“اب میں ڈنر کے بعد کب سے ٹی وی دیکھ رہا ہوں وہ ملکہ صاحبہ میگزین کبھی اٹھا رہی ہے اور کبھی سیل فون ہاں اور مجھے بھی دیکھتی رہتی ہے شاید اسے یہ پتا نہیں یہ بات مجھے بھی پتہ ہے ہوں بات نہیں کر سکتی چلو آج میں ہی بات شروع کرتا ہوں ”
وہ ٹی وی اف کر کے بیڈ کی طرف جانے چل پڑا –
اف میں کیا کرؤں یہ تو میری طرف آرہا ہے اس نے سکندر کو دیکھا جو اس کی طرف آرہا تھا –
یہ کوئی فیصلہ ہی نہ سنا دے میں آج گھبرا کیوں رہی ہوں –
وہ اب بیڈ کی دوسری طرف آ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکا تھا –
ملکہ صاحبہ کیسی ہیں وہ نرم لہجے میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا –
“جی ٹھیک ہوں ”
اف اب اس کے بعد کیا بات کرے گا وہ لڑکی جو کبھی اسے سے اعتماد اور غصے کے ساتھ بات کرتی تھی آج اس کے سامنے گھبرا رہی تھی –
“ہوں پھر وہی جی یوں نہیں ہوا حال ہی پوچھ لے میرا ”
پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے میں نے تو آپ کو صرف رات دی تھی – لیکن دو دنوں سے آپ تو خاموش ہو گئی ہیں نہ ہی میری بات کا جواب دیا اس لیے میں نے سوچا آج میں ہی آپ سے بات کر کے پوچھ ہی لوں –
چلا ایمان ہمت کر اس سے پہلے کے یہ ہی کوئی فیصلہ کر دے – وہ خود کلامی کرتے ہوئے بولی تھی –
جی میں آپ سے سوری بولتی ہوں آج تک میں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا غلط کیا نفرت اس لیے میں آپ سے کرتی تھی کہ آپ کی وجہ سے جھگڑا ہوا اور آپ کی وجہ سے ہی جنید میرے پیچھے پڑا –
“ہوں اس کا مطلب میری طلاق والی دھمکی کام آ گئی وہ اس کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا ”
اور اس کو دیکھ رہا تھا جو سادہ سے لان کے سوٹ میں ملبوس اور سلیقے سے دوپٹہ سر پر اوڑھے بہت خوبصورت لگ رہی تھی –
وہ سر جھکا کر اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے بولے جا رہی تھی-
اور آپ کی وجہ سے ہی میری تعلیم ادھوری رہے گئی آپ کی محبت پر پہلے مجھے یقین نہیں تھا میں آپ کو بھی کوئی لوفر لڑکا سمجھتی تھی کیونکہ آپ کی حرکتیں ہی ایسی تھیں پھر مجھے آپ کی ڈائری پڑھ کر آپ کی محبت پر یقین آ گیا اور مجھے لگا میں نے جو کچھ کیا آج تک آپ کے ساتھ غلط کیا
آپ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آپ کی شادی مجھ سے ہو رہی ہے اس لیے میں نے اس شادی کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے – کیونکہ اس شادی میں آپ کا بھی قصور نہیں ہے –
میں نے سوچا کہ اب مجھے حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے شاید میری قسمت میں ہی ایسا ہونا تھا –
ہوں ملکہ صاحبہ یہی بات کہنا چاہتی تھیں دو دن سے یہی بات نہیں ہو رہی تھی –
یعنی آپ مجھے اب اپنا شوہر تسلیم کرنے کو تیار ہیں وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا تھا –
اف جب کہہ ہی دیا ہے تو اب دوبارہ کیوں پوچھ رہا ہے ” جی ”
آپ کی غلطی فہمی بھی میں دور کرنا چاہتا ہوں اگر میں اس دن نہ آتا تو اس جنید نے آپ کو تب تک تنگ کرنا تھا جب تک یونیورسٹی میں آپ رہتیں میں اس کو کافی عرصے سے جانتا ہوں –
جہاں تک سوال ہے آپ کی تعلیم کا تو آپ جاری رکھیں میں نے کوئی آپ کو روکا نہیں ہے –
“اور محبت کا اظہار کرنے والے آپ کے خیال میں سب لوفر ہوتے ہیں تو اس میں میرا قصور نہیں ہے”
” اور ایک اجازت میں نے آپ سے بھی لینی تھی وہ مسکراتے ہوئے بولا کیا میں بیڈ پر سو سکتا ہے وہ کیا ہے ناں میں صوفے پر سو سو کر گردن کے درد کا مریض بن گیا ہوں ”
وہ اسے صرف تنگ کرنے کے لیے ہی بولا تھا –
اف جب میں نے کہہ ہی دیا ہے کہ میں نے آپ کو شوہر تسلیم کر لیا ہے تو پھر یہ اب جان بوجھ کر مجھے تنگ کر رہا ہے –
ایک تو آپ سوچتی بہت ہیں وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا –
میں نے آپ کو کب منع کیا آپ نے بیڈ پر سونا ہے سو جائیں –
” ملکہ عالیہ شکریہ آپ کا ”
ویسے اب آپ کو بھی مجھے چھپ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے وہ مسکراتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا –
************
وہ شاور لے کر نکلا تو ایمان ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی کلائی میں چوڑیاں پہن رہی تھی –
پاگل لڑکی یہ کیا کر رہی ہو میرا انتظار کر لیتی ہاتھ زخمی کر دیا ناں وہ اس کا ہاتھ پکڑا کر ٹشو پیپر سے معمولی سے زخم کو صاف کرتے ہوئے بول رہا تھا –
یہ تو معمولی سا ہے پہلے ہم لیٹ ہو رہے ہیں میری اکلوتی دوست میرا انتظار کرنے کے ساتھ مجھے سے ناراض بھی ہو رہی ہو گئی میں آپ کا انتظار کرتی تو اور لیٹ ہو جاتے ویسے بھی یہ معمولی سے زخم ہے زیادہ کچھ نہیں ہوا
جانتی تو ہیں آپ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں تھوڑی بہت تکلیف میں بھی نہیں دیکھ سکتا اور آپ کا یہ معمولی سا زخم بھی مجھے بہت تکلیف دے رہا ہے اس وقت وہ ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے بولا تھا –
وہ اس وقت بنیان اور جینز میں ملبوس تھا اور تولیہ گردن میں ڈالا ہوا تھا –
چلیں اب آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں تیار ہو جائیں ہم لیٹ ہو رہے ہیں مجھے راستہ بھی دے دیں آپ کو ڈریس نکال کر دے دؤں –
“یہ لیں جو حکم آپ کا ملکہ صاحبہ ”
“ان کی شادی کو آج ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور اپنے زندگی سے بہت خوش تھے آج وہ فائزہ اور جنید کی شادی میں جارہے تھے”
“جنید نے شادی سے پہلے ہی سب برے کام چھوڑ دیے تھے کیونکہ وہ فائزہ سے محبت کرنے لگا تھا اس نے ایمان سے بھی معافی مانگ لی تھی ”
اب چلیں بھی مجھے پھر آپ دیکھ لینا وہ آج پنک رنگ کے سوٹ میں ملبوس اور میچنگ زیورات کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھی -وہ مسکراتی ہوئی بولی –
سکندر بلیک تھری پیس میں ملبوس اسے کے سامنے کھڑا اسے پیار سے دیکھ رہا تھا-
اتنی جلدی ہوتی ہے آپ کو ہر کام کی چلیں پھر رات کو آپ کو دیکھ لیں گے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا –
” مجھے اپنے اللہ پر یقین تھا کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہماری بہتری کے لیے کرتے ہیں شاید یہ بات میرے اللہ کو پسند آگئی اور انہوں نے ایمان کو یعنی میری محبت کو میرے زندگی میں شامل کر ہی دیا اور اسے بھی یقین آگیا میری محبت پر اس طرح زندگی میں انسان کو اللہ تعالی پر ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہماری بہتری کے لیے کرتے ہیں”
” ختم شدہ “
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...