(مطبوعہ روزنامہ ’’اعتماد‘‘ حیدرآباد)
علامہ عبد اللہ العمادیؒ
(خراجِ عقیدت بصد ادب ’’تحریک ادب‘‘وارانسی کے’’عبد اللہ العمادی خاص نمبر کا مقدمہ‘‘)
ہمارے عہد کی نابغۂ روزگار شخصیات میں علامہ عبداللہ العمادیؒ ہمارے لیے عزیز ترین سرمایۂ علم ہیں۔ وہ ہمارے خاندان کے اہم بزرگ تھے اور بلا شبہ فخر خاندان ہیں۔ بقول شاعر: ’’فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص‘‘
ان کی ولادت (غالباً) ۱۸۷۸ء مشرقی یوپی کے شہر جونپور کے ایک قصبے امرتوا میں ہوئی جیسا کہ سوانح نگاروں کی چند تحریروں میں ملتا ہے۔ سید سلیمان ندویؒ کی کتاب ’’یادِ رفتگاں‘‘ میں ان کی وفات کی تاریخ ۱۱ شوال ۱۳۶۶ھ (مطابق ۲۸ اگست ۱۹۴۷ء) ملتی ہے۔
علامہ عمادی نے ایک عالمِ دین، محقق، ایڈیٹر اور ماہر علم و ادب کی طرح بہت کامیاب و کامران زندگی گذاری۔ وہ مختلف میادین کے کامل تھے۔ وہ خاندانِ عماد کے فرد تھے، خاندانِ عماد کے جدِ اول و امجد شیخ عماد الصدیقیؒ مدینہ منورہ سے یمن اور پھر ہند کے شمال مغربی علاقوں سے ہوتے ہوئے واردِ ہندستان ہوئے، یہ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ صدیقی نسب تھے اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کی نسل سے تھے۔ یہ ایک قافلہ تھا جو اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آنے والے قافلوں میں سے ایک تھا، جو چھ سو برس پہلے دیار ہند میں آ پہنچا تھا۔ دہلی سے ہوتے ہوئے مشرق کی جانب بڑھا اور اس طرح، شیخ عماد نے اپنے شیخِ طریقت کی ہدایت کے مطابق امرتوا کو اپنا مقر بنا لیا اور اس گاؤں کو اپنے علمی اور تدریسی مشاغل کے لیے مختص کر دیا۔
عمادی گھرانا شرقی سلاطین کے زمانے میں آیا اور اُنھوں نے تغلق خاندان کے زمانے میں عروج حاصل کیا۔ علامہ عمادی اس خاندان کے فردِ فرید تھے، جس کی بول چال میں عربی اور فارسی کی فراوانی تھی، علومِ دینی اس خاندان میں اہم ترین تھے۔
ان کی طلب علم اور جذبۂ تحقیق کے لیے مسافرت شہر شہر، بلاد بلاد اور درسگاہ سے درسگاہ بے شمار مقامات تگ و دو سے معنون ہے۔ ان کے اساتذہ، رفقاء، احباب اور ہم سفروں کے اسمائے گرامی اُس عہد کے تقریباً تمام سرکردہ شخصیات ہیں۔ مورخین، اکابرین اور علماء کے لکھے ہوئے مضامین، تحریریں، تبصرے، وفیات نامے ان کی شخصیت کی بوقلمونی اور نیرنگی کو کچھ حد تک منشرح کرنے کے کافی ہیں۔
والدین اور خاندان کے بزرگوں سے اُن کی بنیادی تعلیم و تربیت جو امرتوا سے شروع ہوئی تو لکھنؤ پہنچ کر مولوی عبدالعلی آسی مدراسی اور عبدالحی فرنگی محلی کی شاگردی اور اُن کی رشد و ہدایت سے ایک مخصوص سمت پر گامزن ہوئی۔ جن مقامات میں اُنھوں نے اکتسابِ علم و فن اور ترسیل کے لیے جستجو کی اُن میں جونپور، اعظم گڑھ، شاہجہان پور، لکھنؤ، کانپور، آگرہ، امرتسر، لاہور، کلکتہ، دہلی، رامپور اور آخری قدم پر حیدرآباد قابلِ ذکر ہیں، بلادِ عرب اور ایران میں بھی طلب علم کے لیے اُن کا گذر ہوا۔
حیدرآباد میں دربارِ نظام سے ۱۹۱۷ء سے جو رشتہ قائم ہوا وہ آخری دم تک قائم رہا۔ حیدرآباد میں دار الترجمہ، جامعہ عثمانیہ، کتب خانہ آصفیہ، دائرۃ المعارف، حکومت دکن کے اُمورِ مذہبی، نظامِ دکن سے علمی، ادبی اور فقہی مشاورت سب سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ شعرو حکمت، ثقافت و صحافت، تراجم، مصطلحات، تنقیحات، علم الحدیث، علم الکلام، عرب و عجم کی تاریخ، ادبِ عرب (جاہلیہ و ہم عصر)۔ غرض کوئی میدانِ علم و ادب ایسا نہیں تھا جہاں ان کی مہارت اور عظمت عوام و خواص میں مستند نہیں تھی۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس عظیم شجر علم و دانش کے سائے اور بسائے ہوئے ماحول میں ان ہی کا ذکر تھا، ان ہی کا عکس اور ان ہی کی یادیں تھیں، ان ہی کی طرزِ زندگی کے نقوش مرتب تھے۔ میرے پھوپھا مولوی عثمان عمادی مرحوم جو علامہ کے فرزند تھے، ہر طرح اس بات کا خیال رکھتے کہ گھر کا رہن سہن، بود و باش، رعایت و روایت، اصول و براہین علامہ کے قائم کردہ طریق کار سے کسی طرح نہ ہٹے۔ بڑی محتاط لیکن دل پذیر روش تھی، جو کئی برسوں قائم رہی۔ گھر کے اندر ایسی ایسی نادر کتابیں، مخطوطات، محلات اور صحائف تھے کہ ہم سب پر ایک عجیب سا رعب اور احتیاط کا رجحان اثر انداز تھا۔ اس کیفیت کو اب ہم بہ آسانی بیان نہیں کر پاتے۔ علامہ عمادی میرے والد مرحوم محمد مسلم عمادی کے دادا کے چھوٹے بھائی تھے۔ لیکن ہم لوگ اپنے خاندان میں کچھ اس طرح ایک دوسرے سے قریب تر رہے ہیں کہ ہمیں علامہ عبداللہ العمادیؒ سے متعلق ہونے پر فخر ہے۔
گھر میں علامہ عمادیؒ کے چاہنے والوں اور اُن کے رُفقاء کی آمد سے روشنی ہو جاتی تھی، خصوصاً شبلی یزدانی، یعقوب بزمی، یونس سلیم، محامد علی عباسی اور کئی معززین کے نام یاد آ رہے ہیں، جن کی فہرست بنانا مشکل ہے۔
علامہ عمادی کے مضامین اور تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جہاں علم کے اتھاہ سمندر تھے، وہیں وسیع المطالعہ بھی، عالمی ادب اور عصری علوم، بلکہ طب اور سائنس میں بھی دسترس رکھتے تھے۔
علامہ عمادی کے احباب میں اس صدی کے منتخب اکابرین تھے، مثال کے طور پر شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، علامہ اقبال، شاہِ افغانستان، نظامِ حیدرآباد میر عثمان علی خان، جوشؔ ملیح آبادی، ابو الکلام آزاد، سید محمود، ابو الاعلیٰ مودودی، ظفر علی خاں، ابو الخیر مودودی، عبدالماجد دریابادی اور ایسے ہی ان گنت نام اس فہرست میں موجود ہیں۔
علامہ عمادی کا طرزِ نگارش ممتاز تھا، ان کی تحریریں گنجلک لفاظی نہیں تھیں، عبارتیں واضح اور راست ہوتی تھیں۔ طرزِ بیان میں مثبت اعتماد تھا جو وقت نظر اور گہری تحقیق کی طرف اشارہ کرتیں۔ مثال کے طور پر ’’تاریخ عرب قدیم‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’علم الآثار سے یہ بھی دریافت ہوتا ہے کہ اس قوم کے پہلو ان ممالک میں چند ترقی یافتہ قومیں آباد تھیں جن میں قوم اکادی و سومرہ کا نام خصوصیت کے ساتھ اہلِ فن کی زبان پر آتا ہے یہ قومیں سامی نہ تھیں، ان کے اخلاق و عادات و زبان سب چیزیں سامیوں سے جدا تھیں۔ اب تک جو آثار برآمد ہوئے ہیں اُن کی بنا پر یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ کسی نامعلوم زمانہ میں سامیوں کے فاتحانہ حملوں نے ان قوموں کو تباہ کر ڈالا، ان کی بستیاں چھین لیں، اور آخر اس مغلوب عنصر کا تجزیہ کر کے ہمیشہ کے لیے متفرق و پریشان کر دیا۔ اگر کچھ بچے بھی تو جیسا کہ امریکہ کے اصلی باشندے ریڈ انڈین، یورپین فاتحوں کے ساتھ مخلوط ہو کر اپنی اصلیت کھو بیٹھے ہیں۔‘‘
اسی طرح ’’ فلسفۃ القرآن‘‘ میں ان کے اندازِ بیان کی مثال ملاحظہ کیجیے:
’’اسلام بائبل کی تصدیق کرتا ہے اور اُس کو آسمانی کتاب مانتا ہے۔ عہد عتیق اور تاریک صدیوں کی تاریخ جہاں تک اجازت دیتی ہے اُس کو انجیل و تورات کے معنوں میں کوئی تامل نہیں۔ میرا اعتقاد ہے کہ جناب مسیح روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے۔ میں شریعت موسوی کو ہی صحیح مانتا ہوں کیوں کہ جناب مسیح نے بھی اس کو صحیح مانا ہے اور تورات کو برحق تسلیم کیا ہے۔ انجیل میں جناب مسیح کا ارشاد بہت صحیح ہے کہ ’’ماجئت لانقض الناموس‘‘ بیشک ان کی شریعت حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت تھی اور وہ اپنے قبل کے تمام پیغمبروں کو نبی مرسل مانتے تھے اور اُن کی کتابوں کو واجب التسلیم سمجھتے تھے۔‘‘
علامہ عمادیؒ کا تعلق شعر و ادب سے اُستادانہ معیار کا تھا۔ بہت اچھے شعر کہتے تھے۔ فارسی، عربی اور اُردو ان تینوں زبانوں کے بے شمار اشعار انھیں یاد تھے، وہ بہ ذاتِ خود عمدہ کلام لکھتے تھے۔ لیکن منظرِ عام پر شاعر کی طرح اپنے آپ کو کبھی پیش نہ کرتے۔ اُن کے کلام کی کچھ مثالیں مولوی ابو الخیر مودودی صاحب مرحوم کے مضمون میں ملتی ہیں۔
اُردو کے لاجواب مصنف، ادیب اور نقاد مرحوم سید محی الدین قادری زورؔ اپنی کتاب ’’اُردو کے اسالیب بیان‘‘ میں خصوصیت سے علامہ عمادیؒ کے طرزِ نگارش کا ذکر کیا ہے اور اُن کے انداز کو علامہ تاجور نجیب آبادی کے ساتھ موضوع بحث بنایا ہے، اُن کی رائے درجِ ذیل ہے:
’’خصوصاً عمادی اور تاجور کا قلم اکثر رنگ برنگ کے بیل بوٹے اُتارتا جاتا ہے، اُن کا قلم نقاش ہے۔ عبدالماجد کی طرح مصور نہیں۔ عبدالماجد کی تحریریں عکسی تصویریں ہوتی ہیں۔ جن میں کسی چیز کا عکس بعینہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ برخلاف اس کے عمادی اور تاجور پرانی طرز کے نقاش ہیں جن کی رنگ آمیزیاں یقیناً دلچسپ قابلِ قدر اور بے نظیر ہوتی ہیں۔ ’’فلسفی شاہ‘‘ (عبدالماجد) کی تحریروں میں اگرچہ عربی اور فارسی کے الفاظ کا فقدان نہیں۔ لیکن عمادی اور تاجور کی عبارتوں کی طرح ان میں جگہ جگہ مولویت نمایاں نہیں ہوتی۔
علامہ عبداللہ العمادیؒ کی طرزِ تحریر کا نمونہ:
لیکن اقبال کا دل وحی الٰہی کا آئینہ دار ہے۔ کشف عطاء نے اس کے سامنے سے آسمان و زمین کے پردے اُٹھا دئے ہیں۔ اور اس کو صاف نظر آ رہا ہے کہ ۵۷۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نظامی نے مخزن اسرار میں جو فریاد کی تھی اس چودھویں صدی میں وہ دعاء مستجاب ہونے کو ہے، توحید کی عنقریب آنے والی عظمت کا نظارہ اس کے روبرو ہے اور وہ محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ہر ایک اسلامی زبان کی شاعری میں یہ خصوصیت اقبال ہی کے لئے ودیعت تھی اور دنیا بھر میں یہی ایک حسان الہند سے جو گوری شنکر (ایورسٹ) سے لے کر پیر نیز تک کی چوٹیوں پر اعلائے نوائے نبوی کے لئے قوم کو آمادہ کر رہا ہے۔‘‘ (تقریظ ’’کلیاتِ اقبالؔ‘‘)
جہاں تک میرا علم ہے علامہ عبداللہ العمادیؒ کے دست تاریخ ساز سے کئی کتابیں اور رسالے نکلے اور سبھی بے حد اہم ہیں۔ ان کی مستقل تصانیف کے جو نام مجھے معلوم ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
۱۔ محکمات
۲۔ علم الحدیث
۳۔ نمازِ اخلاص
۴۔ الہلال کے خاص شمارے
۵۔ ’’وکیل‘‘ امرتسر کے شمارے
۶۔ صناعۃ العرب
۷۔ تاریخِ عرب قدیم
۸۔ فلسفہ القرآن
۹۔ غم حسین اور محرم کی بدعتیں
۱۰۔ کتاب الزکاۃ
۱۱۔ ابن عربی
۱۲۔ البیان کے خاص شمارے
ان کے تراجم سے کئی لائبریریاں مالامال ہیں۔ اہم تراجم میں قابل ذکر ہیں:
۱۔ زاد المعاد
۲۔ طبقات ابن سعد (۱۲ جلدیں)
۳۔ الملل و النحل
۴۔ تنبہ الاشراف و مروج الذہب۔
اور کئی اہم کتابیں جو ریکارڈ میں ہیں۔
’’تحریک ادب‘‘ وارانسی کا یہ شمارہ علامہ عبداللہ العمادیؒ مرحوم کی عظمتوں کو یاد کرنے کی ایک کوشش ہے۔ برادرم جاوید انور نے میری تجویز پر اس شمارہ کو ترتیب دیا ہے کہ لوگ اپنے اس عظیم بطلِ بے مثل کو یاد رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے ملک کے علماء نے وہ ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دیے ہیں جو سارے عالمِ فکر و نظر کے لیے قابلِ اعتراف ہیں۔
اُمید کہ ہماری یہ کوشش قبولیت عام حاصل کرے گی۔
٭٭
پس نوشت:
علامہ عبداللہ العمادیؒ کی پوتی محترمہ لطیفہ بیگم کے پاس علامہ سے متعلق کچھ ایسی تحریروں کے مسودات ہیں، جو اگر طبع ہو جائیں تو ریکارڈ میں محفوظ ہو جائیں۔
٭٭٭