ہر سمت اُجالا ہے
اچھا رویہ بھی
نفرت کا ازالہ ہے
اِک آس کنارے میں
بہہ نہ جائیں ہم
حالات کے دھارے میں
پہچان کو بدلا ہے
وقت کی گردش نے
انسان کو بدلا ہے
نفرت کو دھو دیں ہم
پیار کی مالا میں
گر خود کو پرو دیں ہم
تقدیر کا لکھا ہے
وقت کٹھن یارو!
جو ہم پر بیتا ہے
تحریر سجائیں گے
دشتِ تخیل میں
غزّال جو آئیں گے
اُمید پہ زندہ ہے
شاخِ دل پر جو
اِک پیار پرندہ ہے
ہر جسم مہکتا ہے
خواب کا پنچھی جب
آنکھوں میں اترتا ہے
میری خوش بختی ہے
دِل پہ آویزاں
اُس نام کی تختی ہے
چاہت کے اسیروں سے
درسِ محبت لو
ہم جیسے فقیروں سے
سمجھو گے کہاں لوگو!
درد کی ہوتی ہے
اپنی ہی زباں لوگو!
یہ ایک سعادت ہے
پیار سے ملنا بھی
بابر جی! عبادت ہے
دل ایسا پرندہ ہے
پیار کی خوشبو سے
جو آج بھی زندہ ہے
ناپختہ ارادوں سے
مات مِلی شہر کو
اپنے ہی پیادوں سے
پیسوں سے نہ خِدمت سے
دِل کو جیتا ہے
جذبوں کی دولت سے
انمول سی دولت کو
دِل میں چھپایا ہے
اِک تیری محبت کو
دکھ درد تو سہنا ہے
پیار جزیرے میں
گر ہم کو رہنا ہے
سمجھے ہر تیور کو
پہنے جو بابرؔ!
احساس کے زیور کو
نفرت ہے شدت سے
ہار گیا شاید
اِک شخص محبت سے
٭٭٭
آنکھوں کے سفینے میں
بیٹھ کے آیا وہ
اِس دِل کے مدینے میں
پُختہ جو عزائم ہوں
خوشیاں مقدر میں
کیسے نہ دائم ہوں
بچ پیار کے گھاؤ سے
زیست بسر ہو گی
پھر اچھے سبھاؤ سے
ہر روز محبت میں
تیرے بنا ساجن!
ہے سوز محبت میں
باتیں ہیں نہ قصہ ہے
دُکھ اور سکھ بابرؔ
اس زیست کا حصہ ہے
کچھ عین جوانی میں
مرتے دیکھے ہیں
کردار کہانی میں
یہ کام کروں کیسے؟
لوح پہ لکھی جو
تقدیر پرھوں کیسے؟
تب چہرے دمکتے ہیں
دل میں خوشیوں کے
جب جگنو چمکتے ہیں
آئین بنائیں ہم
جیون سے اپنے
نفرت کو مٹائیں ہم
لاکھوں کا ہزاروں کا
وقت ہی مرہم ہے
ان عشق کے ماروں کا
بے چین نہ کیوں دل ہو
درد کا صحرا ہی
جب پیا رکا حاصل ہو
شب خون وہ مارے ہے
اپنی شبیہہ میری
آنکھوں میں اتارے ہے
شہکار محبت کی
سر پہ سجائی ہے
دستار محبت کی
جودل کے ا ندر ہے
لا متناہی سا
اِک درد سمندر ہے
مر کر ہی نکلے گا
جیون دریا میں
جو شخص بھی ڈوبے گا
معصوم ہمارادل
تیری محبت کا
چاہے ہے سہارا دِل
رسموں کے جنگل میں
انساں دھنسا ہے
حالات کی دلدل میں
شعلہ یا جوالہ ہے
رُوپ ترا سجنی!
شاہت کا حوالہ ہے
شکوہ نہ شکایت ہے
روگ جدائی کا
اپنوں کی عنایت ہے
کیا خوب اجالے ہیں
من کے آنگن میں
جو پیار سے پالے ہیں
دیوار نہ در ماہی!
درد عشق میں ڈوبا دل
اُجڑا ہوا گھر ماہی !
جب شعر لکھا جائے
اس کی آنکھوں کو
مے خانہ کہا جائے
کھویا ہوں سپنوں میں
ڈوب نہ جاؤں میں
ان جھیل سی آنکھوں میں
سکھ پا لیں چھاؤں کے
مل کے اگر توڑیں
بت اپنی اناؤں کے
یادون میں آؤ ناں
اپنی محبت سے
اس دل کو سبھاؤ ناں
نفرت کو مٹائیں ہم
دیپ محبت کے
ہر دل میں جلائیں ہم
بس تجھ کو دکھانا ہے
دل میں محبت کا
انمول خزانہ ہے
سب وعدے بھلا کر کے
چھو ڑ گئے ساجن!
پیمانِ وفا کر کے
کانٹوں پر، پھولوں پر
لڑتے رہو بابرؔ
جنگ یونہی اصولوں پر
رنگین نظاروں کا
لطف ادھوار ہے
مانگے کی بہاروں کا
چُپ چاپ ہی رہنا ہے
درد جدائی کا
اس طور بھی سہنا ہے
ہر رات محبت کے
دل کو سناتا ہوں
نغمات محبت کے
اک حشر بپا ہو گا
تم سے بچھڑ کر تو
جینا بھی سزا ہو گا
سولی پہ لٹکا ہے
حُسن کی بستی میں
پہ عشق جو بھٹکا ہے
اِظہار کیا تم نے
ہم سے محبت کا
اقرار کیا تم نے
دکھ کیون نہ گہرا ہو
من کی نگریا میں
جب درد کا صحرا ہو
دکھ اس نے اٹھایا ہے
آس کے پنچھی کو
جِس نے بھی اُڑایا ہے
جب ہوتی ہے تنہائی
دل میں بجتی ہے
یادوں کی شہنائی
اس جاں پہ عذاب آیا
زیست ہوئی مشکل
جب تم پہ شبا ب آیا
کیا خوب وہ لمحہ تھا
جھیل سی آنکھوں میں
جِس وقت وہ ڈوبا تھا
کب دنیا داری ہے
دل اور جاں بابرؔ
اس پر جو واری ہے
مت دیکھ لکیروں کو
بدل سکا ہے کون
ایسے تقدیروں کو
زخموں کو ہرا رکھنا
نین کٹوروں کو
ہر وقت بھر رکھنا
گا پیار کی دھن ماہی
اپنی دھرتی ہے
دکھ سارے چُن ماہی
کب ان سے کہتے ہیں
اپنے حصے کا
دکھ خود ہی سہتے ہیں
ی کیون نہ کہا جائے
تیرے بنا ساجن!
مجھ سے نہ رہا جائے
آنکھوں کا فسوں تیرا
چھین کے لے جائے
اس دل کا سکوں میرا
جینے کا سہارا ہے
تیری رفاقت میں
جو وقت گزارا ہے
ہم جان بھی واریں گے
زُلف محبت کی
اے دوست سنواریں گے
بچھڑے جو مل جائیں
دل کے کنول سارے
یکدم ہی کھل جائیں
گو چاند سے مکھڑے ہیں
دل میں مگر ان کے
کتنے ہی دکھڑے ہیں
موسم یہ گلابوں کا
تیری جدائی میں
ہوتا ہے عذابوں کا
اس دل کے دلاسے کو
وصل کا شربت دے
اک پیار کے پیاسے کو
تو میرا ستار اہے
تیری جدائی کب
اس دل کو گوارا ہے
٭٭٭
اسلوب نکھارا جائے
تیری شباہت کو
کاغذ پہ اتار اجائے
٭٭٭
من پنچھی چہکتا ہے
پھول محبت کا
جس وقت مہکتا ہے
٭٭٭
اک دشت میں لاچھوڑا
پیار کی منزل پہ
تونے جو منہ موڑا
٭٭٭
اعلان کرو ناں تم
دل کا ہمیں بابرؔ
مہمان کرو ناں تم
٭٭٭
ہر اک دعا یارو!
دل سے نکلے جو
سنتا ہے خدا یارو!
کچھ دل کے اشارے پر
پیار کی ناؤ اب
اللہ کے سہارے پر
٭٭٭
دِلکش سا پھندا ہے
پیار محبت بھی
بیکار سا دھندا ہے
٭٭٭
انساں کو پٹختی ہیں
دل کے صحر امیں
جب یادیں بھٹکتی ہیں
٭٭٭
پھر خود پہ ملال آیا
ان سے محبت کا
جب دل میں خیال آیا
٭٭٭
پھر جان کے لالے پڑے
دیکھ کے بابرؔ جی
گھر اس کے تالے پڑے
٭٭٭