امین خیال
(گوجرانوالہ)
تاروں کی ٹولی ہے
چندا سنگ اُن کی
کیا آنکھ مچولی ہے
﴿……﴾
روٹی نہ روزی ہے
ا ب بیکاری سے
ہر سُو خود سوزی ہے
﴿……﴾
آئی جو مری باری
شومئے قسمت کہ
میٹھا بھی ہُو اکھاری
﴿……﴾
اشجار جلاؤ نہ
یہ انسان نہیں
اِن کو تو گراؤ نہ
﴿……﴾
دُکھ باہم سہتے ہیں
اچھّے ہمسائے
سب مِل کر رہتے ہیں
﴿……﴾
دُکھ ہر دَم سہتے ہیں
ماں کی دُعاؤں سے
محروم جو رہتے ہیں
اِک بات تویہ طے ہے
ساری دُنیا میں
انسان اہم شے ہے
﴿……﴾
سوہنی نے جَل پایا
سسّی کے حصّے
جلتا ہُوا تَھل آیا
﴿……﴾
کب اِن سے جُدا ہُوں میں
لوگ ہیں سب میرے
سب لوگوں کا ہُوں میں
﴿……﴾
اِک فِکر حسیں ہُوں میں
نفرت ہے شَر سے
چاہت کا امیں ہُوں میں
﴿……﴾
بھُولے کو بھُلانا کیا
کر کر یاد اُسے
اب جی کو جلانا کیا
﴿……﴾
ایٹم ہیں دھماکے ہیں
تیسری دُنیا کے
ہر گھر میں فاقے ہیں
بجلی کا پلگ ہووے
اپنے جیسوں کی
نگری ہی الگ ہووے
﴿……﴾
کب ایسا ویسا ہے
اپنا دُکھ بھی تو
اپنے ہی جیسا ہے
﴿……﴾
تُجھ بِن جو بِیتے گی
گزرے گی لیکن
اچھّی نہ گُزرے گی
﴿……﴾
جاناں تُم آ جانا
نظروں کے رستے
اِس دِل میں سما جانا
﴿……﴾
کیوں اِتنا ستاتے ہو
روز و شب پیہم
یاد آئے جاتے ہو
﴿……﴾
حاصل اسلُوب کرو
کرنا ہے کُچھ تو
تالیف قلُوب کرو
﴿……﴾
کیا اِس میں مضائقہ ہے
دودھی بھُٹے کا
اپنا ہی ذائقہ ہے
﴿……﴾
کب چھوڑا کرتے تھے
گنّے کھیتوں سے
جب توڑا کرتے تھے
﴿……﴾
تاروں کی پِڑیاں ہیں
بیٹیاں ےُوں جیسے
آنگن میں چِڑیاں ہیں
﴿……﴾
آدم نہ فرشتہ ہے
رَب کے جیسا ہی
اِک باپ کا رِشتہ ہے
﴿……﴾
جنت کی چھاں کا ہے
بڑھ کر رِشتوں سے
اِک رِشتہ ماں کا ہے
﴿……﴾
کیکر کو پھُول پڑے
آج یہ آپ کہاں
اِس جانِب بھُول پڑے
﴿……﴾