(Last Updated On: )
معروف محقق، نقاد، مبصر، افسانہ نگار ادیب وشاعر شبیر ناقد تونسہ شریف
خالق کائنات نے موجودات و معدو مات کو خلق فرمایا اور اس نے اپنی ہر تخلیق میں ایک خاص قرینے کو بروئے کار رکھا جس میں موجود خوص اس کے افادی پہلوؤں کے مظاہر ہیں۔ معاملہ ہذا انسانوں کا بھی ہے خدائے بزرگ و برتر نے ہر انسان کو مختلف خصوصیات ودیعت فرمائیں گویا تنوع قانون قدرت کا ایک بنیادی اصول ہے جس میں کسی نوع کی یکسانیت کی بدولت پیدا ہونے والی بیزاری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر انسان کی خصوصیات اس کی شناخت کا بنیادی حوالہ ہوتی ہیں اور اس کے خصائص اس کے کام کی بدولت عیاں ہوتے ہیں۔ آج ہمارا موضوع یہاں امین جالندھری کا افسانوی خراج ہے جن کا تعلق لطیف آباد حیدر آباد سے ہے وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں حیدر آباد عموماًاور لطیف آباد خصوصاً ادب کی خدمت کے حوالے سے کافی مشہور ہے ۔ ہمارے ہمدم دیرینہ اور معروف محقق حسرت کاسگنجوی کی نسبت بھی لطیف آباد سے تھی۔
امین جالندھری حیدر آباد کی معروف ادبی تنظیم “رابطہ” کے سرگرم رکن اور روحِ رواں ہیں۔ تنظیم ہذا کی مختلف خصوصیات ہیں یہ تنظیم ارباب قلم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جس میں کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے بھی اہل قلم شامل ہوتے ہیں علاوہ ادبی تصانیف کی تقریب رونمائی کو منعقد کرانا بھی اس کا طرئہ امتیاز ہے۔ نیز دیگر ادبی حوالوں سے بھی تقاریب منعقد کی جاتی ہیںجن کی رپورٹس اخبارات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مزید برآں رابطہ کی مطبوعات بھی تواتر سے منصہ شہود پر آرہی ہیں جو ایک حوصلہ افزا امر ہے جہاں تک امین جالندھری کا تعلق ہے تو ابھی تک ان کی تین ادبی تصانیف زیر طباعت سے آراستہ ہو سکی ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں ۔
۱۔دو حرف (افسانہ مجموعہ)
۲۔حرف حرف روشنی (مجموعہ مضامین مطبوعہ23مارچ2021ء )
۳۔حرف حرف کہانی (افسانوی مجموعہ مطبوعہ اگست2022ء )
ان کی متذکرہ بالا تصانیف کے اسمائے گرامی اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ لفظ حرف انکی ادبی تگ و تاز کا معتبر استعارہ ہے ۔ خدائے حرف و صوت سے استدعا ہے کہ نئی ادبی منازل کے ابواب ان پر وا کرے (آمین ثم آمین)۔
شذرہ ہذا میں ہم ان کے افسانوی مجموعہ حرف حرف کہانی کا تجزیابی مطالعہ پیش کرنے کی سعی کر رہے ہیں اس سلسلے میں ہم کچھ منتخب افسانوںکو زیر بحث لائیں گے۔ انتقادی اکائی کے طور پر ہم نے مجموعہ مذکورہ کے ابتدائی افسانوں کا انتخاب کیا ہے اس سے قبل کہ ہم ان کے افسانے کے حوالے سے انتقادی عمل کا آغاز کریں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ ان کے افسانے کے حوالے سے اصحاب فکر و نظر کی کیا رائے ہے واضح رہے کہ مشمولہ تمام آراء کتاب مذکور کا حصہ ہیں۔
آپ افسانے کی روح تجسس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرتے مزید یہ کہ اس موقع پر تخلیقی لحاظ سے اتنی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ زبان، دل اور روح تینوں اش اش کراٹھتے ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف افسانوںکے کرداروں کے منہ میں اپنی نہیں کرداروں کی زبان ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں تخلیقی رم جھم کی پھوار پورے ماحول کو اپنی ساحرانہ گرفت میں لے لیتی ہے جو محترم امین جالندھری کی وسعت مطالعہ ، بے کراں مشاہدے اور علم و آگہی ادب سے بے انت محبت کا ثبوت ہے۔
معروف شاعر و مدیر اعلیٰ قرطاس جان کاشمیری گوجرانوالہ)
امین جالندھری ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جو زندگی کی صداقتوں سے قریب تر ہوتے ہیں۔ حقیقی نگاری کا یہ فکر و عمل انہیں اسی لئے بعض معاصرین سے ممتاز کرتا ہے واضح ہو کہ امین جالندھری اس سماجی حقیقت نگاری کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے جسے بوجوہ غلط فہمی محض ترقی پسندوں کا کاپی رائٹ سمجھ لیا جاتا ہے ان کا انفرادی طرزِ نگارش انہیں ان انشا پردازوں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے جن کے دم سے نثر نگاری کی آبرو قائم ہے اور یہ وہ عناصر ہیں جو محمد حسین آزاد، علامہ شبلی نعمانی ، مہدی افادی اور نیاز فتح پوری جیسے انشا پردازوں کے ہاں موجود ہیں۔
(ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری راجستھان ہندوستان ص۔7)
سبھی افسانے مختصر لیکن پر اثر ہیں ان کے کردار سیدھے سادے لیکن ہمارے ارد گرد رہنے والے ہیں امین جالندھری کے افسانوں میں زیادہ گھمائو پھرائو یعنی پیچیدگی نہیں ہے وہ بڑی آسانی سے اپنی بات کہہ جاتے ہیں ۔ تمام افسانوں میں مقامی رنگ نمایاں ہے کیونکہ انھوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے وہ معاشرے سے ہی لیا ہے۔
(ڈاکٹر شاہد اجمالی راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی جے پور بھارت ص۔10)
وہ اپنے افسانوں کے توسط سے ایک ایسی تخلیقی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے جس میں دلکشی کے ساتھ انتشار بھی ہے۔ آشکارا طور پر ان کے افسانوں میں مرصع سازی اور تصویر سازی کے فن کے ساتھ ساتھ نرالا پن موجود ہے جو دل آویز بھی ہے اور مسحور کن بھی ۔ فن افسانہ نگاری میں یہ شخص لا محدود صلاحیتوں کا مالک ہے میدانِ ادب کے کارزار میں ان کی قوت بازو قوت قلم کی صورت میں نمودار ہو رہی ہے جس کی جھلک حرف حرف کہانی کے افسانوں میں ملتی ہے۔
(عزیز تنویر اجمیر شریف بھارت ص۔11)
مذکورہ بالا اصحاب آرا نے امین جالندھری کے افسانے کے کسی نہ کسی تکنیکی و انتقادی تناظر کو اجاگر کرنے کی سعی مندوب کی ہے جو نہ صرف صرف لائق تحسین ہے بلکہ سراہے جانے کا استحقاق رکھتی ہے جس سے ان کے افسانے کی فکری وقتی قدر و قیمت کا تعین بہ حسن و خوبی کیا جا سکتا ہے۔ امین جالندھری اپنے افسانے محشر خیال میں اسلو بیائی اعتبار سے با محاورہ اور روز مرہ زبانی متناسب نمائندگی کی ہے ۔ امر ہذا ان کی بالیدگی کی عمدہ نظیر ہے چونکہ یہ افسانہ نہ ایک بادشاہ سے متعلق ہے اس لئے اس میں شاہی آداب و اکرام کو پورے طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے جو ان کی معالمہ فہمی کی بین دلیل ہے یہ افسانے خود میں جذبہ خیر کے شواہد بھی سموئے ہوئے ہیں جس میں فلاحی و اصلاحی اور معاشی و اقتصادی پہلو بھی ہیں ۔مسجد کی تعمیر اور بے روزگاروں کو روزگار میسر آنا ملکی خوشحالی کی نوید ہے اس افسانے کی مکالمہ نگاری میں حفظ مراتب کا پورا پور ا خیال رکھا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امین جالندھری افسانے کی مقتضیات سے بخوبی واقف ہیں۔
افسانہ مستی دراصل معاشرے کے نا ہموار رویوں کی عکاسی سے مربوط ہے جس میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث سماجی عوارض عوارض کی نشاندہی کی گئی ہے اس افسانے میںجیب کتروں کے حوالے سے خصوصی جانکاری پائی جاتی ہے اور ان کے فن پر گہرائی و گیرائی کے تناظر میں روشنی ڈالی گئی ہے یوں اس سماجی برائی کی تفہیم کا عمل سہل تر ہو گیا ہے۔ اس افسانے کا اختتام کلائمکس پر مبنی ہے جو قاری کو جہاں حیرت و استعجاب میں مسحور و محصور کر دیتا ہے جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ امین جالندھری افسانے کی تکنیک کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔
افسانہ خمار خود میں متصوفانہ فضا سموئے ہوئے ہے جس میں کلاسیکیت اور روایت کی چھاپ ہے اولیائے کرام پر عومی اعتقادات کا مظہر بھی ہے اور مسئلہ جبر و قدر کے مابین باہمی موافقت ومعاونت کا پہلو بھی نمایاں ہے یوں بتایا گیا ہے کہ مقدر انسان کو کس طرح اپنی اور لے جاتا ہے اور انسان کس طرح تقدیر کی پیروی کرتا ہے افسانہ ھذا جدید ذہن رکھنے والوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور مذہبی روایات کا بین اعتراف ہے دنیاداری اور مادیت پسند روئیوں کی بر ملا عکاسی ہے جس میں خدمت کا پہلو بھی نمایاں ہے ۔ خدا کی ذات پر اعتماد کا آدرش ہے اور اس کے بر گزید گان کے احترام کی تلقین و تاکید ہے۔
افسانہ چک گ۔ ب بھی تصوف کی ردا اوڑھے ہوئے ہے جس میں توکل و استغنا کے خصائص بھی ہیں کشف و کرامات کا پہلو بھی ہے یہ سارا منظر نامہ مافوق الفطرت ماحول کو جنم دے رہا ہے جس سے حیرت و استعجاب کے ابواب وا ہو رہے ہیں اور مشیت ایزدی کی تکمیل ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اس افسانے کی پر اسراریت قاری کو اپنی گرفت کے مضبوط حصار میں لے لیتی ہے۔
افسانہ موڑ: میں بھی وہی تصوف کی فضا ہے مذہبی رنگ ہے او لیائے کرام کا احترام و اکرام نمایاں ہے یوں قاری کو مذہب کی طرف مخلصانہ مراجعت کی ترغیب دی گئی ہے جو عبد کو معبود سے مربوط کرنے کی سعی مندوب کی گئی ہے مادیت پسندی سے بے نیازی اور روحانیت پر انحصار کی کوشش کی گئی ہے یوں تو عصر حاضر کی روز مرہ زندگی کا عکس دھندلا تا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔کلاسیکی اقدار و روایات کی چکا چوندنمایاں طور پر سامنے آتی دکھائی دیتی ہے۔
افسانہ: بلند پروازی روز مرہ عوامی زندگی کا ترجمان ہے جس میں عام آدمی کی حیات کے خدو خال کو اضح کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ان کی زیست پندارِ انا کی لایعنیت کی نذر ہو جاتی ہے یوں وہ اپنے حال و مستقبل کو اکارت کر بیٹھتے ہیں اس افسانے میں سبق آموزی اور خرد آموزی کے وسیع تر امکانات پنہاں ہیں۔
صدائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے
افسانہ آگ: میں آگ کے فلسفے کے ثمرات و حضرات پر روشنی ڈالی گئی ہے یوں ایک تقابلی مطالعے کی فضا قائم کی گئی ہے اس افسانے میں شیخ جی مذہب اسلام کا نمائندہ ہے اور پنڈت جی ہندو مت کا ترجما ن ہے دونوں کے مابین دلچسپ مناظرے کی صورت حال پیدا کی گئی ہے اس طرح مسلمانوں اور ہندوؤں کے محاسن و مصائب پر عمدہ طریقے سے بحث کی گئی ہے بعد ازاں فلسفہ تاریخ پر تصریحات پیش کی گئی ہیں یوں تاریخ کے حقیقی و غیر حقیقی اور مثبت و منفی رویوں کی عکاسی کی گئی ہے علاوہ ازیں فلسفہ محبت کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جو خصوصی دلچسپی کا حامل ہے گویا اگر یہ کہا جائے کہ افسانہ ہذا اسلام اور ہندو مت کے تقابلی و مطالعے کا دوسرا نام ہے تو بے جا نہ ہوگا اس افسانے کا اختتام کلائمکس کا انداز رکھتا ہے جو قاری کو جہانِ حیرت و استعجاب میں لے جاتا ہے۔
افسانہ بول میری مچھلی: معاشی و معاشرتی اور مادی رویوں کی عکاسی سے عبارت ہے جس میں گرانی کے افادی پہلوؤں اور حضرات کا بیان بھی ہے سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں مفلوک الحال طبقے کے استحصال کی پر اسرار رکھتا ہے اس افسانے میں مچھلی کا مکالمہ ایک خاصے کی چیز ہے جس میں مچھلی کی زبانی انسانی جبر و استبداد کی کہانی بیان کی گئی ہے اس مافوق الفطرت معاملے کو خالص فطری انداز میں پیش کرنے کی سعی جمیل کی گئی ہے جس میں افسانہ نگاری کا کمال فن گردانا جا سکتا ہے ۔ اس افسانے میں ایک بھر پور نوعیت کا تنقیدی رویہ بھی کارفرما ہے اس رویے کی ترجمانی مچھلی کی زبانی ایک دلچسپ اور ہے اس افسانے میں انسانی نفسیات کے لئے ایک قبیح پہلو کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کبھی بھی اپنے معائب و نقائص کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے اوصاف کے طور پر پیش کرنے کی سعی لاحاصل کرتا ہے۔
افسانہ مسافر: میں گزشتہ ساعتوں کی بازیافت کا عمل بہ حسن و خوبی پایا گیا ہے جس میں ایک امیر آدمی کی داستان بیان کی گئی ہے جس کی اولادیں ترقی یافتہ ممالک یعنی دیارِ غیر میں آباد ہیں اور وہ خود یہاں شدت تنہائی کا شکار ہے اور اس میں جسمانی و ذہنی طور پر زیست کی رنگینیوں سے استفادہ کرنے کی سکت نہیں رہی تو پھر مذہب اور تصوف کی طرف مخلصانہ مراجعت ایک فطری امر ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ لوگ عموماً بڑھاپے میں ہی زیادہ تر مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں جسے امر مجبوری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے سفر اس افسانے کا کلیدی استعارہ ہے جسے روحِ رواں کی حیثیت حاصل ہے۔
افسانہ شو ٹائم: جو بظاہر زرعی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے مگر اس زراعت کی استعارائی فضا ودیعت کی گئی ہے اس افسانے میں سرمایہ دار طبقے کی بیخ کنی کی سعی مشکور کی گئی ہے گویا یہ ایک انقلابی و مزاحمتی نوعیت کا افسانہ ہے جسے علامتی انداز کا افسانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کلائمکس اس افسانے کی بنیاد خصوصیت اور سرگرم عنصر ہے جس نے حیرت و استعجاب کے نئے ابواب و کئے ہیں یہ افسانہ عصری تقاضوں کی تسکین کا ایک معتبر حوالہ ہے۔
شذرہ ہذا امین جالندھری کے افسانوں مزاج کی تفہیم کے حوالے سے انتقادی اکائی کے طور پر ان کے دس افسانوں کے حوالے سے اجمالی انداز میں تجزیاتی تصریحات پیش کی گئی ہیںتاکہ ان کے افسانے کی تجزیاتی تفہیم کا عمل سہل تر ہو سکے۔ مذکورہ توجیحات اس امر کی شاہد عادل ہیں کہ امین جالندھری کے افسانے کا موضوعاتی کینوس بسیط و عریض ہے ان کی افسانہ نگاری کثیر الجہات اور وسیع الصفات ہے ان کے موضوعات میں مذہب، روایت، معاصر رجحانات، مادیت کی خدمت، روز مرہ عوامی زندگی کاعکس ، فطری معاملات، مافوق الفطرت عناصر، مغربی تہذیبی یلغار، تہذیبی رکھ رکھائو ، وضع داری، پندارِانا، مضبوط حصارِ ضبط، مذہب کی طرف مخلصانہ مراجعت، دیش بھگتی ، جوابی رویے، مزاحمتی و انقلابی عوامل، سزا و جزا اور زمانہ شناسی وغیرہ کے جواہر شامل ہیں ۔ اگر فن افسانہ نگاری میں اسی طرح وہ اپنی کشید جاں لٹاتے رہے تو اس صنف ادب میں ان کے بہتر مستقبل کی بشارت قرین فطرت ہوئی مگر اس حوالے سے انہیں خلوص ، لگن اور محنت جیسے عناصر ثلاثہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
زمیں رنگ
طاہرہ اقبال کے افسانوں پر مشتمل پانچواں مجموعہ مختلف
ثقافتوں اور خطوں پر مبنی کہانیاں
صفحات 256 قیمت375/-