دیہات میں جائیں گے
ساگ پکائیں گے
سب مل کر کھائیں گے
گُن تیرے گاؤں گا
اے دیہات مِرے
میں شہر نہ جاؤں گا
مصری کے کوزے ہیں
گکھڑ منڈی کے
میٹھے خربوزے ہیں
مصروف دیہاتی ہے
عورت مَردوں کا
خود ہاتھ بٹاتی ہے
لاہور کو پھر دیکھوں
وقت ملے تجھ سے
میں اور کو پھر دیکھوں
ہم شہر میں آئے ہیں
کتنے گاؤں مِرے
شہروں نے کھائے ہیں
اس کوچہ گردی میں
کیا کیا دیکھا ہے
اس شہر نوردی میں
پھولوں کی ڈالیاں ہیں
کیسی نخریلی
یہ پنڈی والیاں ہیں
پانوں میں الاچی ہے
ظلم کے طوفاں میں
پھر آج کراچی ہے
جاپان سے تار آیا
جان کے خیریت
دل کو ہے قرار آیا
یہ گجرانوالا ہے
شہرِ محبت کا
ہر شخص نرالا ہے
کب خالی جاتی ہے
حرص کی چنگاری
شہروں کو جلاتی ہے
کیا گیت سنایا ہے
چڑیاں کہتی ہیں
اب دن چڑھ آیا ہے
کب غم کی سحر ہو گی
کب دل ٹھہرے گا
کب رات بسر ہو گی
کب لَوٹ کے آتا ہے
دوسری دنیا میں
جو کوئی بھی جاتا ہے
یہ بازی ہرنا ہے
آخر انساں کو
اک دن تو مَرنا ہے
انسان تو فانی ہے
موت کا ڈر کیسا
اک دن تو آنی ہے
کیا بھید چھپایا ہے
جگ میں تو اس کو
کوئی سمجھ نہ پایا ہے
کارے مردودوں کے
پاکستان رہا
بس میں نمرودوں کے
رہبر کہلاتے ہیں
کھاتے ہمارا ہیں
گُن غیر کے گاتے ہیں
ٹھا ،ٹھاہ ، تڑتڑ،ٹھائیں
قتل،اغوا،ڈاکہ
ہوگا کب تک سائیں!
جادو ہے یا ٹونا ہے
اک اک گھر یاں پہ
دوزخ کا نمونا ہے
رستہ،نہ منزل ہے
گرد اور دھوئیں میں
دَم لینا مشکل ہے
جینا بھی حرام ہوا
قتل انسانوں کا
مِرے دیس میں عام ہوا
سَنگل تو نہیں ٹوٹے
گوروں سے چھوٹے
کالوں سے نہیں چھوٹے
ایسے تو اصول نہ تھے
بھوت پریت تو تھے
پر بھوت سکول نہ تھے
لوٹے ہی لوٹے ہیں
لیڈر سب اپنے
اندر سے کھوٹے ہیں
اک ٹیڈی پیسہ ہے
پاک ریاست کا
یہ راج بھی کیسا ہے
قدروں کی تباہی نے
ملک اُجاڑا ہے
اس نوکر شاہی نے
کچھ تو ڈھنگ سے کہیے
دور ہے جمہوری
اب تو کچھ سچ لکھیے
ساون کی پھہاریں ہوں
پاک وطن میں بھی
ہر سمت بہاریں ہوں
اک چاند،اک تارا ہے
پاکستان مجھے
جند جان سے پیارا ہے
چشمے کہساروں کے
دیس مِرے میں اب
چرچے ہیں بہاروں کے
چترال کو چلتے ہیں
سنگ پہاڑوں کے
واں رنگ بدلتے ہیں
کیا بادِ بہاری ہے
سبز پری جیسی
دھرتی یہ ہماری ہے
اے دیس کے رکھوالو
ریگستانوں کو
گلزار بنا ڈالو