“آپ نے دوائی لے لی یا پھر ہمیشہ کی طرح میری غیر موجودگی میں ڈنڈی ماری ۔”وہ اپنے ماں کے پاس آئی اور ان کا بخار چیک کرتے ہوئے پوچھنے لگی
“ہاں کھا لی تھی میں نے اب روز تھوڑی ماروں گی آج واقی طبیعت خراب ہوگئی تھی لیکن اب ٹھیک ہوں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔”امی اپنا ڈوپٹہ دُرست کرتے تکیہ کے اوپر اپنا سر رکھا
“تو ایک کال سے کیا جاتا آپ کا میں واپس بھی تو آسکتی تھی خدانخواستہ اگر کچھ ہوجاتا تو کیا کرتی میں ۔” وہ روہانسے انداز میں بولی
“اچھا اچھا بولا نا ٹھیک ہوں میں جاو کھانا کھا کر آو شاباش !صبح سے بھوکی دھکے کھاتی نوکری کی تلاش میں لگی رہی ۔۔۔”
“جو لاحاصل تھی آپ آرام کریں میں کھانا کر آتی ہوں !۔”
ہیر تلخی سے کہتے ہوئے مڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی اور حمدا اپنی بیٹی کے درد کو سمجھ سکتی تھی لیکن وہ کیا کرتی مجبور تھی غربت مجبوری کا دوسرا نام ہے اور غربت نے انھیں بے بس کردیا انھیں اپنی بمیاری کی اس لیے فکر تھی اگر انھیں کچھ ہوجائے تو ان کی بیٹی تن تنہا کیسے رہے گی اور دوسرا اس کی شادی بھی کرنی تھی جس کے لیے بہت سارا جہیز اور پیسہ درکار ہوتا ہے اور اسی مجبوری کے زنجیر میں بندھی وہ خود بھی جھیل رہی تھی اور ان کی بیٹی بھی جو اتنے لاڈوں میں پلی تھی ایک تو تھی بھی اکلوتی اور دوسرا شادی کے اتنے سالوں بعد منتوں اور مرادوں کر کے ان کے آنگن میں پھول بن کر آئی تھی بیشک چھوٹے طبقعے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اسے پھول بنا کر رکھا اسے پڑھایا اس کی ساری خواہشیں پوری کی لیکن جب سے علی کی ڈیتھ ہوئی وہی سے ان کا بُرا وقت شروع ہوگیا سگے رشتوں نے منہ پھیر لیا
کے کہی ان کی زمہ داری نہ اُٹھانی پڑ جائے ۔
“ابھی تک جاگی ہوئی ہے آپ میں نے کھانا بھی کھا لیا اور نماز بھی پڑھ آئی کیا ہوا زیادہ طبیعت خراب ہے ۔”
ہیر کی آواز نے انھیں سوچوں کے دائرے سے نکالا اور انہوں نے مڑ کر دیکھا ڈوپٹہ اُتارتی بستر میں گھستی ان کی پیاری سی ہیر زیادہ خوبصورت تو نہ تھی لیکن ان کے لیے سب سے خوبصورت پری تھی عام سے نقوش پہ صاف رنگت بھلی لگتی تھی کندھے تک آتے بال جن کو پونی میں مقید کیے مناسب جسامت پہ کے ساتھ اچھے لباس میں وہ اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی لڑکی لگتی
“سو جائے اور پھر جب آپ کی فجر پہ آنکھ نہ کھلی تو مجھے ہی سُنائے گی ۔”
ہیر نے ان کے ماتھے پہ بوسہ دیا وہ مسکرا اُٹھی اور ڈھیروں دعائیں پڑھ کر ہیر کے چہرے پہ پھونکی جو اب آنکھیں موند چکی تھی ۔
※※※※※※※※※※※
“یار لوگوں کو تم نے اپنا دیوانہ بنادیا ہے ۔”
حرا کے کہنے پر جوس کے سپ لیتی ہیر چونکی
“وہ کیسے ؟”
لہجے میں بے پناہ سنیجدگی لیے وہ مزے سے سپ لیتی حرا کو دیکھنے لگی ۔
“یار کیا بجاتی ہو ،لوگ تمھیں پروفیشنل پیانسٹ سمجھ رہے تھے لیکن اگر انھیں پتا چلے تم نے چار مہینے کی کلاس لیکر وہ بھی اپنے شوق کی خاطر سیکھا ہے تو مزید تمھارے اسیر ہوجائے ۔”
“اب اتنا بھی اچھا نہیں بجاتی بس مجھے شوق ہے ایسے ٹیپ کرنا جس سے کوئی دھن نکلے یاد ہے تمھیں کلاس میں ایسے ہی ڈیسک کو انگلیوں سے بجانا شروع کردیتی تھی بعد میں میم سے کتنی ڈانٹ پڑتی تھی سب ہنستے تھے کے میں پاگل ہوں ۔”
وہ بولتے ہوئے اداسی سے مسکرائی حرا اس کی بچپن کی سہیلی تھی سکول کالج ایک ساتھ پڑھے تھے لیکن بعد میں حرا کے ابو کا ٹرانسفر لندن ہوگیا تو وہ اپنے فیملی سمیت وہاں شفٹ ہوگئے لیکن وہ دونوں رابطے میں رہے اور اسی طرح ان کی دوستی وقت کے ساتھ اور دوری کے باوجود مضبوط رہی ابھی چند دن پہلے حرا اپنی کزن کی شادی کے لیے پاکستان آئی تھی۔ جانے سے پہلے اس نے ہیر سے ملنے کو کہا تھا دونوں ملے اور حرا نے اپنے کزن کی برائیڈل شاور پہ بلوایا ہیر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن امی نے اسے کہا کے وہ جائے اور لوگوں سے ملے ملائے تاکہ اس کی شخصیت میں نکھار آئے ،نہ چاہتیے ہوئے بھی ہیر چلی گئی اور وہاں ان کی کپل ڈانس کے لیے پیانسٹ کو بلوایا تھا جو نہ آسکا تو حرا کو یاد آیا کے ہیر کتنا اچھا پیناوں بجاتی ہے اس نے ہیر سے اصرار کیا ہیر نہ مانی بلکہ وہ تو بھوکلا اُٹھی اس طرح حرا کی ساری کزنز نے مل کر اسے گھسیٹا اور اس کو نہ کرنے کا موقع نہ دیا ہیر تو باقئدہ گھبڑا گئی جب اتنے بڑے پیناوں کے قریب آئی ہاں یہ ضرور تھا اس کا خواب تھا بڑا سا سٹیج ہو ،بڑی سے آوڈینس جس میں ہر قسم کے لوگ ہوں اور وہ اپنی دُھن سے لوگوں کو اپنے سحر میں جکھڑ لے لیکن خواب تو خواب ہوتا اس میں تو کچھ بھی سوچا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہاں صرف چند لوگوں کے درمیان پیانو بجانا سوچتے ہی اس کے ہاتھ پیر کانپ گئے تھے ۔لیکن بہرحال اس نے ہمت باندھی اور بجانا شروع کردیا اور واقی اس نے اپنے دُھن سے لوگوں کے دلوں کا چھو لیا آخر میں اس نے سب سے ستائیش اور تالیاں وصول کی ،اس کے لیے سب کچھ نیا تھا ،بے یقینی تھی لیکن آخر میں اسے خوشی ہوئی تھی گھر آکر اس نے امی کو ساری بات بتائی اور امی اس کی اتنی دن کی اداسی کی بات اس کا کھلا ہوا چہرہ دیکھ کر خوش ہوگئی۔
“یار اپنی کزن سے بات کی کیا ؟ دیکھو امی کی طبیعت دن دن با دن بگڑتی جارہی ہے مجھے وہ بتاتی نہیں ہے لیکن میں جانتی ہوں نا پلیز یار ہر جگہ اپلائی کیا ہے لیکن کمپنی والوں نے گویا قسم کھا لی ہے کے نوکری نہیں دینی ہم مڈل کلاس والوں کو۔”
اس کے لہجے میں تلخی تھی اور حرا اس کا درد سمجھ سکتی تھی
“اچھا پریشان نہ ہوں انشااللّٰلہ ،اللّٰلہ سب بہتر کریں گا ۔”
اچانک حرا کا فون بجا اس نے دیکھا اور مسکرا کر فون اُٹھایا
“جی زی بھائی اسلام و علیکم ! کیسے ہے آپ ؟”
ہیر نے اسے فون پہ مصروف پایا تو اِدھر اُدھر دیکھنی لگی
“اچھا ! زینی نے بتایا آپ کو ،اس دن بھی کہہ رہی تھی میں پاپا کو بتاوں گی بڑی تیز ہے چلو ٹھیک ہے میں اس سے بات کر کے آپ کو بتاتی ہوں اوکے زی بھائی اللّٰلہ حافظ ،سوری یار یہ عدیل بھائی کے دوست تھے ۔”
“اچھا !”
وہ اب بل دینے کے لیے پیسے نکال رہی تھی جب حرا نے روکا
“خبرادر جو جیب سے ایک پیسہ بھی نکالا تم ابھی پیسے کا رونا رورہی تھی اوپر سے خود بل ادا کرنے چلی ہو ۔”
حرا تیزی سے بولی تو ہیر مسکرا پڑی
“تو میری مہمان ہوں پاکستان سے آئی ہوں اوپر سے تمھاری ہی پیسے لیکر کر جوس پیؤ تو زیادتی نہیں ہوگی ۔”
“چُپ کرو زیادتی کی بچی جب تم لندن آو گئ وہاں تم سارے کھانے کا بل دیں دینا کھانے کا کیا ، بلکہ ڈھیر ساری شاپنگ کرواوں گی تم سے لیکن ابھی نہیں ابھی تو خوشخبری سنو !”
حرا نے پہلے اس سے والٹ چھین کر ڈپٹ کر کہا
پھر بیگ اسے واپس کر کے آخر میں مسکراتے ہوئے بولے
“کون سی خوشخبری ؟۔”
“وہ پارٹی میں یاد نہیں ہے زینب عباس چھوٹی سے بھورے بالوں والی بچی ۔”
“ہاں وہ پیاری سی جو مجھے آپی آپی کر کے پیچھے ہی پڑ گئی بہت پیاری ہے ۔”
ہیر کو وہ بھورے بال اور ہیزل آنکھوں والی زینب بہت کیوٹ لگی تھی ۔
“وہ تمھارے سکلز کی دیوانی ہوگئی اور اپنے پاپا کو بتادیا کے اس نے بھی پیانو سیکھنا ہے اور زی بھائی ٹہرے اپنی بیٹی کی ہر بات ماننے والے اس لیے تمھیں اپاونیٹ کیا ہے نوکری کے لیے تنخواہ پچاس ہزار ۔”
ہیر یہ بات سُن کر اچھل پڑئ
“نوکری !پپپ پچاس ہزار ! ”
وہ تو کنگ حرا کو دیکھ رہی تھی
“جی وہ بھی صرف مہینے کے اور زی بھائی نے کہا وہ فورن کل میرے گھر پہ موجود ہو آخر ان کی بیٹی کی خواہش پوری کرنے میں دیر نہ کیے جائے دیکھا ہیر اللّٰلہ نے تمھارا مسئلہ فورن حل کردیا اوئے خوامخواہ شکوہ کرنے لگ جاتی ہو ۔”
حرا نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
“لیکن ایک دم تو میں نہیں جاسکتی اور پیانو اتنا بھی نہیں اچھا بجاتی ۔”
وہ پریشانی ہوگئی پتا نہیں وہ ایسی تھی کچھ ملنے پر بھی پریشان ہوتی تھی اور نہ ملنے پر بھی
“او ہو ملنے میں کیا حرج ہے ایک دفعہ گھر وغیرہ دیکھ لو بات چیت کر کے پتا چل جائے گا کیسا ماحول ہے اگر کمفرٹیبل نہ ہوئی تو کوئی بات نہیں لیکن ہیر اس سے اچھا موقع تمھیں کہی نہیں ملے گا اور آنٹی کے بارے میں ضرور سوچنا ۔”
ہیر اب خاموش ہوگئی سوچ کی لکیر اس کے چہرے پہ آئی
“اچھا چلوں کپڑے وغیرہ دیکھتے ہیں میں نے ابھی تک ولیمے کا جوڑا نہیں لیا ۔”
حرا اُٹھ پڑی تو وہ بھی کھڑی ہوگئی
************
ٹیکسی ایک بڑے سے ولا پہ جاکر رُکی ،وہ کرایہ دیں کر اُتری آج اسلام آباد میں گرمی کی کوئی انتہا نہیں تھی گرمی کی شدت سے اس کا چہرہ پسینے سے بھر گیا اور تمتماہٹ زیادہ چہرہ پہ ڈوپٹے کو تھپک کر پیسنہ صاف کرنے لگی اور گیٹ کی طرف بڑھی جہاں گارڈ بیٹھا اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا جس سے وہ مزید گھبڑا گئی لیکن ہمت کرتے ہوئے بولی
“ام اسلام و علیکم میں ہیر علی مجھے غازی صاحب نے بلوایا تھا انٹرویو کے لیے ۔”
گارڈ کے اعصاب تھوڑے سے ڈھیلے پڑے اور اُٹھ کر انٹرکام اُٹھایا اور بٹن دبایا
“سر کوئی ہیر نامی لڑکی آئی کہہ رہی ہے آپ نے بلوایا ہے اچھا ۔”
گارڈ انٹرکام بند کیا اور اس آنے کی اجازت دیں وہ اند آئی گھر جتنا باہر سے شاندار تھا اندر سے اتنا ہی خوبصورت اٹالین ڈِیزاین کردہ گھر ہیر کو بہت اچھا لگا تھا وہ چلتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی اچانک اسے کسی کی آواز آئی
“ارے آپی آپ یہاں !”
زینی بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی وہ اس وقت گرین پھول دار والی فراک میں ملبوس اس جہان کی ہی شہزادی لگ رہی تھی ۔
“کیسے ہو مجھے آپ کے پاپا نے بلوایا تھا ۔”
“اچھا پاپا نے اس کا مطلب ہے پاپا نے میری بات سُن لی آپ مجھے پیانو سکھائے گی ۔”
وہ خوش سے چہکتے ہوئے ہیر سے لپٹ گئی ہیر نے ہولے سے ہنستے ہوئے زینب کے بال چھوئے
“تو زینی یہ ہے آپ کی نیو ٹیچر ۔”
مردانہ بھاری آواز سُنتے ہی ہیر نے سر اُٹھایا تو اس کی مسکراہٹ ایک دم غائب ہوگئی جبکہ آنکھیں پتھرا گئی اور چہرہ اتنا تیزی سے سفید ہوا اور گرمی کے باوجود اس کا جسم ٹھنڈا ہوگیا اور جب لب ہلے تو بالکل آہستہ سے
“زیرو !”
جبکہ غازی بھی ہیر کو دیکھ کر اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا تھا
※※※※※※※※※※※
پانچ سال پہلے
وہ کالج کا آخری پیپر دیں کر باہر آئی تھی اور اپنے بابا کا انتظار کررہی تھی جو ابھی تک نہیں آئے تھے گرمی سے اس کا بُرا حال ہورہا تھا یہ سب آخری پیپر والے دن ہی ہونا تھا آج اتفاق سے وین والے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لحاظہ سب نے اپنی سواری کا خود بندوبست کرنا تھا اس نے بابا کو کہا تھا آج بینک سے جلدی آجائے اور اسے ٹھیک دو بجے پک کر لینے لیکن ابھی تک بابا کا کچھ آتا پتا نہیں تھا ۔
اچانک کالی آسٹن مارٹن اس کے سامنے آئی وہ ایک دم پیچھے ہوئی کار سے کوئی شخص تیزی سے نکلا وہ جو کوئی بھی تھا بہت ہی خوبصورت تھا وہ اس پہ غور کرتی وہ شخص سیدھا بھاگتا ہوا کیمپس کے گارڈ کے پاس گیا
“جی ہیر علی کو بلوا دیں ۔”
اس کی بات جب ہیر نے سُنی تو جھٹکے سے مڑ کر اسے دیکھنے لگی وائٹ شرٹ اور بلیک پنٹ میں وہ ہری آنکھوں والا شخص شاہد اس کا نام لیے رہا تھا
“وہ سامنے ہی تو کھڑی ہے آپ کون ہو ؟”
اب گارڈ والا مشکوک ہوا غازی نے مڑ کر دیکھا اور بروان یونی فورم میں ملبوس لڑکی کو دیکھا تو بولا
“تھینک یو میری کزن ہے ان کے فادر کا اسکیڈنٹ ہوگیا ۔”
ہیر کو سمجھ نہیں آئی اس نے کیا کہا ہے وہ وہی سٹل کھڑی رہی یہاں تک کے غازی اس کے پاس آگیا
“آپ علی صاحب کی بیٹی ہے نا ہیر علی !”
وہ جلدی سے بولا
ہیر کا دل گھبڑا اُٹھا میکانی انداز میں اس نے سر اثبات میں ہلایا
“تھینک گاڈ آئے چلے آپ کے پاپا کا اکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ ہسپتال میں آیڈمٹ ہیں ۔”
ہیر کے ہاتھ سے موبائل گرا اور اس نے تیزی سے منہ پہ ہاتھ رکھا آنسو اس کی آنکھوں سے جما ہونے لگا
“کک کیسے ۔”
وہ بامشکل ہی بھرائی آواز میں بول پائی
“آپ کار میں چلے میں آپ کو بتاتا ہوں ۔”
وہ تیزی سے بولتے ہوئے کار کی طرف بڑھا وہ بھی تیزی سے اپنا موبائل اُٹھاتی کار کی طرف بڑھی
************
“امیروں کے بارے میں میری رائے بہت خراب تھی لیکن جب سے تم ملے ہو بیٹا امیروں کا نقشہ میرا زہن سے بدل گیا ہے ۔”
علی صاحب ہاسپیٹل بیڈ پہ لیٹے سر پہ پٹی لگی بے انتہا مشکور نظروں سے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے جنہوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ہیر کو لینے کے لیے وہ جیسے ہی نکلے تھے تو راستے میں کسی کار سے ٹکر لگنے سے ان کا کی بائیک الُٹ گئی اور وہ دور جاکر گری نفسا نفسی کا دور ہے کس نے آنا تھا سب بس کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے جب اچانک کوئی تیزی سے اس طرف آیا اور سب کی بے بسی کو قہر زدہ نظروں سے دیکھتا ہوا وہ انھیں اُٹھا کر سیدھا ہوسپیٹل لیکر گیا اور وہ بے ہوشی کی حالت میں اپنی بیٹی کا زکر کررہے تھے وہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن چُپ رہا بعد میں اس کے گھر اطلاع کی اور ہوسپیٹل چونکہ علی صاحب کے گھر کے قریب تھا تو ان کی بیگم آگئی پھر انہوں نے بتایا ان کی بیٹی کو پیپر ختم ہوگیا ہوگا اور وہ اپنے بابا کا انتظار کررہی ہوگی غازی نے انھیں تسلی دیں اور آڈریس اور نام جان کر ہیر کو لینے چل پڑا راستے میں ہیر کو اس نے ساری تفصیل دیں لیکن ہیر رونے میں مصروف تھی اسے پھر چُپ ہونا پڑا پھر بولا
“آپ پریشان نہ ہوئے انکل ٹھیک ہوجائے گئے زیادہ چوٹ نہیں لگی ۔”
وہ ڈرائیو کرتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
“یہ اب میری وجہ سے ہوا ہے نہ میں بابا کو کہتی مجھے لینے آتے اور وہ بھی جلدی تو وہ اس وقت ہوسپیٹل میں نہ موجود ہوتے ۔”
وہ کہتے ہوئے مزید پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی
“دیکھیے ایسے نہیں کہتے آپ کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا یہ تو قسمت میں لکھا تھا اور لکھی کو کون ٹال سکتا ہے آپ روئے تو نہیں ۔”
لیکن وہ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بچوں کی طرح ہچکی لیتے ہوئے رورہی تھی
اور پھر وہ اسے دیکھنے لگا تو ایک منٹ کے لیے کھو گیا وہ بہت معصوم تھی بہت ہی زیادہ اتنی معصومیت کی کوئی حد نہیں تھی اوپر سے رونا اور کمال کر گیا اور غازی الیاس کو پتا نہیں چلا وہ ہیر علی کا اسیر ہوگیا تھا اور تب سے اس نے فیصلہ کرلیا تھا کے وہ چھوٹی سی معصوم سی ہیر کو اپنا ہم سفر بنائے گا ۔
*************
“کیسی ہو ہیر ۔”
غازی اس کے پاس آیا تو ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
ہیر کے وجود میں جنبش ہوئی اور وہ نیچے اس بچی کو دیکھنے لگی جو اس سے ہٹ کر غازی کے پاس آگئی اور غازی نے اسے اُٹھا لیا تو زینی نے اس گال پہ پیار کیا
“آئی لو یو پاپا یور دی بیسٹ آپ نے میری بات مانی ۔”
اب ہیر کو لگا کسی نے بھاری وزنی چیز اس کے وجود پہ پھینکی ہو ایک منٹ کے لیے اس لگا وہ ابھی چکڑا کر گِر جائے گی ، وہ پانچ سال انتظار میں بیٹھی رہی ایک دن اس کا مرزا لینے آئے گا وہ بھی گھوڑے لاکے لیکن اتنظار لاحاصل ہی رہا سب کہتے تھے لیکن وہ آندھی بنی اس کے انتظار میں ہی رہی کے وہ آئے گا اور لیے جائے گا ۔آنکھیں سُرخ ہونے لگی دل کی سسکی لبوں پہ آنے کو بیتاب تھی جسے ہیر نے سختی سے دبایا
“اندر چلے ہیر آپ کا روم دکھاتے ہیں جس پہ آپ میری بیٹی کو پیانو سکھائے گی کیوں زینی ۔”
غازی کی آواز اس کی کانوں میں آئی تو اس نے ہوش سنبھال کر سر اُٹھایا تو غازی نے زینی کو پکڑا ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا ،ایک منٹ کے لیے دل کیا وہ یہاں سے بھاگ جائے پھر اچانک اپنی بوڑھی ماں کا عکس سامنے نظر آیا جس کو خبر دیتے ہوئے ان کا معصوم چہرہ کھلکھلا اُٹھا اور آنکھوں میں روشنیوں کے دیے جلنے لگے تھے وہ ان دیوں کو کیسے بجھتا ہوا دیکھ سکتی تھی ۔ اس لیں دل کو سختی سے ڈپٹ کر وہ اس کے ساتھ چل پڑی ۔
بڑے سے سیٹنگ ایڑیا میں وہ آئی تو وہ اب زینی کو اُتار چکا تھا
“پہلے پیانو دیکھے گی یا کچھ باتیں ہوجائے ۔”
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو اس کو دیکھ نہیں رہی تھی
“میرے خیال ہے مسڑ غازی میں جس کام کے لیے آئی ہوں مجھے وہی دکھایا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔”
لہجے میں زمانے بھر کی کڑواہٹ لاکر وہ غازی سے مخاطب ہوئی اور غازی ایک منٹ کے لیے چُپ ہوکر اسے دیکھنے لگا جو کالی سادہ شلوار قمیض میں بادامی چادر اپنے گرد لپیٹے ویسے ہی معصوم اور پیاری لگ رہی تھی جو اسے پانج سال پہلے لگی تھی ۔
“ائے ۔”وہ چلتے چلتے سویمنگ پول سے گزر کے سامنے شیشے کے دروازے کی طرف بڑھے جہاں بہت بڑا کالا شیشے کی طرح چمکتا ہوا پیانو پڑا ہوا تھا اس چھوٹے سے لیکن قدرے خوبصورت کمرے میں پیانو کے ساتھ ایک چھوٹا سے بیج رنگ کا صوفہ سمیت ایک خوبصورت وڈن ٹیبل جس پہ چھوٹے چھوٹے ڈیکوریشن پیسس پڑے ہوہے تھے اور باہر کے ہی لگ رہے تھے ہیر کی نظر اچانک پھر پینٹنگ پہ پڑی جو صاف بیج کلر کی دیواروں میں لگی ہوئی تھی اور اس کو دیکھ کر ہیر ہل ہی نہ سکی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...