القمبوس پیدا ہواتواس کی گردن پر ہلکا سا سبز نشان تھا ۔نشان دوج کے چاند کی طرح باریک تھا ۔ شروع شروع میں کسی نے توجہ نہ دی کہ نشان کیسا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ پھیلتا گیا اور جب القمبوس کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو اس کی شکل تلوار سی ہوگئی۔ تب القمبوس کے باپ کو تجسس ہوا کہ یہ کس بات کی بشارت ہے ۔۔۔؟ وہ القمبوس کو لے کر ملنگ کے حضور میں پیش ہوا۔
ملنگ اپنے آستانے میں موجود تھا۔ اس کے مبتدی اس کو حلقے میں لیے بیٹھے تھے ۔ وہ انہیں ستارہ زحل کی بابت بتا رہا تھا کہ آتشیں برج میں مریخ اور زحل کا اتصال خانہ جنگی کی دلالت کرتاہے۔
ملنگ کے گیسو خالص اون کی مانند تھے اور آنکھیں روشن چراغوں کی طرح منور تھیں ۔ اس کی سبھی انگلیوں میں انگوٹھیاں تھیں جن میں نگ جڑے تھے۔ بائی کلائی میں تانبے کا کڑا تھا اور گلے میں عقیق کی مالاجس میں جگہ جگہ سنگ سلیمانی اور زبرجد پروئے ہوئے تھے۔ ملنگ کا چہرہ صیقل کیے ہوئے پیتل کی طرح دمک رہا تھا۔
القمبوس کے باپ نے جھک کر ملنگ کو کورنش بجا لایا اور فرش پر ایک طرف دو زانو ہوگیا۔اسی پل ایک نوجوان کا وہاں گزر ہوا ۔ اس کا گریبان چاک تھا ۔ آنکھیں چشم خانوں میں دھنسی ہوئی تھیں۔ چہرے پر بیابان کا سنّاٹا تھا ۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر ملنگ کی قدم بوسی کی اور عرض کیا:
’’یا ملنگ! ایک سوال ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’کیسا سوال۔۔۔۔؟‘‘
’’میری زوجہ مجھ سے الگ کردی گئی ۔ وہ مجھے کب ملے گی۔۔۔؟‘‘ اسی اثنا ملنگ کی بیوی نے کنڈی کھٹکھٹائی اور کواڑ کی اوٹ سے جھانک کر بولی:
’’ڈول کنویں میں گر گئی ہے جھگڑ نہیں ہے۔۔۔۔۔‘‘
ملنگ آہستہ سے مسکرایا۔ اس کے لب ہلے۔
ادنا سے ادنا واقعہ بھی ستاروں کے زیر اثر ہوتا ہے۔ مستقبل کے اشارے لمحۂ موجود میں چھپے ہوتے ہیں ۔ نوجوان کا سوال اور ڈول کا گرنا دونوں کی ساعت ایک ہے۔ بتاؤ یہ کیسا شگون ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’کنویں میں ڈول کا گرنا ناکامی کی علامت ہے۔ نوجوان کو زوجہ نہیں ملے گی۔۔۔۔۔‘‘
ملنگ مسکرایا۔
’’زوجہ چل چکی ۔۔۔۔۔دونو ںپہلو بہ پہلو ہوں گے۔‘‘
’’یا ملنگ وہ کیسے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کنویں میں پانی کنبہ کی مثال ہے ۔ رسی باہر کی طاقت ہے جو ڈول کی مدد سے پانی کو کنویں سے الگ کرتی ہے ۔ رسی ٹوٹ گئی۔۔۔۔ڈول گرگئی۔۔۔۔اب علیحدہ کرنے والی طاقتیں کام نہیں کررہی ہیں ۔۔۔۔۔زوجہ وہاں سے چل چکی!‘‘
ملنگ کی نظر القمبوس کے باپ پر پڑی ۔ ملنگ نے اس کا مدعا پوچھا۔ اس نے بچے کو آگے بڑھایا ۔
’’یا ملنگ! اس کی گردن پر ایک نشان ہے۔۔۔۔۔‘‘
ملنگ نے نشان کو غور سے دیکھا اور اس کا فرقہ اور تاریخ پیدائش دریافت کی۔ القمبوس کے باپ نے بتایا کہ صبح صادق کا وقت تھا ۔ اس دن ملک آزاد ہوا تھا اور یہ کہ وہ اقلیتی فرقے سے ہے۔
ملنگ کچھ دیر خاموش رہا ۔ پھر اس کے لب ہلے ۔’’امیر سلطنت کی کرسی کا پایہ اس کی گردن پر ٹکے گا۔۔۔۔۔‘‘
عین اسی وقت امیر عسطیہ داخل ہوا۔ ملنگ امیر کے ساتھ تخلیے میں چلا گیا۔
ملنگ کی باتوں سے عسطیہ اداس ہوا ۔ جس بات کا خدشہ تھا ملنگ نے وہی پیشن گوئی کی ۔
زائچہ میں شمس و زحل دونوں مائل بہ زوال تھے۔ مشتری برج جدی میں تھا ۔ عطارد اور زہرہ کا برج عقرب میں اتصال تھا ۔ ملن نے بتایا کہ مریخ جب سرطان سے گذرے گا تو اس کے تاریک دن شروع ہوں گے۔ مریخ برج ثور میں تھا اور سرطان تک آنے میں چالیس دن باقی تھے ۔ عسطیہ کی نظر تخت جمہوریہ پر تھی۔ چالیس دن بعد امیر کا انتخاب ہونا تھا ۔ عسطیہ کو فکر دامن گیر ہوئی۔
ملنگ نے مشورہ دیا کہ ستاروں کی تسخیر کے لیے وہ مقدس کی تعمیر کرے۔ بخور جلائے اور ورد کرے تاکہ اقدار کی دیوی وہاں سکونت کر سکے۔
مشتری کی ساعت میں مقدس کی تعمیر شروع ہوئی۔
بیضوی شکل میں صحن کی گھیرا بندی کی گئی جس کا قطر جنوب شمال سمت میں ستّر ہاتھ تھا اور مغرب مشرق سمت میں پچاس ہاتھ تھا۔ صحن کے کنارے کنارے بارہ برجوں کی تعمیر ہوئی ۔چاند کی اٹھائیس منزلوں کے لیے برجوں میں اٹھائیس خانے بنائے گئے۔ صحن کے بیچوں بیچ شمس کے لیے ایک ستون بنایا گیا جس کی اونچائی سات ہاتھ رکھی گئی۔ ستوں کے گردا گرد قمر، زہرہ ،عطارد، مریخ، مشتری اور زحل کے لئے ایک ایک ستون کی تعمیر ہوئی ۔ جس کی اونچائی پانچ ہاتھ رکھی گئی ۔ زہرہ کا ستون برج ثور ر میزان کے بیچوں بیچ عطارد کا جواز اور سنبلہ کے بیچ مریخ کا ، حمل اور عقرب کے بیچ ، مشتری کا ، قوس اور حوت کے بیچ، زحل کا جدی اور دلو کے بیچ، قمر کا ستون برج سرطان کے مقابل رکھا گیا ۔ شمس کے ستون کو نارنجی رنگ سے ، قمر کے ستون کو زعفرانی رنگ سے ، زہرہ کے ستون کو سفید رنگ سے، عطارد کے ستون کو سبز رنگ سے ، مریخ کے ستون کو سرخ رنگ سے ، مشتری کے ستون کو چمپئی رنگ سے اور زحل کے ستون کو سیاہ رنگ سے رنگا گیا۔ صحن کے چاروں طرف قناتیں لگائی گئیں ۔ راہو اور کیتو کے لیے دو گڈھے کھودے گئے۔ ایک زحل کے ستون کے قریب اور دوسرا مریخ کے ستون کے قریب ۔ برج کوروشن کرنے کے لیے تانبے کا شمع دان بنایا گیا ۔ شمع دان کا پایہ اور ڈنڈی گھڑ کر بنائے گئے۔ شمع دان کے پہلو سے سات شاخیں نکالی گئی۔ ہر شاخ پر ایک پیالی گھڑ کر بنائی گئی ۔ ورد کے لیے صحن کے بیچوں بیچ شمس کے ستون کے قریب ایک مسکن بنایا گیا جس کی لمبائی چار ہاتھ اور چوڑائی تین ہاتھ تھی۔مسکن میں شیشم کی لکڑی کے تختے لگائے گئے۔ مسکن سے دس ہاتھ ہٹ کر قربان گاہ بنائی گئی جس کی لمبائی دس ہاتھ اور چوڑائی آٹھ ہاتھ تھی۔ قربان گاہ کی اونچائی ڈھائی ہاتھ رکھی گئی۔ اس کے چاروں خانے پر سینگ اور ترشول بنائے گئے جسے چاندی سے مڑھا گیا۔
ورد پر بیٹھنے کے لیے ملنگ نے ایک لمبا سا جبّہ سلوایا جو کپڑے کے ایک ہی ٹکڑے سے بنا تھا ۔دامن کے گھیرے میں زرد ریشم کے کنول کے پھول کاڑھے گئے ۔ چالیسویں دن مقدس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
ملنگ نے بتایا کہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ امیر خود ورد کرے۔ ورد سے پہلے بخور جلائے اور شمع روشن کرے ۔ شمس ، قمر، عطارد،زہرہ، مشتری اور زحل کے ستون پر بالترتیب شمع روشن ہوگی۔ پہلے شمس کے ستون پر آخر میں زحل کے ستون پر۔ اقتدار کی ملکہ قربانی چاہتی ہے ۔ قربانی کی جنس کا سر راہو کے گڈھے میں اور دھڑ کیتو کے گڈھے میں دفن ہوگا اور قربانی کی ساعت مریخ کی ساعت ہوگی۔ عسطیہ نے صبح دم غسل کیا ، جبّہ پہنا، خوشبو لگائی اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ورد کرنے مسکن پر بیٹھا۔
ورد کے دوران جب مریخ کی ساعت شروع ہوئی تو القمبوس ایک میمنے کے پیچھے بھاگتا ہوا اچانک صحن میں آگیا۔ عسطیہ کی نظر القمبوس پر پڑی ۔ اس کی گردن پر تلوار کا سبز نشان دھوپ میں شیشے کی طرح چمک رہا تھا ۔۔۔۔عسطیہ کے کانوں میں سر گوشی ہوئی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔
القمبوس دیر تک نہیں لوٹا تو باپ کو فکر لاحق ہوئی ۔ وہ اسے ڈھونڈنے باہر نکلا ۔ گلی گلی میں جھانکا ۔ہر در پر دستک دی ۔القمبوس کا کہیں پتا نہیں تھا ۔کسی نے بتایا کہ وہ میمنے کے پیچھے بھاگتا ہوا عسطیہ کی حویلی کی طرف گیا تھا۔ القمبوس کا باپ حویلی پہنچالیکن وہاں بھی مایوسی ہوئی ۔ وہ نامراد لوٹ رہا تھا تو اس کی نظر مقدس پیڑ پر پڑی ۔ اس نے دیکھا کہ تنے کے بیچوں بیچ خون کا ننھا سا قطرہ منجمد ہے جو دھوپ کی مری ہوئی روشنی میں سیاہی مائل ہوگیا ہے۔عسطیہ سلطنت جمہوریہ کا امیر منتخب ہوا۔
اس نے ایک اونچا سا تخت بنوایا ۔ اس کے بازو چاندی کے تھے ۔ پشت سونے کی ۔ تخت کا پایہ صحن کے مقدس پیڑ کے تنے کو کاٹ کر بنایا گیا۔
عسطیہ تخت پر بیٹھنے کو ہو اتو اس کی نظر پائے پر پڑی جس کے بیچوں بیچ ایک سرخ رنگ کا دھبہ گہرے زخم کی طرح موجود تھا ۔ عسطیہ کو دھبہ بدنما معلوم ہوا ۔ اس نے اس کو کھرچنا چاہا لیکن وہ کھرچتا تھا اور دھبہ نمودار ہو جاتا تھا ۔ عسطیہ نے غور سے دیکھا تو پائے کی شکل گردن نما نظر آئی اور دھبّے کے مقام سے خون رستا نظر آیا۔عسطیہ حیران تھا کہ یہ کس کی گردن تھی جس پر تخت جمہوریہ ٹکا ہوا تھا؟