معروف محقق، نقاد، ناول نگار ، افسانہ نگار، ہمہ جہت ادیبہ۔ دردانہ نوشین خان (ڈیر ہ غازی خان )
حرف حرف کہانی امین جالندھری کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے ۔ اس میں چھبیس افسانے ہیں۔ اس پر نصیر احمد ناصر، جان کاشمیری، سید معراج جامی، ڈاکٹر فہیم اعظمی، سلمان صدیقی، ڈاکٹر معین الدین اجمیری، ڈاکٹر شاہد احمد جمالی نے اپنی آراء دی ہیں۔
حرف حرف کہانی پڑھنے کے بعد امین جالندھری کی افسانہ نگاری یا افسانوں کو دو حصوں یا رنگوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک رنگ معرفت، ولایت ، اولیاء کرام سے عقیدت ، روحانیت کا ہے، افسانے محشر خیال، مستی، خمار، چک گ ۔ب 45، موڑ، مسافر اسی ذیل میں آتے ہیں۔ جبکہ بقایا 20عدد افسانے عصر حاضری چالبازیاں، سیاسی قلا بازیاں، دائو پیچ، دھوکہ فریب، مکرو ریا، منافقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔امین جالندھری نے سندھ کے تمدن اور سیاست کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ یہ ہے افسانہ محشر خیال ۔ اندازِ بیاں میں لکھنوی تہذیب اور خالص اردو کی شیرینی ہے افسانے کا سارا لطف اس کے اسلوب میں ہے اردو کی مہک رچی ہوئی ہے ۔
افسانہ مستی دو جیب کتروں کا مکالمہ ہے جو لوگوںکی جیبیں کاٹ کا مال لوٹ کر لال سائیں کے ڈبے میں ڈال کر کفارہ ادا کر دیتے ہیں۔ جب کہ تیسرا ان کی جیب کاٹ کر پیغام دے جاتا ہے کہ اس نے ساری رقم نذرانے کے باکس میں ڈال دی ہے تو لطف آجاتا ہے۔ میلے ٹھیلے کی رونق کی اچھی منظر نگاری کی گئی ہے۔
افسانہ خمار کی بنت ایک تخیلاتی بلکہ شاعرانہ ماحول کے گرد کی گئی ہے۔ حقیقت کی زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ بلا کی حسین نو جوان لڑکی اکیلی کسی گاڑی میں بیٹھ جائے دوبئی سے اکیلی آنے کی اطلاع دے ذو معنی گفتگو کرے اس کے با وجود اس کو اکیلا نو جوان شریف ملے جو اسے بہن بنا کر اس کا نکاح پڑھوا جائے اتنے تسلسل سے غائبانہ اشارے نہیں ملتے ۔ ان تمام اتفاقات کو افسانہ نگار نے قلندر سائیں کی برکات بتا کر قاری کومطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔
موڑ اور مسافر بھی خواب اور اس کی تکمیل کا پر اسرار احوال ہے امین جالندھری نیم بہار اور نیم صبح کی معطر مطہرہ دنیا پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ افسانے ان کی اولیاء کرام سے رغبت کے عکاس ہیں بلند پروازی۔ مکمل افسانہ ہے کہانی بھی رکھتا ہے اور چونکا دینے والا اختتام بھی رکھتا ہے طرزِ بیاں افسانوی ہے۔
افسانہ بول میری مچھلی کا بہرام خان اس معاشرے کا چاپلوس بد دیانت طاقتور شخص ہے جس کو ایک مچھلی اس کے گناہ بول کر یاد دلاتی ہے مگر مچھلی ہی کیوں؟ اس کی سمجھ نہیں آئی۔ درد کی زنجیر میں معاشرتی مصائب و مسائل ، بے راہ روی، دھن کی دُھن انقلاب کے نعرے دکھ بھرے طنز سے بیان کئے گئے ہیں۔ افسانہ رہائی اندرونِ سندھ کی زبوں حالی، سائیں راج کا آنکھوںدیکھا حال ہے۔ اور بد دیانتی ، رشوت ستانی، شراب و کباب ہزار گناہ کر کے کسی مزار سرکار کا عرس میلہ منعقد کرا کے گناہ بخشوا لینا، تصویر کشی اور منظر نگاری کاحق ادا کر دیا ہے۔ افسانہ کامیاب سیاسی جماعتوں کے دنگل کا کامیاب تجزیہ ہے۔ تجربہ میں تقسیم ہند کے وقت سکھوں نے مسلمانوں پر جو ظلم کیا تھا جب بھارت میں سکھ برادری پہ برا وقت آیا تو انھوںنے مسلمان گھرانے میں پناہ لی تو وہاں زیتون بی بی جو ابھی تک زندہ تھی ملتی ہے مگرا س کی طرف سے کسی انتقام سے پہلے موہن سنگھ کو خبر ملتی ہے کہ اس کے دونوںبیٹے مار دیئے گئے ہیں۔ ہندو تشدد پسندوں نے مار دیئے خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔
حرف حرف کہانی کے مطالعہ کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ امین جالندھری نے افسانے کے بیانیہ کیلئے مکالمے کا انتخاب کیوں کیا؟ ان کے بکثرت افسانے دو افرادکے مکاملے کے گرد گھومتے ہیں۔ مکالمہ، بات چیت، گفتگو دو افراد کا ہم کلام ہوناتو بذات خود ایک صنف سخن ہے مکالمہ نگاری میں بھی موضوع ، کردار اور پلاٹ ہوتا ہے۔ مکالمہ نگاری کا اسلوب ادبی بھی ہو سکتا ہے عوامی بول چال کی زبان بھی ہو سکتی ہے ۔ کردار کی نفسیات کے مطابق ان کو ڈھالا جاتا ہے مکالمے کا کردار صدا کاری کرتا ہے ۔ وہ جسمانی حرکات نہیں کرتا۔ البتہ اسٹیج کئے جانے والے ڈرامے کے مکالمے میں اسٹیج کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ادب کا نقاد ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ امین جالندھری اچھے افسانہ نگار ہیں یا مکالمہ نویس۔
اس سے انکار نہیں کہ امین جالندھری کی نثر نگاری میں بین السطور معنویت ہے سچائیوں کوکہیں ظفر، تمسخر، تنقید اور ظرافت میں بیان کیا گیا ہے ۔ مگر یہ ظرافت ہجو میں نہیں دھلتی۔ ان کی نثر کے چند نمونے حاضر ہیں۔
میں نے قبل از وقت تمہارا نوحہ تمہارے سامنے پڑھ دیا ہے۔ (بوڑے آدمی کا نوحہ)
تنگ و تاریک مکانات میں صرف عوام رہتی ہے عوامی نمائندے نہیں۔ (کامیاب)
آج تک کلچر کی تعریف میری سمجھ میں نہیں آئی یہ ایگریکلچر کیا ہے۔ (شو ٹائم)
چودھری خان سردار وڈیرے جس معاشرے میں موجود ہوں گے۔ وہاںکبھی انقلاب نہیں آئیگا۔ (بول میری مچھلی)
ریفریجریٹ میں اکثر دو تین ماہ پرانی اشیاء مثلاً مٹھائی، کیک، آئس کریم سب انہیں ہی ذوق و شوق سے کھلاتا ہوں مگر پھر بھی یہ لوگ مجھ سے شاکی رہتے ہیں۔ (بول میری مچھلی)
ہر تہذیب اپنے عصر کی گواہی ہوتی ہے یہ آگ ہمارے ابتدا کی ساتھی ہے۔ (آگ )
آخر میں امین جالندھری کے با ذوق قلم میں برکت کیلئے دعا گو ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭