امی کی وفات کے چند دن بعد ابو نے ہم سب بہن بھائیوں کو تحریک کی کہ امی کے ساتھ اپنے اپنے تجربات اور واقعات شیئر کریں۔لیکن اس وقت ہمت ہی نہیںہو رہی تھی۔اب جب سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے مضامین لکھ لیے ہیں تو میں نے سوچا کہ اب مجھے بھی کچھ لکھنا چاہئے۔
بچپن میں رضوانہ بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے اور عثمان بچپن میں بیماری کی وجہ سے زیادہ توجہ اور پیار پاتے رہے لیکن اس کے باوجود مجھے اپنے حصے کی محبت اور پیار باقاعدگی سے ملتے رہے جس میں ،میں نے کبھی کسی قسم کی کمی نہیں پائی،بلکہ میرے ذہن میں یوں آتاہے کہ ابو مجھے اپنی سلطنت کا ولی عہد کہتے تھے اور امی ابو کی سلطنت کا مذاق اڑایا کرتی تھیں۔
چچا اکبر کی شادی پر میں شہہ بالا بنا تھا۔میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔بارات خان پور سے بذریعہ ٹرین کراچی گئی تھی اور وہاں سے پھر ٹرین پر واپسی ہوئی۔جب ٹرین خان پور ریلوے اسٹیشن پر رکی تو سب باہر نکل آئے اور پھر تانگوں میں بیٹھنے لگے تو یک دم امی کو لگا کہ زلفی نہیں ہے۔انہوں نے زور سے اس طرف توجہ دلائی تو سب مرد حضرات ٹرین کی طرف دوڑے،اس دوران ٹرین نے اسٹارٹ لے لیا تھا،پہلے اس کی زنجیر کھینچ کر اسے روکا گیا۔پھر میری تلاش شروع کی گئی تو چچا طاہر نے دیکھا کہ میں سیٹ کے نیچے سو رہا ہوں۔انہوں نے مجھے اُٹھا کر گلے سے لگایا اور نیچے اتر آئے۔
۱۹۸۳ء میں الفیض کوچنگ سینٹر میں ہمارا داخلہ ہوا۔میں چوتھی کلاس میں تھا اور عثمان دوسری کلاس میں تھا۔ہم دونوں پہلے دن سکول گئے تو دونوں ہی گھبرائے ہوئے اور ڈرے ہوئے تھے۔اسی گھبراہٹ میں اپنے اپنے کلاس رومز میں جانے کی بجائے ہم دونوں ایک ہی کلاس میں بیٹھ گئے۔۔اتنے میں ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی ادھر سے اٹھو یہ میری جگہ ہے۔میں نے اور عثمان نے ایک دوسرے کو دیکھا اوراُٹھ کر روتے ہوئے گھر آگئے۔اور آکر امی سے کہا کہ بچوں نے ہمیں مار کر سکول سے نکال دیا ہے۔ماں کی ممتا جوش میں آئی اور انہوں نے میری کاپی لے کر آخری صفحہ پر شکایت نامہ لکھ کر پھر سکول بھیج دیا۔اس وقت وہاں میڈم طاہرہ ہوتی تھیں،جو بہت سخت ٹیچر تھیں۔لیکن انہوں نے پیار سے مجھے بلایا اور میری کاپی چیک کی تو آخری صفحے پرامی کی طرف سے شکایت درج تھی۔انھوں نے شکایت پڑھ کر مجھ سے پوچھا کہ کن بچوں نے مارا تھا؟ تو میں نے اس لڑکی کی طرف اشارا کردیا اور وہ لڑکی گھبرا گئی اور بولی میں نے تو صرف جگہ سے اٹھنے کو کہا تھا اور کچھ بھی نہیں۔
۱۹۹۹ء میں میری شادی تسنیم سے ہوئی۔یہ بات ابو پہلے لکھ چکے ہیںلیکن میں پھر بھی بیان کرتا ہوں۔جب رخصتی کا وقت ہوا تو دلہن،اس کے گھر والے اور سہیلیاں تو رو رہی تھیںجب ہماری نظر پڑی تو امی بھی جذباتی ہو کر رو رہی تھیں۔تسنیم نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی تھی اور شادی کے بعد دو سال ہسپتال میں سروس بھی کی پھر بچوں کی پیدائش کے بعد گھر کی ذمہ داری سنبھال لی۔
میرا بیٹا شہریار پیدا ہوا تورضوانہ کے بیٹوں مشہود اور مسرور کے بعد پہلا پوتا ہونے کے باعث اسے بہت زیادہ لاڈ پیار ملا۔ابو نے اپنی ادبی دنیا میں شہر یار کی پیدائش کی خبر دی تو ان کے بعض دوستوں نے تہنیتی اشعار بھی کہے تھے۔شہر یار کے بعد ماہ نور پیدا ہوئی تو خاندان کی پہلی لڑکی ہونے کے باعث اسے بھی بہت پیار ملا۔امی اس کے لیے خود کپڑے سی کر دیا کرتی تھیں۔
امی کی بیماری کے باعث تسنیم نے ہی ہسپتال اور ڈاکٹرز کی اپائٹمنٹس کی زیادہ تر ذمہ داری بخوبی نبھائی جو قریباََ امی کی وفات تک جاری رہیں۔اس کے علاوہ بھی کہیں آنا جانا ہوتا تو امی زیادہ تر تسنیم کے ساتھ ہی جاتی تھیں۔اس بہو کے ساتھ ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی بہوؤں سے اچھا تعلق نہیں تھا لیکن اس سے کچھ خاص تھا۔
پھر وہ دن آ گیا جب امی کی و فات ہوئی ۔ہم سب بہن بھائی کمزور دل کے ہیں۔لیکن عثمان اور ابو نے بہت ہمت سے کام لے کر ہم سب کو سنبھالا،اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزائے خیر دے۔آمین۔
ٹیپو اور طوبیٰ کے رشتے کو لے کر امی بہت خوش تھیں۔ان کی وفات کے بعد سادگی سے نکاح ہو گیاہے۔اب اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس رشتے کو ہمیشہ کامیاب رکھے تاکہ امی کی روح کو سکون ملتا رہے۔آمین۔
’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ اگرچہ ہم پانچوں بھائی بہنوں کی مشترکہ کاوش تھی،پھر اس کا بیشتر مواد خود ابو کا اپنا تحریر کردہ تھا،اس کے باوجود مجھے امی کی زندگی میں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ میں نے یہ کتاب مرتب کی اور امی کی زندگی میں ہی اسے شائع کرکے امی کی خدمت میں پیش کیا۔ادب سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘کے ذریعے مجھے ایسا کام کرنے کی توفیق ملی جسے ادبی دنیا میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ڈاکٹر انور سدید صاحب جیسے اہم نقاد نے تو یہاں تک لکھا کہ:
’’میں کہہ سکتا ہوں کہ’’ہماری امی‘‘اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔‘‘
’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘پر ادبی دنیا میں جس طرح تبصرے کیے گئے،مضامین لکھے اور تاثرات درج کیے گئے وہ سب کچھ اب ابو کی کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ میں یک جا کیا جا رہا ہے۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکے گا کہ اس کتاب کو ادبی دنیا میں کتنی دلچسپی،حیرانی اور خوشی کے ساتھ دیکھا گیا۔یہ سب کچھ نہایت غیر معمولی ہے۔
امی! آپ بظاہر اب ہم میں نہیں ہیں،لیکن ہم نے آپ کو ،آپ کی یادوں کو اپنے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے،روشن رکھا ہوا ہے۔یادوں کی یہ روشنی ہمارے دلوں کو روشن رکھے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔