امین خیال پنجابی کے معروف شاعرہیں۔ پنجاب کی ثقافت سے بخوبی آگاہ ہیںاور خود بھی اس ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ پنجابی کے معروف اور کہنہ مشق شاعرکی حیثیت سے جہاں دیگر اصناف شعر سے واقف ہیں وہیں ماہیے کے بھی نبض شناس ہیں۔ انہوںنے اردو میں بھی شاعری کی ہے۔ یاد گار پنجابی شاعری کے علاوہ ان کی دو اہم ادبی خدمات ہیں۔ ایک یہ کہ انہوںنے دوہے لکھے اور اچھے اچھے ناقدین سے اس فن کالوہا منوایا، دوسرا یہ کہ انہوں نے پنجابی لوک گیت ماہیے کو اردو میں پیش کیا۔جب اردو ماہیے کے وزن کی درستی کی تحریک کا آغاز ہوا اس کے معاً بعدامین خیال نے کسی بحث مباحثہ میں پڑے بغیر درست وزن کے ماہیے پیش کر کے اپنا موقف واضح کردیا۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امین خیال ۱۹۹۳ءسے درست وزن کے ماہیے کہہ رہے ہیں اور یہ ماہیے مختلف رسائل میں تب سے ہی چھپ رہے ہیں جب کہ مجھ سے ان کا پہلا رابطہ ۱۹۹۶ءمیں ہوا ہے۔ اس حوالے سے ان کی اردو ماہیا نگاری بے حد اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ انہوںنے پنجابی شاعر ہونے کی حیثیت سے ، پنجابی ماہیے کے درست وزن کو سمجھتے ہوئے از خود اسی وزن میں ماہیے پیش کیے۔ سو وہ اس لحاظ سے پنجابی کے شاعروں میں پہلے شاعر ہیں جنہوںنے ماہیے کے اصل وزن اور مزاج کے مطابق اردو میں ماہیے کہے اور ماہیے کو وقار اور اعتبار عطا کیا۔ امین خیال کے ماہیے پنجابی روایت کے مطابق ہیں۔ان ماہیوں میں وہی رس اور نغمگی ہے جو پنجابی ماہیے کا طرہ امتیاز ہے۔
کچھ ملتا ہے مانگے سے آمست بنا ماہیا
ہاتھ پکڑ میرا آنکھ کے ساغر سے
میں اتروں تانگے سے کوئی نشہ پلا ماہیا
جلوے ہیں بہاروں کے رہتے ہو خیالوں میں
کچھ ہیں محبت کے کب دن فرقت کے
کچھ ان کے نظاروں کے بدلیں گے وصالوں میں
اس پار کوئی جائے آکاش پہ اُڑ جائیں
اس پر جاں واروں چاند پہ گھر لے لیں
جو یار کو لے آئے اور لوٹ کے نہ آئیں
ہے بجلی کا بل ماہیا کر مجھ سے وفا سائیں
ذات نہیں ملتی دکھ کا زمانہ ہے
مل جاتے ہیں دل ماہیا تو ساتھ نبھا سائیں
امین خیال کے ماہیوں میں جدائی اور انتظار کی کیفیتیں پنجاب کی ثقافت کے مختلف مظاہر کے ساتھ مل کر سامنے آتی ہیں۔محبوب دریائے چناب کے دوسری طرف رہتا ہے۔یہاں ذہن سوہنی ،مہینوال کے کرداروں کی طرف جاتا ہے۔محبوب شاعر کے خوابوں اور خیالوں پر چھایا ہوا ہے لیکن بار بار بلانے کے باوجود نہ صرف خود نہیں آتا بلکہ اپنی خیریت کی چٹھی بھی نہیں بھیجتا۔جدائی اور انتظار کی اس حالت میں پھاگ منانے کا وقت بھی گزرا جا رہا ہے۔
آنا ہے تو آجاؤ اب کچھ بھی نہیں بھاتا
حال جدائی کا تیری جدائی میں
سُن جاؤسنا جاؤ دل چین نہیں پاتا
کیکر کی چھاؤں ہے خوابوں میں نہ آیا کرو
پار جھناؤں سے جاگتی آنکھوں میں
اُس یار کا گاؤں ہے اب آکے سمایا کرو
کوئی چٹھی تری آتی رُت پھاگ منانے کی
دنیا میں جینے کی کب تک رہ دیکھوں
امید تو بندھ جاتی ساجن ترے آنے کی
امین خیال رئیس طبقے سے نہیں،عوام کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ غریب اور دُکھی عوام دکھوں سے آشنا ہی نہیں ہیں،خود بھی زندگی کے ایسے دکھوں سے گذرے ہیں۔پہلے تو وہ جبر کے سامنے خاموش ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
بھادوں کا مہینا ہے ہم گھات نہیں بدلے
حبس کے موسم میں چہرے بدلے ہیں
دَم سادھ کے جینا ہے حالات نہیں بدلے
پھر جیسے ان کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے۔وہ ظلم،جبر اور زیادتیوں پر خاموش رہنے کو جرم قرار دیتے ہیں۔
چپ چاپ سے دکھ سہنا وہ سکھ سے نہیں رہتا
جرم بڑا ہے یہ ظلم و ستم کو بھی
مظلوم بنے رہنا جو ظلم نہیں کہتا
امین خیال ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ان کے ہاں مایوس کن حالات میں بھی سچ کی فتح کی امید سلامت رہتی ہے۔ان کے ایسے ماہیوں کو اردو کی کسی روایت کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے انہیں امین کے پنجابی غزلوں کے مجموعہ ”سُولاں سِر سرداری“کے حوالے سے دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔سو ان کے احتجاجی اور انقلابی ماہیے ایک اہم پنجابی شاعر کے دل کی آواز ہیں۔ایسے ماہیوں سے اردو میں اسی انداز کی ماہیا نگاری کا جواز بن جاتا ہے،چاہے ایسی ماہیا نگاری دوسروں کے ہاں ترقی پسند روایت سے کیوں نہ آئی ہو۔امین خیال کے اس انداز کے چند ماہیے دیکھیں:
کچھ بانٹ نہ پاتے ہیں ہے چیل اسمانوں میں
چھوٹی مچھلیوں کو جبر کے ہوتے ہیں
گھڑیال ہی کھاتے ہیں چرچے ایوانوں میں
ہے درد کی اپنی لَے یہ کیسی حقیقت ہے
چاندنی راتوں پہ پھولوں پہ گلشن میں
سایوں کا تسلط ہے کانٹوں کی حکومت ہے
سچ زیر نہیں ہوتا مکھ روشن تاروں کے
دیر تو ہوتی ہے ہمت والے ہی
اندھیر نہیں ہوتا رُخ موڑیں گے دھاروں کے
امین خیال کے ماہیوں میں پنجابی ماہیے کی روایت کے اثرات بہت واضح ہیں۔ پنجابی ماہیے میںبعض اوقات پہلے مصرعہ کا باقی ماہیے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور بعض اوقات سرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،یا بہت ہی مبہم سا تعلق ہوتا ہے۔امین خیال کے ہاںتینوں مصرعوں کے بامعنی تعلق کی تو کئی مثالیں ہیں تاہم ایسے ماہیے بھی موجود ہیں جن میں نفسِ مضمون کے لحاظ سے پہلا مصرعہ باقی ماہیے سے الگ تھلگ دکھائی دیتا ہے۔
بازار میں چینی ہے کوئی ائر کنڈیشن ہے
یہ جگ فانی ہے جذبے نہیں بس میں
اور موت یقینی ہے حالات سے اَن بن ہے
امین خیال نے اردو ماہیے میں پنجابی الفاظ اور تلفظ کو بے تکلفی سے استعمال کیا ہے اور اس تجربے میں ان کے ماہیے مزید چمک اُٹھتے ہیں۔ائیر کنڈیشن، لیکھ، ڈھولا ، سائیاں،جھنا،مکھ،پانوںکا بنڈل،جیسے الفاظ اس کی چند مثالیں ہیں۔امین خیال کے چند ایسے ماہیے دیکھیں جن میں ان کی سوچ اور جذبے مل کر ماہیے کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں۔
کہساروں میں ہیں کھائیاں باغوں میں بہار آئی
جاں کی اماں پاؤں چپکے سے فطرت کے
کچھ عرض کروں سائیاں سب رنگ چرا لائی
کہہ دو غم خواروں کو رُت میں شادابی ہے
جینے نہیں دیتے خوشیوں کا موسم
کیوں پیار کے ماروں کو پھر بھی بے تابی ہے
بجلی کا پلگ ماہیا خود میں کھو جاتا ہوں
تو گر مندری ہے میں سے گزرتا ہوں
میں مُندری کا نگ ماہیا اورتم ہو جاتا ہوں
خوشی کی بات ہے کہ امین خیال کے ماہیوں میں دینی افکار و جذبات بھی آنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں حمد، نعت، منقبت کے مضامین والے ماہیوں کے ساتھ بعض دینی تعلیمات کو بھی انہوںنے ماہیے کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ان کے اس انداز کے ماہیوں کی ایک جھلک دیکھتے چلیں:
سب جگ کا تو پالک ہے
ہر شے پر قادر
ہر شے کا تو مالک ہے
طوفان کا پالا ہوں
ہاتھ پکڑمیرا
میں ڈوبنے والا ہوں
چاند آپ کا ہالا ہے
نام محمد ﷺ سے
گھر گھر میں اجالا ہے
نعمت ہیں جہانوں کی
پاک نبی ﷺ میرے
رحمت ہیں جہانوں کی
تاریکی سی طاری ہے
بیعت یزیدی ہی
اس دور میں جاری ہے
وحدت کے رازوں کا
کافرومسلم میں
ہے فرق نمازوں کا
امین خیال کے ایسے ماہیے ۔ اردو ماہیے کے شاندار مستقبل کے گوا ہ ہیں:
کیسا یہ چڑھاﺅہے
بحر ہے اشکوں کا
اور آنکھ کی ناﺅہے
سرکار!۔ ۔ نہیں ہوتا
ہرشخص محبت کا
کردار نہیں ہوتا
مٹ جائے گی بے تابی
پھر سے عطاکر دے
اس باغ کو شادابی
کرتو ہی دوا سائیں
مارہی ڈالے گی
دلبر کی جفا سائیں
O
O
بے کل کر دیتا ہے
عشق سیانوں کو
پاگل کردیتا ہے
یوں شہد کیا بس کو
پیار سکھایا ہے
میں نے اس بے حس کو
امین خیال جیسے بنیادی طور پر پنجابی کے معروف شاعر کا اردو ماہیے کو محبت کی نظر سے دیکھنا اور اردو میں خوبصورت ماہیے عطا کرنا، اردو ماہیے کی خوش نصیبی ہے۔ اردو ماہیا اپنی اس خوش نصیبی پر ناز کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭