بڑھنے والی بیماریوں کی پہلی قسم (جینیاتی بیماریوں) کے برعکس دوسری قسم محض دریافت کا اضافہ نہیں بلکہ جدید دور میں ہونے والا اضافہ ہے۔ یہ جدید فراوانی اور سستی والی طرزِ زندگی کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر لائبرمین اسے mismatch disease کہتے ہیں۔ ہمارا جسم ہمارے آباء جیسا ہے جبکہ طرزِ زندگی میں بہت فرق آ گیا ہے۔ گھنٹوں ٹی وی کے آگے بیٹھے بیٹھے وقت گزاری جسم کے لئے اس کا انوکھا استعمال۔ صحت مند زندگی کیلئے ہمیں اپنے آباء کے طرزِ زندگی سے کچھ مطابقت رکھنا ہو گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم شکار کریں اور پھل توڑ کر کھائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ فعال زندگی گزاریں۔ زیادہ میٹھے اور پراسسڈ خوراک سے پرہیز کریں۔ ایسا نہ کرنے سے ہمیں ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں اب بڑی تعداد میں مار رہے ہیں۔
لائبرمین کے مطابق، “اس مسئلے کا حل بہتر ادویات اور طریقہ علاج میں نہیں ہے۔ mismatch disease آپ کو مار دے گی۔ ایسی ہونے والی 70 فیصد بیماریاں ایسی ہیں جنہیں ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ صرف زندگی گزارنے میں کچھ دانشمندی کی ضرورت ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے والے وقتوں میں امراض میں سے سب سے خطرہ کس کا ہے؟
مائیکل کنچ اس کا جواب دیتے ہیں، “فلو۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں۔ فلو اس سے بہت خطرناک ہے جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس وقت امریکہ میں ہی سالانہ تیس سے چالیس ہزار لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے۔ اور ایسا اچھے سال میں ہوتا ہے۔ اور اس کا ارتقا تیزی سے ہوتا ہے جس وجہ سے یہ خطرناک ہے”۔
ہر سال فروری میں عالمی ادارہ صحت اور CDC ملکر فیصلہ کرتے ہیں کہ آنے فلو سیزن کیلئے کیا کیا جائے۔ اس کیلئے مشرقی ایشیا میں اس وقت کے بیماری کے ٹرینڈ کو دیکھا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فلو کے سٹرین بہت متنوع ہیں اور پیشگوئی مشکل ہے۔ آپ نے شاید ایسے نام سنے ہوں۔ H5N1 یا H3N2۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلو کے وائرس کی سطح پر دو قسم کے پروٹین ہوتے ہیں۔ ہیماگلوٹینن اور نیورامیناڈیس۔ H5N1 کا مطلب یہ ہے کہ وائرس ہیماگلوٹینن کی پانچویں معلوم ویری ایشن اور نیورامیناڈیس کی پہلی معلوم ویری ایشن رکھتا ہے۔ اسے عرفِ عام میں برڈ فلو کہتے ہیں اور یہ اپنا شکار ہونے والے نصف سے زائد مریضوں کو مار دیتا ہے۔ چونکہ یہ انسانوں سے انسانوں میں نہیں لگتا، اس لئے اس سے ہونے والی ہلاکتیں زیادہ نہیں۔ اس نے اب تک اس صدی میں چار سو لوگوں کی جان لی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ میوٹیٹ ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی ادارہ صحت 28 فروری کو اپنے فیصلے کا اعلان کرتا ہے اور فلو کی ویکسین بنانے والے ادارے اس کے حساب سے ویکسین بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ فلو کی ویکسین فروری سے اکتوبر تک تیار ہوتی ہے۔ یہ اس امید پر کہ فلو کے سیزن کی تیاری ہو جائے گی۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اگر اس دوران کوئی نیا فلو وائرس آ جائے تو کیا یہ اس کے خلاف بھی موثر ہو گی۔ مثلا، 2018 کے فلو سیزن میں تیار ہونے والی ویکسین سے یہ بیماری کم ہونے کا امکان صرف 36 فیصد کم ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنچ کا کہنا ہے کہ “حقیقت یہ ہے کہ ہم فلو کیلئے بہت اچھی تیاری نہیں رکھتے۔ سپینش فلو نے ایک صدی قبل کروڑوں لوگ مارے تھے۔ تب سے لے کر آج تک فلو کے وائرس نے پھر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خوش قسمت رہے ہیں”۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...