معروف محقق، ناقد ، مدیر، ادیب۔ڈاکٹر مسرور احمد زئی (حیدر آباد)
میں نے “حرف حرف کہانی “میں دیکھا ہے کہ حرف حرف کہانی ہے، کسی کہانی میں تصوف کا تصرف ، تو کسی میں حکایت سامانی، کسی میں معاشرے کی ابتر صورت حال سے شکایت تو کسی میں “تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں” کی صداقت۔میں نے امین جالندھری کی افسانہ نگاری کا ارتقائی سفر دیکھا ہے میں نے ان کے پہلے مجموعے دو حرف کا تخلیقی منظر نامہ بھی دیکھا اور پھر حرف حرف کہانی کا اشاعتی سفر نامہ بھی دیکھا ۔ پہلے مجموعے کی اشاعت کے وقت امین جالندھری صاحب معاشرتی انحطاط پذیری کا نواحہ گر تھے، وہ اپنی ادبی تنظیم رابطہ کے ذریعے سب کے رابطے میں رہتے، تنقیدی نشستوں میں اپنا افسانہ بھی سناتے اور اس پر تنقید کو برداشت بھی کرتے، ان ہی محافل نے امین جالندھری کو شہر میں افسانوی روایت کا امین بنادیا، آپ دیکھیں گے کہ ان افسانوں میں معاشرتی طبقات سے پیدا ہونے والی کہانیوں کے اثرات نمایاں ہیں۔ ان افسانوں میں محبت کی آواز بھی ہے، اور ایک اہل قلم کی حساس طبیعت کی بازگشت بھی ، جیسا کہ یہ ایک وکیل بھی ہیں انھوں نے اپنے افسانوں میں بھی مظلوم طبقے کا مقدمہ لڑا ہے، اور مجبور طبقے کی وکالت کی ہے، ان واقعات کو تراش کر افسانے کے سنگھا سن پر بٹھا رکھا ہے۔ جسے دو حرف کے نام سے مجتمع کیا گیا۔ لیکن ایک بڑی مدت گزر جانے کے بعد اس تخلیق کار کی شخصیت، مزاج، فکر اور انداز میں بھی بڑی تبدیلی آئی۔ یہ محفلوں سے نکل کر بزم خودی میں جا بیٹھے۔ یہ جلسوں سے نکل کر جلوسِ اندرون کے مہتمم ہو گئے۔ اور تمدن کا سفر کرتے ہوئے تفخر کے ساتھ تصوف کی سر حدوں کی طرف جا نکلے، لیکن اس افسانہ نگار کا ساتھ نہیں چھوڑا جو پہلے دن سے ان کے ساتھ رہا، اب جو افسانے منظر عام پر آئے اس میں تصوف کا تصرف بھی ہے ، اجزائے افسانہ نگاری کا اہتمام بھی، یہی نہیں بلکہ اس سفر میں زمین کا ارتقاء بھی قابل لحاظ ہے۔ جب میں نے دوسرے مجموعے کا پہلا افسانہ محشر خیال پڑھا تو دیکھا کہ تاریخی واقع کو اس زبان اور بیان میں پیش کیا ہے جو اس کہانی کا تقاضا تھا۔ عمر ماروی کی داستان کو جدید اندازِ بیان دے کر داستان کو افسانے کی منزل پر لے آئے ۔ بلند پروازی میں وکالت بھی ہے، مقدمہ بھی، اور وہ زبان بھی جو کسی کہانی کا افسانہ بناتی ہے۔ کرداروں کے درمیان جو روز مرہ تکراری زبان ہے دراصل وہی منظر کشی اور دل کشی کا سامان ہوتی ہے جو اس افسانے کا خاصہ ہے۔
یعنی جہاں انھوں نے شاہی ادوار کی تصویر کشی کی تو وہی زبان استعمال کی جس سے صحیح منظر کشی ہوتی ہے، جہاں انھوں نے بازار کی ہما ہمی اور گہما گہمی دکھائی تو لفظوں سے شورِ بازار گرم کردیا، جہاں ادبی محفل سجائی، وہاں الفاظ سے نقرئی گھنٹیاں بجادیں، بس میرے نزدیک ایک کا میاب افسانہ نگار کے پاس تین ہی تیشہ تخلیق ہوتے ہیں۔ تصور، سلیقہ اظہار اور زبان و بیان کا شعور، جس افسانے میں یہ تین چیزیں ہوتی ہیں اس کا خالق ایک بلند پایہ افسانہ نگار ہوتا ہے۔ امین جالندھری کے ترکش میں تینوں قسموں کے تیر موجود ہیں، اس لیے ان کا افسانہ ہدف پر لگتا ہے اور قاری کو تادیر اپنے حصار میں رکھتا ہے۔ اگر امین جالندھری کے ادبی سفر کا مطالعہ کرنا ہے یا ان کی شخصیت میں تبدیلی کے اجزاء، محرکات، واقعات اور لمحات کو دیکھنا ہے ان کے دونوں مجموعوں کا بالترتیب مطالعہ کریں، پھر دیکھیں کہ تخلیق کار کی شخصیت کی بدلتی فکر کا اثر اور اس کے مزاج کی تبدیلی کا عکس اس کی تحریروں پر کس طرح پڑتا ہے۔ وہ کس طرح اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ ردو بدل، اور مدو جزر کو جب افسانے کے روپ میں پیش کرتا ہے تو ان کا مستقبل قاری محسوس کر سکتا ہے کہ ان تحریروں کے خالق نے حکایت حیات اور فکر ذات سے نکل کر تفہیم کائنات تک کہیں اپنا روزنامچہ لکھا ہے اور کہیں اوارقِ ماضی کا سر نامہ اور کہیں عہد موجود کا منظر نامہ، لیکن ان تینوں تصویروں میں بنیادی رنگ جو رقص کرتا محسوس ہوتا ہے وہ خالق کی شخصیت میں پیدا ہونے والے مد و جزر ہی ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
خوشبو تری جوے کرم، ہوے جو حاضر درِ نبی پر، بحر تجلیات اور جو آقا ؐ کا نقش قدم دیکھتے ہیں
(قومی و صوبائی ایوارڈ یافتہ)
نعتیہ کتب کے بعد معروف شاعر و ادیب ریاض ندیم نیازی کی حمد و نعت پر مشتمل پانچواں نعتیہ مجموعہ
چمن زارِ حمد و نعت
شایع ہو کر مارکیٹ میں آگیا ہے۔
پبلشرز: ماورا بکس، دی مال لاہور
رابطہ شاعر: ریاض ندیم نیازی، ندیم لائبریری سبی0300-3701617/0333-3701617
شعبہ اردو نیشنل یونیورسٹی آف لینگویجز اسلام آباد کی طالبہ عنبرین بٹ کا مقالہ برائے ایم اے ارد و بہ عنوان
ریاض ندیم نیازی کی شاعری کا موضوعاتی و اسلوبیاتی جائزہ
(بحوالہ تمہیں اپنا بنانا ہے اور ہوئے جو حاضر درِ نبی پر)
کتابی صورت میں شایع ہو گیا ہے۔
پبلشرز: ماورا بکس، دی مال لاہور
رابطہ شاعر: ریاض ندیم نیازی، ندیم لائبریری سبی0300-3701617/0333-3701617