ابھی 3 بجنے میں میں آدھا گھنٹہ تھا رمیشہ سوچ رہی تھی کال کرے یا نہیں
مگر امجد اسکو بھی پسند تھا ایک کشش تھی جو رمیشہ کو امجد کی طرف کھینچتی تھی
رمیشہ کے والد امین صاحب کا،اپنا کاروبار تھا،
اور صابرہ بیگم ہاؤس وائف تھیں
دل کے ہاتھوں مجبور رمیشہ نے کال کی 3 بج چکے تھے
دوسری ہی بیل پر فون پک کرلیا گیا
اسلام علیکم
وعلیکم اسلام
آپ امجد بات کر رہے ہیں ؟ رمیشہ نے پوچھا
جی میں امجد ہوں
تو بتائیں؟
کیا بات کرنی تھی آپ نے کیوں نمبر دیا،اپنا مجھے؟
آپ مجھے اچھی لگتی ہیں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں
دوستی…….
جی شادی سے پہلے دوستی ہی ہوتی ہے جب تک انسان ایک دوسرے کو سمجھ لے
اور اگر نا سمجھ سکے رمیشہ نے پوچھا
تب بھی میں شادی آپ سے ہی کرونگا
جواب ملا
امجد کے 3 بھائی اور ایک بہن تھی
2 بھائی اور بہن شادی شدہ تھے
امجد سب
سے چھوٹا تھا
کیا کرتے
کیا ہیں آپ ؟رمیشہ نے پوچھا
میں بی کام کر چکا ہوں اب ابو کے ساتھ آفس میں کام سیکھ رہا ہوں
ہمارا اپنا کاروبار ہے ہم بھائی اور ہمارے ابو ہم ساتھ ہی آفس جاتے ہیں
امجد نے جواب دیا
اچھا صبح کالج جاتے ہوئے میں نے آپ کو دیکھا ہے آپ کے ساتھ دو مرد اور ہوتے ہیں
جی ہم سب ایک ساتھ ہی آفس جاتے ہیں
اور واپس بھی ساتھ آتے ہیں
آپ کے بھائی اور بہن کے بچے ہیں؟
رمیشہ نے ایک اور سوال کیا
جی بڑے بھائی کا بیٹا ہے اور چھوٹے بھائی کی ایک بیٹی
اور سیسٹر کی کچھ ٹائم پہلے شادی کی ہے
شاید آپ نے کچھ ٹائم پہلے دیکھا ہو میرے گھر کے پاس آتے جاتے ہوئے ان دنوں
کافی رش تھا تب گھر کے باہر تنبو وغیرہ بھی لگے ہوئے تھے
رمیشہ کو یاد آیا کے آتے جاتے اس نے کافی مہینے پہلے امجد کے گھر کے باہر آمدو رفت دیکھی تھی مطلب ان کی بہن کی شادی تھی تب۔۔۔۔۔۔
رمیشہ کے آنے جانے کے راستے میں امجد کا گھر تھا اور امجد نے بھی رمیشہ کا گھر دیکھا ہوا تھا
ایسے رمیشہ کی بات امجد سے ہوتی گئی امجد کے سارے روٹین اسکو پتہ لگ گئے
کس وقت آفس جاتا ہے
کس وقت واپس آتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو سارا سامان پیک ہوگیا پہلے تمہاری پھوپھو کے گھر جائیں گے
وہاں سے شہلہ اور اسکی بچیوں کو لے کے پھر اسٹیشن جائیں گے تمہارے پاپا آنے والے ہیں تیار رہو تم دونوں
صابرہ بیگم دونوں بیٹیوں سے بولیں
امی ہم تیار ہیں
رمیشہ نے جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرین میں کافی ٹائم بعد بیٹھیں تھیں دونوں بہنیں امبر اور رمیشہ
ویسے گرمیوں کی چھٹیوں میں
جاتے تھے وہ لوگ مگر جب سے رمیشہ کا کالج شروع ہوا دو سال سے نہیں گئے تھے
شہلا بھابھی آپ کون سی برتھ پر لیٹیں گی
امبر نے پوچھا جو اس کے پھوپھو کی سب سے بڑی بہو تھیں اور بہت اچھی تھیں ان سے رمیشہ امبر کی خوب بنتی تھی
میں پیچ والی میں میرے ساتھ فاطمہ لیٹے گی کہں اوپر سے نیچے نہ گر جائے
مامی کے گھٹنوں کا مسلہ ہے وہ سب سے نیچے لیٹیں گی ورنہ میں لیٹ جاتی
شہلا بھابھی بولیں
بھابھی اقرا کو مجھے دی دیں یہ میرے ساتھ سو جائے گی
رمیشہ نے کہا
اقرا فاطمہ دو بیٹیاں تھیں شہلا کی دونوں ہی بہت پیاری اقرا دو سال کی اور فاطمہ 8 ماہ کی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد کے ساتھ رمیشہ کی دوستی کافی ہوگئی تھی وہ ویسے کم گو تھا صوبر پرسنیلٹی تھی اس کی
میری بہن کی بیٹی ہوئی ہے امجد نے رمیشہ کو میسج کر کے بتایا
بہت بہت مبارک ہو
وہ دونوں زیادہ میسج پر بات کرتے تھے
اکثر آتے جاتے رمیشہ کا سامنا امجد سے ہوجاتا تھا
اس نے امبر کو بھی بتایا،تھا کہ امجد سے میری دوستی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں ملنے کا کرو چلتے ہیں کہیں گھومنے
یہ مسیج پڑھ کے رمشہ پریشان ہوگئی
مگر ملنا تو بہت مشکل ہے کالج ہوتا ہے اور سیکنڈ ائیر کی تیاری بہت مشکل ہے
کوئی پلان بناؤ سوچو پھر بتانا امجد نے جواب دیا
امبر کے اسکول کا لاسٹ ائیر تھا اور اسکی کلاس کی پکنک اسکول والے کروارہے تھے
امبر نے صابرہ بیگم کو بولا،
پہلے تو وہ نا مانیں مگر بعد میں مان گئیں اس شرط پر کے رمیشہ کو ساتھ لے کے جاؤ یہ ساتھ ہوگی تو مجھے تسلی ہوگی
یہ بات رمیشہ نے امجد کو بتائی کہ میں امبر کے ساتھ اس کے اسکول کی پکنک پر جا،رہی ہوں
اس نے کہا لو ملنے کا مسلہ حل ہوگیا تم دونوں اسکول کے ساتھ نہیں جاؤ گی
ہم چلیں گے کہیں گھومنے اور شام کے ٹائم واپس
تم امبر سے بات کر کے دیکھو امجد نے رمیشہ سے کہا
مگر امبر نہیں مانے گی اسکو اپنی فرینڈز کے ساتھ انجوائے کرنا ہے جب ہی تو وہ جا رہی ہے اجازت لی ہے اتنی منتیں کی ہیں اس نے امی کی
رمیشہ امجد کو بتا رہی تھی امجد جانتا تھا اس کے رشتے کا رمیشہ کے گھر میں امبر کو پتہ ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...