مہر ماہ عمارہ کو سُوپ بنا کر پلا رہی تھی آج عمارہ کی طبیعت بھی پہلے سے بہتر تھی کیونکہ اس کا لگاتار علاج کروارہی تھی معاویہ اپنی کزن سے جو کہ ڈاکٹر تھی نہیں تو اس سے پہلے وہ اکثر نشے کے روتی چلاتی تھی اور مہر ماہ کے لئے وہ وقت بہت پریشانی والا تھا کیونکہ اگر کسی وقت بھی شاہ ویز گھر آتا تو اس کی آواز سن کے سوال کرتا تب مہر ماہ کو پھر سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا آخر پہلا تھوڑا ذلیل ہو چکی تھی وہ مِیر شاہ ویز کے ہاتھوں مزید نہیں ہونا چاہتی تھی اسی لئے معاویہ سے بات کرکے جلد از جلد عمارہ کی بہتری کی کوشش کررہی تھی ویسے بھی وہ عمارہ کو اس حالت میں دیکھ تڑپ سی جاتی تھی آخر جو بھی تھا وہ اس کے چچا کی بیٹی تھی ۔۔۔
اک طرف جہاں وہ شاہ ویز کے گھر نہ آنے پر شکر کر رہی تھی دوسری طرف اس کے دل میں کہیں یہ سوچ کر تڑپ سی اٹھتی تھی کہ اس کا محبوب شوہر اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا شاید اسی لئے گھر نہیں آتا۔
مہر ماہ نے بھی سوچ لیا تھا کہ عمارہ کے بہتر ہوتے ہی وہ اس کو گھر بھیج کر خود کسی ہوسٹل میں چلی جائے گی اور چھوٹی موٹی جاب کر کے اپنا گزر بسر کرلے گی ۔۔۔۔وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ دروازے پر لگاتار ہونے والی دستک نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔
مہر ماہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے انسان کو دیکھ اس کے آنسو بہہ نکلے
سامنے اس کے ابو وقاص صاحب کھڑے تھے ۔
مہر ماہ اپنے ابو کو دیکھ کر اک دم آگے بڑھی ان کے گلے لگنے کے لئے اسی پل اس کے دماغ میں وہ سارا سین آگیا جب اس کے ابو نے اسے گھر سے نکالا تھا تبھی ڈر کے دو قدم پیچھے ہٹ گئی اس کی اس حرکت پر وقاص صاحب کا دل کٹ سا گیا اور انہوں نے آگے بڑھ کے اپنی دِلبر کو گلے لگا لیا اور پھر کتنی ہی دیر دونوں باپ بیٹی بے آواز روتے رہے مجھے معاف کردو میری لاڈو بیٹی میری دِلبر وقاص صاحب روتے بولے ۔۔۔
پلیز ابو مجھے گناہ گار نہ کریں مہر ماہ نے تڑپ کر کہا ۔۔۔
میں بہت برا باپ ہوں جس نے اپنی بیٹی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع تک نہ دیا اور گھر سے اک انجان انسان کے ساتھ بیاہ کر نکال دیا
وہ تو اللّہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ وہ اپنے ڈاکٹر صاحب کا بیٹا مِیر شاہ ویز ہے اور بہت شریف لڑکا ہے
نہیں تو کوئی اور ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہوتا میری دِلبر کے ساتھ ۔۔۔۔معاف کردو بیٹا نہیں تو مجھے اللّہ بھی معاف نہیں کرے گا وقاص صاحب کے رونے میں مزید تیزی آئی ۔
بس کریں ابو آپ میری جان ہیں میرا سایہ ہیں گھنے درخت کی طرح میں آپ کو کب کا معاف کر چکی اب آنسو صاف کریں اور چلیں اندر آئیں وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی ۔۔۔
مہر ماہ وقاص صاحب کو لے کر اپنے کمرے میں آئی اور ان سے ڈھیر ساری باتیں کی جو کرنے کو وہ ترس گئی تھی۔۔۔۔ اچھا بات بیٹا تمہارے ساس سسر آئے تھے انہوں نے مجھے تمہارا بتایا اور احساس دلایا کہ میں غلطی پر تھا انہوں نے ہی اجازت دی کہ تم کو اپنے ساتھ لے جاؤں ۔۔۔۔
وقاص صاحب کی بات پر مہر ماہ کے ذہن میں فورًا وہی بات آئی ۔۔۔ شکل نہ دکھانا کبھی مجھے اپنی
یعنی شاہ ویز نے اپنے پیرنٹس سے بھی بول دیا کہ وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتے
ٹھیک ہے اگر وہ رہنا نہیں چاہتے تو میں بھی زبردستی تو ان کا ساتھ نہیں مانگ سکتی میں بھی چلتی ہوں ابو کے ساتھ
پر اس سے پہلے مجھے عمارہ کو گھر بھیجنا ہوگا ۔۔۔باتوں باتوں میں وہ چائے بنانے کا بول کر کمرے سے باہر آئی اور معاویہ کو کال کر کے جلدی آنے کا بول کر چائے بنانے لگی جتنی دیر اس نے چائے بنا کے اپنے ابو کو دینے میں لگائی اُتنی دیر میں معاویہ نے آ کر اس کے موبائل پر مِس بیل کردی تبھی وہ سمجھ گئی کہ معاویہ آ گئی ہے اپنے ابو کے ساتھ باتیں کرتے کرتے بہانے سے مہر ماہ کمرے سے باہر آئی اور معاویہ کے لئے دروازہ کھولا ۔۔۔معاویہ عمارہ کو لے کر اس کے گھر چلی گئی کیونکہ اب عمارہ کی طبیعت بہت بہتر تھی ۔
ادھر مہر ماہ پھر سے اندر آئی اور وہی کپڑے الماری سے اٹھائے جو نکاح کے وقت پہلی بار پہن کر اس فلیٹ میں آئی تھی اور شاہ ویز کے دیے سارے کپڑے واپس الماری میں سلیقے سے رکھ کر ان پر تھینکس اتنی مہربانیوں کے لئے کی چِٹ رکھ کر اپنے ابو کے ساتھ اپنے میکے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِیر شاہ ویز دونوں ہاتھوں میں سر دیے بیٹھا تھا
نہ تو اس کا رات کا کھانا کھانے کو دل کیا تھا اور نہ ہی ٹھیک سے سو پارہا تھا اب بھی لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا آج بہت دن بعد وہ صوفے کی بجائے بیڈ پر لیٹا تھا جہاں ہر سُو اس معصوم لڑکی کی خوشبو تھی تکیے میں کمبل میں ہر طرف اس کی خوشبو تھی پر وہ خود نہیں آج وہاں مِیر شاہ ویز کو اس کی خوشبو اور معصومانہ غلطیوں نے تڑپا رکھا وہ اسے شدت سے یاد آرہی تھی
اتنا بے کرار وہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا جتنا آج اسے اک چھوٹی سی لڑکی نے کر دیا تھا ۔
کہاں ہو تم لوٹ آؤ خدارا لوٹ آؤ وہ خیالوں میں مہر ماہ سے بات کرتا کب سویا اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔ یہ محبت بھی کتنی عجیب ہوتی ہے محسوس نہ ہو عمریں بیت جاتیں ہیں ,,,اور تڑپانے پے آئے تو جان لیوا بن کے انسان کو مجنوں بنائے یا رانجھا شاید ایسی ہی ہوتی ہے سچی محبت محرم کی محبت خالص ملاوٹ سے پاک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صباء کی منگنی پر سب شیطاننیوں نے خوب موج مستی کی عمارہ اور مہر ماہ بھی اکٹھی تھیں ۔جہاں انہوں نے منگنی کی رسم کے بعد ۔۔ٹپّے گانے ڈھولک جانے کیا کیا مستیاں کیں اور جی بھر کے صباء کو چھیڑا ۔
دوسری طرف سمیرا موٹی امید سے ہو گئی تھی اور مزید موٹی بھی
اس نے موٹی نے دوست کی منگنی کی خوشی میں جو دھمال ڈالی وہ تعریف کے قابل تھی
رسم کے اختتام پر جب سب سہیلیاں صباء کے کمرے میں اکٹھی بیٹھیں تو عمارہ نے سب کے آگے ہاتھ جوڑ دیے ۔۔۔۔میں جانتی ہوں نہیں ہوں میں لائق معافی کے۔۔۔۔
پر امید کرتی تم سب اس عمارہ کو نہ سہی پر اپنی بچپن کی سہیلی عمو کو ضرور معاف کردو گی
اور مہر ماہ تمہیں تو میں بچپن سے بہت ستایا اور تمہارا دل دکھایا ہے نہ تم سے تو میں معافی مانگنے کے قابل بھی نہیں مجھے سزا ملے گی تم جیسی معصوم لڑکی کو ستانے کی بولتے ہوئے عمارہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی جسے آگے بڑھ کر مہر ماہ نے گلے لگا لیا اور باقی سب بھی اس کے ساتھ چپک گئیں ۔۔۔۔ارے پگلی تم تو میری بہن ہو اور بہنیں جتنا بھی لڑ لیں رہتیں تو بہنیں ہی ہیں بس اب رونا بند کرو ہم میں سے کوئی ناراض نہیں تم سے۔۔۔تم ہماری عمو تھی, ہو اور ہمیشہ رہو گی معاویہ کے مسکرا کر کہنے پر سب اک ساتھ مسکرا دیں اور مہر ماہ نے عمارہ کو دل سے معاف کردیا کیونکہ مہرماہ خود ایک نیک دل لڑکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان جب حد سے زیادہ گر کر کسی کو چوٹ پہنچاتا ہے تب یہ نہیں سوچتا کہ اک ذات اوپر بھی ہے جو سب دیکھ رہا ہے اور وقت آنے وہی ذات تمہیں تمہارے عمل کا بدلہ دگنا کر کے دے گی تب تم تڑپو گے روؤ گے پر کوئی مدد گار نہ ہوگا سوائے اس ذات کے
اور اللّہ پاک فرماتا ہے میں تجھے سب کی محبتیں دے کر آزماؤں گا اور آخر میں پوچھوں گا کون ہے تیرا میرے سوا؟؟؟
اللّہ نے مونا کو اولاد سمیت ہر نعمت سے نوازا تھا اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے ربّ کا ہر سانس کے ساتھ شکر ادا کر تیں الٹا انہوں نے غرور کرنا شروع کردیا حسد کی عادت بھی ان کو اک لاعلاج مرض کی طرح تھی جو دن بہ دن اس قدر بڑھتی گئی کہ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی اپنے جیسا بنا لیا اور وہی غرور اور حسد اپنے بچوں میں زہر کی طرح بھر دیا تھا مونا نے۔۔۔۔اسی لئے پہلے ان کی بیٹی حسد کی آگ میں جل کر بدلہ لینے کی چاہ میں خود ہی بربادی کے راستے پر چلی۔۔۔۔ پھر انہوں نے خود اپنی حسد کی عادت اور شیطانی ذہن کے ہاتھوں مجبور ہو کہ اپنے ہی گھر کی بیٹی کی عزت کا تماشہ لگا دیا ۔۔۔
انسان نے زمین پر جب جب خدا بننا چاہا تب تب خدا نے اس کو منہ کے بل گِرا کر بتا دیا کہ اللّہ ایک ہے اور ہماری سوچوں سے کہیں زیادہ عظیم بھی
اللّہ نے جہاں مونا کو مزید برائی سے روکنے کے لئے اس کی اپنی بیٹی کے ذریعے اسے آئینہ دکھایا۔۔۔ دوسری طرف اسی لڑکی کے ہاتھوں اس کی بیٹی کی عزت بچا کر اسے بتایا کہ وہ کتنا رحیم اور مہربان ہے ۔۔۔اور اس کو یہ بھی سبق دے دیا کے اچھے لوگوں کا اللّہ پاک کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے مونا نے جتنا مہرماہ کی زندگی کو جہنم بنانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ پر اللّہ نے اس کی زندگی میں اتنا ہی اچھا ساتھی لکھ دیا اور مونا کی ہر چال ناکام ہو کر اس پر ہی پڑ گئی اور اب وہ بھی جان گئی تھی کہ برے کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور سمجھ تو وہ یہ بھی گئیں تھیں کہ اگر اللّہ نے اس کی بیٹی کی عزت بچا کر اسے دوسرا موقع دیا ہے تو اب توبہ کر کے اپنے رب سے ۔۔۔ ان لوگوں کا جس کا اس نے آج تک دل توڑا تھا سب سے دل صاف کرکے معافی مانگ لے ۔۔۔اور اب وہ اپنے اس نیک عمل میں مزید دیر نہیں کرنا چاہتیں تھیں اسی لئے انہوں نے اب بڑھ چڑھ کر مہرماہ کی ولیمے کی تیاریوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا اور ہر کام میں خوش دلی سے آگے بڑھ کر سب کو حیران کر رہیں تھیں
آج بھی سب گھر والے اک ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب مونا نے سب سے پہلے اپنی جیٹھانی حرا کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے ان کا پاؤں کو چھو کر بولیں میں معافی کے قابل نہیں۔۔۔ جو سلوک میں نے شروع دن سے آپ کے ساتھ کیا اس کے بعد میں معافی تو کیا بات کرنے کے بھی لائق نہیں پر میں یہ بھی جانتی ہوں آپ کے رشتے کے ساتھ ساتھ آپ کا ظرف بھی بہت بڑا ہے معاف کردیں بھابھی مجھے اتنا کہہ کر انہوں نے پہلے جیٹھ پھر مہر ماہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر اپنی کئے گئے ہر ظلم کا اعتراف کرتے ہوئے گِڑ گِڑا کر معافی مانگی تو سب مہر ماہ اور اس کے پیرنٹس نے اسی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جو ان کی ذات کا حصہ تھی۔۔۔ اور انہیں معاف کر دیا ۔۔۔۔ مونا مہر ماہ کے آگے ہاتھ جوڑ کر جذبات میں شاید عمارہ پر بیتنے والا سارا واقعہ بھی بول جاتیں اگر مہر ماہ نے فورًا بات بدل کر ان کو روکا نہ ہوتا ۔۔۔چچی بس بس بسسسس چپ ہو جائیں صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔۔۔بس اب ہم میں سے کسی کو آ پ سے کوئی گِلا نہیں اس لئے پلیز خاموش ہو جائیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مونا کو چپ رہنے کا اشارہ کِیا۔۔۔
کیونکہ اگر آج جذبات میں مونا عمارہ کی آوارہ لڑکی سے دوستی اور پھر اک اوباش لڑکے کے ساتھ نشے کی حالت میں پائے جانے کا ذکر کر دیتی تو وقار صاحب جانے کیا کر بیٹھتے ۔۔۔
جب عمارہ کی عزت کو اللّہ نے بچا لیا تھا اور وہ راہِ راست پر آگئی تھی تو اس سے بہتر اور کیا تھا اس بات کو راز ہی رکھا جاتا یہ مہر ماہ کی سوچ تھی۔۔۔ عظیم سوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابے گدھے یاروں کو بتئے بغیر نکاح کرتے تجھے شرم نہ آئی مدثر آج عبید کی فل کلاس لینے کے مُوڈ میں تھا ۔۔۔ اور آج آ گیا منہ اٹھا کہ شادی سے دو دن پہلے کارڈ لے کر دفع ہوجا میں نہیں آؤں گا تیری شادی پر
بہت دن بعد تینوں اک ساتھ رات کے کھانے پر اکٹھے ہوئے تھے ۔۔۔
یار شاہ ویز نے بھی تو کیا تھا بنا بتائے نکاح اس کو تو تم نے کچھ نہیں کہا عبید منمنایا۔۔۔
کیونکہ اس نے مجبوری میں کیا تھا نکاح اک بے گناہ معصوم لڑکی کی عزت بچانے کے لئے اور تُو بے شرم رسموں وسموں کے ساتھ کر کے آیا ہے نکاح
اچھا چل معاف کردے شادی پر بھنگڑے ڈال کر کثر نکال لینا پر منع مت کر میرے دو ہی تو دوست ہیں اگر وہ بھی نہ آئے تو ۔۔۔۔
عبید نے اداس ہونے کا ڈرامہ کیا اور نرم دل سا مدثر فورًا مان بھی گیا چل اب بس کر آ جائیں گے منہ سیدھا کر بندر لگ رہا ہے پورا مدثر نے اسے ہنسانے کے لئے کہا تو دونوں کا قہقہہ اک ساتھ بلند ہوا ۔
ارے بھائی دیکھو اپنے لالے کو کیا ہوا عبید حیران سا تھا کیونکہ شاہ ویز ان کی کسی بات میں حصّہ نہیں لے رہا تھا ۔
لالہ کیا ہوا؟؟؟ اب کی بار مدثر بھی پریشان ہوا ۔۔۔
یار وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی میں نے اس انمول ہیرے کی قدر نہیں کی مجھے اک پل چین نہیں مل رہا شاید اپنے غصیلی عادت کی وجہ سے زیادہ ہی دل دُکھا دیا میں اس کا اسی لئے چلی گئی آج دل بہت اداس ہے شاید اس کا دل دکھانے کی سزا مجھے یہ ملی کہ مجھے اسی چشمش سے پیار ہوگیا اب اس کے بِن رہنا عذاب لگ رہا تم لوگ ہی بتاؤ میں کیا کروں مجھے اک پل سکون نہیں اس کے بِن۔۔۔
میرا دل نہیں مانتا میرےلالہ جی جو لڑکیوں سے شدید قسم کا چڑتے ہیں ان کو محبت ہو گئی مدثر نے شاہ ویز کو چھیڑا
اوہ ہ ہ بھائی نکاح کے رشتے میں اللّہ نے بہت طاقت رکھی ہے محبت کب ہوتی نکاح کے بعد یہ تو اللّہ ہی جانتا پر ہو جاتی ہے محبت اتنا پتہ مجھے اب مجھے ہی دیکھ لو اک بار ملاقات ہوئی نکاح کے بعد نہ کال پر بات پر پہلی نظر والی محبت تو اک طرف نکاح کے بعد والی روحانی محبت کا سرُور ہی الگ ہے عبید بات کرتا جانے کس دنیا میں کھو سا گیا
کچھ نہیں ہوتا لالہ تم اداس مت ہو اس گدھے کی شادی کے فورًا بعد ہم چلاتے ہیں کوئی چکر بھابھی کو واپس لانے کا مدثر نے مِیر شاہ ویز کو تسلی دی۔۔۔
ادھر شاہ ویز اور مہر ماہ دونوں یہ سمجھ رہے تھے اب وہ دونوں اک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔۔۔پر ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ ان کے گھر والے ان کے لئے سرپرائز ولیمہ تیار کئے بیٹھے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج معاویہ کی بارات تھی اس کی شیطاننیاں اسے بار بار چھیڑنے سے باز نہیں آرہی تھیں اور دبنگ سی معاویہ بھی آج چھوئی موئی بنی ان کی ہر بات پر شرما رہی تھی
تھوڑی دیر بعد ہال میں بارات آگئی بارات آگئی کا شور مچ گیا معاویہ تو پہلے سے پارلر سے تیار ہو کر آ چکی تھی ۔۔۔ سبھی شیطاننیاں بارات کا استقبال کرنے باہر بھاگیں بس عمارہ اور مہر ماہ ہی معاویہ کے پاس بیٹھیں تھیں۔۔۔
سبھی کے ہاتھوں میں پھولوں سے بھری
تھالیاں تھیں دلہا کو دیکھتے ہی سب نے پھول پھینکنے شروع کر دئیے۔۔۔ڈھیر ساری رسموں کے بعد دلہے کو ہال کے اندر آنے دیا لڑکیوں نے
کھانا کھانے کے بعد مِیر شاہ ویز ہاتھ دھونے واش روم کی طرف گیا تو لمبے کھلے بالوں والی لڑکی پہلے ہی وہاں ہاتھ دھو رہی تھی
کیونکہ شاہ ویز کی طرف اس کی بیک سائیڈ چہرہ نہیں اس لئے اس نے غور نہیں کیا پر جانے کیوں وہ لمبے بال اس کو جانے پہچانے لگے خیر لڑکی جب ہاتھ پیچھے مُڑی تو شاہ ویز کے ساتھ سامنے کھڑی مہر ماہ کی بھی سانس رُک گئی دونوں جانے کتنی دیر خاموشی کی زبان میں دل کا درد سناتے رہے اک دوسرے کو ۔۔۔
پھر جیسے ہی مہر ماہ اس کی نظروں کے حصار سے گھبرا کر نکلنے لگی تو پیچھے سے مِیر شاہ ویز خان کی
آواز آئی سنو۔۔۔۔
زا اوم تا سارا مینا کوم
اب اس پگلی کو کیا پتہ پشتو کا کھیل مین جو ڈائلاگ اس نے مِیر شاہ ویز سے ٹکرا کر مارا تھا وہ تو اس نے فیس بک سے دیکھا تھا اور شاہ ویز سمجھ بیٹھا کہ اس کو ساری پشتو آتی ہے ۔۔۔ وہ تو بیچاری پنجابی تھی پشتو نہیں آتی تھی اسکو۔۔۔
اور مہر ماہ جی ڈر گئیں کہ کہیں پشتو میں ڈانٹ تو نہیں پڑ رہی اور ڈر کر شاہ ویز سے کہہ کر بھاگ گئی اچھا سوری اب نہیں دکھاتی اپنی شکل وہ تو غلطی سے ٹکرا گئی تھی اور مِیر اس کی اک اور بونگی پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا
خیر رخصتی کا وقت آیا تو سب سہیلیاں پہلی بار اک دوجے کے گلے لگ کے خوب روئیں
روتی ہوئی مہر ماہ کو دیکھ کہ شاہ ویز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آگے بڑھ کہ اس کے آنسو پونچھ لے ۔۔۔
اور ادھر کوئی روتی ہوئی عمارہ کو دل دے بیٹھا تھا جس کی خبر کسی کو بھی نہ تھی۔
رخصت ہو کے معاویہ اپنے سجے سجائے کمرے میں بیٹھ تو تھوڑی دیر بعد اس ما دلہا بھی آ کر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا
اور دھیرے سے بولا ۔۔۔میں وی تیرا بن گیاں واں ہیریے
جس پر گھونگھٹ ہٹا کر معاویہ نے حیران ہو کر سامنے والے کو دیکھا جو اس کے سامنے بیٹھا شرارت سے مسکرا رہا تھا ۔
کءا ہوا اتنے گھور سے کیا دیکھ رہی ہو نظر لگاؤ گی کیا ؟؟؟ عبید کو پھر شرارت سوجھی۔
اس کی بات پر شرمندہ ہوتی معاویہ نے فورًا سر جھکا لیا اور اسے اب سمجھ آیا کہ کھیل میں جس سے ٹکرا کر وہ انجمن والا ڈائیلاگ مار آئی تھی وہ عبید ہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِیر شاہ ویز اداس بیٹھا تھا جب اس کے بابا کی کال آئی کہ گھر آؤ کچھ ضروری کام ہے تبھی وہ فلیٹ سے نکل کر گھر پہنچا تو اپنے گھر کو دلہن کی طرح سجا دیکھ کہ حیران رہ گیا خیر سر جھٹک کر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا تو اس کی امی اس کے لئے بہت پیارا بلیک کلر کا کرتا لئے کھڑیں تھیں۔۔۔ پکڑو اسے اور جلدی سے تیار ہو جاؤ وہ کچھ جلدی میں نظر آرہی تھیں ۔
پر جانا کہاں سے شاہ ویز نے الجھ کر سوال کِیا وہ تم کو پہنچ کر بتاؤں گی ابھی پانچ منٹ میں تم مجھے تیار ملو چلو جاؤ اپنے کمرے میں وہ تحکم بھرے لہجے میں بولیں تو شاہ ویز کو بات ماننی پڑی ۔۔۔
ادھر دو دن پہلے عمارہ اپنی فیشل کروانے کے بہانے مہر ماہ کو بھی کھینچ کے پارلر لے گئی تھی اور اس کا بھی زبر دستی فیشل اور مینی پیڈی کروا آئی تھی حالانکہ مہر ماہ کی دودھیا شفاف رنگت کو ان سب کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی عمارہ اپنے دل کے سارے ارمان پورے کرنا چاہتی تھی کزن کی شادی کے۔۔۔
یہ کہہ کر کہ دو دن بعد اس کی کسی خاص جاننے والی کا ولیمہ ہے وہاں تم بھی چلو گی اور مہر ماہ کے لاکھ لاکھ نہ نہ کرنے کے باوجود اس کے ایک دن پہلے بہت پیاری سی مہندی بھی لگادی تھی اور اگلے دن اسے زبر دستی بہت ہی پیارا لائٹ پنک کلر کا پرنسس فراک بھی پہنا دیا تھا مہر ماہ نے آج سے پہلے اتنا حسین اور مہنگا پرنسس فراک نہیں دیکھا تھا
یار کس کا ولیمہ ہے جس میں تم مجھے اتنا تیار کر کے لے جا رہی ہو اور یہ پرنسس فراک بہت مہنگی لگ رہی اتنے پیسے کہاں سے آئے تمہارے پاس مہر ماہ حیران ہوتی سوال پر سوال کر رہی تھی جبکہ عمارہ اس کی باتوں کو اگنور کر کے بس اسے اچھا سا تیار کرنے میں مصروف تھی اینڈ میں نازک سا ہیل والا جوتا پہنا کر وہ اسے تقریبًا کھنچتی ہوئی باہر تک لائی جہاں پہلے سے ساری فیملی ان کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
تبھی اسے کار میں بٹھا کر عمارہ خود بھی اس کے ساتھ چپک کے بیٹھ گئی۔
کوئی مجھے بتایا گا ہم کہاں جا رہے ہیں اس بار الجھنے کی باری مہر ماہ کی تھی ۔۔
بیٹا آپ اتنی پریشان کیوں ہو رہی بس کسی خاص کے ولیمے کی تقریب میں جا رہے ریلیکس دلبر بیٹا اس کے ابو وقاص صاحب نے کہا۔
ادھر تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے شاہ ویز نے بھی یہی سوال کِیا تو اس کے بابا نے بھی وہی جواب کسی اپنے کے ولیمے کی تقریب میں جا رہے ریلیکس دل بیٹا
دونوں گاڑیاں اک ساتھ اک دوسرے کے آمنے سامنے میرج ہال کے آگے رکیں تبھی دونوں اک ساتھ باہر نکلے اور ابھی وہ اک دوسرے کو دیکھ کر ٹھیک سے حیران بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان پر پھول بارش کی طرح برسنے لگے اُدھر چھپے مدثر اور عبید نکلے اور اِدھر معاویہ سمیرا اور صباء سب نے مل کر دلہا دلہن کو اک ساتھ کھڑا کیا اور مووی بننے لگی
ابے یہ کیا ہے مِیر شاہ ویز نے گھُوری ڈال کے مدثر سے پوچھا تیرے ویلمے کی تقریب اور کیا اس نے دائیں آنکھ دبا کر کہا تو شاہ ویز بھی کھِل اٹھا ۔۔۔
دوسری طرف مہر ما نے بھی اپنی شیطاننیوں سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب تب مہر ماہ مزید اداس ہوگئی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ شاہ ویز اس سے نفرت کرتا ہے
ولیمے کی رسم ہوئی تو شاہ ویز اور مہر ماہ کے فرینڈز کے خوب ہلہ گلہ کیا پھر جب مہر ماہ ہال سے اپنے گھر لوٹنے لگی تو اس کی ساس نے روک دیا اور کہا کہ اتنے دن اپنے میکے ہی رہ کر آئی ہے میری بہو اب ہمارے ساتھ بھیج دیں ویسے بھی کل ان دونوں کو ان کے بابا کل ناران کاغان بھیج رہے ہیں ہنی مون کے لئے وقاص صاحب اور حرا بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا جب ان کی بیٹی کو اتنا پیار کرنے والے لوگ مل رہے تھے سو انہوں نے بھی اجازت دے دی رخصت ہوتے ہوئے عمارہ کی آنکھیں بھر آئیں تو کوئی بہت قریب آ کر بولا آپ روتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں پلیز مسکرائیے نہ ۔۔۔عمارہ نے گردن گھما کر دیکھا تو ہینڈسم سا مدثر اسے ہی دیکھ رہا تھا تبھی شرما یا شاید گھبرا کر عمارہ نے نظر جھکا لی
خوب دھوم دھام سے بیگم چنگیز خان بہو کو گھر لائیں اور ڈھیر سارہ رسمیں کیں پھر بہت خوبصورتی سے سجائے گئے شاہ ویز کے کمرے میں بٹھا کر چلی گئیں جو کہ بس دو گھنٹے کے اندر اندر سجوایا تھا مدثر اور عبید نے ۔۔۔
گلاب کے پھولوں سے سجے کمرے کو دیکھ کر مہر ماہ کے جذبات دل چِیر کر باہر آنے کو تھے جب اس نے دل کو ڈپٹ کر خاموش کروایا اور کہا چپ کر اے دل وہ تجھے نہیں چاہتا جس کے لئے تُو مچلا جا رہا ہے
وہ یونہی اداس سی بیٹھی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز نے اسے سوچوں کے دائرے سے باہر کھینچ کر سیدھا ہو کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔
مِیر شاہ ویز دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا افففف یہ پرنسس فراک میں بیٹھی پرنسس کہیں جان ہی نہ لے لے میری اس نے دل میں سوچا اس سے پہلے کے وہ کوئی بات کرتا مہر ماہ بول پڑی ۔۔۔۔
میں جانتی ہوں آپ دوبارہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے ضرور آپ کے گھر والوں کو میرے گھر والوں نے مجبور کیا ہوگا اور پھر آپ کو آپ کے گھر والوں نے مجبور کیا ہوگا پر آپ فکر نہ کریں میں جلد از جلد کچھ کرکے سب کو سمجھا دوں گی کہ ہمارا کوئی جوڑ نہیں بنتا اسی لئے آپ نے مجھے معاویہ کی شادی میں پشتو میں ڈانٹا تھا کیونکہ میں پھر اپنی بری سی شکل لے کے آپ کے سامنے آئی تھی ۔۔۔
میں خامیوں والی آپ خوبیوں کے سردار
وعدہ کرتی ہوں آپ کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی بلکہ صبح ہی سب سے بات کرکے چلی جاؤں گی ہمیشہ کے لئے آپکی زندگی سے وہ روانی سے اور جانے کیا کیا بول جاتی اگر مِیر شاہ ویز اسے ڈانٹ کر چپ نہ کرواتا ۔۔۔۔چپ بے وقوف لڑکی تمہیں کس نے کہا کہ میں نے پشتو میں ڈانٹا تھا اگر پشتو نہیں آتی تو اس دن کالج میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر پشتو میں جو کہہ کر گئی وہ کیا تھا ؟؟؟
اوہ تو میں آپ سے ٹکرائی تھی؟؟؟مہر ماہ کے معصومیت سے پوچھنے پر شاہ ویز کا سارا غصہ اُڑن چُھو ہوگیا ۔۔۔
سچی مجھے اس کا مطلب نہیں پتا فیس بک پر پڑھا وہ ہی بول دیا مجھے تو پشتو آتی بھی نہیں قسم سے مہر ماہ رو دینے کو تھی تبھی مِیر شاہ ویز نے آگے بڑھ کے اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پیالے کی صورت بھر کہ محبت سے دیکھ کر کہا پر مجھے تو پشتو کے ساتھ ساتھ پنجابی اور انگریزی بھی آتی ہے اور میں دل کی گہرائیوں سے کہتا ہوں ۔۔۔ زاتا سارا مینا کوم ۔۔۔آئی لو یو
مینوں تیرے نال پیار ہوگیا
جانتی ہو میری نظر اس گینگ پر شروع سے تھی پر جب میں جب غلط فہمی میں تم کو لے آیا تفتیش کے لئے تو بعد میں مجھے احساس ہوا کہ تم شریف گھر کی لڑکی کسی پریشانی میں نہ ہو میری وجہ سے ۔۔۔تبھی میں نے تمہارا پیچھا کیا اور تمہارے گھر کے باہر لگے تماشے اور تمہارے ابو کے آنسو ؤں کو دیکھ کر بنا سوچے سمجھے تم سے نکاح کر لیا پر اکثر تمہاری طرف سے ہونے والی غلطیوں سے میں چِڑ جاتا تھا اور جانے کیا کیا بول جاتا تھا پر جب کیس ختم ہونے کے بعد مجھے احساس ہونے لگا کہ کالج کے فن فئیر میں پیرٹ پرنسس فراک پہنے جو لڑکی پرفارم کر رہی تھی وہ کب کا میرا دل لے چکی اور مجھے پتا ہی نہ چلا اور اب وہ میری محرم بھی ہے تو میں جیسے اس دن اُڑ کر فلیٹ پر پہنچا پر تم نہیں تھی وہاں اور وہ چِٹ جس پر تم لکھ آئی تھی کہ مہربانیوں کا شکریہ تب مجھے لگا تم کو میں نےہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیا تمہاری قسم میں نے وہ دن بڑی تکلیف میں گزارے تمہاری یاد بہت تڑپاتی رہی ۔۔۔آج اگر تم مجھے لاکھ دعاؤں کے بعد مل ہی گئی ہو تو یہ سب کہہ کہ میرا دل نہ توڑو پلیز میں اپنے تمام برے رویوں کی معافی مانگ کر تم سے تمہارا ساتھ مانگتا ہوں کیا نِبھاؤ گی عمر بھر میرا ساتھ؟؟؟ شاہ ویز کے پوچھنے پر بلا ارادہ ہی مہر ماہ کی گردن ہاں میں ہل گئی ۔۔۔
ساتھ ہی کچھ اور یاد آنے پر بولی پر میری آنکھیں تبھی مِیر شاہ ویز نے اس کا چشمہ اتار کر اس کی آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے یہ جھیل سی گہری آنکھیں چشمے سمیت مجھے اپنی گہرائیوں میں کب کا ڈبو چکی ہیں میری چِشمش سنو نہ تمہارے ابو تم کو دلبر کہتے ہیں نہ اور میرے بابا مجھے دل کہتے۔۔۔
تو آج چن لیا دل نے دلبر
اس نے مہر ماہ کی چھوٹی سی ناک دبا کر کہا تو مہر ماہ شرما کر رُخ موڑ گئی
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...