۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے گزشتہ سے پہلے کالم(متحدہ مجلس عمل کی کامیابی،امریکہ اور افغانستان(on line at www.urdustan.net) میں متحدہ مجلس عمل کی ۱۰اکتوبر۲۰۰۲ءکے انتخابات میںکامیابی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ اب تک متعدد صحافیوں اوردانشوروں نے متحدہ مجلس عمل کی کامیابی پر اپنی اپنی رائے دی ہے۔اس سلسلہ میں ایسے لکھنے والوں کو تین مختلف طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ایسے حضرات جنہوں نے متحدہ مجلس عمل کی کامیابی پر ایسا رد عمل ظاہر کیا جیسے انہیں پاکستان پر حکومت کرنے کا مینڈیٹ مل گیا ہے۔
۲۔ایسے حضرات جن کے رد عمل سے ایسے لگا جیسے پاکستان کی سلامتی اور بقا کو سارا خطرہ ہی دینی جماعتوں سے ہے۔
۳۔ایسے حضرات جنہوں نے سارے حقائق کا غیرجانبداری سے اور ایمانداری سے جائزہ لے کر ملکی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی۔
ہر لکھنے والے اور تجزیہ کار کا اپنا ذہن ہوتا ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی رائے پیش کرتا ہے۔میں نے اس سلسلے میں جو اہم نکتہ پیش کیا تھا مجھے حیرت ہے کہ اس سارے عرصہ میں کسی اور ثقہ لکھنے والے کا اس نکتہ کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔شاید کسی نے اس حد تک ہوجانے کے امکان کو محسوس نہیں کیا۔بہتر ہوگا کہ پہلے میرے کالم کا وہ اہم حصہ دیکھ لیں،جس کی بنیاد پر میں نے اپنے اُس کالم کا ذیلی عنوان”متحدہ مجلس عمل کی کامیابی،امریکہ اور افغانستان“رکھا تھا۔میں نے لکھا تھا:
۔۔۔۔”امریکہ تیل کے جن ذخائر پر قبضہ کرنے کا خواب لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔اتنی بربادی اور لوٹ مار کرنے کے باوجود اسے اپنے مشن میں کوئی بنیادی کامیابی نہیں ملی۔حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کی حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں کے حالات کو نارمل کرسکیں۔اگر وہاں حالات نارمل نہیں ہو سکتے تو تیل کی پائپ لائن بچھانے کا خواب پورا ہونا تو کیا شروع بھی نہیں ہو سکتا۔ایسی صورت میں صرف ایک ضد ہوگی جو امریکہ کو افغانستان کی جنگی دلدل میں ویت نام سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنسا دے گی۔اگر امریکہ متحدہ مجلس عمل کے اثر رسوخ سے فائدہ اٹھانا چاہے تو نہ صرف متحدہ مجلس عمل کے ذریعے طالبان کے سارے بکھرے ہوئے حامیوں کو یکجا کرکے صلح کی صورت نکالی جا سکتی ہے بلکہ افغانستان کی تعمیر نو کا عمل تیزی سے شروع کرکے افغانیوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔اس صورت میں امریکہ کے لئے افغانستان میں امن و امان قائم کرنا آسان ہو سکتا ہے۔لیکن اس سارے عمل کے لئے امریکہ کو اپنی عالمی دھونس کے انداز میں نہیں بلکہ مکالمہ اور مفاہمت کی راہ اختیار کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ممکن ہوگا۔اگر موجودہ عالمی منظر میں متحدہ مجلس عمل کی وجہ سے افغانستان میں بحالیِ امن کا کام شروع ہوجاتا ہے اور امریکہ جیسا ملک مکالمہ اور مفاہمت کی راہ پر آجاتا ہے تو میرے نزدیک یہ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کا ایک انتہائی مثبت پہلو ہوگا۔“
۔۔۔۔اس دوران پاکستان میں حکومت سازی کے مقامی مفاداتی سلسلے سے قطع نظر۔۔۔۔چند ایسے اہم واقعات ہوئے ہیں جن سے میرے اس تجزیے اور اندازے کی توثیق ہوتی ہے۔متحدہ مجلس عمل کے اہم قائدین نے عالمی سطح پر اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے موثرڈپلومیٹک اقدام کئے ہیں۔اسلام آباد میں امریکہ سے لے کر بھارت تک اہم ممالک کے سفارت کاروںکے ساتھ گفتگو اور ان کے سوالوں کے نپے تلے جواب دینا۔۔۔پھر متحدہ مجلس عمل کی جانب سے امریکہ کے خدشات کو دور کرنے کے لئے بعض اہم وضاحتیں کرنااور اپنے موثر سیاسی کردار کو مثبت انداز میں ابھارنا۔۔۔ایسے واقعات ہیں جن کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے تینوں بڑے سیاسی گروپ امریکہ کے ساتھ دوستی کے لئے بیتاب ہیں ۔چونکہ یہاں میں متحدہ مجلس عمل کے مخصوص سیاسی کردار کی بات کررہا ہوں اس لئے یہاں پی پی پی پی اور مسلم لیگ ق سے صرفِ نظر کررہا ہوں۔
۔۔۔۔ بعض پاکستانی طبقات کی طرف سے متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کو ہوّا بنا کر پیش کیا جارہا تھااس کے باوجود امریکہ نے اس کامیابی کوتشویش کی نظروں سے نہیں دیکھا۔اس دوران امریکی تھنک ٹینک اپنے تجزیوں اور غوروخوض میں مشغول رہے اوراب آج ۹اکتوبر کے روزنامہ”جنگ“کے انٹرنیٹ ایڈیشن نے ایک اہم خبر شائع کی ہے۔واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے دی گئی ”جنگ“ کی اس خبر کے مطابق امریکی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف رچرڈبی مائرز(Richard B. Myers) نے بروکنگ انسٹی ٹیوٹ نامی معروف اور اہم امریکی تھنک ٹینک کے ایک حالیہ اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔یہاں ”جنگ“کی خبر کا بڑا اور اہم حصہ درج کردینا زیادہ مناسب ہوگا۔
”افغان حکمت عملی پر امریکی کمان اور پاکستانی علماءکے موقف میں یکسانیت
واشنگٹن۔۔۔پاکستان کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے علماءاور امریکی فوجی ہائی کمان مذاکرات کے بغیرافغان حکمت عملی پر یکساں موقف اختیار کررہے ہیں۔امریکی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف رچرڈبی مائرزRichard B. Myersنے امریکا کے ایک اہم تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے حالیہ اجلاس میں اس خیال کا اظہار کیاالقاعدہ اور طالبان کے جنگجوہمارے حربے سمجھ کر پھرتی سے ان کا توڑ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں فوجی آپریشن کے بجائے تعمیر نَوپر زور دینے کی حکمت عملی زیادہ موثر ہوگی۔خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں متحدہ مجلس عمل کی موجودگی سے القاعدہ کے ہمدردوں کو افغانستان کی تعمیر نو پر قائل کرنے میں مدد ملے گی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی جنرل نے اس خیال کا اظہار کیا کہ افغانستان میں اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔اور القاعدہ اور طالبان جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشنوں کے بجائے اب افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ دینی چاہئے۔جنرل مائر نے کہاالقاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں پرہماری گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے حربوں کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں جبکہ القاعدہ کے خطرے کا جواب دینے میں ہم بہت سست رہے ہیں۔حملوں اور دہشت گردوں کی تلاش کی حکمت عملی کو افغانستان کی تعمیر نو کی حکمت عملی میں تبدیل کرناانتہائی اہم اور مفید ہوگا۔خیال کیا جاتا ہے کہ حکمت عملی کی اس تبدیلی سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور امریکہ کے درمیان تلخی کی ایک بڑی وجہ ختم ہو جائے گی۔امریکی دفتر خارجہ نے ایم ایم اے کی کامیابی پر ردعمل ظاہر کرنے سے جو انکار کیا تھا اس کی ایک وجہ فوجی کمان کے رویے میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔“
۔۔۔۔اگرچہ امریکی نیتوں کا پورا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے تاہم مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام کو احساس ہو گیا ہے کہ جن مقاصد کی خاطر انہوں نے افغانستان پر حملہ کیا تھا،وہ مقاصد ابھی تک حصول کی منزل سے بہت دور ہیں۔اور اس کے بجائے افغانستان میں انہیں ایک ایسے نئے ویت نام کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں،جو پہلے ویت نام سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لئے انہیں پاکستان کی متحدہ مجلس عمل کے ذریعے افغانستان میں جنگ جوئی کی بجائے ”تعمیر نو“کی پالیسی کا خیال آگیا ہے ۔ اسے امریکی سوچ میں اچھی تبدیلی کے آثار سمجھنا چاہئے۔مجھے خوشی ہے کہ میں نے چند ہفتے پہلے اپنے تجزیہ میں جو اندازہ کیا تھا فکری رنگ میں وقت نے اسے بڑی حد تک درست ثابت کردیا ہے۔ خدا کرے کہ فکری سطح سے بڑھ کر عملی سطح پر بھی اب ایسا سب کچھ ہو جائے۔افغانستان کے ساتھ عراق کے معاملہ میں بھی بین الاقوامی دباؤکے باعث ہی سہی لیکن امریکی رویے میں تبدیلی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں۔ صدر بُش اگر امریکی رویوں میں مثبت تبدیلیوں کی طرف عملی طور پر بھی مائل ہو سکے تو ان کی یہ شکایت از خود ختم ہو جائے گی کہ دنیا کے زیادہ تر لوگ امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ بلکہ مزید بہتر اور متوازن و منصفانہ انداز اپنانے سے انہیں شاید پھر اس بات پر حیرت ہو کہ دنیا امریکہ سے اتنی محبت کیسے کرنے لگی ہے؟
٭٭٭