مرزا رفیق شاکر
مرزا رفیق شاکر کی پیدائش ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۴۳ کو جلگاؤں جامود میں ہوئی۔ آپ نے ایم اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ ۱۹۸۳ میں انھوں نے اسلامک کالج مرکز المعارف دیوبند سے فاضلِ اسلام کی سند بھی حاصل کی تھی۔ وہ محکمۂ تعلیمات سے منسلک رہے اور ایجوکیشن ایکسٹینشن آفیسر کے عہدے سے سبک دوش ہو کر اکولہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔
نعت اور غزلیات کے مجموعوں کے علاوہ مرزا رفیق شاکر کی درج ذیل کتابیں ہیں جن میں ظریفانہ مضامین ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ، بنیے کا دھنیا اور جھنجھٹ کی شادی۔ رفیق شاکر کے ظریفانہ مضامین ان کی شگفتگی اور زندہ دلی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کا انداز اپنے ہم عصر مزاح نگاروں سے جدا گانہ ہے اور زندگی کے خوشگوار لمحات کو ظرافت کی چاشنی میں پیش کر کے وہ تفریحِ طبع کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اس کے چند برسوں بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
علّامہ غمگین
مرزا رفیق شاکر
گھنٹوں اس نام کی وجہ تسمیہ پر غور کرتے رہے۔ گھٹنوں کو ہلا ہلا کر، سر کو جھٹکے دے دے کر، ٹیبل پر انگلیاں نچا نچا کر سمجھنے کی کوشش کی لیکن جیسے جیسے علّامہ غمگین کے بارے میں سوچتے گئے ہم خود مجسم غم بنتے رہے اور ہمیں یہ گمان غالب ہونے لگا کہ عنقریب ہم اپنے محلے کے تمام افراد سے فرداً فرداً گلے مل کر ساون بھادوں کی جھڑیاں شروع کرنے والے ہیں۔
آپ پوچھیں گے کہ یہ خیال ہمیں کیوں آیا؟ تو حضرات اس کا جواب کچھ وضاحت طلب ہے۔ ہوا یوں کہ جب ہم نے علّامہ موصوف کا نام زبان زد عام سنا اور کلو حجام سے چھجّو خاں بھشتی تک ہر کس و ناکس کو علّامہ غمگین کا ورد کرتے دیکھا تو ہمارے سر میں بھی علّامہ سے شرف ملاقات کا اشتیاق کلبلانے لگا اور دستور بھی ہے کہ بٹیر باز کو بٹیر، پتنگ باز کو پتنگ اور ملاقات باز کو ملاقات کی دیوانگی ہوتی ہے۔ ہمیں بھی کلبلاتے ہوئے شوق نے ایسا مجبور کر دیا کہ ہم علّامہ غمگین سے ملاقات کے لیے چل کھڑے ہوئے۔
اب جو علّامہ پر نظر پڑی تو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ علّامہ کا سر فارغ البال اور ایسا شفاف و چٹیل میدان کہ اس سے سورج کی تمام کرنیں منعکس ہو کر آنکھوں کو چکا چوندھ کر رہی ہیں۔ ضرورت سے زیادہ لمبی داڑھی، پیشانی پر یتیمی کے آثار، غمگینی کے فوٹو گراف، آنکھوں میں حسرت و یاس کا سیلاب۔ یا اللہ! یہ انسان ہے یا غم کا ٹریڈ مارک، انھیں دیکھتے ہی ہمارا یہ حال کہ؎
اُن کو دیکھیں یا اُن پر غور کریں۔
اِدھر تو علّامہ اور ان کی حالات زیرِ غور تھی اور اُدھر علّامہ کی حزیں آنکھیں ہمارے ہر ہر عضو میں اِس طرح پیوست ہو رہی تھیں گویا علّامہ ہمیں خریدنا چاہتے ہیں۔
آخر انھوں نے پوچھا، ’’کیوں مرزا جی کیا بات ہے‘‘؟
علّامہ کے منھ سے اپنا نام سن کر ہم چونکے اور یقین ہو گیا کہ موصوف نہ صرف ہماری تاریخ و جغرافیہ، بلکہ اِکانامکس Economics اور سوکس Civics سے بھی اچھی طرح واقف ہیں چونکہ ہمارے شوق نے گدگدانا شروع کر دیا تھا اس لیے ہم نے اُن کے ابتدائیہ کو نظر انداز کر کے جھٹ ایک عدد ’’سَلَامَالیکوُم‘‘جھاڑ دیا اور اس سے پہلے کہ وہ جواب دیں دوسرے ہی لمحے میں ان کی خیریت بھی دریافت کر لی۔
بس جناب! یہ حرکت ایسی ثابت ہوئی گویا ٹرانسسٹر کا بٹن آن کر دیا گیا ہے۔ اُدھر علّامہ نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے اور دستی کو ناک تک لے جاتے ہوئے بڑے درد بھرے لہجے میں جواب دیا۔ اَماں یار! کیا بتائیں کیا حال ہے، بس سمجھ لو کہ قرب قیامت کی نشانی ہے۔ دنیا موت کے دروازے پر کھڑی ہے، کل جمعہ ہے، ہو سکتا ہے کل ہی صُور پھونک دیا جائے اور بس! منٹوں میں دنیا کا پاندان۔!
ہم نے چوکنّا ہوتے ہوئے کہا۔ آں! یہ کیا بات ہوئی؟ اجی حضرت قیامت جمعہ کے دن آئے گی ضرور، مگر وہ جمعہ شوال کا نہیں محرم کا ہو گا۔
بس اتنا سننا تھا کہ انھوں نے رونا شروع کر دیا اور چیں بجیں ہو کر بولے۔ بس، بس مرزا جی بس! خدا کے لیے اپنا منہ بند کرو، مولوی ابن مولوی ہوتے ہوئے ایسے کفریہ کلمے زبان سے نکالتے ہو شرم نہیں آتی، تم تو خدا کی خدائی میں بھی دخل دینے لگے۔ جس خدا نے اتنی بڑی کائنات بنائی ہے۔ کیا اِس میں نعوذ باللہ اتنی بھی قدرت نہیں کہ شوال کو راتوں رات محرم کر دے۔ اس کے کُن کہنے کی دیر ہے میاں! بس کن کہنے کی۔
ہم پر ہنسی کا دورہ پڑ رہا تھا۔ لیکن ہم نے بالجبر ہنسی کو روکا اور کہا۔ علّامہ یہ قیامت کی نشانی کا مطلب، ہم تو کچھ نہیں سمجھے۔
علّامہ غمگین نے تنک کر جواب دیا۔ یار تم بھی نرے چغد ہو، نہ جانے تمھیں کِس نے ماسٹر بنا دیا، اگر ایسے ہی لوگ ماسٹر ہو جائیں جو اَلسّلام علیکم کو سَلَامَالیکوم کہتے ہوں تو تعلیم کیسے ہو گی، قوم کا کیا حال ہو گا، ملک کدھر جائے گا۔
اَما مرزا جی! کچھ نہیں تو کم از کم علّامہ لقمانی کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہی سُدھر جاتے، یا پروفیسر خواجہ غنی ہی سے دستگیری کرواتے، لیکن تم تو کٹّر وہابڑے معلوم ہوتے ہو۔ تم کیوں کسی خواجہ کے آستانے پر حاضری دو گے؟ مگر ماسٹر تاج محمد سے تو درسِ تخت و تاج لے سکتے تھے۔ سچ پوچھو تو تم پرو ہی مثال صادق آتی ہے کہ ؎
خرِ عیسیٰ ؑ اگر بمکّہ رود
مطلب یہ کہ اتنے عرصہ ڈاکٹر سمیع اللہ کی مصاحبت رہی اور قیامت کا مطلب بھی نہیں سمجھے اور اس پر طرّہ یہ کہ طنز و مزاح نگار بنے پھرتے ہو۔
اتنا کہہ کر علّامہ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ ہم ان کے آنسوؤں اور آنسوؤں کی دھاراؤں کو دیکھ رہے تھے اور حیران و پریشان تھے کہ؎
یا الٰہی یہ کیوں رو رہا ہے
آخر روتے روتے علّامہ کو طیش آ گیا اور اس طرح ان کے منھ سے جھاگ نکلنے لگا گویا سوڈا واٹر کی بوتل کا کارک کھل گیا ہو اور بڑے زور و شور کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ انھوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کیا بتائیں مرزا صاحب! ملک خطرے میں ہے۔ عرب اسرائیل جنگ شروع ہے۔ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ مِلّت تباہ ہو رہی ہے، اخلاقی زوال عروج پر ہے، مذہب سے بیگانگی بڑھ رہی ہے۔ قوم مردہ ہو چکی ہے، ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے، قوم کے مصلحین کنبہ پروری میں لگے ہوئے ہیں، علمائے دین خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں۔ یہی تو آثار ہیں قیامت کے۔
زیادہ دُور کیوں جاتے ہو مرزا! اپنے اطراف ہی دیکھ لو، وہ ماسٹر مصلح الدین صاحب ہیں نا! مدرسہ صبح ۷؍بجے سے شروع ہوتا ہے اور وہ حضرت ۹؍ بجے گھر سے نکلتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دو میل پیدل جانے میں ۱۰ تو بج جاتے ہوں گے۔ اب قوم کو کیا خاک سدھاریں گے۔
اُدھر دیکھئے وہ علّامہ رنگین چلے آرہے ہیں، نہ دین کی فکر نہ عقبیٰ کا خیال، تمدن ہنود تو انھیں ورثہ میں ملا ہی تھا اب خان بہادر کے اعزاز کے ساتھ ساتھ وضع نصاریٰ بھی مل گئی۔ ان کا ٹلو پتنگ اڑاتا ہے تو اسے پتنگ بازی کے گُر سکھاتے ہیں، لڑکی موٹر سائیکل چلانا سیکھ رہی ہے، بڑے صاحب زادے دن بھر ریڈیو کا ڈبہ گلے میں ڈال بھانڈوں کی طرح اِدھر سے اُدھر اچکتے پھرتے ہیں اور جناب، خود یہ تماشہ دیکھ دیکھ خوش ہوتے ہیں اور اپنی اہلیہ کے ساتھ شطرنج بھی کھیلتے ہیں، اور پورے گھرانے کو بے پردہ لیے سنیما اور پارکوں میں مٹکتے پھرتے ہیں۔
اور یہ ہیں جناب سیّد حفیظ الدین صاحب، ان کے سپوت سڑک پر کھڑے کھڑے حاجت سے فراغت پانے کے بعد، امی ہمیں دھلا دو کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں اور سیّد صاحب کو اپنی اولاد کی بد تہذیبی پر غیرت تک نہیں آتی۔ اب اس سے بڑھ کر دین کی حفاظت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اور کیا بتاؤں شاکر صاحب! آپ خود سوچیں، جب ہمارے پیش امام طہارت خانوں کو چھوڑ کر گلی کوچوں میں نجاست دور کرنے کا اشتہار بنے عجیب عجیب کرتب کرتے دکھائی دیں، ذرا ذرا سی بات پر مخالف گروپ کی تذلیل کریں، اور من چاہے فتوے دینے لگیں تو بھلا قیامت نہ آئے تو کیا آئے۔
وہ دیکھو! جناب ہیڈ ماسٹر صاحب نے پان کھا کر سڑک پر اس طرح تھوکا کہ اس کے چھینٹے سڑک سے منعکس ہو کر دیگر ساتھیوں کے منہ پر چپک گئے، یہ حضرت اپنے منھ کو اُگالدان بنائے پھرتے ہیں تو بھلا دوسروں کے منھ کی کیا قدر کریں گے۔ یہ وہی ہیں جو شاگرد کا مونث شاگردنی لکھواتے ہیں۔ بتائیے تو اردو کا مستقبل کیا ہو گا؟
اور یہ ہیں پروفیسر علیم الدین صاحب، ان کا ایک ایک عضو علم میں ڈوبا ہوا ہے۔ انھیں کے طفیل ہماری قوم میں علم و ادب قائم ہے۔ مگر ان کی اہلیہ، اللہ کی پناہ! فحش کلمات کے سلسلے میں ان کا دماغ انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتا ہے اور ان کی اس تحقیق پر دنیائے فحاشت بھی شرما جاتی ہے۔ ان کے بچوں کو دیکھئے تو گھر کی سیڑھیوں کے پاس ہی حوائج ضروری سے فراغت پا کر محکمۂ صحت و صفائی کو چیلنج کرتے ہیں۔
اتنا کہہ کر علّامہ نے پھر رونا شروع کر دیا اور ہمارا یہ حال کہ ہنسی بغاوت پر آمادہ۔
بس جناب! ہمارے منھ سے ہنسی کا دبا ہوا فوّارہ چھوٹ ہی گیا اور اس سے پہلے کہ علّامہ کو ہوش آتا ہم کو فرار ہو جانے ہی میں اپنی عافیت معلوم ہوئی۔
لیکن اب اکثر تنہائی میں بیٹھ کر ان کے متعلق سوچتے ہیں تو جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہم پر رنج و غم کے دَورے پڑتے ہیں۔
(سیکنڈ ہینڈ۔)