امین بابر رحیم یار خان میں مقیم پنجابی اور اردو کے شاعر ہیں۔ان کے اردو ماہیوں کا ایک مجموعہ”سجدے محبت کے“چھپ چکا ہے۔اب ان کا دوسر امجموعہ”سپنوں کا میلہ“چھپنے جا رہا ہے۔کسی دوست کے ماہیوں کا مجموعہ چھپ رہا ہو تو مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوتی ہے۔میری اس ذاتی خوشی میں اس وقت اس لیے بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ یہ رحیم یار خان کے ایک ماہیا نگار کا مجموعہ ہے۔رحیم یار خاںمیرا آبائی شہر ہے۔میں نے اپنا ابتدائی بچپن اور تیسری جماعت تک تعلیم یہیں حاصل کی۔پھر ہم لوگ خان پور چلے گئے۔لیکن رحیم یار خان سے نکل جانے کے باوجود یہ شہر آج تک میرے دل سے نکل نہیں سکا۔بلکہ جتنا اس شہر سے جغرافیائی فاصلہ بڑھتا گیا یہ شہر دل میں اتنا ہی زیادہ اترتا گیا۔اس لحاظ سے میں اپنے لیے اسے شہرِ محبت کہہ سکتا ہوں۔ایسا شہر محبت جہاں میرے کتنے ہی معصوم سپنوں کا میلہ سجا ہوا ہے۔تاہم یہ ایسا شہرِ محبت ہے جس نے میرے پرکھوں کو بھی دکھ دئیے اور میرا محبت کا تعلق بھی دکھ میں پرویا ہوا ہے۔اس کے باوجود میں اس شہر سے اپنے پرانے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بھی خوشی محسوس کرتا ہوں۔
عمر کے اس حصے میں اور پھرجرمنی میں بیٹھ کر بھی میں اس شہر سے جو قلبی تعلق محسوس کرتا ہوں اس کے پیش نظر جب مجھے امین بابر نے اپنے ماہیوں کے دوسرے مجموعہ کے لیے کچھ لکھنے کو کہا تو مجھے دلی خوشی ہوئی۔امین بابر نے اپنے ماہیوں کے پہلے مجموعہ”سجدے محبت کے“ سے لے کر اس نئے مجموعہ تک اپنا ماہیا نگاری کا انداز برقرار رکھا ہے۔عقیدت سے لے کر پیار محبت تک جتنے موضوعات بھی پہلے مجموعہ میں شامل تھے،ان سب کو امین بابر نے قائم تو رکھا ہے لیکن ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے انداز میںآگے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔چھیڑ چھاڑ یا طنزو مزاح والے ماہیے بھی ان کے مزاج کا حصہ ہیں اور دوسرے مجموعہ میں بھی پہلے رنگ ڈھنگ کے ساتھ موجود ہیں۔
امین بابر کے موضوعات در اصل ان کے سپنے ہیں۔ایسے سپنے جو نہ صرف ان کے سپنے ہیں، بلکہ پاکستان کے عام انسانوں کے سپنے ہیں،تیسری دنیا کے کچلے ہوئے عوام کے سپنے ہیں اور جو حقیقتاً میرے جیسے ہر انسان کے سپنے بھی ہیں۔یہ کوئی بہت بڑے سپنے نہیں ہیں۔صرف باعزت جینے،محبت کے ساتھ جینے اور اپنے عقائد کے ساتھ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے سپنے ہیں۔جیو اور جینے دو کی بنیاد پر معاشرے کو قائم کرنے کے سپنے ہیں۔لیکن یہ امین بابر کا بھی المیہ ہے اور اس کی طرح مجبورپاکستانیوں،تیسری دنیا کے مقہور لوگوں، اور میرے جیسے لوگوں کا بھی مشترکہ المیہ ہے کہ اپنے معاشرہ میں اتنی سی آزادی کا خواب بھی پورا نہیں کر سکتے۔
آئیے امین بابر کے ماہیوں کے براہ راست مطالعہ سے ان کے سپنوں کی ایک جھلک دیکھتے ہیں:
سب خواب جھروکے ہیں گردش میں ستارا ہے
عشق کی دنیا میں ڈوبتی ناؤکو
دھوکے ہی دھوکے ہیں تنکے کا سہارا ہے
مومن ہے یا کافر ہے کیسی لاچاری ہے
زیست کی نگری میں کھانے کو مانگے
ہر سانس مسافر ہے یہ پیٹ بھکاری ہے
تقصیر نہیں کرتے تعبیر ہے خوابوں کی
دردِ دل کی ہم چلتے رہے بابر
تشہیر نہیں کرتے ہم اور سرابوں کی
تعبیر نہیں چاہی ہنسنا کبھی رونا ہے
خواب کی سولی پر قسمت کے آگے
تعزیر نہیں چاہی انسان کھلونا ہے
انبار ہے چاہت کا اک شخص اکیلا ہے
شہرِ دل میں تو آنکھ کی پتلی میں
بازار ہے چاہت کا سپنوں کا میلا ہے
ان چند مثالوں سے امین بابر کے سپنوں اور ان کی تعبیروں کے المیہ کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس مخصوص حوالے سے قطع نظر جس طرح انسانی جذبات کئی کیفیات سے گزرتے رہتے ہیں،ویسے ہی امین بابر کے ہاں بھی بدلتی ہوئی کیفیات سے لبریز ماہیے ملتے ہیں۔عید کے موقعہ پر محبوب یا ساجن کی موجودگی کا احساس اردو شاعری میں ایک روایتی موضوع کی طرح رچ بس گیا ہے۔امین بابر بھی اس کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں۔
پھر عید نہیں ہو گی کیا خوب سماں ہوگا
چاند سے مکھڑے کی عید کے موقعے پر
جب دید نہیں ہو گی جب تو بھی یہاں ہو گا
لیکن روایتی مضمون کے ساتھ انہیں اپنے سامنے زندگی میں افلاس کی تلخ حقیقت دکھائی دیتی ہے تو وہ بے اختیار معاشرتی سچائی کو بیان کر کے اپنے سپنوں کی پناہوں میں چلے جاتے ہیں۔
روئے گا،رُلائے گا یادوں کے ریلے میں
مفلس بے چارا عید گزاریں گے
کیا عید منائے گا سپنوں کے میلے میں
ماہیے کے مخصوص موضوعات میں امین بابر کی طبع رواں یوں ظاہر ہوتی ہے۔
دل کش سا پھندا ہے کچھ دل کے اشارے پر
پیار محبت بھی پیار کی ناؤاب
بیکار سا دھندا ہے اللہ کے سہارے پر
چاہت کو خفا کرکے سب شکوے بھلا دینا
عشق نے پائی بقا اپنی تو عادت ہے
عاشق کو فنا کرکے سب کو ہی دعا دینا
امین بابرنے ظریفانہ ماہیے بھی کہے ہیں۔ایسے ماہیوں میں سماجی مسائل پرخالصتاً عوامی انداز سامنے آتا ہے:
چینی ہے نہ آٹا ہے معصوم،بچارا دل
شادی رچانے میں تھر تھر کانپا ہے
گھاٹا ہی گھاٹا ہے جب بجلی کا دیکھا بل
لیکن تمام تر ہنسی مذاق اور طنزو ظرافت کے باوجود زندگی کے تلخ حقائق اورزندگی کا انجام بھی ان کے مدِ نظر رہتا ہے اور وہ برملا اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔
چاہت کے گھروندے ہیں جتنا بھی جیالا ہے
نفرت سے اس نے آخرکو انساں
جو پاؤں میں روندے ہیں دھرتی کا نوالا ہے
مجھے امید ہے کہ امین بابرکے ماہیوں کا یہ دوسرا مجموعہ”سپنوں کا میلہ“ اردو ماہیا نگاری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگا ۔ میں اس مجموعہ کی اشاعت پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتا ہوں!
(امین بابر کے ماہیوں کے مجموعہ” سپنوں کا میلہ“ کے لیے لکھا گیا)