے ہی دھوم دھا م سے شا دی کی تھی اور دلہن کو ہا لینڈ لے کر آیا تھا۔ہماری با ہمی ملا قات تو عرصے سے نہیں ہو ئی تھی۔ لیکن گاؤں کے لو گوں کے حالات ،غمی اور خوشی کی خبریں، اس کے باسیوں کو، وہ جہاں بھی رہیں، معلوم ہوتے رہتے ہیں ۔پر دیس میں رہنے وا لے اپنے محّلے،گاؤں اور ملک کے حالات کی خبر رکھتے ہیں۔ وہ دنیا کے کسی خطے میں بھی رہیں ان کے تعلق کی ڈور اپنے لو گو ں کے ساتھ مضبوطی سے بندھی رہتی ہے اور ان کے دکھ درد میں برا بر کے شریک رہتے ہیں۔ یہ الگ با ت ہے کہ دُوریوں اور فا صلوں کی وجہ سے وہ متعلقہ لو گوں تک اپنے جذبات پہنچا نہیں پا تے۔ ویسے بھی اپنے گھر اور اپنے ملک میں رہنے وا لوں کو بچھڑ جا نے وا لے اور دُور دیس جا نے وا لے شا ئد اتنے یا د نہ آتے ہوں، کیو نکہ وہ اپنوں میں اور اپنے گھروں میں ہو تے ہیں۔لیکن ہم یہاں بڑے بڑے گھروں کے با وجود بے گھر مسا فروں کی طرح ہو تے ہیں ۔جن کے خوا بوں میں صرف’’ اپنا گھر‘‘ اور اس گھر کے مکین بسے رہتے ہیں۔ انسان فا ئیواسٹار ہوٹل کے آرا م دہ بیڈ پر سکو ن کی نیند نہیں سو پا تا کہ یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہو تا ۔ اسی طرح ہم محلوں میں بھی ہوں تو وہ کانٹوں کا بستر لگتا ہے۔
اظہراور میں ایک دوسرے سے عر صہِ دراز تک ملے بغیر بھی ایک دوسرے کے حا لات سے کا فی حد تک وا قف تھے ۔کیو نکہ جب بھی گاؤں جا نا ہو تا ہے ہمیں تما م حالات سے اپ ٹو ڈیٹ کر دیا جا تا ہے۔ بھلا ہو ٹیلیفو ن کمپنیوں کا !جب سے اس کے دا م کم ہو ئے ہیں اور پا کستا ن میں ٹیلیفُون عا م ہوا ہے اب اس کے ذریعے بھی کا فی خبریں تفصیل سے مل جا تی ہیں۔ جس سے وہاں کے حالات جا ننے اور یادیں تا زہ کر نے کا نیا سا مان ہو جا تاہے۔
اپنی نئی نویلی دلہن کے با رے میں میرے سوا ل کے جوا ب میں اظہر نے کہا ,,یہ تم گھر جا کر اُسی سے پو چھ لینا کہ وہ خوش ہے یا نہیں! اب چلیں؟‘‘
,,مجھے نا شتا تو کر نے دو کہ اس کا یہاں ہا لینڈ میں رواج نہیں ہے ،،
,,ہر روز نا شتا کر نا ضروری نہیں ہے۔ کبھی کبھارنا غہ بھی کر لیتے ہیںاس سے نظامِ ہضم درست رہتا ہے۔ اب چل بھی پڑو،،
اظہرحسبِ عادت اپنی مرضی کر تے ہوئے مجھے لے کر با ہر آگیا جہاں اس کی گا ڑی کھڑی تھی۔ تھو ڑی دیر بعدہم ایمسٹر ڈم کی مصروف سڑکوں پر ڈرائیوکرتے اور اپنے ارد گرد سا ئیکل سواروں کی قطاریں دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ صرف بیس منٹ بعد ہم اظہر کے گھر کے سا منے گا ڑی پا رک کر رہے تھے ۔
یہ پرا نے دور کی ایک بڑی سی عمارت تھی۔ جس میں مجموعی طور پر آٹھ فلیٹ تھے۔ ان میں سے تین فلیٹ اظہر اور اس کے بھا ئیوں کے تھے۔ ان کے علا وہ بھی ایک اور فلیٹ ایک پا کستا نی کی ملکیت تھا ۔گو یا آدھی عمارت پا کستا نیوں کے قبضے میں تھی۔با ہر سے صدیوں پرا نی اور خستہ سی نظر آنے وا لی عما رت اندر سے تمام جدید سہولتوں سے آراستہ تھی۔ ایمسٹر ڈم میں جدھر نظر دوڑائیںپرا نے طرز کی عما رتیں نظر آتی ہیں۔ بیسویں صدی میں بننے وا لی عما رتیںخا ل خا ل ہیں ۔گو یا مو جو دہ نسلوں کو عما رتیں بنا نے پر رقم خرچ کر نے کی قطعاََ ضرورت نہیں۔ انہیں سب کچھ بنا بنایا مل گیا ہے۔ یہ عما رتیں اتنی دیر پا ہیں کہ آئندہ بھی کئی نسلیں ان میں رہ سکتی ہیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی یہ عما رتیں با ہر سے سادہ نظر آتی ہیںلیکن ان کے اندر جدید زما نے کی تما م سہو لتیں مو جو د ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی یہی نشا نی ہے کہ ان کے تما م منصوبے اور پرو جیکٹ دیرپا ہوتے ہیں۔ ان کی حکو متیں اور دیگر ادارے عا رضی کا موں کے ذریعے عوا م کو بے وقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا نہیں کر تے ۔ وہ مصنوعی شہرت حاصل کرنے کی بجائے حقیقتاََ ملک کی ترقی کے لئے دیر پا منصوبے بناتے اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
اظہر کے گھر اس کی دُلہن کے علاوہ اس کا ایک بھا ئی سعید اور اس کی بیوی بھی مو جو د تھے۔ سعید ہم دونوں سے صرف دو سا ل بڑا تھا اور ہما رے سا تھ ہی اسکول جا یا کر تا تھا ۔اس لئے اس سے بھی میری خا صی بے تکلفی تھی ۔سعیدسے اسکو ل کے زما نے کے بعد بھی ایک دو مرتبہ ملا قات رہی تھی ۔ پوری فیملی نا شتے پر ہما را انتظار کر رہی تھی ۔
دراصل جمشید بٹ صا حب کو میں نے اظہر اور اس کے بھا ئیوں کے با رے میں بتا یا تھا اور ان کا فون نمبر معلوم کر نے میں مدد طلب کی تھی۔بٹ صا حب نے صبح سویرے اُٹھ کر سب سے پہلا کا م یہی کیا ۔اظہر کا فو ن نمبر ملا تو انہوں نے خود ہی اس سے را بطہ کر کے میر ے با رے میں سب کچھ بتا بھی دیا۔
بٹ صاحب کی اس چابکدستی کے نتیجے میں اب میں ان پرا نے دوستوں کے سا تھ بیٹھا گرم گرم پرا ٹھوں کا نا شتہ کر رہا تھا ۔اظہر اور سعید کے سا تھ سا تھ میں بھی اپنے آبا ئی گاؤں سے بہت دُور پر دیس میں بسا ہوا تھا۔ہمارا مو ضوعِ گفتگو اپنا گاؤں اور اس کے مکین تھے۔اسکول کے دور کی یا دیں تا زہ ہو رہی تھیں۔وہ با تیں یاد کر تے ہوئے ایسے لگتا تھا کہ یہ سب کل کی با تیں ہیں۔ در میا ن میں حائل ما ہ و سا ل جیسے مٹ سے گئے تھے۔ ہم ماضی کی طرف سفر کر کے واپس اس دور میں پہنچے ہو ئے تھے جب کھیلنے کو دنے اور پڑھنے کے علاوہ کو ئی اور ذمہ دا ری ہما رے کندھوں پر نہیں تھی ۔جب یہ دنیا ایک کھیل تما شہ محسوس ہوتی تھی۔جب ہما ری نظروں اور سمجھ کا دائرہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک محدودتھا۔جب ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے تو ایک ہی خیال آتا تھا کہ ہمیں فوج کی نوکری کرنی ہے۔
ہمارا آئیڈیل وہ فو جی سپا ہی ہو تے تھے جو سفید کپڑوں میں ملبوس اور کا ندھے پر سیاہ جستی بکس لے کر چھٹیوں پرگائوں آتے تھے ۔ان کی با تیں ہما رے لئے خواب جیسی ہو تی تھیں۔ جب بر طا نیہ اور جر منی وغیرہ کے نا م ہما رے لئے پر یوں کے دیس جیسے تھے۔آسٹریلیا کا نا م تو اس دور میں ہم جا نتے بھی نہیں تھے۔ اس دور میں یہ دیس کوہ قا ف کی طرح ہما رے خیا لوں یا پھر کتا بوں کے حر فوں میں ہی پائے جاتے تھے۔ اس دیس کے باسیوں اور اس ملک کی سر زمین کو دیکھنا دیوا نے کے خوا ب جیسا تھا۔اس وقت ہم ان دیوا نوں میں سے ہر گز نہیں تھے ۔ہما ری سوچ اور ہما رے خوا ب خا کی وردی پہننے تک محدود تھے۔ زیا دہ سے زیا دہ حوالدار یا صوبیدار بننا ہما رے خوا بوں کی معراج ہو سکتا تھا۔
مجھے یا د ہے کہ ایسے ہی خوا بوں میں میرے بڑے بھا ئی طا لب حسین مرزا بھی شریک تھے۔ وہ انتہا ئی ذہین طا لبعلم تھے ۔ان کی نظریں اپنے گاؤں کے سب سے بڑے عہدیدار کے برا برپہنچنے یعنی صوبیداری حاصل کر نے پر لگی تھیں۔وہ کہتے تھے کہ میں گا ؤں کے دوسرے بہت سے لڑکوں کے برعکس میٹرک کا امتحان پا س کر کے رہوں گا ۔(ہما رے گاؤں کے زیا دہ تر لڑکے میٹرک سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے تھے)۔ پھر ایک دن انہوں نے یہ کا م کچھ اس طرح کر کے دکھا یا کہ ربع صدی گزرنے کے بعد بھی اس اسکول میں ان کے نا م کی تختی لگی ہو ئی ہے۔ انہوں نے پو رے ضلع میں ٹاپ کر کے جو ریکارڈ قائم کیااُسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔وہی طا لب حسین مرزا ایک وقت جن کے لئے میٹرک پاس کر نا اور پھر فوج میں صوبیدا ری حاصل کر نا خوا بوں کی معراج تھا۔انہوںنے بعد میںالیکٹریکل انجینئر نگ کی ڈگری حاصل کی۔ آج وہ اللہ کے فضل سے پا کستا ن بحریہ میں لیفٹینٹ کما نڈر کے عہدے پر فا ئز ہیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے مکمل طور پر اپنے بل بو تے پر کیا ورنہ گائوں تو انہوں نے میٹرک کے بعد ہی چھوڑ دیا تھا۔
میں بھی اپنی ابتدائی پلاننگ یعنی حصولِ سند میٹرک سے تھوڑا آگے بڑھا اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ مکینکل انجینرنگ میں ڈپلومہ بھی حاصل کر لیا۔ وہ الگ بات ہے کہ ان دونوں ڈگریوں نے میرا کچھ نہیں بگاڑا۔مستقبل کے میرے پروگرام میں بھی ایک چھوٹی سی مزیدتبدیلی آئی ۔ میںفوج میں صوبیداری کے حصول سے محروم رہا ۔ پہلے پاکستان اور پھر عمان میں بحیثیت انجینئر کام کیا۔کچھ عرصہ درس و تدریس کے شعبے میں جھک ماری۔ آج کل سڈنی میں ایک بڑی چین کے ساتھ کاروبار کر رہا ہوں ۔ ایک آدھ کتاب لکھ کر اپنی جہالت چھپانے کی ناکام کوشش کی۔کہانیاں اور افسانے چھپوا کر اپنا آپ چھپانے کی کوشش کی۔ یہ سفرنامہ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ بہت سے ایڈیٹروں کو میرے بارے میں اچھی طرح علم نہیں ہے اور وہ میری تحریریں چھاپتے رہتے ہیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ آپ بھی ان کو نہیں بتائیے گا۔ جب تک وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر میری تحریریں چھاپ رہے ہیں چھاپنے دیں ۔ آپ کا کیا جاتا ہے ۔
وقت کبھی خوا بوں اور تمنا ؤں کا قبر ستا ن ثا بت ہو تا ہے اور کبھی ہما ری سو چوں اور خوا ہشوں سے بڑھ کر ہمیں عطا کر تا ہے۔ویسے بھی عمر کے ساتھ ساتھ انسا ن کی خوا ہشیں،تمنائیں اور اس کے خوا ب بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت جو زندگی کی سب سے بڑی خوا ہش ہو تی ہے اور جس کا حصول مقصدِ حیات ہو تا ہے بدلتے وقت کے سا تھ وہی خوا ہش ہیچ اور بے مقصد نظر آتی ہے۔ اسی لئے قدرت نے انسا ن کو علم بخشاہے تاکہ اس کا ذہنی سفر آگے سے آگے جا ری رہے۔
ہر پُرکشش چیز قابلِ رسائی نہیں ہوتی
اظہرکے گھر کے کچن میں نا شتہ کر تے کر تے ہم ہزا روں میل دور اپنے وطن اور گاؤں کی گلیوں میں پہنچ گئے تھے۔ما ہ و سا ل کی گرد نے میر ے ذہن سے بچپن اور گاؤں کے مکینوں کو دھندلا سا دیا تھا۔لیکن اظہر اور سعید نے اپنے علا قے کی زبان، رسم و رواج، روایتوں اور اس کے ماضی اور حالسے خود کو زیا دہ دور نہیں ہو نے دیا تھا۔وہ اکثر پا کستا ن جا تے رہتے تھے۔ میر ے بر عکس ان کا قیا م بھی گاؤں میں ہو تا تھا۔اس لئے ان کی معلومات مجھ سے بہت زیا دہ تھیں۔ ان سے مجھے بھی اپ ٹو ڈیٹ ہو نے کا مو قع ملا۔
نا شتے کے بعداظہراور سعید کے سا تھ میں ان کے اسٹور میں آ گیا۔ یہ گراسری اسٹور ان کے گھر سے زیا دہ فا صلے پر نہیں تھا۔ خا صا بڑا اسٹور تھا جس میں زیا دہ تر ایشیائی کھانوںپر مشتمل چیزیں تھیں۔ تا ہم مقا می ڈچ لو گوں کی ضرورت پر مبنی اشیاء بھی دستیا ب تھیں۔ اسٹور میں بیک وقت تین چار افراد کا م کر تے تھے ۔اسٹور کے پیچھے ایک بڑا سا کمرہ اسٹا ک جمع کر نے کے لئے تھا۔ اس میں ایک طرف کچن، باتھ روم اور آفس بھی مو جو د تھا ۔یہ اسٹور کا فی مصروف جگہ پر وا قع تھا اس لئے اچھا بز نس کر رہا تھا ۔یہ اظہراور اس کے بھائیوں کا فیملی بزنس تھا ۔تا ہم ان کا بڑا بھا ئی کسی فرم میں جا ب بھی کر رہا تھا ۔ان تینوںبھا ئیوں نے اپنی محنت ،لگن اوراتحاد سے خود کو یہاں اچھی طرح سیٹ کر لیا تھا۔ تینوں بھا ئیوں کے اپنے اپنے الگ گھر تھے۔ تا ہم ان میں با ہمی اتفاق اور محبت کی مضبوط زنجیر قا ئم تھی۔یہ سب دیکھ کر مجھے مسرت ہو رہی تھی۔ ایک چھو ٹے سے گاؤں سے آنے وا لے میر ے ان دوستوں نے یہاں اتنی کا میا بیاں حاصل کی ہو ئی تھیں۔
وہ تما م دن میں نے اظہر کے اسٹور اور اس کے ِارد گرد کے علا قے میں گھو متے پھرتے گزارا۔اس علا قے میں رہا ئشی عما رتوں کے علا وہ دفا تر،دکا نیں ،ریستوران،اسٹور اور کا فی شا پس وٖغیرہ تھیں۔دریا وہا ں سے زیا دہ دُور نہیں تھا۔میں ٹہلتا ہو ا دریا کے کنا رے چلا گیا۔دریا کے سا تھ سا تھ سڑک چلی جا رہی تھی۔ اس سڑک پر بھی ویسی ہی رنگ برنگی دکا نیں واقع تھیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ دریا کے اندر کشتیاں اِدھر اُدھر آجا رہی تھیں۔ دریا پر جگہ جگہ پل بنے تھے۔ یہ پُل زیا دہ تر پرا نے زما نے کے تھے جن کے نیچے کشتیاں گزرنے کے لئے حصّہ مخصوص تھا۔ کشتیوں کی تعداد بہت زیا دہ تھی۔اس صورتِ حا ل کو کنٹرول کر نے کے لئے انتظا میہ نے پُل کے نیچے ٹریفک لائٹس کا اہتمام کیا ہواتھا۔جس طرح سڑکوں پر سرخ اور سبز بتیوں کے ذریعے ٹریفک کو روکا اور چھوڑا جا تا ہے اسی طرح ان پلوں کے نیچے لگی بتیاں ایک وقت میں ایک طرف کی کشتیوں کو پُل کے نیچے سے گزرنے دیتی ہیں۔ اس دوران دوسری جا نب سرخ روشنی دوسری کشتیوں کو روک کر رکھتی ہے۔پھر اس طرف سبز بتی آن ہو تی اور پہلی جانب سے سرخ بتی کشتیوں کو روک لیتی ہے۔ اس دریا میں کشتیوں کی بہتبڑی تعداد ہے۔ اس کو کنٹرول کر نے کے لئے انتظا میہ نے انتہائی مر بوط نظام بنا یا ہو ا ہے۔ دن کے اس مصروف وقت میں وہ کشتیاں بھری نظر آرہی تھیں۔دراصل ایمسٹر ڈم میں بہت سے لو گو ں کا ذریعہ سفر یہ کشتیاں ہی ہیں ۔علا وہ ازیں کا رو ں ،بسوں،ٹیکسیوں کے علا وہ ایک بڑی تعداد سا ئیکلوں پر سفر کر تی ہے۔ یہ عا م سی بھدی بھدی سائیکلیں ہو تی ہیں۔اس کے مقا بلے میں آسٹریلیا میں سا ئیکلیں بہت اچھی اور گئیر والی استعما ل ہو تی ہیں ۔کچھ لو گوں نے سا ئیکل کے سا تھ مو ٹر لگا کر اسے موٹر سا ئیکل کی طرح بنا یا ہو تا ہے۔ جب دل چاہتا ہے پیڈل سے چلا تے ہیں جب تھک جاتے ہیں مو ٹر آن کر لیتیہیں ۔
اظہرنے اس شا م مجھے گھما نے کے لئے با ہر لے جا نے کا پرو گرا م بنا یا ہو ا تھا۔ میں نے اسے بتا یا کہ آج شا م یہ ممکن نہیں ہے۔دراصل تما م سفرمیں مو لی کو تنگ کر تا رہا تھا کہ وہ میر ے جیسے اکیلے مسا فر کے لئے کچھ وقت نکالے۔پہلے تو وہ ٹالتی رہی بلکہ ایک آدھ دفعہ اس کے ما تھے پر بل بھی پڑے۔ شروع میں ایسے لگتا تھا کہ وہ میر ے ہنسی مذاق کو بمشکل برداشت کر رہی ہے۔اگر وہ ہما ری گا ئیڈ نہ ہو تی اور صرف مسافر ہو تی تو شائد مجھے سخت جوا ب بھی دیتی۔ مگر آہستہ آہستہ اس کے رویّے میں تبدیلی آتی گئی ۔اب میر ے مذاق کو نہ صرف وہ بر دا شت کر تی تھی بلکہ ہنس کر جوا ب دینے لگی تھی۔ شروع میں صرف ضروری با ت کر تی تھی۔ اب فا رغ وقت میں اکثرمیر ے پاس آکر بیٹھ بھی جا تی تھی۔اس صورتِ حال کا جو لی نے برا منا یا اور وہ مجھ سے کھنچی کھنچی رہنے لگی تھی۔ان لوگوں کے مزاج اتنے نا زک ہوتے ہیں کہ پل میں تو لہ اور پل میں ما شہ۔لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ اپنے جذبات کو پو شیدہ نہیں رکھتے۔ اپنی پسند اور نا پسند کا برملا اظہار کر دیتے ہیں۔کا رو با ری اوقات میں جتنے مہذب اور قوت برداشت کے حامل نظر آ تے ہیں تفریح کے وقت کچھ بھی نہیں چھپا پاتے۔ دل میں جو کچھ چھپا ہو تا ہے ظا ہر کر دیتے ہیں ۔
مولی اور جو لی کومیں وقت گزاری کے لئے چھیڑتا رہتا تھا۔ مو لی نے اس کا زیا دہ اثر نہیں لیا لیکن جو لی جو پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر ی ہو ئی تھی میر ے قریب آتی چلی گئی۔ میرا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا ۔میں تو صرف ہنس کھیل کر اس تفریحی سفر کو خوشگوار بنا نا چا ہتا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ جو لی میری با توں کا غلط مطلب اخذکر رہی ہے ۔ اپنی دانست میںمیرے اتنا نزدیک آگئی ہے جو ہم دونوں کے لئے درست نہیں ہے تو میں نے دا نستہ اس سے دور رہنا شروع کر دیا۔اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں میں مو لی میرے سا تھ گھلنا ملنا شروع ہو گئی۔ اس سے مزید غلط فہمی پیدا ہو ئی۔ پچھلے دو دنوں سے جو لی نے مجھ سے با ت کر نا چھوڑ دیا تھا۔ایک لحاظ سے یہ بہتر تھالیکن میں نہیں چا ہتا تھا کہ اس تفریحی سفر میں کسی کے دل میں بھی رنجش پیدا ہو۔ ابھی کچھ دن با قی تھے۔ مجھے امید تھی کہ جو لی کے دل میں میرے با رے میں جو میل بھر گیا ہے وہ میں دھیرے دھیرے دھو ڈالوں گا۔
ایمسٹر ڈم مو لی کا اپنا شہر تھا ۔ یہاں اس کا گھر تھا۔ میں نے جب اُسے کہا’’مولی! اب تو ہم تمھارے شہر میں آگئے ہیں۔ کچھ تو خیال کرو ایک شام اس پردیسی کے نام کر دو‘‘
’’ یہ ساری شام تو ہم نے اکٹھے گزاری ہے۔ چائنیز میں گئے ہیں اور تو اور ایمسٹرڈم کا سب سے دلچسپ علاقہ بھی آپ لوگوں کو دکھا دیا ہے۔ اور کیا چائیے اس پردیسی کو؟‘‘
’’ مولی خدا کا خوف کرو ۔ میں تمھارے ساتھ شام گزارنے کی بات کر رہا ہوں پورے گروپ کے ساتھ نہیں‘‘ میں نے گروپ کے ساتھ ریڈ لائٹ ایرئیے میں گھومتے ہوئے مولی سے کہا
مولی نے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہوتے ہوئے کہا ’’ طارق تم بہت ضدی ہو۔ ایسا کرو !کل شام سات بجے وہیں سنٹرل اسٹیشن کے سامنے واقع ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر میں آ جا نا۔ میں تمھیں وہیں ملوں گی۔ پلیز کسی اور ساتھی سے ذکر نہیں کرنا کیونکہ یہ میرے لئے مناسب نہیں ہو گا‘‘
’’ فکر نہ کرو ۔ مجھے یہ خبر اخبار دینے میں دینے کا شوق نہیں ہے۔ لیکن تم آ ضرورجانا ۔ ایسا نہ ہو میں وہاں بیٹھا سوکھتا رہا ہوں اور تم کہیں اور نکل جائو‘‘
’’ ڈونٹ وری !کل سات بجے ،سینٹرل اسٹیشن ، ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر! او کے۔ ابھی چلو! دوسرے ساتھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں‘‘
میں نے جب اظہر کو بتایا ’’ سوری یار ! آج تمھارے ساتھ گھومنے نہیں جا سکتا ۔ میں نے اپنے ایک ساتھی کو وقت دے رکھا ہے۔ آج شام اس کے ساتھ جا رہا ہوں۔‘‘
’’ کون سے ساتھی کے ساتھ ؟‘‘ اظہر نے آنکھیں نکالیں
’’ ہے ایک‘‘
’’ مجھے معلوم ہے کون ہوگا تمھارے ساتھ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تم بگڑ چکے ہو‘‘
’’بھئی ! اپنے گاوٗں، اپنے ملک سے اتنا دور آگئے ہیں تو تھوڑا بہت بگڑنے کا حق تو ہمیںملنا چاہیے ورنہ یہاں آنے کا کیا فائدہ ؟‘‘
اظہرمجھے سنٹرل اسٹیشن چھوڑنے جاناچاہتا تھا لیکن میں نے اسے منع کر دیا۔ میں نے معلومات حاصل کر لی تھیں۔ جہاں اس وقت ہم موجود تھے وہاں سے بذریعہ فیری آسانی سے میںسینٹرل اسٹیشن جا سکتا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد میںدریا پر ہچکولے کھاتا سینٹرل اسٹیشن کی طر ف بڑھ رہا تھا۔سینٹرل اسٹیشن کے پاس ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر آسانی سے مل گیا۔ مولی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ وقت گزارنے کے لیے میں انفارمیشن سینڑ کے اندر چلا گیا ۔ ایک ہال نما کمرے میں اس وقت چار پانچ سیاح موجود تھے۔ کھلا بلائوز پہنے صحت مند جسم والی ایک خوبصورت لڑکی سیاحوں کو ان کی مطلوبہ معلومات مہیا کر رہی تھی۔ میرا نمبر آیا تو اس نے بے حد مصروفیت کے باوجود مسکرا کر استقبال کیا اور کہنے لگی’’ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟ ‘‘
’’خدمت تو آپ بہت کچھ کر سکتی ہیں لیکن یہاں نہیں ۔ ویسے آپ کی چھٹی کس وقت ہوگی؟ ‘‘
اس نے میری بات کا بُرا نہیں منایا بلکہ ہنس کر بولی’’ چھٹی کے بعد میں صرف اپنے بوائے فرینڈ کی خدمت کرتی ہوں اور وہ مجھے لینے آنے والا ہے‘‘
اس نے خوبصورتی سے مجھے سرخ جھنڈی دکھا دی لیکن میرے پاس فالتو وقت تھا اس لئے جھک کر اس کے قریب ہو تے ہوئے کہا’’ اپنے مقامی بوائے فرینڈ سے تو تم روز ملتی ہو گی ہم اتنے دور دراز سے یہاںتمھارے ملک میں آئے ہیں۔ کچھ ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ تمھیں بھی تبدیلی ملے گی آج آزما کر دیکھ لو‘‘
اس نے خوبصورت ہنسی کے بعد کہا’’ آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں لیکن آپ کی معلومات کے لئے عرض کر دوں کہ میرا بوائے فرینڈ ڈچ نہیں ہے بلکہ انگریز ہے۔ لہذا میں پہلے ہی اس تبدیلی سے مستفیض ہو رہی ہوں مزید کی ضرورت نہیں‘‘
اس دوران کئی اور ٹورسٹ اندر آکر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اس لئے میں نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا’’ یہ سن کر مجھے مایوسی ہوئی۔ چلو تم نہ سہی کوئی اور سہی۔ ہم بھی مرد آدمی ہیںیہاں آئے ہیں تو کچھ دیکھ کر جائیں گے ۔ ویسے کسی سیاح کے پاس اگر بہت زیادہ وقت نہ ہو ۔ وہ صرف اہم قابلِ دید مقامات دیکھنا چاہتا ہو تو تمھارے خیال میں ایمسٹرڈم میں ایسی کون سی جگہیں ہیں؟ ‘‘
اس نے ٹرے سے بروشر نکالے اور مجھے دیتے ہوئے کہا’’ ان میں تمام عجائب گھروں اور دوسرے قابلِ دید مقامات کے متعلق معلومات موجود ہے۔ میرے خیال میں چند زیادہ قابلِ ذکر مقامات میں سے اینا فرینک ہاوٗس ، رجکس میوزیم ، ایش میوزیم ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا’’ میوزیمز کے علاوہ بھی کچھ قابلِ ذکر مقامات ہوں گے کچھ ان کے بارے میں بتا دو۔ کیونکہ اس پورے دورے میںعجائب خانے دیکھ دیکھ کر میں اکتا سا گیا ہوں‘‘
’’ ہاں ہیں !آپ شاہی محل جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں ایک مشہو ر فلاور مارکیٹ ہے۔ وہ بھی سیاحوں کے لئے بہت پر کشش مقام ہے‘‘
’’ پر کشش تو تم بھی ہومگر ہر پرکشش چیز قابل رسائی نہیں ہوتی۔ ان تک رسائی کے ذرائع بھی بتا دو تو تمھاری کشش میں مزید اضافہ ہو گا‘‘
’’تمھارا سوال کرنے کا انداز بہت دلچسپ ہے ۔ شاہی محل جانے کے لئے۔۔۔۔‘‘
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی’’ ہمیں وہاں جانے کے لئے راستے کا علم ہے آپ کو زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں‘‘ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مولی نے کہا تو اس لڑکی کے چہرے پر پہلے سے موجود مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ’’لیجئے آپ مقامی گرل فرینڈ سے لے کر مقامی گائیڈ تک ہر چیز میں پہلے ہی خود کفیل ہیں۔ میر ی آپ کو ضرورت نہیں ہے‘‘
’’ اگر ضرورت ہوتی تو تم تو اُٹھ کر چل پڑتیں‘‘۔ مولی نے اسے تیکھی نظر سے دیکھتے ہوئے پہلے انگریزی میں کہا اور پھر ڈچ زبان میں کچھ پتھر لڑھکا نے لگی ۔
بھرے بھرے سرخ ہونٹوں والی اس ڈچ لڑکی کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔ وہ پریشان نظر آ رہی تھی۔ پھر وہ بھی غصے میں کچھ کہنے لگی۔ مجھے دو نوںحسیناوٗں کی گفتگو توسمجھ میں نہیں آرہی تھی لیکن اتنا اندازہ ضرور ہو گیا تھا کہ یہ خوشگوار گفتگو ہرگز نہیں ہے۔ میں نے مولی کا ہاتھ پکڑ کر دبایا۔اُس میزبان لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور مولی کو لے کر باہر آگیا۔ اس غریب لڑکی کے بعداب میرا نمبر تھا۔ باہر آتے ہی مولی نے میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی’’ میرے ہوتے ہوئے اس لڑکی سے تمھیں کیسی معلومات درکار تھیں؟‘‘
میں نے معاملہ بگڑتے دیکھا تو مولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا’’۔ تمھارے ہوتے ہوئے مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے محض وقت گزاری کے لئے اس سے بات کر رہا تھا‘‘
’’اس جیسی لڑکیوں کو میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔ان کا اصل پیشہ کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہاں انہیں آسانی سے شکار مل جاتے ہیں۔ میں اگر نہ آتی تو اس نے تمھیں ڈیٹ دے دی ہوتی او ر تم بھی یہی چاہتے تھے ‘‘
’’ مولی تم خواہ مخواہ کی غلط فہمی کا شکار ہو ۔ وہ ایک اچھی لڑکی ہے اور مجھے تم نے کوئی ایسا ویسا آدمی سمجھ رکھا ہے؟ ‘‘ میں قدرے سنجیدہ ہو گیا۔
مولی بدستور سنجیدہ تھی’’ خیر تم ایسے ہو یا ویسے مجھے اس سے کیا غرض! میں تمھاری گرل فرینڈ تو ہوں نہیں لیکن بحیثیت گائیڈ تمھیں اس طرح کی لڑکیوں سے ہوشیار رہنے کے لئے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ کیا خیال ہے اب چلیں؟‘‘
میں وہیں کھڑا رہا۔ مولی واپس میرے پاس آئی’’ اب کیا ہے؟ چلتے کیوںنہیں؟ ‘‘
’’تم محض میری گائیڈ ہو اور بس! گائیڈ تو تم سارے گروپ کی تھیں لیکن یہ شام تم نے میرے نام کی ہوئی ہے۔ کیا یہ محض گائیڈ اور سیاح کا تعلق ہے؟‘‘ میں نے اپنی سنجیدگی بر قرار رکھی۔
مولی کے چہرے پر اب مخصوص مسکراہٹ واپس آگئی۔ یہ مسکراہٹ اس کے چہرے کو مزید حسین بنا دیتی تھی’’ نہیں ! ہم اچھے دوست بھی ہیں۔ ورنہ ایسا کبھی نہیںہوا کہ میں اپنے گروپ کے سیاحوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسے الگ شام گزاروں۔ اچھا ا ب چلو بھی ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ویسے تمھارے خیال میں کہاںچلنا چاہئے‘‘
’’ کہیں بھی لے چلو !آج میں تمھار ے رحم و کر م پر ہوں‘‘ میں نے اپنا موڈ بحال کرتے ہوئے کہا
اس کا اَنگ اَنگ شوخیوں پر اُترا ہواتھا
تھوڑی دیر بعد ہم ایک دفعہ پھر کشتی میں سوار تھے۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ نرم سنہری دھوپ اور ہلکی خنک ہوا جسم کو راحت پہنچا رہی تھی۔ ہم فیری کی دوسری منزل پر بیٹھے اردگرد کے نظاروں اور موسم سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دریا کے ساتھ ساتھ پرانے مگر شاندار گھر تھے۔ ہر گھر کے سامنے مکینوں کی ذاتی لانچیں بندھی ہوئی تھیں۔ تقریباً ہر مکان تین منزلہ تھا۔ مولی نے بتایا کہ دریاکے کنارے واقع یہ مکانات انتہائی مہنگے ہیں اور صرف رئوسا ہی انہیں افورڈ کر سکتے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر مکانات کم از کم ایک صدی پرانے ہیں۔ کچھ مکانوں کی مخصوص وجوہات کی بنا پر خاص تاریخی حیثیت ہے۔ مثلاً ان میں ایک مکان کے بارے میں مولی نے بتایا کہ اس میں مشہور ڈکٹیٹر ہٹلر کا بھائی رہتا تھا جو خود بھی ہٹلر کے ساتھ جنگ میں شریک تھا اور مارا گیا۔ دریا کے ساتھ کچھ انتہائی تاریخی اہمیت کے گرجا گھر بھی واقع ہیں۔ علاوہ ازیں کئی واچ ٹاور بھی واقع ہیں جو دریا میں کشتیوں کی آمدورفت پر نظر رکھتے ہیں۔
اس فیری میں مختلف ممالک کے سیاح بیٹھے تھے۔ مقامی گائیڈ لڑکی چھوٹے سے اسپیکر پر مسلسل کمنٹری جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس لڑکی کی عمر اٹھارہ بیس سال سے زیادہ نہیں ہو گی مگر اس کی باتیں اور لطیفے اس کی عمر سے کہیں بڑھ کر تھے ۔ لگتا تھا کہ اس عمر میں ہی وہ سیاہ اور سفید سب کچھ دیکھ چکی ہے۔ سیاحوں کو ایمسٹرڈم کے بارے میں معلومات پہنچانے کی بجائے وہ سیکسی لطیفے زیادہ سنا رہی تھی۔ فیری میں امریکن سیاحوں کی کافی بڑی تعداد تھی۔ ان کو مد نظررکھ کر لڑکی کہنے لگی’’ ایمسٹرڈم کا بازارِحسن یورپ بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں پر نہ صرف مقامی ڈچ لڑکیاں بلکہ یورپ اور امریکہ تک کے بہت سے ممالک کی لڑکیاں گاہکوں کا دل لبھانے کے لئے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ کالے اور گورے ہر قسم کے گاہک کو خوش آمدید کہتی ہیں لیکن وہ امریکنوں کو پسند نہیں کرتیں اور ان سے معاوضہ بھی دوسروں سے زیادہ طلب کرتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکن مرد جتنا معاوضہ دیتے ہیں اس سے دوگنا وصول کر تے ہیں‘‘
سیاح جو ہر اچھی بری بات سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لڑکی کی بات پر تالیاں بجانے لگے۔ یکایک ایک امریکن بوڑھا جوش میں آکر کھڑا ہو گیا۔ وہ لڑکی کے پاس جا کر بولا’’ میں بھی امریکن ہوں۔ تم یہ بتاوٗ کہ ایک رات کا کتنا معاوضہ لو گی؟‘‘
لڑکی نے آرام سے اپنا بازو چھڑا یا اور اطمینان سے بولی’’ تم کس بات کا معاوضہ دو گے۔ لوری دے کر سلانے کا ؟ ‘‘
بوڑھے کا چہرہ مزید سرخ ہو گیا ’’ تم مجھے ایک موقع دے کر دیکھو۔ پھر تمھیں پتا چلے گا کہ میں سوتا ہوں یا کھیلتا ہوں‘‘
لڑکی نے اسی اطمینان سے کہا ’’جا کر آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھ جائو موقع دینے کے لئے میرے پاس تم سے بہتر لوگ موجود ہیں‘‘
اس امریکن بوڑھے کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ اس نے اٹھ کر نشے میں دھت اپنے خاوند کوپکڑا اور اپنی سیٹ پر لے گئی۔ دراصل اس فیری پر مفت کی شراب بھی سیاحوں کو مہیا کی جارہی تھی جس سے تقریباً ہر سیاح ہی مستفیض ہو رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں اسکاچ اور کوک کا گلاس تھا تو کوئی بئیرسے دل پشاوری کرنے میں مشغول تھا۔ یہ شراب فیری کے لئے خریدے گئے ٹکٹوں کی رقم سے ہی سیاحوں کو پلائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال ۔ یہاں تو کوئی قاضی بھی نہیں تھا۔ اِس لئے فیری کے سبھی مسافر دل کھول کر پی رہے تھے۔
مولی نے اشارہ کیا اور ایک سٹاپ ہم فیری سے ا تُر آئے ۔ یہ علاقہ De Jordaan کہلاتا تھا۔مولی مجھے اینی فرینک ہائوس ( Anne Frank House)لے گئی جو وہاں سے چند منٹوں کے فاصلے پر واقع تھا۔ ایمسٹرڈم جانے والا شاید ہی کوئی سیاح ہو جو اس چھوٹے سے گھر کی سیر نہ کرتا ہو۔ اس گھر کی خاص بات اس میں رکھی گئی اینی کی ڈائری ہے۔ اینی نامی چھوٹی سی یہودی لڑکی نے یہ ڈائری اس وقت لکھی تھی جب دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں نے ایمسٹرڈم پرہلہ بول دیا تھا۔ ہٹلر کی فوج یہودیوں کو چن چن کر قتل کر رہی تھی۔ اس قتلِ عام سے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں سمجھا گیا۔ ہٹلر اور اس کے فوجی یہودیوں کی پوری نسل ختم کرنے کے در پے تھے۔ اینی اور اس کی فیملی ہٹلر کے فوجیوں سے بچنے کے لئے اس مکان میں چھپے ہوئے تھے۔ انہیں ڈھونڈ نکالا گیا اور پوری فیملی کو قتل کر دیا گیا ۔ مرنے سے پہلے اینی نے جو ڈائری لکھی تھی وہ جرمنوں کے ہاتھ نہیں آئی یا اس وقت انہوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ یوں یہ ڈائری محفوظ رہی۔ جنگ کے بعد ہٹلر کے مظالم پر یہ ایک زبردست دستاویز ثابت ہوئی۔
اب تک اس ڈائری کی پچیس ملین سے زیادہ کاپیاں پوری دنیا میں فروخت ہو چکی ہیں۔ اصل ڈائری ایمسٹرڈم کے اس گھر میں محفوظ ہے اور ایمسٹرڈم آنے والے ہر سیاح کے لئے یہگھر دیکھنے کا بہانہ بن گئی ہے۔ یوں اینی اور اس کی فیملی کا یہ گھر ایک میوزیم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اینی محض ایک نام ہے۔ دراصل یہودیوں نے باقاعدہ یہ ڈائری لکھوائی ہے جس میں ایک بچی کی طرف سے ایسی کہانی بنائی گئی ہے کہ پڑھنے والے کو ہٹلر کے مظالم اور یہودیوں کی مظلومیت نظر آئے۔ اس طرح پوری دنیا کے سامنے یہودیوں کو اپنی مظلومیت دکھانے کا بہانہ مل گیا ہے ورنہ جنگوں میں لوگ قتل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس میں بچے ، بوڑھے اور عورتیںسبھی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کہانی کی اس طرح ِ تشہیرنہیں ہوئی جس طرح اینی کی کہانی کی باقاعدہ منصوبے کے تحت کی گئی۔ یہ رائے میری گائیڈ اور دوست مولی کی تھی۔ یہی بات میں نے کئی اور لوگوں سے بھی سُنی۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ڈائری کی کہانی اور لوگوں کی رائے میں نے لکھ دی ہے۔ سچ جھوٹ کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔
آٹھ بجے اینی فرینک ہاوٗس سے نکل کر ہم ایک بس میں بیٹھے تو میں نے مولی سے پوچھا’’ سرکا ر ! اب کہاں جانے کا ارداہ ہے؟ میرا پیٹ دُہائیاں دے رہا ہے کچھ اس کا بھی خیال کرو‘‘
مولی جو آج خصوصی طور پر سجی دھجی اور عام دنوں سے الگ رہی تھی بولی’’ فکر نہ کرو! اب ہم کہیں اور نہیںبلکہ سیدھا کھانے کی میز پر جائیں گے‘‘
’’لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دو کہ کیا کھلوا رہی ہو۔ اگر پاکستانی کھانا مل جائے تو کیا بات ہے یا پھر جو مزاجِ یار میں آئے‘‘
مولی جس نے پورے سفر میں پینٹ اور کھلی سی شرٹ پہنے رکھی آجتنگ سی ٹی شرٹ اور جینزمیں پورا جوبن دکھا رہی تھی۔ بس میں میرے ساتھ بیٹھی تو اس کے جسم سے پرفیوم کی بھینی بھینی خوشبو اور اس کی جوانی کی مہک ماحول کو مہکا رہی تھی۔ دورانِ سفر اس نیتمام سیاحوں سے ایک فاصلہ قائم رکھا تھا لیکن آج اس کا انداز جدا تھا ۔ آج وہ بالکل الگ مولی نظر آرہی تھی۔ جسم سے چپکے لباس میں اس کا انگ انگ شوخیوں پر اُترا ہواتھا۔ ریستوران کے بارے میں میرے سوال کے جواب میں میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی’’ تم بل ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائو کھانا تمھاری پسند کا مل جائے گا ‘‘
میں نے سوچا کہ کل کی طرح آج پھر وہ کسی فلوٹنگ(Floating) ریسٹورنٹ میں لے گئی توآج پھر لمبا چوڑا بل ادا کرنا پڑ ے گا۔ نہ صرف میری جیب اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی کہ روزانہ اس طرح کے مہنگے ریستورانوں میں جائوں بلکہ وہاں اچھے طریقے سے کھانا بھی نہیں کھا پاتا تھا۔ تھری پیس سوٹ والے بیرے، لمبے لمبے مینوز اور انتہائی پرتکلف ماحول۔ میںان چیزوں کا نہ اس وقت عادی تھا نہ اب ہوں ۔ سادہ دیسی کھانے اور انہیں دیسی اسٹائل میں کھانے میں ہی مجھے لطف آتاہے۔ لیکن اُس شام اپنے آپ کو مولی کے حوالے کر کے میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ اب جہاں وہ لے جاتی جانا پڑے گا اور جو ملے گا کھانا پڑے گا۔ اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایسے معاملے میں کریڈٹ کارڈ بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ یہ فکر نہیں ہوتی کہ جیب میں اتنی رقم ہونی ضروری ہے۔ کریڈ ٹ کارڈ نے اس فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ اس کا خمیازہ مہینے کے آخر میں جب بل آئے تو بھگتنا پڑتا ہے ۔ خرچ کرتے وقت آساں لیکن بل ادا کرتے وقت یہ پلاسٹک کارڈ بہت گراں گزرتا ہے۔
انہی سوچوں میں غلطاں اور آنے والے وقت کے لئے قدرے پریشاں، ہم کسی انجانی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ ایمسٹرڈم کی روشنیاں ہر طرف جلوہ افروز تھیں۔نوجوان لڑکے لڑکیاں بانہوں میں بانہیں ڈالے فٹ پاتھوں پر چلے جارہے تھے۔ ریستورانوں کے سامنے لوگ بیٹھے خوردو نوش میں مصروف تھے ۔ نائٹ کلبوں کی رنگ برنگی روشنیاں نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ سائیکلوں پر لڑکے، لڑکیاں ، مرد اور عورتیں چلے جا رہے تھے ۔ ہماری بس شہر کے مصروف علاقے سے نکل کر مضافاتی علاقے میں داخل ہو گئی۔ یہاں بڑی عمارتیں کم اور عام رہائشی مکانات زیادہ نظر آرہے تھے۔ سڑکیں اور گلیاں یہاں بھی مصروف تھیںلیکن بہت زیادہ نہیں۔
بس رکی تو مولی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا۔نیچے ا تُر کر میں نے اردگر د نظر دوڑائی تو کوئی ریستوران اور دکان وغیرہ وہاں نظر نہیں آئی۔ یہ رہائشی علاقہ تھا۔ میں نے مولی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے میرے چہرے پر تحریر سوال پڑھ لیا تھالیکن جواب دینا ضروری نہیں سمجھا ۔میں نے بھی اپنے سوال کا جواب مولی سے لینے کی بجائے آنے والے وقت پر چھوڑدیا۔ مولی اسی طرح میرا ہاتھ پکڑے اس دو منزلہ عمارت کی سیڑھیوں چڑھنا شروع ہو گئی۔ اُوپر جا کر وہ ایک دروازے کے سامنے رکی اپنے پرس سے چابی نکالی دروازہ کھولا اور کو رنش بجا لانے کے انداز میں مجھے اس فلیٹ میں خوش آمدید کہا۔
یہ دو کمروں کا خوبصورت فلیٹ تھا۔باہر سے قدیم نظر آنے والی عمارت کے اندر واقع یہ فلیٹ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ اور انتہائی صاف ستھر ا تھا۔لِونگ روم کافی وسیع اور قیمتی فرنیچر سے سجا ہوا تھا۔ لونگ روم کے ہی ایک حصے میں کچن واقع تھا۔ کچن کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر مختلف قیمتی شرابوں کی بوتلیں ترتیب و تزئین سے رکھی تھیں۔لِونگ روم کے دوسرے حصے میں صوفہ اور ٹی وی وغیرہ تھے۔ مولی نے مجھے براہِ راست ڈائننگ ٹیبل پر بٹھایا۔وہاں پہلے سے رکھی موم بتیاں جلائیں اور لیمپ گُل کر دیے۔ ڈرائنگ روم میں خوابناک اور رومانٹک سی مدہم روشنی باقی رہ گئی۔ تاہم کچن کے ایک حصے میں لیمپ روشن تھا۔ مولی نے اپنے اور میرے لئے ڈرنک تیار کئے۔ مجھے ڈرنک تھمانے کے بعدخود کچن میں مصروف ہو گئی۔ اس دوران کمرے کے ایک کونے سے مدہم سی موسیقی بھی اُبھرتی رہی ۔
صرف دس منٹ کے بعد میرے آگے چکن بریانی، قورمہ، کباب اور نان رکھے تھے۔ اس میں مسالے نہ صرف میرے ذوق کے مطابق تھے بلکہ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اب مولی نے بتایا کہ میری طرف جانے سے پہلے یہ کھانے وہ کسی پاکستانی ریسٹورنٹ سے لا کر گھر رکھ گئی تھی۔ اس وقت صرف انہیں گرم کیاتھا ۔ وہ اس شہر کی باسی تھی اور اچھی طرح جانتی تھی کہ کون سی چیز کہاں سے ملتی ہے۔ دوسری طرف میری پسند سے بھی واقف تھی ۔اس لئے اسے یہ اہتمام کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ میرے لئے باعثِ مسرت و حیرت اس کا وہ جذبہ تھا جس کے تحت وہ یہ سب کچھ کررہی تھی ۔ یہ وہی مولی تھی جو سفر کے شروع میں مجھ سے غیر ضروری بات کرنا بھی گنا ہ تصور کرتی تھی۔ شاید ہم ایشیائی لوگوں کو نا پسند کرتی تھی اس لئے میرے اور بھارتی فیملیوں سے دور دور رہتی تھی۔ میرے مذاق کا جواب تک دینے میں عار محسوس کرتی تھی ۔ مگر اب اُس کی کایا اتنی پلٹ چکی تھی کہ میں آج اس کے گھر میں بیٹھا تھا اور وہ میرے آگے کھانا لگا رہی تھی۔
میں جب شام کو مولی کے ساتھ نکلا تو مجھے اس بات کی ہر گز توقع نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنے گھر لے جائے گی۔ میرے ذہن میںیہی تھا کہ وہ گھمائے پھرائے گی پھر کسی ریستوران میں کھانا کھائیں گے۔ اس کے بعد میں اپنے ہوٹل اور وہ اپنے گھر ۔ اس سے زیادہ کی مجھے توقع بھی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں جہاں تک مجھے یاد پڑتا تھا اس نے ہمیں یہی بتایا تھا کہ اس کا ایک بوائے فرینڈ ہے اور ایمسٹرڈم میں اس کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن یہاں وہ لال جھنڈی کہیں نظر نہیں آرہی تھی بلکہ سب کچھ ہرا دکھائی دے رہا تھا۔ جب مولی کھانا لے کر میرے ساتھ آ کربیٹھی تو یہی سوال میں نے اس سے کیا ’’مولی جہاں تک مجھے یاد آتاہے تم نے بتایا تھا کہ بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہولیکن یہاں تو کسی مرد کے رہنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے‘‘
مولی نے ہنستے ہوئے کہا’’ وہ تم جیسے مردوں سے بچنے کے لئے جھوٹ تھا۔ ورنہ تفریحی سفر پر نکلا ہر مرد سفر میں ملنے والی ہر خوبصورت عورت پر اپناحق سمجھنے لگتا ہے۔ کچھ سیاح تو انتہائی ڈھیٹ ہوتے ہیں ۔ وہ ان پندرہ دنوں میں میرا جینا حرام کردیتے ہیں۔اس ایک جھوٹ سے ان سب سے جان چھوٹ جاتی ہے‘‘
میں نے مصنوعی خفگی سے اس کی طرف دیکھا’’ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم ہمیں بے وقوف بناتی رہیں‘‘
’’ تم کہاں بے وقوف بنے! اگر ایسا ہوتا تو آج اس طرح میرے گھر میں نہ بیٹھے ہوتے‘‘ مولی نے مسکراہٹ کی بجلیاں گراتے ہوئے کہا
’’میرے ذہن میں بھی یہی تھا کہ تمھار ا بوائے فرینڈ ہے۔ ویسے تمھارا شکریہ کہ تم نے مجھے اِس قابل سمجھا ۔ میں یہ سب کچھ توقع نہیں کر رہا تھا‘‘
مولی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور ہولے سے کہا’’ میں نے وہی کیا جو میرے دل نے چاہا۔ ویسے ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے۔ میں سالہا سال سے گائیڈکا کام کر رہی ہوں ۔آج تک اپنے گروپ کے کسی ایک ٹورسٹ کے ساتھ الگ سے شام نہیں گزاری۔ یہ میر ی جاب کے لئے بھی مناسب نہیں ہے لیکن کبھی کبھار روٹین سے ہٹ کر کوئی کام کرنے میں اتنا حرج بھی نہیں ‘‘
مولی کا یہ دوستانہ انداز اور اس کی مہمان نوازی یہ سب کچھ میرے لئے غیرمتوقع تھا۔ سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ مولی کے گھر میں بیٹھ کر اپنا رد عمل کیسے ظاہر کروں۔ مولی کی ان مہربانیوں نے مجھے حیران بلکہ قدرے پریشان کر دیا تھا۔ مولی مرچوں والا پاکستانی کھانا خود بھی رغبت سے کھا رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ اکثر انڈین فوڈ کھاتی رہتی ہے اور ان مرچ مسالوں کی عادی ہے۔ تاہم پاکستانی ریستوران کا کھانا وہ پہلی دفعہ کھا رہی تھی۔ اس کے مطابق یہ کھانا انڈین کھانوں سے زیادہ لذیذ ہے مگر اس میں مسالے اور چکناہٹ قدرے زیادہ ہے جو شاید بعد میں اس کے معدے کے لئے گراں ثابت ہو۔ میں دل میں سوچ رہا تھاکہ یہ مسئلہ تو ہم سب پاکستانیوں کو درپیش ہے۔ ہم اپنے لذیذ کھانوں کو چھوڑ بھی نہیں سکتے اور ان کے بھار ی پن کی وجہ سے کولیسٹرول، امراضِ قلب اور موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ان سے فرار کی کوئی راہ بھی تو نہیں۔
کھانے کے بعد ہم نے اپنے ڈرنک اٹھائے اور صوفے پر آبیٹھے۔ مولی نے وی سی آر میں ایک کیسٹ ڈالی ۔جب اسے آن کیاتو ایک اور حیرت کا سامنا ہوا ۔ لگتا تھا آج حیرتیں سمیٹنے کا دن تھا۔میرے سامنے اسکرین پر نصرت فتح علی خان کیف و جذب میں ڈوبا گارہا تھا۔یہ جو ہلکا سا سرور ہے ۔ تیری نظر کا قصور ہے ۔ تو نے شراب پیناسکھا دیا۔
ایک ڈچ لڑکی کے گھر میں نصرت فتح علی خان کی لازوال موسیقی کی تانیں اور اس کی سوز بھری آواز کی گونج ایک خوشگوار حیرت بن کر میرے سامنے آئی۔ میں اس مدھر موسیقی میں کھو سا گیا۔ مولی نے بتایا’’ نصرت فتح علی خان میرے پسندیدہ گلوکاروں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ میں زبان نہیں سمجھ سکتی لیکن موسیقی اور آواز کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتی ہوں‘‘
کافی دیر تک ہم آواز اور ساز کے سحر میں کھوئے رہے۔ اس دوران مولی نے اپنے بارے میں بہت سے باتیں بتائیں۔ میں بھی آسٹریلیا اور پاکستان کے بارے میں اس کی دلچسپی کی باتیں اُسے سناتا رہا۔ مولی کی معلومات اور اس کا حافظہ قابلِ رشک تھا۔آج مولی کا انداز بالکل جد ا تھا۔ جب وہ صرف گائیڈ تھی تو سیاحوں سے اس کا تعلق عموماََپیشہ ورانہ امور تک محدود رہتا تھا۔ کسی سے بھی زیادہ بے تکلف نہیں ہوتی ہوتی تھی۔لیکن آج وہ ایک بے تکلف اور دلچسپ دوست تھی۔نصف شب کے لگ بھگ مولی نے فون کر کے میرے لئے ٹیکسی منگوائی ۔ جب ٹیکسی آ گئی تووہ مجھے چھوڑنے نیچے تک آئی۔ میں نے اس کے تمام لطف و کرم کا شکریہ ادا کیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے ہوٹل روانہ ہو گیا۔
پھر تو لسی والا ساگ بھی بنتا ہوگا
دوسرے دن صبح ہوٹل کے ریسیپشن پر گیاتو اظہر کا پیغام میر ا منتظر تھا۔ استقبالیہ کلرک نے نام کے ساتھ اظہر کا فون نمبر بھی درج کر لیا تھا۔ میں نے کاغذ کا وہ پرزہ لیا اور اپنے کمرے میں گیا۔ اظہر کو فون کیا۔ میری آواز پہچانتے ہی اس نے پوچھا ’’چناں کتھے گزاری آئی رات وے‘‘
رات میںدیر سے ہوٹل آیا تھا۔اظہر نے میرے ہوٹل آنے سے قبل نصف شب کے لگ بھگ فون کیا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ میں رات بھر ہوٹل لوٹا ہی نہیں۔ میں نے بھی اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کی’’ میں پردیسی آدمی ہوں، مسافر ہوں،گھومتا رہتا ہوں، جہاں رات آجاتی ہے سو جاتا ہوں۔ ایک دوست کے ہاں تھا‘‘
’’ میں سب سمجھتا ہوں وہ کون سا دوست ہے۔ اسی لئے تومیں کہتا ہوں کہ تم بگڑ چکے ہو۔ تمھار ا کوئی علاج کرنا پڑے گا۔ ویسے آج تم نے کہیں نہیں جانا ہے۔ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں لینے آرہاہوں۔ آج رات کا کھانا بھی تم نے گھر میں کھانا ہے ۔ میں ابھی بتا رہا ہوں، کوئی اور پروگرام نہیں بنا لینا‘‘
’’جو حکم میرے آقا‘‘
’’تم گھر تو آئو! آج کسی بڑے سے تمھیں جوتے لگواتا ہوں ۔غضب خد اکا! اب تم نے راتوں کو بھی باہر رہنا شروع کر دیا ہے‘‘ اظہر نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا
’’ بھائی میرے! میراگھر بہت دور ہے، ہر رات اپنے گھر جا کر تو نہیں سو سکتا‘‘
’’ ہوٹل کا کمرہ کس لئے بک کرا یا تھا‘‘
’’ یار اس ہوٹل میں نیند نہیں آتی ‘‘ مجھے بھی اظہر کو تنگ کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔
’’ کیونکہ وہاں کوئی لوری دینے والا جو نہیں۔ بچو میں تمھیں جانتا ہوں، آج تمھارا بندوبست کر اکے رہوں گا‘‘
’’ اظہر کے بچے ِ! اگر تم نے چا چا یا بھائی کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کی تو میں تمھاری زبان کھینچ لوں گا۔ ‘‘میں اس دیوانے سے ڈر گیا
’’تم آتو جائو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے تمھارے ساتھ۔ ویسے میں ایک گھنٹے بعد تمھارے ہوٹل پہنچ رہا ہوں تیار رہنا‘‘
فون بند کرنے کے بعد میں شاور لینا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے سستانے کے لئے لیٹا تو چند منٹو ں میں میری آنکھ لگ گئی۔ نہ جانے کتنی دیر سویا تھا کہ دروازہ کھٹکٹانے کی آواز سن کر جاگنا پڑا۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو معلو م ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک سوتا رہا تھا۔ دن کے اوقات میں میں سونے کا عادی نہیں ہوں۔ اس طرح بغیر کسی پروگرام کے سو جانا میرے لئے خلافِ معمول با ت تھی۔ دروازہ کھولا تو اظہر دندناتا ہوا اندر چلا آیا’’ تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے‘‘ آتے ہی وہ چلانے لگا
میں نے کہا’’ بیٹھو! ابھی تیار ہوتا ہوں،میری آنکھ لگ گئی تھی‘‘
وہ کچھ کہنے کے لئے پر تو ل ہی رہا تھا کہ میں شاور کرنے کے لئے باتھ روم میں گھس گیا ۔
صرف آدھے گھنٹے بعد میں اظہر کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھاتھا۔ جتنی تیزی سے گاڑی چل رہی تھی اس سے زیادہ تیزی سے اس کی زبان چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہم ان کے اسٹور جا پہنچے۔ اظہر کے والد صاحب چا چا علی محمد بھی آج اسٹور میں موجود تھے۔ بہت پیار سے ملے ۔ گلہ کرنے لگے کہ دو دن سے ہالینڈ میں ہوں اور ان سے ملنے نہیں آیا ۔ میں نے معذرت کی اوربتایا ’’ آج شام آپ کو ملنے کے لئے آنے والا تھا‘‘
چا چا علی محمد نے کہا ’’میں شام کا انتظار نہیں کرسکا ۔ اظہر کے ساتھ ا سی لئے اسٹور چلا آیا کہ یہاں تجھ سے ملاقات ہو سکے گی ۔سناوٗ گاوٗ ں کا کیا حال ہے‘‘
’’چاچا! گاوٗں میں سب خیریت ہے۔ میں یہاںآنے سے پہلے چند دن گاوٗں رہ کر آیا ہوں ۔ ان دنوں اکثر بجلی غائب رہتی ہے۔ گرمی بھی بہت زیادہ ہے‘‘
بھئی! ہمیں تو وہ گرمی کچھ نہیں کہتی۔ بجلی اور پنکھے کی بھی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی البتہ یہاں کی سردی زیادہ تنگ کرتی ہے۔ خد ا کی پناہ! یہاں اتنی سردی پڑتی ہے کہ خون بھی رگوں میں جم جاتا ہے۔ سردیوں میں سورج بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ایک تو دن بہت چھوٹا ہوتا ہے اوپر سے ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں۔ اکثر بارش ہوتی رہتی ہے۔ پوریاں سردیاں گھر میں ہیٹر کے آگے بیٹھ کر گزارنی پڑتی ہیں‘‘
’’ لگتا ہے چاچا ! آپ کوگاوٗں بہت یاد آتا ہے‘‘ میں نے چاچا محمد علی کے جذبات پڑھ لئے تھے
’’ بیٹا ساری زندگی وہیں گزری ہے۔ وہاں سب اپنے ہیں۔ اُن گلیوں،کھیتوں اور کھلیانوں میں زندگی کے ساٹھ ستر برس گزارے ہیں۔ اس عمر میں ان سب سے جدائی اور پردیس کے اجنبی ماحول میں رہنا بہت مشکل ہے لیکن کیا کریں میرے بیٹے مانتے ہی نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم سارے بھائی یہاں ہیں تو آپ اکیلے وہاں کیوں رہیں۔ میں وہاں رہوں تو میرے لئے فکر مند رہتے ہیں۔ انہی کے خیال سے یہاں چلا آیا لیکن ان کے ہر طرح کا خیال رکھنے کے باوجود میرا دل یہاں نہیں لگتا ۔ یہ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور میں گھر میں بیٹھا بور ہوتارہتا ہوں‘‘
’’ تو چا چا آپ یہاں اسٹور میں آجایا کریں۔ یہاں اظہر بھی ہوتا ہے ویسے بھی یہاں کافی رونق لگی رہتی ہے‘‘
’’ بیٹا! یہاں آکرکیا کروں۔ ان گوروں کی زبان مجھے نہیں آتی ۔ یہاں جو چیزیں بکتی ہیں ان کی بھی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اس لئے کام میں تو ان کا ہاتھ نہیں بٹا سکتا ۔ کبھی کبھار آتا ہوں تو یہاں بیٹھا رہتا ہوں یا باہر بازار کا چکر لگا آتا ہوں اور بس! ‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ چا چا علی محمد اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کا بڑھاپے میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ ان کے سامنے زندگی کا کوئی نصب العین نہیں رہ جاتا۔ وہ زندگی برائے زندگی گزارتے ہیں۔وہ جنہوں نے ساری زندگی جسمانی یا دماغی محنت کی ہوتی ہے۔ جن کے سامنے زندگی ہر روز نت نئے چیلنج لے کر آتی تھی اور وہ ہر روزان چیلنجز سے اپنی محنت اور کوشش سے عہدہ برآ ہوتے تھے، اچانک انہیں ان سب ذمہ داریوں ، خود مختاریوں اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو کر ایک کونے میں بیٹھنا پڑتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ان کے لئے پھیکا پڑ جاتا ہے اور زندگی صرف شب و روز کا تسلسل بن کر رہ جاتی ہے۔ جس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اور جس زندگی میں حصولِ مقصد کے لئے عملِ پیہم شامل نہ ہو اس زندگی اور موت کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
اس دن کا زیادہ حصہ میں نے اظہر کے اسٹور میں گزارا۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا ۔یہ کھانا ان کے گھر سے بن کر آیا تھا۔ چاچا علی محمد سارا دن گاوٗں کی باتیں کرتے رہے۔ اظہر بھی کام کے دوران وقفہ نکال کر ہمارے ساتھ آ بیٹھتا تھا۔ اظہر کا بڑا بھائی سعید بھی لنچ میںہمارے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے ساتھ لسی دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اظہر نے بتایا کہ اکثر وہ دہی سے لسی بنا لیتے ہیں کیونکہ چا چا علی محمد کو بہت پسند ہے۔ میں نے پوچھا’’ تو پھر تو لسی والا ساگ بھی بنتا ہوگا؟‘‘
’’ ہاں کیوں نہیں! سرسوں کے پتے بازار سے آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ہم ساگ بناتے رہتے ہیں۔ یہاں ہر چیز مل جاتی ہے۔ تمام مسالے، سرسوں کا تیل، گڑ ،حتی ٰکہ حقہ اور تمباکو بھی دستیاب ہے‘‘
’’لیکن ایک چیز یہاں بالکل نہیں ملتی ہو گی ۔کالا لاچا باندھ کر اور سرخ قمیض پہن کر پنجابی فلموں کی مٹیار گندم اور سرسوں کے کھیتوں میں ناچتی کہیں نہیں دکھائی دیتی ہوگی ‘‘میںنے ہنستے ہوئے اظہر سے کہا
اظہر نے جواب دیا’’ ان لوگوں نے اپنی فصلیں برباد کروانی ہیں کہ پاکستانی ہیروئنوں کو اپنے کھیتوں میں نچائیں۔ جن کھیتوں میں وہ بھاری بھرکم ہیروئینیں ناچتی ہیں وہاں ہمیشہ کے لئے فصل نہیں اُگتی اور جہاں ہماری پنجابی فلموں کے ہیرو اور ولن بڑھک مارتے ہیں وہاں سے پرندے بھی اُڑ کر کسی دوسرے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تو ہم پنجابیوں کی ہمت ہے کہ ان ہیروئینوں اور ان بڑھکوں کو برداشت کر لیتے ہیں بلکہ پسند کرتے ہیں‘‘
وہیں اسٹور میں بیٹھے ہم گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک صاحب اندر چلے آئے۔ ہم اسٹور کے پچھلے حصے میں واقع آفس میں تھے۔ اس لئے ہماری محفل کا گاہکوں اور باہر والوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ ورنہ یورپ اور آسٹریلیا میں جہاں کہیں کسٹمر یا گاہک موجود ہو وہاں کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور کسٹمر سروس کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ گاہکوں اور کسٹمرز کے سامنے مخصوص لباس صاف ستھرے حلئے اور پوری توجہ سے رہنا پڑتا ہے ۔ وہاں نہ تو کھا پی سکتے ہیں، نہ دوسری زبانوں میں دوستوں سے فون پر گفتگو کر سکتے ہیں ۔ گاہک یا کسٹمر اگر کھڑا ہے تو کسٹمر سروس پر متعین شخص بھی کھڑا ہو کر یہ سروس مہیا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ سروس تفصیلی ہے اور بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے ،جیسے بنک میں کوئی معاملہ ہے یاڈاکٹر نے مریض کو دیکھنا ہے تو پہلے بینکر یا ڈاکٹر کسٹمر یا مریض کو باہر جا کر خود اندر لے کر آئے گا، اسے کرسی پیش کرے گا اور پھر خود جا کر سامنے بیٹھے گا۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ کسٹمر کھڑا ہواور سامنے والا کرسی پر بیٹھ کر اس سے ڈیل کر رہا ہو۔
بات ہو رہی تھی ان صاحب کی جو دروازہ کھول کر اسٹور کے پیچھے واقع آفس میں جمی ہماری محفل میں وارد ہوئے تھے۔پختہ عمر کے اسمارٹ اور سوٹڈ بوٹڈ یہ صاحب مجھے شروع میں ڈچ ہی لگے لیکن جب انہوں نے اُردو میں بات کی تو پتا چلا کہ پاکستانی ہیں۔ اظہر نے میرا ان سے تعارف کروایا اور مجھے ان کے بارے میں بتایا’’ یہ گل خان ہیں۔ ان کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ یہ یہاں پر درجنوں اسٹوروں پر مشتمل ایک بڑے بزنس کے مالک ہیں۔ ان کے یہ اسٹور ایمسٹرڈم کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا شمار ہالینڈ کے چند بڑے کاروباری حضرات میں ہوتا ہے۔ ہمارے فیملی فرینڈ ہیں اور ا با سے انہیںخصوصی لگاوٗ ہے۔ اکثر انہیں ملنے چلے آتے ہیں‘‘
گل خان نے کرسی گھسیٹ کر میرے برا بر رکھی اور بولے ’’اظہر کو زیادہ بولنے کا مرض ہے ۔میرا اتنا تعارف کافی تھا کہ پاکستانی ہوں اور ہم سب دوست ہیں ۔جہاں دوستی ہو وہاں بزنس کا ذکر نہیں ہوتا۔ آپ اظہر کے دوست ہیں تو میرے بھی دوست ہیں۔ کچھ وقت ہمارے لئے بھی نکالیں۔ کہیں بیٹھ کر کھانا کھائیں گے اور گپ شپ لگائیں گے۔ اسی بہانے مجھے بھی کام سے ہٹ کر کچھ تفریح کا موقع مل جائے گا‘‘
اظہر نے کہا’’ خان صاحب ! آپ آج شام کو کھانا ہمارے گھر کیوں نہیں کھاتے۔ وہیں ان سے گپ شپ کر لینا ۔ہمیں بھی کبھی خدمت کا موقع دے دیا کریں‘‘
’’ یار میں ضرور آجاتالیکن آج شام چھ بجے کی فلائٹ سے بون جا رہا ہوں ۔کل دوپہر تک واپس آجاوٗں گا۔ کل شام کا ڈنر میری طرف سے ہے ۔میری بیوی پاکستان گئی ہوئی ہے اس لئے کہیں باہر بیٹھیں گے۔آپ بتائیں کل شام آپ فارغ ہیںنا؟‘‘ اس نے براہ ِ راست مجھ سے پو چھا
اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، اظہر نے کہا ’’ہاں فارغ ہے! اس نے کون سا بھینسوں کا دودھ نکالنا ہے ۔ کہیں الٹی سیدھی جگہ جانے کی بجائے ہمارے ساتھ تو رہے گا‘‘
میں نے اظہر کو آنکھیں دکھائیں۔ چا چا علی محمد اور گل خان کے سامنے بھی وہ میری ٹانگ کھینچنے سے باز نہیںآیا تھا۔ میں نے گل خان سے کہا ’’آپ کو خواہ مخواہ زحمت ہو گی‘‘
’’ اوہ جی! مرزا صاحب ! اس میں زحمت والی کیا بات ہے۔ مہمان تو رحمت ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ وقت گزار کر مجھے خوشی ہو گی۔ میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سو چا چا چا کو سلام کرتا چلوں ۔اچھا ہوگیاآپ سے بھی ملاقات ہو گئی اب کل شام کو انشااللہ تفصیل سے بات چیت ہو گی ۔ مجھے اجازت دیں ، ایک ضروری کام سے جانا ہے‘‘
گل خان رخصت ہوا تو ایسے لگا اس شخص کو میں کافی عرصے سے جانتا ہوں ۔اتنا بڑا بزنس مین لیکن طبیعیت کا اتنا سادہ شخص کم ہی نظر آتا ہے۔
تہذیبِ مغرب میں گھر کا تصور وہ نہیں ہے
شام پانچ بجے اظہر مجھے گھمانے باہر لے گیا۔ ہم شہر کے مرکزی حصے میں پہنچے تو اظہر کو پارکنگ ڈھونڈنے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے ایک ایسی پارکنگ لاٹ میں کار پارک کرنے کی جگہ ملی جہاں گھنٹوں کے حساب سے کرایہ چارج کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں ریستوران ، کلب ، ہوٹل اور دوسری دکانوں کی بہتات تھی۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح ادھر اُدھر گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں میں تمیز کرنا کہیں مشکل نہیں ہوتا۔ مقامی لوگوں نے جہاں جانا ہوتا ہے ناک کی سیدھ میں تیزی سے چلے جارہے ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں پر حیرانی اور آنکھوں میں وہ تلاش نظر نہیں آتی جو سیاحوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ سیاح ہر چیز کو رک رک کر اور گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو جلدی ہوتی ہے اور نہ منزل کا مکمل علم کہ وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھے چلتے جائیں۔ سیاحوں کے چہروںپر فکر اور تلاش کو آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ فکر اور جستجو ہی سیاح کی پہچان ہوتی ہے ورنہ جو سب کچھ جانتا ہو اسے کچھ دیکھنے اور جاننے سے کیا دلچسپی ہو گی۔ یہ عدم دلچسپی اسے اِردگرد کے مناظر سے بے نیازی اور منزل تک جلد پہنچنے کے لئے ہر ممکنہ جلدی کرنے پر اُکساتی ہے ۔ مقامی لوگوں کے چہروں پر یہ جذبات صاف پڑھے جا سکتے ہیں۔
اظہر کے بقول سیاحوں کی ایک پہچان اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ جس شخص کا چہرہ ہونق، انداز مستانہ اور نظریں ہر شے کو کھوج رہی ہوں وہ سیاح ہوتا ہے۔ اس کے بقول سیاح ہر عمارت ہر مردوزن اور ہر شے کو ایسے دیکھتا ہے جیسے ابھی اس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے اور ہر چیز پہلی دفعہ دیکھ رہا ہے۔ اس نے مزید اضافہ کیا ’’ پاکستانی سیاح دنیا بھر کے سیاحوں سے اس لئے مختلف ہیں کہ وہ عمارتوں ، عجائب گھروںاور خوبصورت مقامات کی بجائے خوبصورت چہروں کو زیادہ غور سے دیکھتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان سے پہلی دفعہ یورپ جانے والے تو گوریوں کو ایسے گھورتے ہیں جیسے ان کا ایکسرے کر رہے ہوں ۔اس میں عمر کی تخصیص نہیں ۔ ہر عمر کا مرد یہاں آکر سب سے پہلی سیاحت انہی سے شروع کرتا ہے۔ یہ سیاحت اتنی توجہ طلب اور اتنی پر کشش ہوتی ہے کہ انہیں کچھ اور دیکھنے کی طلب باقی رہتی ہے نہ اس کے لئے وقت بچتا ہے۔ اگر یہ سیاحت چند دنوں یا ایک دو ہفتوں تک محدود ہو تو ان کا نقطہِِ جستجو اس سے آگے بالکل نہیں بڑھتا ۔ہاں اگر ان کا قیا م بڑھ کر مہینوں اور سالوں میں پھیل جائے تو پھر شاید انہیں ان چہروں پر سے نظریں ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے کا خیال بھی آجائے‘‘
میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا’’ تم مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ۔ سارے پاکستانی تمھاری طرح نہیں ہوتے۔ اب مجھے ہی دیکھو! چند دنوں میں تمھارے اس شہر کے سب نہیں تو کئی اہم اورقابلِ ذکر مقامات ، عمارات ، میوزیم اور فیکڑیاں تک دیکھ ڈالی ہیں ۔ اگر تمھاری بات درست ہوتی تو میں یہ سب کچھ کیسے دیکھ سکتا تھا؟ ‘‘
اظہر کہاں ہار ماننے والا تھا’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم پاکستان سے نہیں آسٹریلیا سے آئے ہو۔ شروع میں سڈنی میں جا کر تم نے بھی نہ جانے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں بھی تم زیادہ وقت انہی مصروفیات میں گزار رہے ہو جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ وہاں سے جو وقت بچتا ہے یا گروپ کے ساتھ پروگرام بنتا ہے تو کچھ اور بھی دیکھ لیتے ہو۔ تمھاری سیاحت تو دن سے بڑھ کر راتوں تک پھیل رہی ہے۔ اس لئے اتنا معصوم بننے کی کوشش نہ کرو۔ ابھی بھی تمھارا دھیان میری طرف کم اور سامنے والی لڑکیوں کے گروپ کی طرف زیادہ ہے‘‘
’’تم تو الزام تراشی پر اُتر آئے ہو۔ اب یہاں گھومنے آئے ہیں تو میں آنکھیں بند تو نہیں رکھ سکتا ۔اگر خوبصورت چیز نظر آتی ہے انسان کی نظریں خود بخود اس طر ف اٹھ ہی جاتی ہیں۔ قدرت کے بنائے ہوئے خوبصورت نظاروں اور خوبصورت چہروں سے صرفِ نظر کرنا توہین قدرت ہے‘‘
اظہر کچھ کہنے والا تھا کہ میں نے اُسے آگے چلنے کے لئے کہا۔ دریا کے کنارے واقع ریستورانوں اور کافی شاپوں میں کافی رونق تھی۔ پھولوں کی کئی دکانیں دِل و دماغ میں فرحت اور آنکھوں میں رنگ بھرنے والے بے شمار رنگ برنگے پھولوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ پھولوں کے گلدستے اور گلاب کے اکیلے پھول خرید رہے تھے۔ یہ پھول وہ اپنے چاہنے والوں کی نذر کر کے اپنی محبت کا اظہار کریں گے۔ پھولوں کی جس دکان کے پاس ہم کھڑے قدرت کی صناعی کی داد رہے تھے اس کے ساتھ ایک کافی شاپ تھی ۔اس کافی شاپ کی رنگ برنگی خوبصورت کرسیاں دکان کے سامنے سجی ہوئی تھیں۔ ان کے اوپر مختلف رنگوں کی بڑی بڑی چھتریاں ایستادہ تھیں۔ ساتھ میں دریا کا پانی لہریں بکھیر رہا تھا۔ شام کے اس وقت ہلکی ہلکی خنک ہوا جیسے مشامِ جان کو معطر کر رہی تھی۔ ہم ان کرسیوں پر بیٹھ کر اردگرد کے دلکش نظاروں ، پھولوں کی بہاروں اور دریا میں کشتیوں کی قطاروں کو دیکھنے لگے۔ کافی شاپ کی ویٹرس آرڈر لینے آئی تو اظہر نے اسے دو لاٹے کا آرڈر دیا۔ یہ ویٹرس بھولے بھالے خوبصورت چہرے اور پرکشش جسم والی سترہ اٹھارہ سال کی نو خیز دوشیزہ تھی۔ اس کا جوان اور سڈول جسم اُس کے مختصر اور تنگ لباس سے بغاوت پر آمادہ نظر آ رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر مجھے ایک پنجابی گیت کا مصرعہ یاد آگیا۔ ڈھائی دن نہ جوانی نال کڈدی کُرتی ململ دی ۔ شکر ہے اس دوشیزہ کو ململ کی کرتی نہیں پہننی پڑ رہی تھی۔ ورنہ ڈھائی دن کے بجائے ڈھائی گھنٹے بھی نہ نکالتی۔
قدرت بھی بعض علاقے کے لوگوں کو اپنی نعمتوں سے انتہائی فیاضی سے نوازتی ہے۔ یورپ کے ان علاقوں کو قدرت نے ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے ۔ یہاں بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے درخت ، سبزہ ، پھل، پھول، سبزیاں اور دیگر اجناس وا فر ہیں۔اس سے لوگ خوشحال ، زمین خوبصورت ، کثافت سے پاک اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ زمین سبزے اور پھولوں سے دلہن کی طرح سجی ہے۔ سبز چارے کی بہتات کی وجہ سے مویشیوں ، گائیوں، گھوڑوں اور بھیڑوں کے بے شمار فارم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دودھ اور اس کی مصنوعات وافر مقدار میں ہیں ۔گوشت اور دودھ کی مصنوعات یہاں اتنی زیادہ ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔ ان کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو بھی قدرت نے صاف رنگت ، سڈول جسم اور اچھی صحتوں سے نوازا ہے۔ یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا کے تمام مردوزن کے قدو قامت ہمارے ہاں کے خواتین و حضرات سے اوسطاََ دراز ہیں ۔پاکستان میں میری طرح چھ فٹ کے قد والا آدمی انتہائی دراز قد نظر آتا ہے۔ وہی شخص آسٹریلیا یا امریکہ میں ہو تو عام سے قد کا نظرآئے گا۔ کیونکہ یہاں عام لوگوں کے قد اس سے زیادہ طویل ہوتے ہیں۔ خصوصاً یہاں کی عورتیں اپنے ہاں کی خواتین سے خاصی دراز قد ہیں۔ ان کی صحتیں بھی مردوں سے کم نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں عورتیں ہر وہ کام کرتی نظر آتی ہیں جو پاکستان میں صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ فوج کی نوکری ہو یا بس اور ٹرک کی ڈرائیوری ، سڑک اور عمارت بنانے کی مزدوری ہو یا کھیتوں میں ٹریکٹر چلاناہو ، دفتروں اور گھروں کا سامان شفٹ کرنا ہو یا کورئیر کا کام ہو، یہاں ہر کام عورتیں مردو ںکے شانہ بشانہ کر رہی ہوتی ہیں۔ وہ دفتروں میں ایگزیکٹو بھی ہوتی ہیں اور کمپنیوں کی ڈائریکٹر بھی ۔ بیورو کریٹ بھی اور وزیر اور سفیر بھی ۔ غرضیکہ کوئی ایسا کام نہیں جو عورتیں یہاں نہ کرتی ہوں ۔یہاں کی عورت جسمانی اور ذہنی طور پر اتنی طاقتور ہے کہ کلبوں اور پبوں میں نشے میں دھت مرد بھی ان کے مرضی کے خلاف ان سے دست درازی کی جُرات نہیں کر پاتے۔ گھر ہو یا باہر یہاں کی عورت آزاد اور خود مختار ہے۔
کافی شاپ میں اظہر کے ساتھ بیٹھے ہوئے میرے خیالات نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ یکایک اظہر کی آواز پر میں چونکا ۔اس نے میری ران پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ’’کہاں کھو گئے ہو ۔وہ لڑکی آرڈر لے کر کب کی جا چکی ہے۔ لگتا ہے تمھاری نظریں اور سوچیں اب تک اس کا تعاقب کر رہی ہیں ۔فکر نہ کرو ابھی وہ کافی لے کر آتی ہو گی‘‘
’’میں اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا بلکہ دو تہذیبوں کا تقابلی جائزہ لے رہا تھا۔ کتنا فرق ہے مشرق اور مغرب میں ۔ مشرق کی عورت اپنی ساری زندگی دوسروں کے لئے قربان کر دیتی ہے ۔ ہوش سنبھالتی ہے تو والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت کا فریضہ سنبھال لیتی ہے۔ شادی کے بعد شوہر اور ساس سسر کے لئے سرا پاِِ راحت بن جاتی ہے اور پھر اولاد کے لئے تو اپنا آپ تج دیتی ہے۔ بچپن سے بڑھاپے تک وہ صرف دوسروں کے لئے جیتی ہے۔ سب کوکھلا کر بعد میں کھاتی ہے۔ سب کو آرام میں رکھ کرخود بے آرام رہتی ہے۔ گھر میں کسی کوذرہ برابر تکلیف ہو تو بے چین ہو جاتی ہے۔ دوسروں کو آرام اور سکون پہنچانے کے لئے اپنے آرام اور سکون کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتی۔ سب دکھ، درد، ذمہ داریاں ، کام کا بوجھ اور بے آرامی اپنوں کی خوشی کے لئے ہنس کر سہہ لیتی ہے ۔ مشرق کی یہ عورت گھر کا چراغ ، والدین کی آنکھوں کا نور، خاوند کی غیرت کی آمین اور اولاد کے لئے سراپا ِمحبت و قربانی ہے۔ گھروں کی رونق انہی کے دم سے ہے۔ عورت کے بغیر مشرق کا ہر گھر ادھورا بلکہ گھر نہیں ہوتا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ کہ عورت کی ان قربانیوں سے گھر تو بسے رہتے ہیں۔ ان میں رونقیںبھی لگی رہتی ہیں لیکن خود مشرقی عورت کہاں کھڑی ہوتی ہے۔ کیا اُسے بھی وہ سب کچھ ملتا ہے جو اس کا حق ہے۔
دوسری جانب مغرب میں گھر کا وہ تصور ہی نہیں جو مشرق میں پایا جاتا ہے ۔ یہاں گھر سے زیادہ فرد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ شخصی آزادی زیادہ اہم ہے۔ والدین ہوں یا خاوند، بیٹا ہو یا بیٹی سب کو اپنا خیال خود رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان کی بیٹی بیوی یا ماں ان کی خدمت کے لئے ہر وقت موجود نہیں ہوتی۔ اس کی اپنی زندگی ہوتی ہے۔ اپنی دلچسپیاں اور مشاغل ہوتے ہیں۔ اپنے وقت کو اپنی پسند کے مطابق گزارنے کا اسے پورا حق ہوتا ہے۔ وہ اس حق کا استعمال بھی کرتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کا خیال نہیں کرتی ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے لئے وہ اپنی دلچسبیوں، اپنے مشاغل اور اپنی تفریح کو ترک نہیں کرتی‘‘
اظہر نے میری طویل بات کو خلافِ توقع خاموشی اور سنجیدگی سے سنا اور اسی سنجیدگی سے کہنے لگا’’ ہاں دونوں تہذیبوں میں یہ واضح فرق تو ہے۔ لیکن دونوں میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں۔ کیونکہ دونوں انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔ مشرق کی عورت ساری زندگی دوسروں کے لئے جیتی ہے۔ اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں کر پاتی۔ مردوں کا بچا کھچا کھانا کھا کر صبر و شکر کرتی ہے۔ سب کو آرام اور سکون پہنچا کر خود ہمیشہ بے آرام اور بے سکون رہتی ہے ۔ مرد کے لئے وہاں ہر تفریح جا ئز ہے جبکہ عام عورت وہاں گھر میں ایک قیدی کی طرح پابند ہے ۔ معاشرے کی ناروا رسمیں ، عزت و غیرت کے نام پر عورت کو قربانی چڑھانے کا رواج ، اوراس کی خاموشی کو اچھائی کا نام دے کر اسے بے زبان جانور کی طرح بلی چڑھا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ حرفِ شکایت زبان پر لاتی ہے تو مردوں کی غیرت پر حرف آجاتا ہے چاہے وہ خود جو مرضی کرتے پھریں۔
اس دہرے معیار کی وجہ سے وہاں عورت اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہے۔ گھر میں رہتی ہے تو صرف دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے۔ باہر نکلتی ہے تو مردوں کی ہوس زدہ نظروں کا شکاربنتی ہے۔ گویا وہ چکی کے دو پاٹوں میں پستی رہتی ہے۔لیکن حرف ِشکایت اپنی زبان پر نہیں لاتی۔ دوسری طرف یہاں مغر ب میں عورت دوسری انتہا پر پہنچی ہوئی ہے‘‘ اظہر ڈچ دوشیزہ کی لائی ہوئی لذیذ کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا ’’یہاں گھر اور گھر یلو عورت کا وہ تصور ہی نہیں جو ہمارے ہا ں ہے۔ اس لئے یہاں کی عورت کو ہرگز موردِ الزام نہیں ٹھہرا یا جا سکتا کیونکہ انہوںنے جو کچھ دیکھا ہے اتنا ہی جانتی ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں جو مشاہدات و تجربات انہیں پیش آتے ہیں وہی کچھ وہ اپنی زندگی میں کرتی ہیں۔ یہاں گھر کا سربراہ مرد نہیں ہوتابلکہ کوئی نہیں ہوتا۔ کیونکہ عورت مرد کی سربراہی قبول نہیں کرتی۔ وہ برابری کی نہ صرف دعوے دار ہے بلکہ عملی طور پر برابر ہے ۔
جہاں دونوں ہی سوا سیر ہوں وہاں ازدواجی زندگی کی گاڑی کسی وقت بھی رُک سکتی ہے کیونکہ اونچ نیچ ہر گھر میں ہو ہی جاتی ہے۔ یہاں کوئی فریق دوسرے کی چودھراہٹ برداشت کرنے کا قائل نہیں۔ جب تک گاڑی میں پیار اور برداشت کا پیٹرول باقی رہتا ہے گاڑی چلتی رہتی ہے۔ جو نہی دونوں میں سے کسی ایک میں کمی آتی ہے وہیں ان کے راستے الگ ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی درمیانی راستہ نہیںہے۔ نہ ہی یہ لوگ منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔یہاں کی عورت مرد کی بالادستی کو تسلیم کرنے کی قائل نہیں۔ صرف عورت کو نہیںیہاں مرد کو بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ مرد کو بہت سے کام اپنی مرضی کے خلاف بھی انجام دینے پڑتے ہیں۔ نہ صرف اسے گھر کے کاموں میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوتا ہے بلکہ کئی دفعہ نہ چاہتے ہوئے بھی شام کو بیوی کو باہر لے جانا ہوتا ہے ۔ اس کی مرضی اور پسند پر سر ِتسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔ ریستورانوں میں اکثر عورتیں اپنی پسند کا مینو منتخب کرتی ہیں۔ کسی تفریحی مقام پر جانا ہو تو اکثر عورت کی بات حرفِ آخر ہوتی ہے۔ جب یہ جوڑا تفریح کے لئے راتیں باہر گزارتا ہے تو بچے آیا کے زیرِ سایہ پرورش پاتے ہیں۔ یہ بچے دن میں بھی ماں باپ کی توجہ اور شفقت سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ دونوں ہی جاب پر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہاں کی عورت اپنے ماں باپ ، خاوند کے والدین اور خاوند کے رشتہ داروں کی خدمت سے بھی بچی رہتی ہے کہ اس کا یہاں رواج نہیں ہے۔جاب، تفریح اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے یہاں بچوں کو بھی اتنا وقت نہیں دیا جاتا جتنا ہمارے ہاں دیا جاتا ہے۔ یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کے والدین نے کیا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا۔ یہ اسی میں خوش ہیں کیونکہ یہاں یہی رواج ہے ۔ یہی دستور ہے اور یہی ان کا مزاج ہے‘‘
اظہر آج کچھ زیادہ ہی سنجیدہ گفتگو کر رہا تھا۔ اظہر کی گفتگو کے دوران ہم نے اس خوبصورت کافی شاپ کی ذائقے دار کافی بھی ختم کر لی تھی ۔اس لئے میں نے کہا ’’ا ب فلسفہ بگھارنا بند کرو اور مجھے اپنے شہر کی کچھ سیر بھی کرائو ورنہ سڈنی واپس جا کر مجھے تمھار ا یہ خشک فلسفہ ہی یاد رہے گا ۔جبکہ میں رنگین یادیں لے کر واپس جانا چاہتا ہوں خشک فلسفہ نہیں‘‘
اظہر نے اٹھتے ہوئے کہا’’ تمھیں جن رنگینیوں کی طلب ہے وہ یہاں ہر سو بکھری ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ تمھیں صرف قریب سے اچھی لگتی ہیں‘‘
’’ تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ انسان ہر اچھی اور خوبصورت چیز کے نزدیک جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہے، چھونا چاہتا ہے اور اسے اپنے دل اور دماغ میں اتارناچاہتا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ شکر کرو تم یہاں یورپ میں ہو ۔اگر یہی کوشش تم نے پاکستان میں کی ہوتی تو نتیجہ تمھارے سر پر گنج کی شکل میں نظر آتا ‘‘اظہر واپس اپنے جولی موڈ میں آگیا تھا
’’ تمھارا تو ذہن ہی خراب ہے‘‘ میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا’’ میر مقصد وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ خوبصورتی دنیا میں ہر طرف اور ہر شے میں موجود ہے ۔اسی کی تلاش میں ہم گھر سے نکلے ہیں اور سورج کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا سفر کر رہے ہیں۔ قدرت کی بنائی ہوئی اس دنیا میں رنگ برنگے لوگ، جدا جدا خطے ، مختلف درخت اور پودے، الگ الگ زبانیں ، مختلف تہذیب و تمدن، قدرتی حسن سے مالا مال دریا اور پہاڑ اپنے اندر بے پناہ حسن رکھتے ہیں۔ اسی حسن کی جستجو میں ہم گھر سے نکلے ہیں۔ انہی کو کھوجنا اور قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔وجودِ زن کے علاوہ بھی دنیا میں حسن موجود ہے ۔شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی نظر ہو ۔لیکن تمھارا دماغ اور تمھاری نظریں تو اس دائرے سے باہر نکلتی ہی نہیں اور نہ تمھیںکچھ اور نظر آتا ہے‘‘
اظہر کہاں ہار ماننے والاتھا’’ اپنی بے سری شاعری سے بات بدلنے کی کوشش نہ کرو ۔میں تمھیں جانتا ہوں اور تمھاری پسند اور نا پسند سے بھی واقف ہوں۔ اس لئے شعر و شاعری سے مجھے نہ بہلاوٗ اور بتائو کیسی خوبصورتی کو اور کہاں تلاش کرنے جانا چاہتے ہو۔ وہیں ریڈلائٹ ایر یے میں جانا چاہتے ہو جہاں ایک رات پہلے گزار کر آئے ہو‘‘
’’ لاحول ولا قوہ! میں ریڈ لائٹ ایریے میں گیا تھالیکن بٹ صاحب کے ریستوران میں وقت گزارکر واپس آگیا تھا۔ شکر ہے کہ تم نیوز رپورٹر نہیں ہو ورنہ روزانہ شرفاء کی پگڑیاں اچھالتے رہتے‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا
اظہر نے کچھ اور کہنا چاہالیکن میں اس کا ہاتھ پکڑکر آگے چل پڑا۔ کافی دیر تک ہم اس پر رونق علاقے میں گھومتے رہے۔ خوبصورتی سے سجی رنگا رنگ دکانیں، دنیا بھر سے آئے ہوئے بھانت بھانت کے سیاحوںکی ٹولیاں، ریستورانوں سے اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو، دریا میں کشتیوں کی آمد و رفت اور سائیکل سواروں کی ٹولیوںکے مناظر ہمارے سامنے تھا۔ اتنے لوگ ہونے کے باوجود یہاں سکون ہی سکون محسوس ہو رہا تھا۔ نہ گاڑیوں کا شور اور نہ دکانوں پر بے ہنگم موسیقی ۔ لوگ ایک دوسرے کے سامنے سے گزرتے تو مسکر اکر خیر سگالی کا اظہار کرتے تھے۔ اسی بازار میں گھومتے گھومتے ہم ایک گفٹ شاپ میں جا پہنچے۔
میں اظہر کی ماں ہوں
اس گفٹ شاپ کی مالک ایک بوڑھی ڈچ عورت مسز میری تھی ۔ مسز میری نے جونہی اظہر کو دیکھا تو کائونٹرسے باہر نکل آئی۔ اظہر کو پکڑا اور چٹاخ پٹاخ دو بوسے اس کے گال پر داغ دیئے ۔ا س کے بعد اس کا کان پکڑ کرڈچ زبان میں پتہ نہیں کیا کہنا شروع کردیا۔ کافی دیر تک کانوں کی کھنچائی اور نامانوس الفاظ کی بارش کے بعد اظہر کی جان چھوٹی۔ اس دوران وہ بھی ڈچ میں مسلسل کچھ بول رہا تھا۔ اس گفتگو کے دوران شاید اس نے بڑھیا سے میرا تعارف کرا یا۔ بڑھیا نے مجھے بھی دو بوسوں سے نوازا۔ اس کے بعد وہ ہم دونوں کو پکڑ کر اندر لے گئی۔ کاوٗنٹر کے پیچھے کافی کھلی جگہ تھی۔ جہاں ایک طرف میز اور چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف چھوٹا سا کچن بھی تھا۔جہاں کافی وغیرہ بنانے اور ہلکا پھلکا کھانا پکانے کی گنجائش تھی ۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ مجھے ابھی تک اظہر نے بڑھیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایاتھا۔ میں مسلسل اشاروں کنایوں میں اس سے پوچھ رہا تھالیکن وہ حسبِ معمول مجھے زچ کر رہا تھا۔ اب بڑھیا کا رو ئے سخن میری طرف منتقل ہو گیا ۔ وہ مجھے مخاطب کرکے کچھ کہہ رہی تھی جو ظاہر ہے ڈچ زبان میں ہونے کی وجہ سے میری سمجھ سے بالا تر تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اظہر دانستہ مجھے کانٹوںمیں گھسیٹ رہا ہے۔ اس لئے میں نے خود ہی انگریزی میں کہا ’’آنٹی! میرا نام طارق مرزا ہے ۔میں اظہر کا دوست ہوں اور آسٹریلیا سے آیا ہوں۔ اس نالائق نے ابھی تک مجھے آ پ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آپ خود ہی اپنا تعارف کرا دیں۔‘‘
بڑھیانے پھر اظہر کا کان پکڑ لیا۔ اسے ڈانٹنے کے انداز میں کچھ کہاجس کے جواب میں اظہر بتیسی دکھاتا رہا۔ اظہر کا کان چھوڑنے کے بعد بڑھیا نے ٹوٹی پھوٹی سی انگریزی میں کہا ’’یہ اظہر بہت شرارتی ہے۔ یہ اسی طرح مجھے بھی تنگ کرتا رہتا ہے ۔ ویسے میر انام مسز میری ہے اور میں اظہر کی ماں ہوں۔ لیکن اسے میر ی ذرہ برا بر پرواہ نہیں ہے۔ آج ایک ہفتے کے بعد اس نے شکل دکھائی ہے۔ کسی دن بیمار پڑ کر مر گئی تو اسے پتا بھی نہیں چلے گا۔ بہت لاپرواہ ہے۔ اسے علم ہے کہ میں اس کی راہ دیکھتی رہتی ہوں لیکن آج کل کے نوجوانوں کوبوڑھے ماں باپ کی کہاں فکر ہوتی ہے۔ ویسے تم بھلے آدمی لگتے ہو۔ اظہر کے دوست ہو تو میرے بھی بیٹے ہو ئے نا ! آج شام تم دونوں ڈنر میرے ساتھ کرو گے۔ میں ابھی دکان بند کرنے والی ہوں۔اس کے بعد گھر چلیں گے، میں اور اظہر مل کر کھانا بنائیں گے اور تم سے آسٹریلیا کی باتیں سنیں گے‘‘
میں کچھ کہنے والا تھا کہ اظہر نے ڈچ میں پتھر کھڑکانے شروع کر یئے۔جسے سن کر مسز میر ی کے چہرے پر ملال کی ہلکی سی لہر پھیلتی چلی گئی۔ اظہر نے اٹھ کے اسے گلے لگا لیا ۔ ماں بیٹے کی گفتگو تھوڑی دیر تک جاری رہی۔ صاف نظر آتا تھا کہ مسز میری نارا ض ہے اور اظہر اُسے منانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بالآخر مسز میری کے چہرے پرپہلے کی طرح شفقت بھر ی مسکراہٹ واپس آگئی۔ اس نے فریج میں رکھا ہوا کیک نکالا ،اسے کاٹ کر دو پلیٹوں میں رکھا، مالٹے کا جوس دو گلاسوں میں انڈیلا اور دونوں چیزیں ہمارے سامنے لا کر رکھ دیں۔ اس مرتبہ اس نے اظہر کو نظر انداز کر کے میرے برا بر نشست سنبھال لی ۔
مسز میری کی انگریزی کمزور تھی لیکن اپنا مدعا پھر بھی ظاہر کر سکتی تھی۔ وہ مجھ سے اپنی دکان، آنجہائی شوہر اور اظہر کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ ساتھ ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ کیک کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مسز میری کی باتوں سے مجھے اندازہ ہو ا کہ وہ اکیلی عورت ہے ۔اس کے خاوند کا چھ سات بر س قبل انتقال ہو گیا ہے۔ اس کی اپنی اولاد کوئی نہیں ہے۔ اظہر پہلے اس کے پڑوس میں رہتا تھا اور اکثر اس کے چھوٹے موٹے کام کر دیتا تھا۔ (شاید اسے بھی اپنی مرحوم ماں کی کمی محسوس ہوتی ہوگی)۔ اس طرح مسز میری اسے بیٹوں کی طرح پیار کرنے لگی۔ اب اظہر اُس مکان میں نہیں رہتا بلکہ اس علاقے سے ہی شفٹ ہو گیا تھا لیکن مسز میری سے اس کا رابطہ نہیں ٹوٹا تھا۔ اگر وہ اس کے گھر نہ جا سکے تو یہیں دکان پر آکر مل لیتا تھا ۔ ہفتے میں ایک دو ملاقاتیں ضرور ہو جاتی تھیں۔ مسز میری اظہر کو سگے بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔ اظہر کے جذبات بھی وہی تھے لیکن کاروباری جھمیلوں اور اب شادی کے بندھن میں بندھنے کی وجہ سے وہ پہلے جتنا وقت اُسے نہیں دے پاتا تھا۔ اسی بات پر مسز میری اس سے شاکی تھیں لیکن اس شکایت میں اپنائیت اور پیار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔
مجھے اظہر جیسے لاُاُبالی اور لاپرواہ شخص سے ایسے جذباتی اور حساس رشتے پالنے کی قطعاً توقع نہیں تھی۔ لیکن شاید میں نے اس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ بعض لوگ بظاہر کھردرے اور لاپرواہ نظر آتے ہیں لیکن وہ اندر سے کومل جذبوں سے معمور اورپیار کی خوشبو میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پوری طرح سمجھنے کے لئے وقت اور تجربہ درکار ہوتا ہے۔ اس لئے کسی کے بارے میں بغیر جانچے اور پرکھے حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔
مسز میری ان لوگوں میں شامل تھی ،جو ساری زندگی یورپی دنیا میں گزرتے ہیں لیکن انہیں ایشیائی تہذیب و تمدن اور رشتوں میں پیار اور احترام زیادہ پسند ہوتا ہے۔ مسز میری نے بتایا ’’میں اسی شہر میں پیدا ہوئی ہوں یہیں پلی بڑھی ، جوان ہوئی ، شادی کی ، لوگوں سے دوستیاں کیں، رشتہ داروں سے میل جول رکھنے کی ہر کوشش کی ۔ جہاں بھی رہی لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے اور حسبِ مقدور سب کے دکھ درد میں شریک ہوتی رہی لیکن آج عمر کے اس آخری حصے میں میں اسی شہر میں بالکل تنہا ہوں۔ کوئی رشتہ دار، کوئی دوست اتنا قریب نہیں کہ برے وقت میں اس کا سہارا محسوس ہو۔ ایسے لگتا ہے کہ میں اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوں ۔ یہ دکان بھی محض اس لئے چلا رہی ہوں کہ گھر بیٹھے تنہائی اور بوریت سے بچ سکوں ۔ زندگی کا کوئی مقصد اور دلچسپی تو رہے جس کے سہارے عمر کے یہ آخری سال سکون سے گزار سکوں۔ جب میرا خاوند زندہ تھا تو یہ دکان گفٹ شاپ نہیں بلکہ کافی شاپ تھی اور بہت اچھا بزنس کر رہی تھی۔ خاوند کے گزر جانے کے بعد کافی شاپ چلانا میرے بس سے باہر تھا۔ اس لئے میں نے وہ بند کر کے یہ گفٹ شاپ کھول لی۔ اس میں اتنا زیادہ فائدہ نہیں بعض اوقات تو بہت کم بچت ہوتی ہے ۔کیونکہ اس مارکیٹ میںبہت ساری اور بڑی بڑی گفٹ شاپس کھل چکی ہیں۔ لیکن میں اس میں بھی مطمئن ہوں ۔دکان اپنی ہونے کی وجہ سے کرایہ نہیں دینا پڑتا ۔ بس ایک پارٹ ٹائم ملازمہ کی تنخواہ اور یوٹیلٹی بلز وغیرہ ادا کرنے پڑتے ہیں جو آسانی سے نکل آتے ہیں۔ میرا گھر بھی اپنا ہے اور خاوند کی زندگی میں بچت کی ہوئی کچھ رقم بھی بنک میں محفوظ ہے۔ دیکھا جائے تو مجھے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس دکان کے کرائے اور بنک میں جمع شدہ رقم کی مدد سے میں اپنا گزارہ آسانی سے کر سکتی ہوں۔ لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ گھر میں فالتو پڑے رہنے سے بہترہے کہ کچھ ہاتھ پیر ہلا کر زندگی کو زیادہ با مقصد اور صحتمندانہ طریقے سے گزاروں‘‘
ایک گاہک سے نمٹنے کے بعد مسز میری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’’ اظہر اور اس کی فیملی پہلے میرے پڑوس میں آباد تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ ملنے اور ان کے گھروں کا رہن سہن دیکھ کر مجھے پاکستانی کلچر پر رشک آتا ہے۔ اب اظہر کو ہی لے لیجئے، یہ تین بھائی یہاں ایمسٹرڈم میں رہتے ہیں۔ تینوں شادی شدہ اور بال بچے دار ہیں۔ اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان باہمی محبت کا ایسا سلسلہ قائم ہے کہ کاروباری مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود اکثر یہ اکھٹے نظر آتے ہیں۔ اکٹھے کھاتے ہیں، پیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور بہت اچھا وقت گزا رتے ہیں ۔ ان کی بیویاں اور بچے بھی آپس میں اسی طرح گھلے ملے ہوئے ہیں۔ یہ پورا خاندان ایک خوبصورت زنجیر میں بندھا نظر آتا ہے۔ اب ان کے والد بھی پاکستان سے یہاں آگئے ہیں۔ ان کو جو احترام، محبت اور حسن ِسلوک یہ تینوں بھائی اور ان کے بیوی بچے دیتے ہیں وہ ہم یورپین لوگوں کے لئے ناقابلِ یقین سی بات ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ آپ لوگ کسی دوسری ہی دنیا سے آئے ہیں۔ یہاں یورپ میں ایشین ممالک کو اکثر پس ماندہ اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کے مطابق تو یہ تہذیب پوری دنیا کے لئے قابلِ تقلید ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوجوانی میں قدم رکھتے ہی والدین کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس ناپسندیدگی کی سب سے بڑی وجہ عمروں میں فرق ہوتا ہے۔ بڑی عمر کے کسی شخص کے ساتھ وہ ایک لمحہ بھی بتانے کے قائل نہیں ہوتے چاہے وہ ان کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن میں نے اظہر کی آنکھوں میں ہمیشہ پیار اور احترام دیکھا ہے۔ میرے کام آکر اسے خوشی ہوتی ہے۔ فالتو وقت ہو تو اپنے دوستوں اور کلبوں میں گزارنے کی بجائے یہ میرے پاس گزارتا ہے۔ میرے گھر کے باغیچے کی باغبانی کرتا ہے۔ میری گاڑی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔حتیٰ کہ کچن میں آکر میرا ہاتھ بٹاتا ہے۔ یہ مثال شاید پورے یورپ کے کسی جوان میں نہیں ملے گی۔ اظہر کے اس حسنِ سلوک ، پیار اور احترام کے جذبے کو دیکھ کر اور ان کی فیملی کا رہن سہن دیکھ کر کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں بھی پاکستان میں پیدا ہوئی ہوتی۔ میری بھی ایسی ہی فیملی ہوتی ،میرا گھر، میرے بیٹے ،بیٹیوں، پوتے ،پوتیوں اور نواسے، نواسیوں سے بھراہوتا۔ سب میرے ساتھ گھلے ملے ہوتے اور میں سب سے پیار کرتی۔ ہمارے گھر میں ویرانی اور خاموشی کے بجائے خوشیوں کے قہقہے لگتے۔ ہنسنے کھیلنے کی آوازیں آتیں اور باہمی پیار و محبت کی خوشبو سے میر ا آنگن مہکا ہوتا ۔ کاش ایسا ہوتا‘‘
گفتگو کے اس حصے پر آکر مسز میری کی آواز گلو گیر ہو گئی اور ان کے شفیق چہرے پر جذبات کی سرخی اُمنڈ آئی ۔ چند لمحوں بعد بعد ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اُن کے دکھوں،غمِ تنہائی اور سوز ِدل نے ہمیں بھی آبدیدہ کر دیا۔ ایک مرتبہ پھراظہر اٹھا اور مسز میری کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ وہ ڈچ زبان میں کچھ شگفتہ باتیں کر کے انہیں نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ مسز میری نے بھی سنبھلنے میں دیر نہیں لگائی۔ انہوں نے مجھ سے اپنے جذباتی باتوں پر معذرت کی۔ ہم تھوڑی دیر مزید وہاںٹھہرے پھر مسز میری سے اجازت لے کر واپسی کے لئے چل پڑے۔
باہر نکلے تو اظہر نے کہا’’ اب گھر چلنا چاہیے، سب لوگ کھانے پر انتظار کر رہے ہوںگے‘‘
میں نے اثبات میں جوا ب دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم اظہر کے گھر کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔
اظہر کے گھر میں اس دن اس کی پوری فیملی جمع تھی۔ اس کے بھائی سعید کے علاوہ چا چا علی محمد ، دوسرا بھائی مسعود، کزن افتخار سبھی ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ مسعود اور افتخار سے ہالینڈ میں یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملے۔ اس پوری فیملی کی خاص بات یہ تھی کہ برسوں سے یورپ کے اس بڑے اور مصروف شہر میں رہنے اور اچھی طرح سیٹل ہونے کے باوجود ان میں پنجاب کا دیہی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ ان کی سوچوں اور خیالات کا مرکز اور موضوع گفتگو اپنا گاوٗں اور اپنا ملک ہی رہتا تھا۔ ان کی زبان اور تہذیب پر مغربی تہذیب کا ذرہ برابر ا ثر نہیں پڑا تھا۔ ان کے گھروں کا رہن سہن اور طرزِ معاشرت مکمل طور پر پاکستانی تھا۔ گویا گھر سے باہر تلاش رزق کے لئے وہ کچھ بھی کرتے ہوں لیکن گھر آکر وہ پکے اور کھرے پاکستانی کے اصل لبادے میں لوٹ آتے تھے۔ اظہر کے گھر میں اس رات کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم یورپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے لگتا تھا کہ گاوٗں کی کسی بیٹھک میں بیٹھے ہوں۔ کافی دنوں کے بعد ایساماحول ملا تو مجھے بھی بہت اچھا لگا۔ نت نئے لوگوں اور نت نئی زبانوں کے تجربوں سے گزرتے گزرتے کچھ اکتا سا گیا تھا۔ اب واپس اپنے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر، اپنی زبان میں، اپنے لوگوں کی باتیں کر کے جیسے دل میں ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگی۔ دل و دماغ میں تازگی اور فرحت کا احساس ہونے لگا۔ آدھی رات کے بعد تک خورد و نوش اور خوش گپیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد میرے کہنے پر اظہر مجھے ہوٹل چھوڑ گیا۔