معروف دانشورہ، محققہ، ناقدہ ، مدیرہ، ادیبہ، شاعرہ ۔عذرا اصغر (لاہور)
حرف حرف کہانی کے تخلیق کار امین جالندھری کو اس کتابی مجموعے کے ملنے سے پہلے میں نہیں پڑھ سکی۔ جانے یہ میری کوتاہی یا کم علمی یا مصنف کی پوشیدگی۔ میں نہیں جانتی وہ کب سے ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ بہت سے معتبر ادباء و شعراء اور دانشوروں کی آرا جو اس مجموعے کی زینت بنی پھر بھی یہ عقدہ حل نہیں ہو سکا البتہ یہ ضرورمعلوم ہوا کہ موصوف پیشے کے اعتبار سے شعبہ قانون، یعنی وکالت سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کا تجربہ وسیع اور مطالعہ گر بنا ہے۔ اپنے مضمون سر نامہ میں بھی اپنے بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا ہے۔ غالباً انھوں نے اپنے افسانوں کو اپنی پہچان کیلئے مؤثر تاثر کافی جانا ہے۔ اور یہ بات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ عموماً ہمارے بعض ناقدین کو گلہ ہے کہ آج اچھا معیاری افسانہ نہیں لکھا جا رہا ۔ لہٰذا وہ اپنے تنقیدی مقالا جات، میں چند پرانے معروف لکھاریوں کے حوالے دیکر بات ختم کر دیتے ہیں اور اب تو تنقید کا غیر جانبدارانہ دروازہ ہی بند ہو گیاہے۔ “من تیرا حاجی بگو یم، تو مرا ملابگو” کا دور دورہ ہے۔ تنقید بھی کوی سننا پسند نہیںکرتا۔ بس تعریف ہی کو تنقید تصور کر لیا گیا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ اچھے معیاری ماہانہ جرائد کمیاب ہیں اور ان کی بھی سر کولیشن کم بہت ہی کم ہے۔ زیادہ تر جرائد کتابی سلسلے کے تحت سہ ماہی یا سالانہ ہیں۔ دور درازکے مقامی ادیب اپنا اب پارہ کتابی شکل میں چھاپ کر محفوظ کرلیتے ہیں یہاںبھی مسائل کا انبار ہے جو الگ سے ایک مضمون کا متقاضی ہے۔
اس وقت میرے سامنے جو کتاب ہے وہ امین جالندھری صاحب کا افسانوی مجموعہ حرف حرف کہانی ہے۔ ایک سو ساٹھ صفحات کی اس کتاب میں چھبیس افسانے اور پانچ چھ تنقیدی یا تعارفی مضامین ہیں۔ امین جالندھری کا اسلوب نگارش محض دلچسپ ہی نہیں قابل توجہ اور لائق مطالعہ ہے۔ میں سمجھتی ہوںکہ افسانہ یا ناول وقت کی آواز ہے اور مصنف کے مشاہدات کا ثمر ہوتا ہے۔ امین جالندھری کے موضوعات بھی ہمارے اسی معاشرے سے کشیدہ ہیں۔ ان کے افسانوں کے بعض موضوع ایسے ہیں جن پر اگر لکھا گیا ہے تو کم لکھا گیا ہے یا ان موضوعات کو قابل اعتبار نہیں سمجھا گیا۔ جیسے امین کا افسانہ مستی ہے ، جیب کٹ جانا عام بات ہے لیکن جیب کتروںکی جیب کٹ جانا اہم واقع ہے۔ امین جالندھری کے قلم میں روانی اور پختگی کا عنصر بدر جہ اتم ہے۔ ان کا مشاہدہ تیز ہے اور باریک بین افسانہ نگار ہیں۔ امین صاحب کا اصنافہ ادبی دنیا میں خوشگوار اضافہ سمجھا جائیگا۔ مختصر ہونا ان کے افسانوں کی ایک اور خوبی ہے۔ وہ افسانے کو غیر ضروری اور بے جا لفاظی سے طولانی نہیں کرتے۔ اختصار کے ساتھ بات مکمل اور افسانے کی غرض و غایت واضح کر دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب زیادہ ترتمثیلی ہے اور افسانہ پڑھتے ہوئے ذہن پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ ایک خوشگوار تاثر قائم رہتا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ قاری تصویری البم دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ امین جالندھری کے قلم میں برکت ڈالے اور انہیں سلامتی عطا فرمائے ۔ (آمین)
٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...