جگ کُوڑ ٹھکانا ہے
چھوڑ کے گھر نقلی
گھر اصلی جانا ہے
ہر گام ترا سپنا
گِن گِن دانوں پر
کیا نام ترا جپنا
کیا موت سے ڈرتا ہے
پپلی کے پتے
کیا کھڑ کھڑ کرتا ہے
جگ پہ چھا جاتا ہے
وہ اسے پاتا ہے
جو خود کو مٹاتا ہے
رہ میں ڈر جاؤں گا
شام جو ہو گئی تو
گھر کیسے جاؤں گا
بیڑی کا مہانا ہے
اِس پار آئے ہیں
اُس پار بھی جانا ہے
گھر اس کا پایا نہیں
دیکھنا ہے اس کو
جو سامنے آیا نہیں
سینی* سے لو زردہ
حشر میں ہم سب کا
رکھے گا خدا پردا
سختی میں جکڑے گا
اک دن پوچھے گا
اک دن وہ پکڑے گا
انسان سمائے ہیں
زیرِ خاک کئی
طوفان سمائے ہیں
ہنستا کبھی روتا ہے
نفس امارہ بھی
پالا ہوا توتا ہے
بیکار عمل سارا
نفسِ امارہ کو
گر تونے نہیں مارا
* سینی پنجابی میں تھال کو کہتے ہیں
مصروفِ مسافت ہوں
دل کے اندر کی
نت کرتا سیاحت ہوں
ہے وقت کڑا سائیں
بیچ میں دریا ہے
اُس پار کھڑا سائیں
طوفان کا پالا ہوں
ہاتھ پکڑ میرا
میں ڈوبنے والا ہوں
سب دور شکوک کرو
اپنے پیاروں سے
کوئی نیک سلوک کرو
کوئی اور نہیں بھایا
بھول نماز گئی
جب سامنے تو آیا
وہ شاد نہیں ہوتا
عشق جسے مارے
آباد نہیں ہوتا