معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، ادیب ،شاعر ۔اجمل اعجاز ۔کراچی
اسلوب میرے نزدیک تخلیق کا وہ اندازِ تحریر ہے جو تحریر کی قرات سے تخلیق کار کے نام کا پتا دے سکے۔ ہمارے بیشتر افسانہ نگاروں میں چند ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنا منفرد اسلوب اپنایا جن کی تحریر ان کی پہچان بنی۔ اس فہرست میں منشی پریم چند، کرشن چندر، سعات حسن منٹو اور انتظار حسین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھیں تو سمیع آہوجا کا نام بھی اس انفرادیت کا حامل نظر آتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک نام زیب ازکار حسین کا بھی ہے جو اپنے منفرد اسلوب کی پہچان کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم امین جالندھری کو بھی اس فہرست میںشامل کر سکتے ہیں کہ امین نے بھی اپنا ایک الگ اور منفرد اسلوب تراشا ہے۔ امین اپنے افسانوں کی فضا، بیانیے کی بجائے مکالمے سے بناتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہانی کو بیانیے کی بجائے مکالمے سے آگے بڑھاتے ہیں۔ دوسرے معاصر افسانہ نگاروں کی کہانی کا زیادہ تر حصہ بیانیے اور کم حصہ (وہ بھی حسب ضرورت) مکالموں پر منحصر ہوتا ہے۔ مجھے ماضی اور حال میں کوئی دوسرا افسانہ نگار اس اسلوب کا حامل نظر نہیں آتا ہے۔
میرے اس خیال کی تصدیق کتاب حرف حرف کہانی کے فلیپ اور کتاب میں شامل مضامین سے بھی ہوتی ہے۔
“اس میں شامل افسانے بیانیہ بھی ہیں، کرداری بھی اور واحد متکلم کی طرز میں بھی”( سلمان صدیقی )
“طرزِ بیان دلچسپ ہوتا ہے۔ تمثیل Allegoryکی جانب مائل ہیں”۔ (ڈاکٹر فہیم اعظمی )
موصوف افسانوں کے کرداروں کے منہ میں اپنی نہیں کرداروں کی زبان ڈالتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں تخلیقی رم جھم کی پھوار پورے ماحول کو اپنی ساحرانہ گرفت میں لے لیتی ہے۔ (جان کاشمیری)
واضح ہو کہ ان کا اسلوب خود ان کی ایجاز ہے، کسی معاصر یا ماقبل مصنف کی کروانہ تقلید کا نتیجہ نہیں۔ (ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری )
افسانہ نگاری کے اسلوب میں اصل اہمیت لب و لہجے کی ہوتی ہے، جس میں جذبات نگاری اور واقعہ نگاری سے ایک نئی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیب تراشوں کی بات چیت کا لب و لہجہ اس افسانے کا جدد ہے۔ (عزیز تنویر )
امین جالندھری کے افسانوں کے موضوعات کے بارے میں سید معراج جامی کی اس رائے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
امین جالندھری کے افسانوں کا بنیادی خیال یعنی Central Ideologyآئیڈیلزم ہے۔ امین جالندھری کا واضح جھکائو مذہب کی جانب ہے اور ان کے افسانے معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کا ایک پیغام بھی ہے۔
روحانیت مذہب کے ساتھ وابستہ ایک حقیقت ہے۔ امین جالندھری کے افسانے مستی، خمار، چگ گ ب، موڑ، مسافر اور آدھے راستے کا آدمی اس موضوع کو سمیٹنے والے خوبصورت افسانے ہیں۔ دیگر افسانوں میں اندازِ حکمرانی اقلیت کے حقوق، بنیاد پرستی، وڈیرہ شاہی، سیاست، مذہبی رواداری ، کرپشن، وطن دوستی ، ہم وطنوں کی فلاح کی جد و جہد اور قربانی، محلاتی سازشوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانہ “ہنی مون” اکیلا افسا نہ ہے جس کا موضوع محبت اور رومان ہے۔ امین جالندھری نے اس افسانے کو بھی خوبصورت جذبوں میں سمویا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...