(مشاعرہ: آزادی آزاد بن حیدر)
آج قافلہ حجاز میں، ایک حُسین تک نہیں
ظلم وجبر پہ کوئی، گِریہ وبین تک نہیں
مے کدہ دہر میں، ہیں کہاںولی
گرچہ ہیں، ضوفشاں ، ہیں کہاں ولی
گرچہ ہیں، ضوفشاں ، نقشِ حسین، ابن ِعلی
پر کون ہے، جو اب اُن کی پیروی کرے
سچ سُنے، اور حق وانصاف پہ رہے
ہر طرف رعونت واستبداد ہے
مظلو م پہ ہے جبر اور بیداد ہے
منبر ومحراب کی عظمت ہے پارہ پارہ
دولتِ انسانیت پہ، ہوس کا، ہے اجارہ
حرمتِ قرطاس وقلم یتیم ہوگئی
عظمتِ مردمومن کہیں پہ کھو گئیں
بکنے جھکنے والے، سروں کی بہتات ہے
مردِ حُر کہیں نہیں، شمراعلیٰ صفات ہے
قرباءِحُسین تو آہ وبُکا تک رہ گئی
اِک رسم بن گئی تعطیل رہ گئی
بھلا دیا سبھی نے ، درسِ حسین یوں
کہ کسی کے کان پہ،رینگتی نہیں ہے جوں
اب آتا نہیں نظر کہیں جذبہ حسین سا
مثلِ نجوم ومہر، جو آب دار تھے
شرفا میں جو بے شمار تھے، جو باکردار تھے
جو عظمتِ حسین کے طرف دار تھے
جو ظلم و جور سے، برسرِ پیکار تھے
وہ آج دربدر ہیں، مصیبت زدہ ہیں
پسِ دیوارِ زِنداں ہیں، بے آسرا ہیں
سنتا نہیں ہے کوئی ، حق وسچ کی صدا
ملت کی اصلاح کا ، کوئی سوچتا نہیں
ہر اک سوچتاہے، بس اپنی ہی ہو بھلا
کیوں آج ہم نے ،درسِ کربلا ،بھُلادیا
آدم نے حوا کو بھی تماشہ بنادیا
شیطاں کے مرتبے سے بھی خود کو گرالیا
ہر نقش زریں کو ذلت میں ڈھال کر
خود غرضی ونفرت کو، پہلو میں پال کر
ایثار حُر کو ہم نے فراموش کردیا
دندناتا پھر رہا ہے، اب یزید لعیں کا قافلہ
روہنگیا کے ظلم کی انتہا نہ پوچھیے
ہٹلر وشدّاد بھی شرمندہ اُس پہ ہے
کیوں آتی نہیں شرم تجھے، اے مسلم تو بتا
کیوں متحد نہیں ہے تو، کیوں بٹ گیا بھلا
کیا عظمتِ حُسین کو، تو مانتا نہیں
کیا صدائے کربلا، تجھے یاد اب نہیں
پیغام کربلا نے تو، عطا کیں تھیں عظمتیں
پیغام کربلا میں تو، جواں تھیں ہمتیں
پیغام کربلا سے تھیں، مسلم کو نسبتیں
فراموش کردیں کیوں، وہ سب حقیقتیں
غیرت وحق کے سپہ سالار کیا ہوئے
انصاف کے پیامبر ، مختار کیا ہوئے
صدق وا میں اُس عہد کے سردار، کیا ہوئے
انسانیت کے مونس وغم خوار، کیا ہوئے
جن کے لہو سے، حق تھا ضُو بار کیا ہوئے
کیوں قافلہ حجازمیں اِک حسین تک نہیں
وہ صاحبِ حق، صاحب پندار، اب کہاں
تمازتوں میں جو تھے اشجار، اب کہاں
قربانیوں کے مسلم میں، آثار اب کہاں
علم وعمل میں جو تھے ، صاحب گفتار اب کہاں
وہ شرف وعجز ، وہ صاحب کردار ،ا ب کہاں
اب جذبہ حسین، کیوں آتا نہیں نظر
اس عہد میں بکھرے ہوئے ہیں،ہر سُوفتنہ وشر
پیغام محمدﷺ بھی ہوا آج بے اثر
مظلوم کی کوئی لیتا نہیں خبر
انسان میں شعور ،جگاتی ہے کربلا
ہرسنگ دل کو انساں بناتی ہے کربلا
آداب زندگی کے سکھاتی ہے کربلا
رستہ صداقتوں کا دکھاتی ہے کربلا
کیوں آج قافلہ حجاز میں، رُوحِ کربلانہیں
کیوں آج بھول بیٹھے ہم، وہ عمل حُسین سا نہیں
کیوں آج ہر جانب ہے، وحشت و بلا
مسلم کی سرزمیں پہ، مسلم کا قتلِ عام ہے
برما،عراق اوفلسطیں، شام وکشمیر میں
کیوں منظرِ موت ودُشنام ہے
کیوں شمرِ لعین کا آج،اونچا نام ہے
کیوں افغان وپاکستان کو
دہشت ووحشت بنادیا
کیوں مسلم نے ہی، مسلم کو دشمن بنالیا
گرچہ تابدارہے، اب بھی حق کاراستہ
گودجلہ وفرات بھی ہے مثلِ کربلا
گو قرطاسِ کائنات پہ کاتب نے لکھ دیا
حق عبودیت کا ادا جس نے برملا کیا
نام حسین جس نے بھی ،سر بسر لیا
وہ حق کے راستے پہ،سدا چلتا ہی رہا
بس دجلہ وفُرات کی فضیلت کو جانیے
قربانیِ حسین کی عظمت پہچانیے
نواسہ رسول کی چاہت کو مانیے
باطل کی گام گام پہ تردید کیجیے
ہر نسلِ نو کو، آپ بھی تاکیدکیجیے
صدق وحق کی، آپ بھی تمہید کیجیے
ہر تیرگی کے واسطے، خورشید کیجیے
بے شک ظلم وستم پہ روئیے، بین کیجیے
لیکن جو درسِ حق ہے وہ جان لیجیے
المختصر حسین کی تقلید ہواگر
ہرقدم پائیں گے پھر ، روشن تریں بشر
گرتا بدار رکھنا ہے، گیسوئے دجلہ وفرات
قافلہ حجاز میں، پیدا حُسین کیجیے
بس مثلِ حسین سے ہی ، درسِ حسین لیجیے
٭٭٭