جب سے میں نے ہوش سنبھالا ماں کو ہمیشہ شفیق اور محبت کرنے والا پایا۔بچپن میں مجھے یہ بیماری تھی کہ روتے روتے دورہ پڑتا تھا اور میں ایک سانس میں چلا جاتا تھا۔ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے۔مجھ سے ایک بہن رضوانہ اور ایک بھائی شعیب بڑے ہیں۔میرے بعد ہونے والا طارق مجھ سے ساڑھے چھ سال چھوٹا ہے۔اس لحاظ سے ساڑھے چھ سال کا عرصہ میں گھر کا سب سے چھوٹا بچہ رہا اور اسی حوالے سے امی کا پیار سب سے زیادہ مجھے ملتا رہا۔بیماری کی وجہ سے زیادہ توجہ بھی مجھے ملتی رہی۔چنانچہ ساڑھے چھ سال تک میں نے امی کی محبت سب سے زیادہ حاصل کر لی۔مجھے یاد ہے سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب سے پہلی روٹی مجھے ملتی تھی اور مجھے چینی والا پراٹھا بہت پسند تھا۔
۱۹ مئی ۱۹۸۲ء کا دن تھا۔صبح جاگنے پر میں نے دادی جان کو بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا دو آنکھوں والا ایک ڈینڈا آپ کے ساتھ آ کر سو گیا ہے۔اسکول سے واپس آیا تو دادی جان نے ایک بچہ گود میں اٹھایا ہوا تھا اور مجھے دیکھ کرمسکرا کر کہنے لگیں یہ تمہارے خواب والا دو آنکھوں والا ڈینڈا آ گیا ہے۔اس دن چھوٹے بھائی طارق کی پیدائش ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ہی میرا سب سے چھوٹا ہونے کا اقتدار جاتا رہا لیکن توجہ اور محبت پھر بھی باقی بھائی بہن جیسی ملتی رہی۔
امی کے ساتھ بچپن میں سب سے زیادہ سفر میں نے کیا۔گھر سے باہر جاتے ہوئے بھی عموماََ مجھے ساتھ لے جاتیں۔مجھے یاد ہے ۱۹۸۱ء میں امی مجھے کراچی لے کر گئی تھیں۔وہاں میرے دوروں کا علاج کرانا تھا۔وہاں علاج سے زیادہ میں نے سیریں کیں۔کلفٹن کے جھولے،کشتی کی سیر،مزارِ قائدِ اعظم وغیرہ۔امی کے ساتھ یہ ساری سیریں زندگی کے یادگار لمحات کی طرح تھیں۔
امی کی ایک بہت اہم خوبی یہ تھی کہ پانچ وقت کی نمازیں باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں۔کبھی کوئی مجبوری ہوتی تو ظہر،عصر، جمع کر لیتیں۔مغرب ،عشاء جمع کر لیتیں۔لیکن عام طور پر ساری نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھتیں۔یہ باقاعدگی سنگین بیماری کے ایام میں بھی قائم رکھنے کی کو شش کی۔دل کی آخری انجیو پلاسٹی ہوئی تھی اور امی سرجری کے بعدابھی آئی سی یو میں ہی تھیں۔ ایک وقت میں صرف دو افراد کو اندر جانے کی اجازت تھی۔باجی رضوانہ اور حفیظ بھائی اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اپنی انتہائی نازک حالت میں بھی بستر پر لیٹے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھ رہی ہیں۔
فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید لازماََ پڑھتیں۔رمضان کے مہینے میں فجر کے علاوہ عصر اور مغرب کے درمیان بھی قران مجید پڑھا کرتی تھیں۔جب تک سنگین بیماریاں زیادہ سنگین نہیں ہو گئیں تب تک رمضان کے روزے ہمیشہ رکھے۔یہاں اپنی بات یاد آ گئی۔رمضان کے مہینے میں بعض بچوں کو بار بار جگانا پڑتا تھا لیکن میرے بارے میں امی سب کے سامنے برملا کہتی تھیں کہ عثمان کو ہلکی سی آواز میں ’’شازی‘‘ کہتی ہوں اور وہ فوراََ جاگ جاتا ہے اور واش روم میں چلا جاتا ہے۔
رضوانہ باجی نے اپنے مضمون میں درست طور پر لکھا ہے کہ:
’’اس معاملہ میں ابو بھی امی کے ہمنوا تھے۔کسی نے ایک یا دو بار کوئی نیکی کی ابو نے اپنی یادوں میں اسے عمر بھر کی لگاتار نیکی بیان کر دیا۔‘‘
مجھے یقین ہے یا تو ابو کے ذہن میں یہ بات نہیںرہی ہو گی یا انہیں بھول گئی ہوگی کیونکہ اس کا ہلکا سا ذکر بھی مجھے کہیں نہیں ملا۔امی کی پچاسویں سالگرہ پر میں نے امی کو سونے کا ایک سیٹ تحفہ میں دیا تھا۔
یہ خدانخواستہ اپنی کوئی نیکی گنوانے والی بات نہیں۔اللہ نہ کرے کہ کبھی ماں باپ پر اپنی نیکی یا احسان جتانے کی پستی میں گروں۔یہ صرف امی سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر لکھا ہے۔مجھے یقین ہے کہ بھائی بہنوں میں سے بعض اس تحفہ کی تصدیق کر سکیں گے۔انہیں بخوبی یاد ہوگا۔
ایک اور بات ۔۔۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ مجھے ملزم کی طرح گھر کے افراد کے سامنے بیٹھنا پڑا۔بہت ساری تلخ باتیں سننا پڑیں۔لیکن میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ قصور کسی کا بھی رہا ہو میں نے کبھی بھی امی اور ابو کے سامنے نہ تو تیز زبان میں بات کی اور نہ ہی کبھی کوئی گستاخانہ روش اختیار کی۔اگر کہیں مجھے جواب دیتے وقت تلخ ہوجانے کا اندیشہ ہوتا تو میں جواب دینے کی بجائے خاموش رہتا۔ابو اس بات پر غصہ کرتے کہ جواب کیوں نہیں دے رہا۔اب کیا بتاتا کہ امی اور ابو کے سامنے ایسا سچ یا جھوٹ کیسے بولوں جس سے ان کی اہانت ہوجائے۔مجھے خوشی ہے کہ میں ساری زندگی اس گناہ سے محفوظ رہا ہوں۔
امی کی رقیق القلبی کی بہت سی باتیںبیان کی جا چکی ہیں۔ایک واقعہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔
ابو کے تایا جی،قریشی غلام حسین صاحب تھے جنہیں گھر کے سب چھوٹے بڑے باباجی کہتے تھے۔
خان پور والا گھر اصلاََ بابا جی کی ملکیت تھا۔دادا ابو کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے انہوں نے آدھا گھر
دادا ابو کے نام لکھ دیا۔پھر وہ گھر فروخت کیا گیا تو ساری کی ساری رقم نئے گھر کی تعمیر میں لگا دی گئی۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارا نیا گھر بابا جی کی نیکی کا ثمر تھا۔لیکن دادا ابو اور پھر دادی جان کی وفات کے بعد ۱۹۸۸ء میں ابو کے سارے بھائی بہن جمع تھے۔ابو نے بتایا کہ اس وقت میں بے روزگار ہوں۔ اپنا سات افراد کا کنبہ ہے اوپر سے دو چھوٹے بھائی اور باباجی بھی میرے پاس ہیں۔ مناسب سمجھیں تو دونوںبڑے چچا اکبر اور طاہران افراد کے سلسلہ میں کچھ ذمہ داری ادا کریں۔یہ کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن گھر میں عجیب سی فضا بن گئی۔آپ کسی کو ساتھ لے جائیں یا نہ لے جائیں لیکن کسی کی توہین تو نہیں کریں۔دونوں چچاؤں نے صاف صاف کہا کہ ہم بابا جی کو بالکل ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ہاں دونوں چھوٹے بھائی ہم لے جاتے ہیں۔ہمارے خاندان کے بڑے بزرگ اور محسن کے سامنے ایسا انداز دیکھ کر امی وہیں رونے لگ گئیں اور کہنے لگیں بابا جی ہمارے ساتھ ہی رہیں گے،کہیں اور نہیں جائیں گے۔آپ دونوں اپنے چھوٹے بھائیوں کو ہی سنبھال لیں،کافی ہے۔ایسی صورتِ حال میں وہ جو باباجی کی نیکی کا براہِ راست ثمر پانے والے تھے ان کی طرف سے دلآزاری کا رویہ دیکھ کر امی کا باقاعدہ رونے لگ جاناان کی شخصیت کی خوبصورتی کو نمایاں کرتا ہے۔
۲۶ مئی ۲۰۱۹ء۔۔۔۔امی کی فوتگی سے ایک دن پہلے ہم بہن بھائی کسی دعوت کے بغیر امی کے گھر جمع ہوتے گئے۔امی نے اپنے ہاتھ سے کھانے بنائے۔میری خوش قسمتی کہ آخری وقت میں بھی ماں کے ہاتھ کی پکائی ہوئی روٹیاں میرے حصے میں آئیں،جو شام کو انہوں نے افطاری کے وقت بنائی تھیں۔اگلے دن سوا چار بجے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ ابھی کچھ نیند کروں یا بعد میں۔۔۔کیونکہ جاب پر سوا چھ بجے جانا تھا۔اچانک بیل بجی،دروازہ کھولا تو ابو نہایت پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔بولے جلدی آ جاؤ۔۔۔میں نے پوچھا خیریت؟، بولے نہیں۔۔۔میرا دل دھک سا ہو گیا۔لگا ماں جی کو کچھ ہو گیا ہے۔ننگے پاؤں ہی ابو کے ساتھ ہو لیا۔پھر وہاں جا کر جو دیکھا اس کا حال ابو پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔
میں بھیگی پلکوںکے ساتھ خوش ہوں کہ امی کے آخری سفر کے وقت میں سب سے پہلے ان تک پہنچا اور انہیں سنبھالااور اللہ کے حوالے کیا۔فارسی مجھے بالکل نہیں آتی لیکن خود کو حاصل ہونے والی اس سعادت پر یہ شعر ضرور سمجھ میں آگیا ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ روزنامہ ’’اودھ نامہ‘‘ لکھنئو۔۲۵ جولائی ۲۰۱۹ء