اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال کو ترقی یافتہ و علمی دنیا میں ایک عظیم شاعر، فلاسفر، دینی ، سیاسی ، معاشی و معاشرتی رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی الہامی شاعری میں تمام عالمِ انسانیت کی فلاح اور سربلندی کا پیغام ہے۔ اگرچہ ان کے کلام میں اسلامیانِ عالم کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کی طرف جھکاؤ زیادہ نمایاں ہے۔ مگر اس میں مصلحت یہ ہے کہ آج کل کے مختلف باہم برسرِ پیکار نظام ہائے زندگی جو فکری، نسلی ،علاقائی و طبقاتی نفرتوں اور عداوتوں سے دنیا کو جہنم راز بنا رہے ہیں اور طالع پسند حکمران، با اثر سرمایہ دار و جاگیر دار نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں عام آدمی کی محنت و مشقت مکر و جبر کی چالوں سے استحصال کرکے انھیں مزید غربت، جہالت، بےچارگی اور ذلت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انھیں اسلام کے دئیے ہوئے جہانبانی ا ور معاشرے میں باہم ربط و ضبط کے احسن اصولوں کی روشنی میں مذکورہ بالا استحصالی طبقات کے علاوہ شدّت پسند اور تنگ نظر نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی متعصّبانہ سوچ اور معاشی و معاشرتی بدحالی اور جہالت سے آزادی دلا کر زندگی میں مثبت فکر و عمل کے ذریعے با وقار مقام دلایا جا سکے۔
اس ضمن میں اقبال کی مشہور نظم ‘‘خضرِ راہ’’ ذہن میں آتی ہے۔ جس میں اس نے غیبی رہنما حضرت خضر ؑ سے مکالمہ کی صورت میں چند نہایت اہم سوالات کے بارے میں وضاحت طلب کرنے کی غرض سے گفتگو کی ہے۔ (۱) زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ (۲) سلطنت کیا چیز ہے؟ (۳) سرمایہ داری اور محنت کیا ہیں؟ (۴) ان میں باہم آویزش اور تضاد کس وجہ سے ہے؟
اقبال معاشرے میں عالمی سطح پر خوشحالی، باہمی خلوص و محنت کا بے حد ممتنی ہے۔ اس نظم میں اس نے نہایت خوبصورت، دل نشین انداز میں رہبرِ جہاں حضڑت خضر ؓ سے مکالمہ کے انداز میں گہرے فکر و اضطراب میں غرق سحر انگیز منظر پیدا کرکے شام کے گہرے سکوت میں خاموش دریا کے کنارے اپنے دل میں تلاطم پیدا کرنے والے سوالات کا جواب دریافت کیا ہے۔اس نظم کا آغاز دیکھیے:
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب
شب و سکوت افزا ہوا آسودہ دریا نرم سیر
[ تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب
[
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار
موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضَو گرفتارِ طلسم ماہ تاب
شام کے گہرے سکوت کا یہ منظر دراصل اس دَور کے جمود کی غمازی کرتا ہے۔ جس کو توڑنے کے لیے اقبال کے دل میں اک جہانِ اضطراب ہے ایسے پر اسرار سکوت، خاموشی کے عالم اچانک پیکِ جہاں پیما: خضر ؓنمودار ہوتا ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضر
جسکی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل
چشمِ دل وا ہوا تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
خضر کی جواں صورت پیری اور عالمی حقائق سے آگاہ شخصیت سے اقبال عالم انسانی کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات سے زندگی کی حقیقت دنیا میں طرزِ حکومت سرمایہ اور محنت میں جنگ و جدل سے پیدا بےشمار مسائل جنھوں نے زندگی کو بھوک افلاس، جہالت، رنج و الم ظلم و استحصال کا عرصۂ کا راز دار بنا رکھا ہے۔ دُور کرکے ایک حسین پر امن اور پر مسرت جہاں کی صورت میں دیکھنا چاہتاہے چنانچہ سب سے پہلے خضر، اقبال کی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے اپنے موجودہونے کو ہی مثبت زندگی کی دلیل کے طور پر یوں پیش کرتا ہے۔
کیوں تعجب ہے مری صحرا نووردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل
پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی
ہے یہی اے بے خبر رازِ دوام زندگی
زندگی کے موضوع سخن کو مزید اُجاگر کرنے کے لیے خضر یوں خطاب کرتا ہے۔
بر تر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جادواں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی
زندگائی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
یہ گھڑے محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
صحیح زندگی گویا اقبال کے نزدیک ایک مسلسل عمل ، عرصۂ مبارزت، جدوجہد ، سوز و ساز، تب و تاب کشمکش روز و شب کا مرقع ہے۔ یعنی
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
سوا حیاتِ ذوق سفر کے کچھ اور نہیں
کاروانِ حیات ہر منزل کی طرف گامزن رہنا جس میں کوئی مستقل پڑاو نہیں ہے یہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ اقبال کا خضر سے دوسرا استفسار ہے کہ سلطنت کیا چیز ہے؟
دنیا میں معاشرتی زندگی کے آغاز سے آج تک کئی طرح کے نظامہائے حکومت رائج رہے ہیں۔ جن میں زیادہ معروف ملوکیت، فاشزم، ڈکٹیٹرشپ، سوشلزم ، کمیونزم وغیرہ ہیں۔ مگر ترجیع کے لیے تان آکر سرمایہ دارانہ نظامِ جمہوریت یا ڈیموز کریسی پر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب سے اعلی ٰ و ارفع اور مصنفانہ نظام حکومت ہے جس میں ہر شخص کو بذریعہ ووٹ حکومت میں شرکت کا حق دیا گیا ہے اور یہی نظام زیادہ تر اقبال کا ہدفِ تنقید ہے۔ ویسے تو اقبال کے نزدیک سب حکومتی نظاموں کی روح ایک جیسی ہے کہ جو بھی شخص یا گروہ یا خاندان برسر اقتدار ہو اس کا مقصد ہر حیلے سے اپنے اقتدار کو قائم رکھنا ہے جس کی حقیقت وہ خضر کی زبان سے اس طرح بیان کرتا ہے۔
آ بتاؤں تجھ کو رازِ آیۂ اِنّ الملوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
[ پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
[
جادؤے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
تاہم اقبال کو زندگی میں انگریزی جمہوری نظام سے واسطہ پڑا ہندوستان انگریزوں کا محکوم تھا مگرانھوں نے یہاں کے باشندوں کو جمہوری حکومت کے دلفریب ہتھکنڈوں میں الجھا دیا ہے جسے خضرنے یوں بیان کیا ہے۔
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیز از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبائیں پائے کوب
[ تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟
[
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِّ مغرب کے مزے میٹھے اثر خواب آفریں
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تُو؟
آہ اے نادان قفس کو آشیاں سمجھا ہے تُو
بندہ خدا یہ تاج برطانیہ کی تقویت کی خاطر دیے گئے قوانین اور رعایات و حقوق۔کی نیلم پری ہے۔ وہ جموریت نہیں جس نے مغرب کو کلیسا و شہنشاہ کے تسلط سے نکالا۔
ان اشعار میں جمہوری نظام کی پُر کشش اصلاحات سے ظاہر ہے جیسے کہ مجلسِ آئین، قانونی اصلاحات، رعایات ، حقوق مجالس کی گرم گفتاری آزادئ رائے کا حق الیکشں کی شعبدہ بازیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے غیر اخلاقی حربے الزام تراشیاں جس کا اقبال کو ذاتی طور پر ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن میں تجربہ ہو چکا ہے اور بھاری کامیابی کے باوجود انھوں نے آئندہ ہمیشہ کے لیے انتخاب لڑنے کو ترک کر دیا گویا یہ ایک ابلیسانہ نظام ہے اس کو انھوں نے ایک طنزیہ انداز نظم میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ابلیس کے پیروکاروں نے ایک دفعہ دیکھا کہ وہ بڑے مطمئن انداز میں فارغ بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا ہے پیروں کاروں نے پوچھا کہ کیا اس کا مشن دنیا میں برائیاں، فساد، جرائم وغیرہ پھیلانے کا پورا ہو گیا ہے؟ جس کے جواب میں ابلیس نے کہا اب اسے انگریزی پارلیمنٹ کے ارباب اختیار تم لوگوں سے بہتر انداز میں سر انجام دے رہے ہیں۔
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
اپنے ملک کا موجودہ جمہوری دور حکومت محض کھوکھلے نعرے ہیں۔ بنیادی ضرورت با کردار لوگوں کو بلا تفریق امیری یا غریبی کے منتخب کرنے کی ہے جو تنزلی کو ملحوظ رکھیں۔
چنانچہ یہ کہنا کہ مغربی جمہوری نظام سب سے بہترین ہے کہ اس میں سب کے مساویانہ حقوق ہیں سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔ اپنے ملک میں انتشار زدہ نا اہل سیاسی و حکومتی جماعتوں کی طرف سے ایک نعرے کی تکرار کی جاتی ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے جو قطعی غلط ہے یہ نعرہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے اور اپنے اقتدار یا آیندہ اقتدار کی خواہش پوری کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے کیا حضرت ابو بکر صدیق ؓاور حضرت عمر ؓاور حضرت عبدالعزیز عمر ثانی کا طرز حکومت جمہوری تھا ؟ تو کیا آمریت تھا؟ ان حکمرانوں کی کامرانی کی اصل وجہ اہلیّت دیانت عدل اوررض شناسی پر تھی جسے وہ بارامانت سمجھتے تھے ان کے اصحابِ شوریٰ کی بڑی اہمیت تھی جن کی دانش اور اصابت رائے مسلم تھی۔ موجودہ دور میں اقبال کے نزدیک بھی جمہوری نظام دوسرے کمتر نظاموں سے بہتر ہے مگر اس کی شرط ہے کہ نمائندگان صحیح نہایت قابل دیانتدار محنتی دوراندیش اور اپنے فرائض کو سمجھنے اور سر انجام دینے کے قابل ہوں اور سب سے زیادہ ضروری بات کہ نمائندگان عوام سے ہوں کہ نہ موروثی جاگیر دار سرمایہ دار خاندان سے ہوں اس حقیقت کو انھوں نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ
سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
موجودہ طرزِ حکومت ایسی فرسودہ لڑکھڑاتی ہوئی عمارت ہے جو اقبال کے نزدیک نقشِ کہن ہے اورگرائے جانے کے بعد نئی جدید عمارت انصاف وعدل و مساوات کے تقاضوں کو پورا کرنے والی ہووہ مولانا روم کی حکمت پر یقین رکھتے ہیں جن کے بارے میں یہ شعر ہے:
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آباداں کنند
می ندانی اول آں بنیاد درا ویراں کنند
مولانا روم کے قول کے مطابق موجودہ نظام حکومت فرسودہ متروک ہو چکا ہے ۔ یہ مغربی جمہوری نظام کی تقلید میں پسپا ہوتی سے درست نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لیے قرآن اور سنت کے اصولوں پر مبنی عادلانہ نظام کی ضرورت ہے۔ بقول اقبال:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اقبال نے اپنی شہرہ آفاق کتاب جاوید نامہ میں سید جمال الدین افغانی جنھیں وہ وقت کا مجدد مانتے ہیں کی زبانی فلک عطارد پر ملاقات کے دوران اسلامی حکومت کے خدوخال مندرجہ ذےل اشعار میں بیان کرتے ہیں :
بندۂ بے حق نیاز بر مقام
نے غلام اور نہ اونس را غلام
بندۂ حق مردم آزاد است و میس
ملک و آئینش خداداد است و بس
رسم و راہِ دین و آئینش ز حق
زشت وخوب و تلخ و نوشینش زحق
عقل خودبیں غافل از بہبود غیر
[ سُود خود بیند نبیند سُودِ غیر
وحئ حق بینندۂ سُودِ ہمہ
[ درّ نگاہش سُود و بہبود ہمہ
عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف
[[ وصل و فصلش لا پراعی لا یخاف
ان اشعار کا ترجمہ اس طرح سے ہے:
خلافت ِ اسلامی میں مردِ مومن مقام و مرتبہ کی قید سے آزاد ہوتا ہے نہ کسی کو غلام بناتا ہے نہ کسی غلام بنانے والے کا اقتدار تسلیم کرتا ہے۔ مرد مسلمان در حقیقیت آزاد زندگی گزارتا ہے۔ اسے عہد نامہ کہنا چاہیے۔حضورؐ نے یہود مدینہ سے مل کر بنایااسی لیے اس کا نام میثاق مدینہ پڑا۔ اس کا ملک بھی خداداد ہوتا ہے اور آئین بھی خداداد ہوتا ہےؤ اس کا دین آئین طور طریقےنیک و بد کے پیمانے سب خدا کے احکام کے تابع ہوتے ہیں وہ ہوس اور خود غرضی کی کثافتوں سے پاک ہوتا ہے کیونکہ ان مکروہات کی حامل عقل دوسروں کی بہتری اور حقوق و فرائض سے غافل رہتی ہے یہ خداوندی حکمت و ہدایت ہی ہے جو سب کا فائدہ دیکھتی ہےاور بھلا چاہتی ہے امن کی حالت ہو یا جنگ کا زمانہ وحئ الٰہی کی تابع حکومت عدل و انصاف قائم کرتی ہے اور اس کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ کسی سے بے جارعایت کرتی ہے۔ نہ طاغوطی عناصر سے ڈرتی ہے۔
سلطنت کے دلفریب عوامل کا پول کھلنے کے بعد اقبال نظم خضر ِ راہ میں سرمایہ داری کو ہدفِ مذمت بناتا ہے ۔ جس میں سرمایہ دار طرح طرح کے حیلوں ہتھکنڈوں سے مزدوروں کی جان توڑ محنت کا فائدہ خود اڑا لیتا ہے اور مزدوروں کو صرف اتنا حصہ دیتا ہے ۔ جس سے وہ تارِ حیات کو چلتا رکھے اور بُرے حال میں زندہ رہ کر سرمایہ دار کے لیے مزید دولت پیدا کرتا رہے ۔ اس بارے میں چند اشعار دیکھیے:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آہُو پر رہی صدیوں تلک تری برأت
دستِ دولت آفریں کو مزدوری یوں ملتی ہے
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوۃ
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خون چن چن کر بنائے مسکرات
مکر کی حالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اسلام میں خلافت کا تصور خلافت ادم اس کی مثال ہے اور اسی سے اصول و قواعد و شرائط مرتب ہوتے ہیں۔ حکومتِ الٰہی : نائبین حق کے اقتدار کا نام ہے جو یہودی تصورہے۔ اسلام اس کے خلاف آیا۔ جمہوریت تو جمہور کے اختیار کا نظام ہے جس کا جوڑ اسلام سے ہے سرمایہ داری سے نہیں۔ کمیونزم چند سرمایہ داروں کی بجائے ؟؟؟ لایا اور سب کو محرومی میں مساوات سے روکا۔
اقبال اپنے دور کے بڑے بڑے مفکروں سے ذہنی لحاظ سے زیادہ باخبر تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ غلام ہندوستان میں نفاذِ جمہوریت جس کا ماحصل چند سرمایہ داروں کے ذریعہ سلطنت برطانیہ کے تسلط کو استحکام بخشنا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا بدل ہے۔ ورنہ وہ جمہوریت کے زمانۂ عروج میں سرمایہ داری نظام کے خلاف محنت کش مزدووں کے استحصال کے متعلق اس طرح واشگاف آواز بلند نہ کرتا جس سے صنعتی انقلاب سے پیدا شدہ بہمیمانہ طلسم میں یورپ، ہندوستان بلکہ جہاں جہاں مغربی طاقتوں نے نو آبادیاتی تسلط جمایا ہوا تھا۔مزدوروں ، غریبوں ، مزارعوں میں مرد، عورتیں بوڑھے، بچے سرمایہ داروں کے ہاتھوں انسانیت کش ظلم کی وجہ سے سسک سسک کر جی رہے تھے اس بے بس مخلوق کے دکھوں ، ذلّتوں اور بیچارگی کا مداواکرنے اور رونے والا کوئی نہ تھا۔ نہ مذحب، نہ قانون، نہ اشرافیہ بالخر اس کا ردعمل اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جو کارل مارکس کے اقتصادی اور معاشی نظریے اور حصول حقوق کا لائحہ عمل تھا۔ اس منشور میں مذہب کی کوئی جگہ نہ تھی۔ جس نے ہمیشہ حکمران اور جابر طبقے کا ساتھ دیا اور مظلوموں کو تقدیر پر شاکر رہنے کی تلقین کی کہ دنیا میں دکھ ، تکلیفیں سہنے والوں کو اگلی زندگی میں اعلیٰ مدارج حاصل ہوں گے۔
علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے کلیسا کے حمایت یافتہ سرمایہ داری نظام کی تخریب کا کام نہایت کامیابی سے کیا جس نے سلطانی، جاگیرداری کلیسائی خواجگی کا خاتمہ کر دیا بلکہ اشتراکیت کے مساوات پر مبنی اصولوں کی اس نے یہاں تک تعریف کی اگر اشتراکیت میں الحاد نہ ہو لا کے بعد شامل کر دیا جائے تو یہ نظام اسلام کی شکل اختیار کر جات ہے مگر چونکہ الحاد صرف جسمانی فلاح پر زور دیتا ہے اور خدا کی ذات اور روحانی فلاح کا یکسر منکر ہے اور الحاد پر سختی سے کاربند ہے۔ اس لیے اقبال بغیر خدا کے صرف تن پرور معاشی نظام کو قبول نہ کر سکا تاہم اقبال اپنیمشہور نظم لینن ‘خدا کے حضور میں’ اسے خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے جو مذہب کلیسا کے امیر اور غریب کی قسمت کے تضاد کو الحاد اختیار کرنے کاعذر کرتا ہے۔ جسے چند اشعار میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اور آخر میں لینن کی زبان سے خدا سے غریبوں کے لیے اس طرح انصاف طلب کرتا ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات
روس میں راز شاہی اور کلیسا کے انسانیت کش گٹھ جوڑ کے خلاف کامیاب انقلاب لانے پر اقبال لینن کے کارنامے کو بنظر تحسین دیکھتا ہے اور شدید خواہش رکھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کو مٹا دیا جائے۔ تاکہ اس سے انسانیتِ عالم کو جبر و استبداد، استحصال، غلامی کی ذلّت و رسوائی سے نجات حاصل ہو وہ اپنی اس آرزو کو مندرجہ ذیل نظم ‘فرمان خدا’ جو ایک طرح سے ملوکیت، جاگیری داری اور فرسودہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ ہے اس میں خدا فرشتوں کو زمین پر ہونے والے مظالم کو مٹا دالنے کا حکم دیتا ہے۔
فرمان ِ خدا
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غریبوں کا لہو سوزِ یقین سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہین سے لڑا دو
سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل ہیں پردے
[ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے صنماں رابطوفے
بہتر ہے چراغِ حرم و دَیر بجھا دو
میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سِلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کارگہہ شیشہ گراں ہے
آداب جنون شاعرِ مشرق کا سکھا دو
یہ نظم ایک طرح سے اشتراکیت کا جامع منشور ہے۔ جو اشتراکی حُکّام ضرور اپنالیتے اگر نظم کا عنوان فرمانِ خدا فرشتوں سے، نہ کیا جاتا۔ کیونکہ اشتراکیت کے بانیوں نے کلیسائی رئیسوں کی بدولت خدا اور ماورائی نظریات پر پہلے ہی کلہاڑا چلاکر انھیں اشتراکی فلسفے سے نکال دیا ہے۔ کیونکہ مذہب کے ٹھیکداروں کو آلہ کار بنا کر ہی جابر مطلق العنان حکمران اور مقتدر طبقات عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے اور ان کی محنت سے پیدا شدہ دولت کو لوٹ لیتے تھے اور یہاں اشارۃً ذکر کرنا مناسب لگتا ہے کہ اس وقت اپنے ملک میں بھی سرمایہ دار اورمحنت کش طبقات افراط و تفریط کی ناہمواری کے مظہر ہیں۔ ایک طرف بڑے زمیندار ، جاگیردار، بیوروکریٹس، صعنت کار کی آٖدنی اوجِ ثریا تک پہنچی ہوئی ہے جس میں مزید کی خواہش رہتی ہے دوسری طرف مزدوروں کی آمدنی صرف سات ہزار مقرر ہے جو صنعتکاروں کے نزدیک زیادہ ہے کہ اس سے ان کے منافع میں کمی آتی ہے۔ اور اس مکروہ نظام کی حفاظت اسلام اسلام کو شور مچا کر امریکی سرمایہ دار مادیت کی حمایت کی جارہی ہے۔ جب کہ مفکر پاکستان اسے سرابِ رنگ و بُو اور قفس سے مُشابہ قرار دیتے ہیں۔اقبال نے ۱۹۲۶ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں منتخب ہونے پر اسمبلی میں پُر زور تقاریر سے واضع کیا کہ امیر غریب کی آمدنی میں فرق کم کرنا معاشرے کے استحکام اورملکی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے اگر اربابِ علم و اختیار نے جلدی توجہ نہ کی تو لینن کی طرح کوئی معاشی ظلم اور ناانصافی کے روزِ مکافات کے لیے ظہور پذیر ہو جائے گا۔ اہل خرد کی آگہی کے لیے اقبال کا یہ شعر پیشگی اطلاع کا حامل ہے:
فطرت افراد سے اغماز بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت قوموں کے گناہوں کو معاف
سرمایہ داری کے موضوع پر اقبال کے چند مزید اشعار درج ذیل ہیں :
ابھی تک آدمی صیدِ زبُونِ شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوعِ انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونین میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بزار ہے
کارخانے کا ہے مالک مردکِ نا کردہ کار
عیش کا پتلا ہے محنت ہے اسے ناسازگار
حکمِ حق ہے لَیسَ للاِنسان اِلاّ ما سعیٰ
کھائی کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
کیا یہ ملوکیت یا اشتراکیت کے حق میں ہے؟ نہیں یہ جمہوری نظام کے حق میں ہے جس کے سراسر اسلام ہونے کے لیے اقبال کے نزدیک کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔
اب دیکھیں زمین کی ملکیت کے بارے میں اقبال کا کیا نظریہ ہے؟
اسلام میں ایک بڑا مسئلہ زمین کی ملکیت کا ہے موجودہ حالات میں سرمایہ داری نظام کے تحت مزارعوں محنت کشوں سے ناجائزہ فائدہ اٹھانے کی بدترین صورت ہے۔ اقبال جو ایک سچا مسلمان اور الارض للہ کی روشنی میں یہ یقین رکھتا ہے کہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اس کی حیثیت ہوا اور پانی کی سی ہے جس پر کسی کی بھی ملکیت نہیں ہونی چاہیے اگرچہ زمین انسان کی محنت کے بغیر خوراک پیدا نہیں کرتی مگر انصاف کی رُو سے پیداوار کا فائدہ اسی کو ہونا چاہیے جس نے اس پر ہل چلا کر آبیاری کی اور فصل اُگائی ہو۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا پھر وہ کس بنا پر اس کا کثیر حصہ وصول کرتا ہے ملکیت زمین کے بارے میں اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے-
وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَ تُذل من تشاء کی آڑ میں شاہوں ، سرداروں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں نے اپنی حصول شدہ زمین کو خدا کی عطا کردہ ملکیت قرار دیا ہے۔ حالانکہ انفاق کی شرت کے تحت ان کے پاس زاید وسائل بے آسرا لوگوں کی امانت کہے گئے ہیں ۔
اس بارے میں ہر مفسّر اپنے مطلب کی آیت اور احادیث لے لیتا ہے زمین کے بارے میں قرآن کریم میں کہا گیا ہے۔ ‘‘الارض للہ’’ یعنی زمین اللہ کی ہے۔ لہٰذا اس کی ذاتی ملکیت جائز نہیں اس کے مخالف یہ حوالہ دیتے ہیں ‘‘للہ مافی السموات والارض’’ کہ دنیا اور آسمانوں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا لیکن یہ سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود باقی تمام اشیاء میں اسلام نے متاعِ حیات کو تسلیم کیا ہے۔
اقبال نے جاوید نامہ میں اس مسئلے کو سید جمال الدین افغانی کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ ‘‘الارض للہ’’ کہا گیا ہے اور زمین کو انسان کے لیے امانت اور مفید متاع قرار دیا ہے ۔ اس امانت سے رزق، رہائش اور قبر کا استفادہ کرنا روا ہے اس کے علاوہ زمین سے پیوستگی اور ہوسِ ملکیت درست نہیں۔ اس بارے میں اقبال کی مشہور نظم بالِ جبریل سے بعنوان ‘‘الارض للہ’’ پیش خدمت ہے:
الارض للہ
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریاؤ ں کی موجوں سے اٹھتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار
خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے تو نُورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتوں سے خوشۂ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
وہ خدایا! یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
اس مختصر سی بے مثال نظم کا مدعا یہی ہے کہ اقبال زمین کی عظیم ملکیتوں کے خلاف تھے نہ وہ فاتح بادشاہوں کا حق تسلیم کرتے تھے نہ ان کی اپنے زیر اثر سرداروں کو جاں نثاری کے صلہ میں جاگیریں اور نہ سرمایہ داروں کے وسیع قطعات پر قبضہ دلا کر ان پر مزارعوں کے ذریعے دولت سمیٹنے کو جائز سمجھتے تھے کیونکہ غیر محدود اراضی کے حقوق، سرمایہ داری، عیش پرستی، اور ظلم و استحصال کو فروغ دیتے ہیں۔ اسلام نے اسے قانونِ وراثت سے روک دی تھی لیکن نام نہاد جاگیر داروں نے تقسیم وراثت کے بجائے نیابت کو انایا۔ یہ جمہوریت کے لباس میں بد ترین آمریت اور جاگیر داروں کے تسلط کی وجہ سے ہے۔
حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں بھی زمین کی ملکیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ جب قیصر و کسری کی سلطنتوں روم اور فارس میں اسلامی مجاہدین کی فتوحات سے وسیع و عریض مفتوحہ علاقے زیر نگین آ گئے تو بعض سرکردہ مجاہدین اور صحابہ کرام ؓنے مفتوحہ زمینوں کو مال غنیمت کی طرح فاتحین میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس سے پہلے ایسی صورت پیش نہیں آئی تھی۔ مگر عمر ؓکے عادلانہ ذہن نے اس مطلابہ کو تسلیم نہیں کیا انھوں نے قرآنی ہدایات کی روشنی میں اس مطالبہ کو سراسر ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا تم لوگ خود اور اپنی اولاد کو مفتوحہ زمینوں کے مالک بن کر بغیر کوئی محنت، مشقت کے جاگیر دار بن کر ان کے اصل مالکوں کی محنت کا ثمر لوٹ کر عیش و عشرت کرنا چاہتے ہو جنھوں نے نسلوں سے پانی محنت سے ان کو آباد کیا ہوا ہے۔ وطن عزیز میں تو ‘‘جہاد ’’میں ہتھیار پھینکنے والوں اور معہادہ جنگ بندی کے ؟؟؟ کو جاگیروں پر جاگیریں (پلاٹس) دیے جا رہے ہیں۔اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز جنھیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے انھوں نے اپنے پیش رو خلفا اوران کے اقربا سے لوگوں کی زبردستی چھینی ہوئی زمیں انھیں واپس کرکے ان کی ملکیت بحال کی۔
حضرت امیر معاویہ سے آخری معزول کردہ ترک خلیفہ ۱۹۲۱ء تک دین فردوس زرپرست ملائیت کی وجہ سے ملوکیت حاوی رہی اور عالم اسلام پر شخصی آزادی دیگر قدغنوں سے جدید علوم کے حصول سے محروم کرکے ترقی سے محروم رکھا۔ جس پر اقبال نے غمزدہ ہو کر کہا :
مر گئے تثلیث کے فرند برات خلیل
حیثیت بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
یہ انتہائی المناک حقیقت ہے ہمارا ملک جو اللہ تعالیٰ کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے بنا تھا۔ تاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مضبوط مستحکم، ایثار کرنے والا معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ آج تک زمین کے مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے جُوں کا توں بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو صرف زمین کی ملکیت کے نام پر غریب و مجبور مضارعوں کی محنت، مشقت پرداد عیش دینے اور کمزوروں کے استحصال کو تحفظ دیتا آ رہا ہے۔ صرف دو سو بیس ایکڑکی حد رکھنے پر ایک منتخب وزیر اعظم جو خود بھی جاگیر دار تھا فوج کے ہاتھوں مطلوب ہو گیا۔ کیوں؟ فوج ہی تو اب جاگیردارسے پلاٹس پر پلاٹس لینے کے بعد فوج پارلیمان عہدے دار ، بیوروکریٹ ، اعلیٰ عدلیہ سبھی ملوث ہیں۔جس سے طبقاتی تقسیم کے اندیشے شدید تر ہوتے جارہے ہیں اور ملکی معیشت اور قومی اتحاد تباہ ہو رہے ہیں کاش کہ وہ غیر مسلم دشمن بھارت سے ہی سبق لے لیتے جس نے ہندوستان تقسیم ہوتے ہی جاگیرداروں اور ریاستی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا اور آج ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک بن گیا ہے۔
زمین کی ملکیت کے بارے میں اقبال نے ایک خط بنام مولانا راغب احسن کو ۱۹۳۴ء میں لکھا۔ اس کے متعلقہ مندرجات مختصراًعرض ہیں۔ قرآن میں زمین کے بارے میں کئی بار آیا ہے۔ ‘‘الارض للہ’’ حضرت آدم ؑ سے بھی کہا گیا کہ یہ تمھارے لیے مستقر اور متاع ہے۔ یعنی فائدے کی چیز ہے اسلام کے نزدیک زمین صرف اللہ کی ملکیت ہے۔ مسلمان صرف اس چیز کا امین ہے۔ جو اس کے سپرد کی گئی ہے میری رائے میں اگر کوئی مسلمان اپنی پرائیوٹ زمین کا غلط استعمال کرے تو حاکمیت اسلامیہ کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں اس سے باز پرس کرے۔
امام ابویوسف سے خلفاء عباسیہ میں سے کسی نے زمین کی ملکیت کے متعلق فتویٰ طلب کیا تو انھوں نے فرمایا کہ زمین اس کی ہے جو اسے زندہ رکھ سکے۔ اس سے ظاہر ہے کہ امام کے نزدیک زمین کا مالک وہی ہے جو اسے محنت سے کاشت کرتا ہے نہ کہ وہ شخص جو گھر میں بیٹھا بٹائی لیتا ہے۔ مسلمان علماء عام طور پر عقاید و بحث و فتوی بازی کرتے رہتے ہیں مگر اسلام کے معاشرتی نظام کی طرف شاید شاہ ولی اللہ کے سوا کسی نے توجہ نہیں کی موجودہ زمانے میں اسلام کے معاڈرتی نظام پر ریسرچ کی ازحد ضرورت ہے۔ بحیثیت مذہب اسلام کی کامیابی کا دارو مدار اس پر ہے کہ اس کے معاشرتی نظام کی افضلیت زمانہ حال کی نظاموں پر ثابت کی جائے پہلے یورپ سے اسلام کی جنگ تلواروں سے ہوتی تھی۔ اب معاشرتی نظاموں کی جنگ ہے میری ناقص رائے میں اسلام حقیقی طور پر ابھی تک بے نقاب نہیں ہوا۔
میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ قرآن نے تقسیم جائیداد کے متعلق جو قائدہ دیا ہے۔ وہ صرف جائیداد منقولہ کے لیے ہے زمین پر اس کا اطلق نہیں ہوتا۔ گویا اقبال زمین کی ملکیت کو خود کاشت کرنے والے یا اجتماعی یعنی اس کا انتظام و انصرام حکومت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں تاکہ قومی سطح پر اس سے بہتر استفادہ کیا جا سکے۔
آخر میں ایک اورموضوع جسے اقبال اہم سمجھتے تھے وہ علم و حکمت کی تعلیم ہے جس میں سائنسی علوم بھی شامل ہیں۔ حصول علم کو اقبال خیرِ کثیر کہتے ہیں۔ جس کی طرف اسلامیانِ عالم کو اسلامی تعلیم کا روشن پہلو سمجھ کر غایت درجہ فروغ دینا چاہیے اقبال کے نزدیک سائنسی علوم غیر معمولی طورپر موثر و مفید ہیں ۔ اس ضمن میں موزوں لگتا ہے کہ ایک اہم تاریخی واقعہ کا مختصراًذکر کیا جائے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کا کتنا احساس رکھتے تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ترکی کو شکست ہوئی۔ فاتح حکومتِ برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے سلطنت ترکیہ کے وسیع زیرنگیں علاقاجات کے ٹکڑے کرکے بندربانٹ کر لی۔ ترک خلافت ختم ہو گئی۔ جس کا ہندوستانی مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ علی برادران، مولانا آزاد اور دیگر ہمنواؤں کی سرکردگی میں بجائی خلافت چلانے کا فیصلہ ہوا۔ جس میں یہ اقدام بھی تھاکہ قائم شدہ مسلم اداروں ، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور کی بجائے جامعہ ملیّہ قائم کیا جائے۔ جس کی سربراہی کے لیے علامہ اقبال کو پرنسپل مسلمانوں کا ہمدرد بن کر تحریک مجالق خلافت کا مرکزی رہنما بن گیا۔ اس نے اقبال کو پرنسپل جامعہ ملیّہ کا عہدہ قبول کرنے کی سفارش کی۔ اقبال کی وجدانی بصیرت نے گاندھی کی رہنمائی اور تحریک کے انجام کو فوراًمحسوس کر لیااور تحریک کی کھلی مخالفت کی۔ اور گاندھی کو بھی پرنسپل کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی اس کے ساتھ اپنے خط ۱۹۲۰۔۱۱۔۲۹کے متعلقہ اقتباس میں اس طرح لکھتے ہیں :
ہم جن حالات سے دوچار ہیں ان میں سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضرورہ ے اور اقتصادی لحاظ سے ہندوستانی مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر انھیں ادب اور فلسفہ کی نہیں بلکہ ٹیکنیکل تعلیم کی ضرورت ہے جس کی بنا پر انھیں معاشی آزادی حاصل ہو سکتی ہے اس لیے فی الحال انھیں اپنی اپنی صلاحیتیں اور توجہ اسی موخر الذکر طریقۂ تعلیم پر مرکوز کرنی چاہیے۔ جن معزز حضرات نے علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی ہے انھیں چاہیے کہ اس نئے ادارے میں خصوصی طور پر طبعی علوم کے ٹیکنیکل پہلو پر زور دیں اور اس کے ساتھ ساتھ حسبِ ضرورت مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کریں۔
چلتے چلتے اقبال کی مشہور نظم ‘‘جاوید کے نام’’ جو لفظی و استعاراتی لحاظ سے نہایت پر اثر ہے کہ دو اشعار جو سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کے لیے ‘‘جاوید کو خطاب ’’ کے ذریعے تمام جوانان ہند کے نام ہیں ایک لمحہ کے لیے دیکھتے ہیں :
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان
سلال ہند سے دنیا وجام پیدا کر
پہلے شعر میں سکوت لالہ و گل سے کلام کرنے کے استعارے میں فطرت کی اشیا سے سائنسی علوم سے استفادہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور دوسرے میں اپنے ملک کی خام اشیا سے فنی ہنر مندی سے ایجاد کرنے کی تحریک ہے تاکہ فرنگ یا غیر کی محتاجی نہ رہے۔مگر اس کا حقیقی فائدہ نوعِ انسانی کو اس وقت مل سکتا ہے۔ جب اس میں ابلیسیت اور طاغوطیت نہ ہو اور یہ انسانی درد مندی اور محبت کی محکم بنیاد پر استوار ہو اقبال بزبان سید جمال الدین افغانی کہتے ہیں کہ سوزِ دل اور انسان دوستی کی سائنس پیغمبرانہ منہاج رکھتی کیونکہ اس کی شےطانیت کو شمشیر ِ قرآن نے کاٹ رکھا ہے۔ اور اس میں جلال کے ساتھ جمال کی قوت دکھائی دیتی ہے نہ کہ اسے صرف مخالفین کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اقبال بزبان سید جمال الدین افغانی متاسف ہیں کہ اسلام نے ملوکیتِ قیصر و کسریٰ کو مٹایا تاکہ عوام کے وقار کو تحفظ ملے مگر انھوں نے خود ملوکیت اپنالی جو چاہے شخصی جبر واستبداد کی شکل میں ہو یا سرمایہ اشتراک کی صورت میں پارٹی کی ملوکیت ہوگویا۔ یہ بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے حیلوں کا اثرہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح فرہاد ،پرویز کی حیلہ بازی سے اپنے ہی تیشے سے مرا۔مزدور نے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت میں اشتراکیت کو اپنا لیا جو سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین صورت ہے بس نام مزدور کی کلویت کا ہے۔
نظام کار اگر مزدوروں کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریق کوہکن میں بھی وہی حےلے ہیں پرویزی
یعنی سیاست کو چند افراد یا طبقات کے ہاتھوں میں نہ ر ہنا چاہیے کہ وہ اپنی خواہش کو قانون کا درجہ دے ڈالتے ہیں اور کروڑوں انسانوں پر اپنی حاکمیت قائم کر رہے ہیں ۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لہٰذا دنیا کے دانشوروں کو قرآن حکیم کی تعلیمات کی طرف توجہ کرنی چاہیے جس نے آقائیت مٹائی اور نے نواؤں کی مدد کی ارتکازِ زر کی حوصلہ شکنی کی اور انفاق کی تعلیم دی قرآن نے ربوا کو ختم کیا اور قرضِ حسنہ کی حوصلہ افزائی کی زمین کو خدا کی ملکیت بنایا لیکن اس سے جائزفائدہ اٹھانے کا حق دیا اس نے انسانوں کو نعمتوں کا امین بنایا تاکہ دوسروں کی مدد کرکے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ بڑھائیں اور معاشرے میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہو قرآن حکیم نے مذہبی پیشواؤں، کاہنوں، پوپوں پروہتوں کے استحصال کا خاتمہ کیا کتاب اللہ کا ظاہر، باطن ، ناطق غیر مبہم زندہ و پایندہ ہے اس میں برائیوں کے خلاف جہاد اور ضرورت سے زیادہ دولت مندوں کو انفاق کی تعلیم دی ہے اور آخر میں یہ تلقین کی ہے کہ قرآنی تعلیمات کو صحیح عمل سے زندہ رکھا جا سکتا ہے جو مسلمانوں کی بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ بصوریت دیگر اللہ تعالیٰ قادر و عادل ہے بے نیاز ہے وہ بہتر عمل والی قوم کو مسلمان پر حاکمیت دے سکتا ہے جیسا کہ اس وقت سب کو نظر آ رہا ہے اور اس کا حل یہی ہے جو حکیم الامت فرما گئے ہیں :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں