(Last Updated On: )
معتبر خاکہ نگار، تحقیقی تنقیدی اور تاثراتی مضمون نگار ۔ شفیق شیخ(حیدر آباد )
افسانہ دیگر اصنافِ ادب کی طرح معاشرے کا آئینہ ہے۔ کیوںکہ یہ زندگی کے ان اجزاء کو موضوع بناتا ہے جن سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ انسانی فرحت و مسرت المنا کیوں اور مسائل کو اپنے کرداروں اور پلاٹ کے ذریعے پیش کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو افسانے نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے اپنے موضوعاتی دامن کو ناصر ف وسیع کیا بلکہ فنی پختگی بھی حاصل کی۔ اس سفر میں اس نے مزاحمتی دور بھی دیکھا، تجریدیت سے قاری کو ذہنی مشقّت میں بھی مبتلا کیا اور ترقی پسندانہ رجحانات سے بھی لطف اندوز ہوا۔ ظاہر ہے کہ افسانے کی ساری ترقی اس میں موجود زمانوی رنگ افسانہ نگار کی ژرف نگاہی، ذوق اور فنی مہارت کی خامہ فرسائی کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ بعض اوقات ایسے پیچیدہ موضوعات کو بھی تحریر میں لاتا ہے جہاں یا تو نظر نہیں پڑتی یا پھران پر قلم اٹھانے کے لیے علم ،گہرے مشاہدے، سماجی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم تخلیقی صلاحیت کی بات اس لیے نہیں کررہے کہ یہ تو طے شدہ ہے۔ اس بغیر ادب کو ادب نہیں کہاجاسکتا تو افسانے کو افسانہ کیوںکہیں۔
آج کا افسانہ سجاد حیدر یلدرم، علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند کی روایت کا تسلسل ہے۔ بعد میں اس میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس، منٹو ، عصمت چغتائی، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین، احمد ندیم قاسمی، اشفاق حسین اور انتظار حسین ودیگر نے اپنے اپنے رنگ بھرے۔ امین جالندھری صاحب بھی اسی روایت کے امین ہیں۔ جو اپنے حصّے کا کام کررہے ہیں۔ اس وقت ہمارے پیش نظر ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ’’حرف حرف کہانی‘‘ ہے۔ اس کی روشنی میں ہم ان پر بات کریں گے۔
امین صاحب نے تجسس اور تمثیلی رنگ سے بھرپور اختصار کی خوبی سے مزین افسانے لکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ میں نے جو بھی لکھا عوام کی مسّرت اور شادمانی کے لیے تاکہ آئندگان اس سے سرشاری اور حظ پائیں‘‘۔ امین صاحب کے ہاں یہ سرشاری، شادمانی مسرت و حظ اخلاقی قدروں کے تابع ہے ناکہ مادر پدر آزاد۔وہ چوں کہ مذہبی فکر کے حامل ہیں اور مذہب ہی اخلاقیات کا منبع ہے چناں چہ انھوںنے اپنے افسانوں میں اس کا خیال رکھا ہے۔ ایلیٹ نے بھی ادب کے معیار کو پرکھتے ہوئے کہا کہ’’ادب کا معیار محض فنّ سے قائم نہیں ہوتا۔ عظیم ادب کو مذہب اور اخلاق کے معیار پر بھی پورا اترنا چاہیے‘‘۔
اگر ہم امین صاحب کے نظریہ فن پر بات کریں تو ان کے نزدیک مفاد پرستی، ادب فروشی، مدح خوانی( جس کے ذریعے بلند مرتبے تک رسائی ہو)، مادیت، ذاتی پسند و ناپسند، متشاعر ،انہیںپیدا کرنے والی فیکٹریاں، خوشامد ی ،نادان و بے ہنر افراد جو ادب سے فکر و فلسفہ کے خروج کے ذمہ دار ہیں، یہ سب مکروہات ادب اور اس کے لیے زہر قاتل ہیں۔ ان کے قرین سچا ادب وہ ہے جو روح اور دل کو تڑپادے۔ مقصد، تخلیقی ، حِس اسلوب، حسیات، جمال، فکرو فلسفہ اس کے بنیادی عناصر ہیں۔ جالندھری صاحب تخلیقی جدّت کا سرچشمہ اس محشر خیال کوقرار دیتے ہیں جہاں نئے نئے مواقع اس میں فکری صلاحیت پیدا کرکے خوب سے خوب تر کا سفر طے کراتے ہیں۔ ہاں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ’’حبس زدہ، متعصب ، ناکارہ اور بے حس معاشرے میں ادب کی ترویج خاصی مشکل ہے۔ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے‘‘۔ تو ان سے اختلاف کی گنجائش نکل آتی ہے۔ ہمارے نزدیک ہر دور ادب کی تخلیق کے لیے موزوں رہا ہے۔ بس عصری تقاضے بدل جاتے ہیں ۔ رہا حبس زدہ ماحول تو تجریدی اور مزاحمتی ادب ایسی ہی گھٹن سے وجود میں آئے ہیں۔ اس طرح کے حالات حقیقی، مقصدی اور بہترین ادب کی تخلیق کے لیے زیادہ زرخیز ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں میکسم گورکی کے علاوہ بھی کئی نام دیے جاسکتے ہیں۔ خود ہمارے یہاں کا مزاحمتی ادب بھی اسی کا سرچشمہ ہے۔
دوم اگر ہم اپنی غزل کی روایت و ارتقا میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی حالات کا جائزہ لیں تو صورت حال مزید واضح ہوجائے گی۔ اس ضمن میں خاص طور پر دہلی اور لکھنؤ کے زوال کے محرکات سے بھی استفادہ کیاجاسکتا ہے۔اگر ادیب کے لیے کوئی شے ضروری ہے تو وہ نگاہ دوربین ،جرأتِ اظہار، قوّت اظہار اور زاویہ نظر کی ہے ۔ ساتھ ساتھ فن پر مہارت، کیوں کہ فنّ ہی فن پارے کی طویل و قلیل عمر کا تعین کرتا ہے۔حتیٰ کہ توصیفی اور درباری ادب جو حقیقی انسانی جذبات سے عاری ہونے کے سبب ناقابل اعتبار اور عام پذیرائی سے محروم ہوتا ہے۔ جس کا مقصد ذاتی منفعت کے سوا کچھ بھی نہیں ، اگر فنّی معیار ات پر پورااترتا ہے تو وہ بھی ادبی ذخیرے میں اضافے کا باعث ہے۔اردو قصیدے کو ہی دیکھ لیں۔ مبالغہ اور غلونے اسے حقیقت نگاری سے دور کردیا ہے۔ اس کے باوجود وہ ادبی سرمایہ کا درجہ حاصل ہے۔ادب کے لیے وہی غیر فطری اور مصنوعی طریقے ہی نقصان دہ ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
امین جالندھری صاحب نے اپنے موضوعات کے چنائو میں سماجی زندگی کا گہرا مشاہدہ پیش کیا ہے۔ ان کی تحریر میں نصف صدی کا مطالعہ اور معاشرے پر گہری نظر دکھائی دیتی ہے۔ انھوںنے جہاں سیاست، معیشت، بد عنوانی، این جی اوز کا منفی کردار، گیسٹ ہائوسز میں فحاشی، روشن خیالی کارائج مفہوم، قوانین کی آڑ میں رشوت ستانی، کم آمدنی والے طبقے کی تباہ حالی، پارسائی کا لبادہ اوڑھے سرکاری افسران ،ذات پات کا غرور، فلم نگری کے دیوانوں کا برباد مستقبل، مزارات پر جیب کتروں کی بھرمار، عیش پرست اور لالچی خواتین ایسے سماجی مسائل کو موضوع بنایا وہیں جلد بازی ، غریبوں کی بددعائیں ، دوسروں کی خوشی سے اکتاہٹ، حسد، تنہائی کا کرب، ثواب کی نیت سے گھریلو ملازمین اور غرباء کو باسی، مضرصحت کھانا دینے ایسے قابل مذمت انسانی رویوں پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ البتہ امین صاحب کے بعض موضوعات اپنے قاری سے صاحب مطالعہ ہونے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ جن میں سے ایک تصوف و روحانیت ہے۔
تصوّف و روحانیت علم کی وہ شاخ ہے جس کا منبع قلب ہے۔ تقویٰ ا س کا نصاب اور عشق جزواعظم ٹھہرا ہے۔ تطہیر قلب کی یہ منزل صاحبِ کمال کی صحبت، طویل ریاضت، ان تھک محنت اور شدید طلب کی متقاضی ہے۔ علم کے بغیر یہ سفر ناممکن ہے جو اسے منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ یہ مالک اور بندے کا ایسا خاص تعلق ہے، جس کے معاملات عقل کی کسوٹی پر پرکھے نہیں جاسکتے۔ اسرار و زمور کی ایک پیچیدہ و عجب دنیا جہاں کے راز وہی جانتا ہے جسے اس دشت کی سیاحی کا شوق و حوصلہ ہو۔ یہاں تصوّف کے افسران کو بہ اعتبار ِمقام و مرتبہ ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ بہ قول امین جالندھری صاحب’’پورے کرّہ ٔ ارض پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب ہر دوکوس کے فاصلے پر پیدا ہونے والے بچوں کاآئندہ کے لیے تقرر ہوتا ہے‘‘۔
اس نظام کا مقصد بنی آدم کو برائی کی کثافتوں سے پاک کرکے مادی ترقی کے لیے صحیح راستے کا تعّین ہے۔ تاکہ وہ ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ کے منصب جلیلہ کے لیے اہل ہوسکے۔ دراصل کار زندگانی کو چلانے کے لیے دو نظام چل رہے ہیں۔ ایک ظاہر، دوسرا باطنی، ظاہر وہ ہے جو نظام مملکت ،سماج اور انسانی مادی ترقی کا ضامن ہے۔ جب کہ باطنی ان دیکھے انداز میں شریعت و روحانیت کے ذریعے اشرف المخلوقات کی سمت درست کرنے پر ہمہ وقت آمادہ ہے۔
یہ بہرحال صوفیا کرام کا اپنا دائرہ کار و کردار ہوتا ہے۔ یہ تیّقن کی بات ہے۔ ماننے والوں کے لیے بہت کچھ بلکہ سبھی کچھ اور نہ ماننے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں۔ امین صاحب اسے سراب سمجھنے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ان کے افسانوں میں یہ رنگ ’’حرف حرف کہانی‘‘ کے پہلے افسانے’’ محشرخیال‘‘ سے شروع ہوکر کئی افسانوی تک پھیلتا چلا گیا ہے۔ جہاں وہ اس کی باریکیوں اور حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیے بعض مقامات پر خوابوں کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
افسانے میں کردار کا چلتا پھرتا اور اپنے طبقے کا نمائندہ ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کے نزدیک ’’افسانوں میں کردار لکھنے والے کی زبان بولتا ہے‘‘۔ اس مؤقف سے کون انکار کرسکتا ہے؟ ایک افسانہ نگار کے پاس کردار ہی تو ہیں جو اس کے نفسِ مضمون اور خیالا ت کے اظہار کا ذریعہ بن کر اسے قاری سے ہم کلام کرتے ہیں۔ امین صاحب کے کردار بھی جیتے جاگتے اور کہانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے موضوع کے مطابق کردار پیش کیے ہیں۔ تاہم کہیں کہیں، خاص طور پر افسانے’’موڑ‘‘ اور ’’بلند پروازی‘‘ میں کردار اپنی روش سے ہٹے ہوئے نظر آئے۔ ان افسانوں میں بالترتیب وہ فلسفیانہ اور قانونی اصطلاحیں بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اسے ہم غالب تاثر نہیں کہہ سکتے۔
افسانے کی کہانی حقیقی واقعات نگاری کے علاوہ معاشرے سے کشیدہ تاثرات پر بھی مبنی ہوسکتی ہے۔ لیکن اختراعی کہانی میں بھی سماج کا عکس ہونا چاہیے۔ تب قاری محسوس کرے گاکہ یہ ہماری ہی زندگی کا بیان ہے۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ کہانی کے مرکزی خیال تک پہنچنے اور اس میں پڑھنے والے کا منہمک ہونے کا دارومدار اسلوب بیاں سے باہم پیوست ہے ۔ چناں چہ سادہ و سلیس طرز بیان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ سادہ اسلوب گہری سے گہری بات بھی سطحی ذہن کو باور کراکر اسے قبولیت عام کے درچے تک رسائی دیتا ہے۔ اگر ہم نثر میں سہل ممتنع کے قائل ہیں تو اسے نثری سہلِ ممتنع کہہ سکتے ہیں۔ رہی بات افسانے کی، تو افسانہ ہے ہی عام زندگی کا عام زندگی سے ہم کلام ہونے کا نام۔
امین صاحب کی نثر رنگین اور دل کش ہے۔ جسے جابہ جاعربی، اردو اور فارسی کے محاوروں کی گل پاشی نے مزید مہکایا بلکہ خود انھیں نذیر احمد کے مقلدین کی صف میں لاکھڑا کردیا۔ انھوںنے محاوروں کے علاوہ اشعار سے بھی اپنی نثر میں ندرت پیدا کی ہے۔ یہ مرصع نثر، ان کے اندر چھپے انشاء پرواز سے متعارف کراتی ہے۔ فلسفہ اور علمیت سے بھرپور طرز نگارش امین جالندھری صاحب کی بات عام قاری تک پہنچانے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اسے تحریر کے جوہر تک پہنچنے کے لیے اپنے ذہن پر بہت زور دینا پڑتا ہے ۔ تاہم وہ اس جستجو میں ان کے ذخیرہ الفاظ اور خوب صورت رنگین طرز تحریر سے ضرور لطف اندوز ہوتا ہے۔ غالباً امین صاحب کے ہاں یہ صورت حال چنے ہوئے موضوعات کا تقاضہ اور نبھائو ہے۔ ہر افسانے کی زبان موضوع کی منطق سے منسلک ہے۔ افسانہ ’’محشر خیال‘‘ میں عہد مغلیہ کی زبان اور صوفیا کرام کے تذکرے میں ان کا انداز مثال ہیں۔ یوں ان کی زبان کے رنگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ موضوعات کے عصری اختلاف کے مطابق اپنا لب و لہجہ بدلنا اور اسی کے مطابق طرز سخن اختیار کرنا فنّ کاری نہیں تو اور کیا ہے؟
امین صاحب میں تخلیقی صلاحیت کا بحربے کراں موجیں ماررہا ہے۔ جو انھیںاکثر فلسفیانہ روش پر چلادیتا ہے۔ افسانے ’’آگ،’’خمار‘‘،’’چک گ ب۴۵ ‘‘ اور’’موڑ‘‘ اس پہلو کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی پیش کش میں یہ عنصر غالب ہے۔
ایک افسانہ نگار مسائل اور اس کی وجوہات تک پہنچنے کے لیے معاشرتی زندگی کو نفسیاتی پہلو سے بھی دیکھتا ہے۔ تب ہی وہ حقائق رسا ہوگا۔ امین صاحب نے سماج کو اس زاویے سے بھی دیکھا ہے۔ افسانے’’محشرخیال‘‘ میں مرشد کے ساتھ تکریم و عقیدت کے باوجود ملاقات کے لیے انھیںطویل انتظار کرانا۔ ایک حاکم کے لیے اہل علم و دانش کی راہنمائی کس قدر ضروری ہے۔ ’’خمار‘‘ میں در پر وہ چہرے،’’بول میری مچھلی‘‘ میں اختیار کا نشہ، خود احتسابی،’’مسافر‘‘ میں دوسروں کی خوشی سے بے زاری اور تنہائی، انسانی نفسیاتی کیفیات کا مظہر ہیں۔
بہ حیثیت مجموعی اگر ہم امین صاحب کی افسانہ نگاری کو دیکھیں تو انھوں نے زندگی کی صداقتیں، رجحانات، امکانات، سسکتی سماجی زندگی اور مسائل، فلسفہ اور تخیل کی پرواز کے ساتھ متنّوع موضوعات کو، اختصار سے پیش کیا ہے۔ ایک ادیب کا کام معاشرے پر تنقیدی نگاہ ڈالنا ہے تاکہ مثبت کی حوصلہ افزائی اور منفی کا اہل علم و دانش و اہل اخیتار تدارک کرسکیں۔ امین صاحب نے ’’حرف حرف کہانی‘‘ میں یہ ذمہ داری پوری کرنے کی بھرپو رکوشش کی ہے۔
قومی و صوبائی سیرت ایوارڈ یافتہ، مجید امجد ادبی ایوارڈیافتہ
پروفیسر سید ریاض حسین زیدی کا نیا نعتیہ مجموعہ
اے رسول امین
پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر ڈاکٹر افتخار شفیع، مرزا خورشید بیگ میلسوی ، جناب جمیل احمد عدیل،
جناب رشید آفریں، جناب محمد اکرم ناصراور جناب جلیل کی آراء سمیت شائع ہو گیا ہے ۔
مع ڈاک خرچ ہدیہ :600/-روپے (ایڈوانس بکنگ)
رابطہ: سیدہ آمنہ ریاض ادب سرائے ساہیوال) فون نمبر:0302-4695693
وہی آخر وہی آخر ﷺ
کلیات نعت
تالیف: بیگم نصرت عبد الرشید شائع ہو گیا ہے۔
رابطہ: نستعلیق مطبوعات
F-3الفیر وز سینٹر غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔ 0300-4489310/0331-4489310