علامہ اقبالؒ کے کلام میں جگہ جگہ ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن پوری عالمِ انسانیت کی اصلاح کے لیے نازل ہوا تھا اور اس نے دیکھتی آنکھوں دنیا کی کا یا پلٹ دی۔ قرآنکسی خاص قوم ، ملک یا نسل کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ عالم انسانیت کے لیے ہدایت ابدی ہے، جس کا صاف اظہار قرآنی الفاظ ’’ھُو الناس ‘‘ اور ’’یَا اَیُّھاَ النَّاس‘‘میں ہوتا ہے اور ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ تمام انسان آدم کی نسل ہیں اور سب کی روح کا منبع ایک ہے، یعنی سب کے سب ایک ہی سرچشمۂ حیات سے روحانی طور پر منسلک ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کا موضوع ہی انسانیت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قرآن کے سارے مضامین ، قوانین ، احکامات ، ممنُوعات ، تذکرئہ اقوام سابقہ ، غرضیکہ تمام کے تمام جس ایک مرکز پر آکر منتج ہوتے ہیں وہ ہے تعمیر انسانیت ۔ قرآن پاک کی صرف ایک ہی آیت پر اگر آپ غور کریں تو قرآن کی عالمگیری (Universality)واضح ہو جاتی ہے۔ سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۸میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’(اے رسول ) آپ کہہ دیجئے کہ اے (دنیا بھر کے ) انسانو !میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا (پیغمبر ) ہوں جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔‘‘
پاکستان کے مشہور دانشور ، مفکر ، پروفیسر محمد منور جو بحر اقبالیات کے غواص ہیں اپنی کتاب بُرہانِ اقبال میں بعنوان جہانِ اقبال ، جہانِ قُرآن لکھتے ہیں :
’’یہ حکمت (حکمتِ قرآنی ) ہم سب کے لیے ہے۔ اس لیے کہ اصلِ آدم ایک ہے۔ مادی اعتبار سے بھی سب ایک مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور روحانی اعتبار سے بھی ایک ‘ کہ ایک ہی ’’نفخ روح‘‘ کے مالک ہیں۔‘‘منٹگمری واٹ لکھتے ہیں :
’’موجودہ دنیا مادی اعتبار سے ایک ہوچکی ہے ۔ اب وُہی مذہب باعث کشش ہوسکتا ہے جس کے پاس پوری دنیا کے لیے پیغام ہو۔ اگر ہم اسلام کو اس زاویہ نظر سے دیکھیں تو یہ ساری دنیا کا مذہب قرار پانے کے قابل ہے ۔‘‘
خُطبات اقبال کے مترجم سید نذیر نیازی نے تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے حاشیہ میں اس ضمن میں شیخ سعدی کے نہایت بامعنی دو اشعار لکھے ہیں جن میں وحدت انسانی کی بہترین مثال پیش کی گئی ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں ۔
’’بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
کہ در آفرنیش ز یک جوہر اند
چو عضوے بدرد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار‘‘
ترجمہ : بنی نوع انسان باہم ایک دوسرے کے اعضا ہیں۔ ان کی تخلیق ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو دوسرے اعضا بھی بے قرار ہو جاتے ہیں ۔
قرآن پاک کی سورۃ النساء کی پہلی آیت کے مطابق تمام انسانوں کونفسِ واحد سے پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال نے وحدتِ مبداء حیات پر اپنے مقالہ ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں بڑی بسیط فلسفیانہ تشریح کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قوموں کے اندر یہ احساس راسخ ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے کہ زندگی ایک وحدتِ نامیہ ہے۔ اس موضوع کا ایک اقتباس پیش ہے :
’’یوں بھی اس تصور کا نشوو نما اس امر پر موقوف ہے کہ اقوام و اُمم احوالِ عالم کی اصل رو میں داخل ہو جائیں۔ اسلامی فتوحات کی رفتار چونکہ بڑی تیز تھی اس لیے مسلمانوں کو یہ موقع جلد ہی میسر آگیا ۔اس میں کوئی شک نہیں اسلام سے بہت پہلے عیسائیت نے بھی انسان کو مساوات کا سبق دیا، لیکن یہ امر کہ نوع انسانی ایک جسم نامی ہے، مسیحی روما کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ فلنٹ (Flint) کہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ جو بات کسی عیسائی ، یا دولت رُوما کے کسی مصنف کے حق میں بالخصوص کہی جاسکتی ہے یہ کہ اس کے ذہن میں وحدتِ انسانی کا ایک مجرد تصور موجود تھا۔ مگر پھر رُومی عہد سے لے کر اب تک بھی تو صورت حالات کچھ ایسی ہے کہ یہ تصور یورپ کے دل و دماغ میں جاگزیں نہیں ہوسکا ۔ برعکس اس کے وطنی قومیّت کے نشوو نما سے جس کا سارا زور نام نہاد قومی خصائص پر ہے، وسیع انسانیت کا جو عنصر مغربی ادب اور فن میں کام کر رہا تھا برابر دب رہا ہے۔ لیکن اس سے کس قدر مختلف ہے عالم اسلام کی تاریخ! یہاں وحدتِ انسانی کا خیال نہ تو محض کوئی فلسفیانہ تصور تھا، نہ شاعرانہ خواب بلکہ روز مرہ زندگی کا ایک زندہ اور قائم عنصر جو چپکے چپکے اور غیر محسوس طریق پر اپنا کام کرتا رہا۔‘‘
اقبال لکھتے ہیں کہ پہلے عیسائیت نے بھی گو کہ مساوات کا سبق دیا مگر رومی دنیا یہ نہ سمجھ سکی کہ اس کا اظہار ریاست اور معاشرے میں کس طرح ہوگا لیکن مسلمانوں نے عملاً دنیا کو ایسا کرکے دکھا دیا ۔ اقبالؒ وحدت ِ مبداء حیات کو تعلیمات قرآن کا سنگ بنیاد بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رنگ و خون کا رشتہ زمین سے پیوستگی ہے۔ گویا یہ ایک قیدِ مقامی ہے۔ اپنے ایک خطبہ میں ، جس کا عنوان ہے الاجہتاد فی الاسلام اقبال فرماتے ہیں :
’’اتحادِ انسانی کے لیے کسی خالص نفسیاتی اساس کی جستجو جب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ نوعِ انسان ایک ہے اور اس کی زندگی کا مبداء اصلاً روحانی (ہے) پھر یہی ادراک ہے جس سے نئی نئی وفاداریوں کی تخلیق ہوتی ہے اور جس کی بدولت ہم ان کو رسوم و ظواہر کا سہارا لیے بغیر بھی قائم اور برقرار رکھ سکتے ہیں ۔‘‘
اقبالؒ نے ایک جگہ کچھ اس طرح کہا ہے کہ کسی نلکی میں سے پہلے ہوا نکال کر ہی اس میں دوسری ہوا داخل کی جاسکتی ہے۔ دین محمدیؐ کا ظہور اس وقت ہوا جبکہ دنیا کو نئی زندگی درکار تھی ۔ چار ہزار برس پہلے کی تہذیبوں کے آثار دنیا میں کہیں کہیں کھنڈرات کی شکل میں نظر آتے تھے۔ ایسے وقت میں انسانیت کو کسی ایسی تہذیب کی ضرورت تھی جو بھٹکتی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کرسکے۔ مَشیّتِ ایزدی نے اس کے لیے سر زمین عرب کا انتخاب کیا جو اس وقت یکسر کسی پرانی تہذیب کے اثر سے پاک تھی ۔ بقول اقبالؒ …… ’’یہ بھی ایک طبعی امر تھا کہ اسلام کا ظہور ایک ایسی سادہ مزاج قوم میں ہوتا جو قدیم تہذیبوں کے اثرات سے یکسر پاک اور ایک ایسی سر زمین میں آباد تھی جہان تین براعظم آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس نئی تہذیب نے اتحاد عالم کی بنا اصولِ توحید پر رکھی۔‘‘
اسلامی مساوات کے زَرّیں اصول ہی نے جمہوریت کو جنم دیا۔ وہ سلطانی جمہوریت ہی تھی جو مُحسنِ انسانیتؐ کے دورِ حکومت سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک جلوہ گر رہی ہے۔ البتہ وہ اس جمہوریت سے بالکل مختلف تھی جس کا بقول اقبال ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ ہے۔
فی زمانہ جمہوری ممالک میں زمامِ حکومت اہلِ ثروت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اہلِ اقتدار لوگوں کو زندگی کی تمام آسائشیں حکومت کے خزانے سے فراہم ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف اسلامی جمہوریت میں حکمران اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوںپر سرکاری خزانے کا پیسہ خرچ کرنا حرام سمجھتا ہے۔ اسلامی جمہوریت کے سب سے پہلے سربراہ رسول اکرم ؐ کے گھر اکثر کئی کئی روز تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ ان کی پیش کردہ جمہوری حکومت میںان کے بعد وہ وقت بھی آیا جب کہ لوگ پیسہ ہاتھ میں لیے پھرتے تھے تاکہ کسی غریب کی مدد کرسکیں، لیکن کوئی حاجت مند زکوٰۃ لینے والا انہیں نہیں ملتا تھا ۔ آج کے دور کی جمہوری حکومت کے لیے اقبال نے کہا تھا :
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے
اگر ہم قرآنی تعلیمات پر غور کریں تو انسان کو تول کر ہی اسکی قدر پہچانی جاسکتی ہے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کا تقویٰ انصاف کی ترازو پر تولا جاتا ہے اور دنیا میں بھی میزان انسانیت اس کی ترازو ہے ۔ اسی لیے اقبالؒ اپنے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ میرے دل میں انسانیت کے واسطے وہ جذبہ اور محبت پیدا کر دے کہ اگر تیرے اس چمن زار انسانی کے پھول کی ایک پتی کو بھی صدمہ پہنچے تو میری آنکھوں سے آنسو ٹپک جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے میرے مالک میری تمنا ہے کہ میرے دل میںانسانی ہمدردی کے سوا کوئی لگن باقی نہ رہے ۔ دراصل اقبال یہ دعا ہمیں سکھلا رہے ہیں کہ ہم اپنے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں اور ہمیشہ اپنے رب سے یہی دعا کریں کہ : ۔
صدمہ آجائے ہوا سے گُل کی پتّی کو اگر
اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
دل میں ہو سُوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر
شاہدِ قُدرت کا آئینہ ہو ، میرا دل نہ ہو
سر میں جُز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو
اقوامِ متحدہ کی موجود صورت گری، کارکردگی اور افادیت کے معیار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ چند بڑے اور طاقت ور ملکوں کی گرفت میں ہے ۔ اگر ان چند ممالک میں سے کسی مجوزہ قرار داد سے کسی ایک کے مفاد پر زک پڑتی ہے تو ایسی قرار داد پیش ہی نہیں ہوگی اور اگر دنیا کے دبائو میں آکر پیش کر بھی دی گئی تو فوراً ویٹو کر دی جائے گی ۔ اس سلسلے میں اقبالؒ بیسویں صدی کے شروع ہی میں کہہ گئے تھے کہ دنیا میں مختلف قوموں کے نمائندے جنیوا میں ایک جگہ جمع تو ہو جاتے ہیں لیکن قومتیوں کا تصور جو ان کے اپنے اپنے وطنوں کی زمین سے پیوستہ ہے، ان کو ذہنی طور پر یکجا نہیں ہونے دیتا، اور ان کی نگاہوں سے وحدتِ انسانی پوشیدہ رہتی ہے۔ اس لیے چھوٹے اور کمزور ممالک اقوام متحدہ کی افادیت سے محروم رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ (UNO) کی اصلاح کا راز علامہ اقبال کی مندرجہ ذیل نظم میں موجود ہے جو صرف تین اشعار پر مشتمل ہے :
مکہ اور جنیوا
اس دور میں اقوام کی صُحبت بھی ہُوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ مِلل حِکمتِ افرنگ کا مقصُود
اسلام کا مقصُود فقط مِلّت آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیّتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم!
بال جبریل میں اقبال کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’فرشتے آدم ؑ کو جنت سے رخصت کرتے ہیں ۔‘‘
اس نظم کے ذریعہ مجھے اپنی قوم کے تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم نوجوانوں کو انسانیت سے متعلق اقبال کا نظریہ بتلانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نو عمر اور نوخیز ذہنوں کو جلا بخشے گا اور انہیں معلوم ہوگا کہ بیسویں صدی کے اس آفاقی مفکر نے انسانی عظمت کو کیسے دل نشین انداز میں بیان کیا ہے۔
اس نظم میں صرف پانچ اشعار ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ آدم کی سرشت میں ایک عظیم اور گراں بہا جوہر ہے، جس کے ذریعے اس کے اوپر فطرت کے پوشیدہ اسرار منکشف ہوسکتے ہیں ۔ ان اشعار کے بعد ایک دوسری نظم ہے جس کا عنوان ہے’’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘
پہلی نظم میں جس انسانی صلاحیت کی نشاندہی کی گئی ہے دوسری نظم میں اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کا طریقہ اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل کے نکات مضمر ہیں۔ ملاحظہ ہو پہلی نظم :
’’فرشتے آدم ؑ کوجنت سے رخصت کرتے ہیں ‘‘
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
آدم کو دنیا کے لیے رخصت کرتے وقت فرشتے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے انسان! تیرے اندر اللہ نے ایسی سیمابی صفت رکھ دی ہے جو تجھے دنیا میں بے چین کئے رکھے گی ۔ یوں لگتا ہے کہ تو مٹی سے نہیں بلکہ پارے سے بنایا گیا ہے …
سنا ہے ، خاک سے تیری نمود ہے لیکن
تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی
اللہ تعالیٰ نے بظاہر تجھے مٹی سے بنایا ہے لیکن تیری سرشت کی تعمیر میں ایسی صفات شامل کر دی ہیں کہ تو آفاقی مخلوق نظر آتا ہے ۔ ہم تیرے اندر ستاروں کی چمک اور چاند کا نور دیکھتے ہیں ۔
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تُو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
تو اگر اپنا حُسن خواب میں دیکھ لے تو خود حیران ہوگا کہ تیری کھلی آنکھ عالم بیداری میں بھی وہ حُسن نہ دیکھے گی، جس کا نظارہ تو عالم خواب میں کرے گا۔ یہاں یہ نکتہ بیان کیا گیا کہ انسان کی کھلی آنکھیں اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیاں نہیں دیکھ پاتیں، لیکن بعض اللہ کے بندے عالم بیداری میں حُسنِ فِطرت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور عالم رویا میں بھی ( ان کی مادی آنکھیں سوئی ہوتی ہیں)ان پر اسرار خداوندی منکشف ہوا کرتے ہیں ۔
فرشتہ کہتا ہے کہ حقیقتاً …
گراں بہا ہے ترا گریۂ سحرگاہی
اسی سے ہے ترے نخلِ کُہن کی شادابی
وہ کہتا ہے کہ اللہ نے تجھے تڑپ اور آہِ سحر گاہی جیسی نعمتوں سے نوازا ہے اور یہی وہ جوہر ہے جو تجھے کبھی عطار ، کبھی رومی ، اور کبھی منصور بنائے گا …… اور ……
تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ظہور
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مِضرابی
اس نظم کا آخری شعر حاصلِ نظم ہے ، اتنا خوبصورت اور بلندی فکر لیے ہوئے کہ پڑھ کر انسان بے خود ہو جاتا ہے اور جُھوم اٹھتا ہے۔ اس شعر کی اثر آفرینی بتاتی ہے کہ یہ بات یا تو کوئی فرشتہ کہہ سکتا ہے یا یہ ایک الہام ہے جو اقبال کی زبان سے ادا ہوا ہے۔
اس شعر میں جنّت سے رُخصت کرتے وقت فرشتے آدم سے کہتے ہیں کہ اے انسان! اللہ نے تجھے دل بے تاب اور سیمابی سرشت کے علاوہ ایک گراں بہا لُطق عطا کیا ہے تاکہ دنیا میں جا کر تیری آواز قدرت کے پوشیدہ راز کھولے، اللہ نے تجھے ایسا ساز بنایا ہے جس کی مِضراب دستِ قدرت میں ہے یہی وجہ ہے کہ تیرے نغمے شجرِنَوعِ انسانی کو سیراب کریں گے اور زندگی کے پوشیدہ راز تیرے وجود سے منکشف ہوں گے۔
اقبال جاوید نامہ میں کہتے ہیں :
آدمیت احترام آدمی
با خبر شو از مقام آدمی
ترجمہ : انسان کا احترام کرنا اور اس کے مقام و مرتبے کو جاننا ہی انسانیت ہے، لہٰذا انسان کو اپنے مقام اور مرتبے سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے ۔
اس شعر میں اقبال نے خود را بشناس یعنی خُودی کا درس دیا ہے ۔
مندرجہ ذیل بالا نظم کے بعد دیکھئے کس طرح جنّت سے رخصت ہونے کے بعد زمین پر ’’روح ِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘زمین کہتی ہے :
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوئہ بے پردہ کو پردوں میں چُھپا دیکھ
ایّامِ جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
جس طرح ہم کسی نئے گھر میں جائیں تو گھر کی ہر چیز دیکھنے کا اشتیاق ہوتا ہے اور اہلِ خانہ بھی گھر اور اپنے گھر کی خاص خاص اشیاء ہمیں دکھاتے ہیں ۔ اسی طرح زمین، آدم سے کہتی ہے کہ تو اس دنیا میں آیا ہے تو خالقِ کائنات کی صنّاعی کا مطالعہ کر ، دیکھ تیرے پائوں تلے زمین ہے، اور ذرا اوپر نظر کر اور آسمان بھی دیکھ، اور یہ بھی دیکھ کہ درمیان میں ایک فضائے بسیط پھیلی ہوئی ہے، دیکھ سورج مشرق سے طلوع ہو کر تجھے کیا پیغام دے رہا ہے ۔ تیرے خالق اور محبوبِ حقیقی کی یہ واضح نشانیاں ہیں ، تو جس کی جدائی کے لیے غمگین ہے اس کا جلوہ ہر چہار سو ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کی جدائی کا غم تیرے لیے تکلیف دہ ہے لیکن میرا مشورہ ہے کہ تو اب اس دنیا میں آہی گیا ہے تو یہاں کی زندگی میں رنج و غم ، خوشی ، اُمید و بیم ، وغیرہ جو کہ دنیوی زندگی کا حِصّہ ہیں ، ان سے دل برداشتہ نہ ہو ۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ :
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ!
اے انسان !تجھے اللہ نے اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیجا ہے ، لہٰذا یہ بادل یہ گھٹائیں تیرے ہی لیے ہیں کہ یہ تیرے واسطے زمین کو سیراب کرکے تیری زندگی کے لیے رزق ، سبزہ زار اور چمن فراہم کرتی ہیں۔ یہ خاموش فضائیں اور اجرامِ فلکی تجھے دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔ یہ سب بھی تیرے حیطہء تصرّف میں ہیں۔ تو جب عالمِ بالا میں رہتا تھا تو وہاں فرشتوں کے کارنامے دیکھ کر حیران ہوتا تھا ۔ وہاں دن ہوتا تھا اور نہ رات کا کوئی تصور تھا لیکن اس دنیا میں ہر دن کے بعد رات ہے اور ہر رات کے بعد ایک روشن دن نمودار ہوتا ہے ۔ یہ شب و روز اور ان میں رونما ہونے والے حوداث تیرے لیے آئینے کی مانند ہیں، تو ان میں اپنے ہر عمل کا عکس اور نتیجہ دیکھ سکتا ہے۔ کل تک تو فرشتوں کے عمل دیکھا کرتا تھا لیکن آج فرشتے اور سارا عالم تجھے دیکھ رہا ہے، زمانہ تیرے اشارئہ اَبرو کا منتظر ہے :
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثرِ آہِ رسا دیکھ
تجھے جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کی ہیں اگر تونے ان سے کام لیا تو یقین جان ’’یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔‘‘دنیا تیرے اشاروں پر چلے گی اور آسمان کے ستارے بھی تجھے حیرانی سے دیکھا کریں گے ۔ اللہ نے تجھے بے پایاں قوّتِ فکر کا مالِک بنایا ہے اور تیرے لیے ستاروں سے بھی آگے جہانوں تک رسائی ممکن ہے ۔ تیرا تخیّل ایک ناپیدا کنار سمندر ہے اور تو ایک ’’قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے۔‘‘ البتہ تجھے اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے اپنی خودی کی تعمیر کرنا ہوگی تُو دیکھے گا کہ تیرا نالہء بے باک کس طرح آسمان چیرتا ہوا نکل جاتا ہے۔
روحِ ارضی تجھ سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے ……
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوسِ نظر میں
جنّت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکر گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
تیرے اندر وہ چنگاری موجود ہے کہ جو شرار آرزو ہے، اس چنگاری سے آفتاب جیسی شعاعیں نکل رہی ہیں، جو تیرے لیے نئی دنیا آباد کر رہی ہے ۔ تو اپنی جنت کا آپ خالق ہے۔ جن کو جنت بنی بنائی مل گئی ہو جیسے فرشتے جو معصوم ہیں اور بخشے ہوئے ہیں، وہ تیرے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ تجھے اللہ نے وہ قوتیں عطا کی ہیں کہ تو اپنے خون ِ جگر سے اپنے لیے جنت پیدا کر سکتا ہے۔ تو کہ ایک خاک کا پتلا ہے لیکن تیری سخت کوشی اور عملِ پیہم اس دنیا میں جنتیں تخلیق کرے گے۔ اللہ نے ازل سے تیرے اندر یہ اوصاف رکھے ہیں کیو نکہ :
نالندہ ترے عُود کا ہر تار ازل سے
تُو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
تُو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خُوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ!
اے انسان تیرے ساز کے تاروں کی موسیقی ازل سے فضائوں میں گونج رہی ہے، تو محبتوں کا سوداگر ہے اور جب سے کائنات وجود میں آئی ہے تو قدرت کا راز داں رہا ہے، تو جفاکش ہے، اپنا خُون دے سکتا ہے لیکن کسی کا دل نہیں دکھا سکتا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تیرے یہی اوصاف ہیں جن کے ذریعے تو اس دنیا میں لوگوں کی تقدیریں بدل سکتا ہے ۔
اقبال نے ایک اور جگہ کیا خوب کہا ہے :
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی