امین خیال(گوجرانوالہ)
اِک چراغِ کُشتہ جلتا ہے کرم فرمائیے
اب بھی اکثر دِل تڑپتا ہے کرم فرمائیے
زندگی کی ناؤ کو ہے ناخداؤں کی تلاش
ایک بحرِ غم مچلتا ہے کرم فرمائیے
ہر نفس تیری ہی آہٹ کے چمک جاتے ہیں چاند
ہر قدم پر دِل دھڑکتا ہے کرم فرمائیے
آبلہ پُھوٹے کوئی دِل کا تو بُجھ جائے یہ آگ
زہر یادوں کا سُلگتا ہے کرم فرمائیے
دیکھئے ٹُوٹے نہ نگہِ نیم بازی کا فسُوں
میکدہ رنگت بدلتا ہے کرم فرمائیے
سومناتِ دِل میں بھیجیں پھر کسِی محمود کو
گُلشنِ ایماں اُجڑتا ہے کرم فرمائیے
پھر سرِ مِثرگاں ستارے ٹُوٹنے کو ہیں خیالؔ
آخرِ شب چاند ڈھلتا ہے کرم فرمائیے
**
امین خیال
قبا کے ساتھ سینہ چاک ہو جاتا تو کیا ہوتا
بیانِ غم تھا حسرت ناک ہو جاتا تو کیا ہوتا
کمالِ سادگی میں بھی قیامت اُس کا لہجہ ہے
غمِ جاناں ذرا چالاک ہو جاتا تو کیا ہوتا
حسیں پُھولوں کی نازک چلمنوں سے جھانکنے والو
کوئی کانٹا اگر بیباک ہو جاتا تو کیا ہوتا
زمانہ تو مری تَر دامنی سے چونک اُٹھا ہے
وہ دامن بھی اگر نمناک ہو جاتا تو کیا ہوتا
تعلق ایک مدت تک رہا ہے رنجِ دوراں سے
غمِ جاناں کا بھی ادراک ہو جاتا تو کیا ہوتا
خیالؔ اپنی تو پہلے بھی کہاں زندوں میں گنتی تھی
سرِ کُوئے محبت خاک ہو جاتا تو کیا ہوتا