صبح کی خوبصورت کرنیں پھوٹنے کے قریب تھیں۔اندھیرا سارے آسمان کو حصار میں لیئے ہوئے تھا۔چرند پرند غرض یہ کہ ہر چیز اس وقت سجدے میں جھک چکی تھی۔اور اس خالق کی شکرگزارتھی۔جس نے بنایا۔
وہی ہے جو تعریف کے لائق ہے۔
بس وہی ہے جس پہ تعریف سجتی ہے۔
وہی بس مالک ہے۔
وہی جو احد ہے۔
وہی واحد ہے۔
کمرہ اس سمیں نیم تاریکی کا شکار تھا۔اور کمرے میں موجود واحد وجود اس وقت نماز کی نیت کئے ہوئے تھی۔ہلکے نیلے دوپٹے نے اس کے چہرے کو اپنے حصار میں کر رکھا تھا۔کچی نیند سے جاگنے کی وجہ سے چہرہ ہلکا سرخ تھا۔آنکھوں میں بھی سرخی کے ڈورے دیکھنے سے نظر آتے تھے۔
نماز کے کلمات ادا کرتے اس کے گلابی ہونٹ بغیر آواز پیدا کئے بغیر رکے دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔جو دیکھنے میں بھلے لگتے۔
فجر کی نماز ادا کر کے اس نے سلام پھیرا اوردعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئے۔چہرے پہ خوبصورت ٹھراؤ تھا۔
دُعائیہ کلمات ابھی وہ ادا کر ہی رہی تھی۔جب کسی چیز کی چنگھاڑتی آواز نے اسے جھٹکا دیا تھا۔
وہ یقیناًاس کا موبائل فون تھا جسے اس نے گھر والوں سے چھپ کر لیا تھا۔اور کسی کو بتایا بھی نہ تھا۔
اس نے ہاتھوں کو تیزی سے چہرے پہ پھیرا، اور مُڑ کر بیڈ کے پہلو کا دراز کھولا۔کل رات وہ شائد اسے آف کر کے رکھنا بھول گئی تھی۔اس نے آنے والی کال پک کر کے تیزی سے باتھ روم کا رخ کیا تھا۔نمبر انجان تھا۔مگر ممکن تھا ۔کہ ماہ نور یا پھر زری میں سے کسی کا ہوتا۔
کال پک کر کے سہمے ہوئے انداز میں ابھی اس نے سلام کیا ہی تھا۔جب دوسری طرف کی بھاری مردانہ آواز سن کے اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوا تھا۔
اسلامُ علیکم!
ک کون۔۔۔اسے اپنی آواز گلے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
شکر۔۔۔آپ نے کال تو اُٹھائی۔میں تو سمجھا تھا۔آج کا دن پھر سے غارت جائے گا۔اس نے موبائل ہٹا کر نمبر غور سے دیکھا تو بے اختیار اپنا ماتھہ پیٹنے کا دل چاہا۔وہی تو نمبر تھا۔جسے کل رات اس نے فون آن کرنے پہ سب سے پہلے سکرین پہ چمکتے دیکھا تھا۔اور اب اسے ہی بھول کر اُٹھا لیا تھا۔
محترمہ بولیں تو سہی۔آواز مسکراہٹ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
ت تم ۔۔۔ک کون ہو۔وہ اس وقت خوف کا شکار تھی۔کچھ دیر تک پھو پھو کو آ جانا تھا۔
میں وہی ہوں جس کاپیچھلا نمبر آپ نے بلاک کر دیا ۔کوئی ایسے بھی کرتا ہے۔لوگ تو اپنے چاہنے والوں کی قدر کرتے ہیں۔اور ایک آپ ہیں۔وہ اس سے شکوہ کر رہا تھا۔گویا بہت پُرانا یارانہ ہو۔
دیکھیں میں آپ کو نہیں جانتی مہربانی کریں۔مجھے دوبارہ فون مت کیجئے گا۔کیونکہ اب میں نے نمبر بدل لیا ہے۔اسے اب اور کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
اچھا کیا گھر والوں نے فون رکھنے کی اجازت دے دی۔مقابل کی بات تھی۔یا منہ سے نکلی آگ جس سے وہ راکھ کا ڈھیر ہوئی تھی۔جبکہ دوسری طرف اسے واضح محسوس ہو رہا تھا ۔کہ مسکرایا جا رہا ہے۔
اچھا خیر چھوڑیں۔۔۔مجھ سے میرا حال تو پو چھیں۔پوچھیں تو سہی آپ کے بغیر میں کیسا ہوں۔آپ جانتی ہیں اگر آپ میری کال پک نہ کرتیں تو میں پشاور آ جاتا۔
بکواس بند۔۔۔وہ یکدم دھاڑی تھی۔تم آنا پشاور ۔آؤ گے سواری پرمگر میں بھی قسم کھاتی ہوں۔واپسی تمہاری اخبار پہ ہوگی۔اور یاد رکھنا۔اب کی بار فون کیا تو۔۔۔اپنی بد تر حالت کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔
اوہ نازک سی چڑ یا کو غصہ آ رہا؟دیکھ کر اچھا لگا۔انداز خاصا جلانے والا تھا۔ویسے میرا گزارہ تمہاری اس سہمی سی آواز سے بھی ہو سکتاہے۔ اگر روز رات کو بات کرنے کا وعدہ کرو تو۔اس کی فرمائش ۔۔۔وہ اش اش کر اُٹھی تھی۔
میں تمہاری ساری بکواس سن ہی کیوں رہی ہوں۔۔۔کہہ کر اس نے فون بند کرنا چاہا تھا ۔جب دوسری طرف کی آواز نے اسے سکتے کا شکار
کیا تھا۔
فرح خان میڈم ۷ سٹریٹ پہ موجود پارک کے سامنے کی سفید اور نیلی کوٹھی تمہاری ہی ہے نا۔اب کی با واضح دھمکی دی گئی تھی۔
لعنت ہو تم پہ۔۔۔کہہ کر اس نے تیزی سے فون کاٹ دیا تھا۔خوف سے ہونٹ کپ کپا رہے تھے۔بہت سے آنسو اس کی آنکھو ں میں دیکھتے ہی دیکھتے جمع ہوئے اور پھر سفید اور فرخ گالوں کو بھگونے لگے۔
اسے اندازہ نہیں تھا۔ کہ زندگی میں ٹھیک مقصد کے لئے چھپ کر کئے جانے والاکام اسے اس موڑ پر لا سکتا تھا۔
وہ واش بیسن پہ جھک کر چہرہ دھونے لگی۔اس نے باہر پھوپھو ذہرہ کی آواز سنی تھی۔وہ آ چکی تھیں۔
کرتے کی جیب میں ڈالا گیا فون وائبریٹ ہوا تھا۔اس نے تیزی سے آنے والے میسج کو کھولا
فون کو بند کرنے کی غلطی دوبارہ مت کرنا۔۔۔بس یہی تھا۔
آنسو ایک بار پھر سے باہر اُمڈنے لگے تھے جنہیں دھکیلتی باہر نکل آئی۔فون وہ واش روم میں ہی چھپا چکی تھی۔
………….
ہم م م ۔۔۔اتنی خوبصورت خوشبو۔۔۔ابرار بھائی کی آواز پہ اس نے مُڑ کر ان کی جانب دیکھا۔وہ مسکرا کر اندر کمرے میں اردگرد کا جائزہ لے رہے تھے۔
ائیر فرشنر کی خوبصورت خوشبو نے کمرے کے ماحول کو تازہ کر دیا تھا۔اس نے سپرے کی بوتل ریک میں رکھ دی جہاں اور بھی بہت سی اسی طرح کی بوتلیں پڑی تھیں۔
ماہا تمہارا کمرا ۔۔۔کمرا کم خوشبو کی دُکان زیادہ لگ رہا ہے۔
ہائے کاش۔۔۔قسم سے بھائی میرا بس چلے تو میں دنیا بھر کے پھولوں کی خوشبو لا کر رکھ لوں۔انداز میں بچپنا تھا۔
چلو کوئی نئیں۔ہم تمہیں گفٹ کر دیں گے۔
ہائے سچی بھائی۔۔۔اسے یقین نہیں تھا۔
ہاں اس میں کونسی بڑی بات ہے۔میں اپنی گڑیا کو سب لا دوں گا۔انہیں اس کا اس طرح سے مسکرانا اچھا لگا تھا۔
تھینکیو بھائی۔وہ بڑھ کر انکے کندھے جا لگی۔بھائی بھی عجیب کردار ہوتے ہیں۔
ماہا۔۔۔ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔اس سر تھپتھپاتے وہ کام کی بات پہ آئے۔
جی بھائی حکم۔۔۔اس کے انداز پہ وہ مسکرا کر اسے صوفے کی طرف لے گئے۔گڑیا با با کچھ پریشان ہیں۔جانتی ہو آج کل ان کی طعبیت خاصی خراب رہنے لگی ہے۔کل آفس میں انکا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا۔وہ کافی پریشان تھا۔ماتھے پہ تفکر کی لکیریں تھیں۔
بھائی بابا ٹھیک کیوں نہیں ہیں۔میں ہر روز ان کی ڈائٹ اور میڈیسن کا خیال رکھتی ہوں۔میں اور بابر بھائی آپ کے آنے سے پہلے یہ بات کر چکے ہیں۔میں نے بابا سے پوچھا بھی لیکن مسکراتے رہے۔اور میرے فورس کرنے پر بھی بار بار بولتے رہے کہ میرا وہم ہے۔مجھے کوئی
پریشانی نہیں ۔
لیکن بھائی میں جانتی تھی کہ وہ سچ میں پریشان ہیں۔اس نے انہیں ایک لمحے میں اپنی پریشانی سے آگاہ کر دیا۔
میں جانتا ہوں کہ وہ کیوں ہریشان ہیں۔اس نے ان کے کندھے سے سر ہٹا کر حیرت کا اظہار کیا تھا۔کیا سچ میں؟
وہ سر ہلا گیا۔
بتائیں پھر۔۔۔ہم مل کر انکی پریشانی ختم کریں گے۔ابرار کو چند لمحے لگے تھے سوچنے میں۔
ماہ نور بابا چاہتے تھے۔ کہ تمہاری شادی کر دی جائے۔جس کے لئے انہوں نے ذریت حسن کی فیملی کو گھر بلایا۔انہیں اپنی گرتی صحت نے پریشان کر رکھا ہے۔اسی لئے انہوں نے چاہا تھا ۔کہ وہ تمہاری خوشی دیکھ لیں۔مگر۔۔۔وہ جانبوجھ کر رک گیا۔اور ایک نظر اسے دیکھا۔جو اسے ہی سن رہی تھی۔
مگر تم نے انکار کر دیا ۔جس کی وجہ سے ان کی امید ٹوٹ گئی۔انکو یقین تھا کہ تم انکار نہیں کرو گی۔اس لئے تمہیں بتائے بغیر انہوں نے ذریت کی فیملی کو بلا لیا۔چندا میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ان کی پریشانی کی وجہ تم ہو۔بس ان کی ایک خواہش ہے۔جو تم پورا نہیں کرنا چاہتی۔جس نے انہیں ہرٹ کیا ہے۔دوسرا انہیں لگتا ہے کہ اللہ نہ کرے کہیں ا ن کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔کب بلاوا آ جائے۔اور انہیں دنیا پہ یقین نہیں۔بس وہ اپنے ہاتھوں سے کسی مضبوط ہاتھ کے ہوالے تمہیں کر دینا چاہتے ہیں۔اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ ہم تمہیں گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔میں جانتا ہوں ۔تم بابا سے یہ سب بول چکی ہو۔اب تم بولو کیا خیال ہے۔اس کے ہاتھ کو انہوں نے نرمی سے پکڑ رکھا تھا۔
وہ سر جھکا چکی تھی۔بھائی بابا کو اللہ پاک پہ یقین کیوں نہیں ہے۔وہ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں۔آنسو ایک روانی سے بہنے لگے تھے۔
بیٹا بات یقین کی نہیں ہے۔اور۔۔۔اور تم یہ رونا تو بند کرو۔تم عورتیں کوئی بات روئے بغیر نہیں کر سکتی۔اس کے آنسو انہیں تکلیف دے رہے تھے۔
بات محض انکی خواہش کی ہے۔اور اس بھروسے کی ہے جو انکو تم پہ ہے۔ورنہ زندگی کا بھروسہ تو میری کا بھی نہیں ہے۔تمہاری کا بھی نہیں ہے۔بس یہ بزرگ جو ہوتے ہیں نا۔یہ بہت حساس ہوتے ہیں۔انکی خواہش ہوتی ہے۔کہ جو وہ مانگ رہے ہیں۔یا جو وہ چاہتے ہیں۔اپنی اولاد سے وہ انکو بغیر تامل کے مل جائے۔بالکل کسی بچے کی طرح۔۔۔اور اب تم خود دیکھو انکی خواہش ناجائز بھی نہیں۔
وہ اسے منانے آئے تھے۔وہ جانتی تھی۔اس نے افسردگی سے انہیں دیکھا۔اور پھر واپس سر جھکا لیا۔یہ بات اس کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں تھی۔کہ بابا کے یقین میں اس کے لیے کمی آئی تھی۔
ٹھیک ہے بھائی جیسے آپ سب چاہو۔۔۔گلے میں آنسو اٹک گئے تھے۔
نہیں گڑیا بات ہماری خواہش کی نہیں تمہاری کئر کی ہے۔اور تمہارے عتمادکی ہے۔بس ۔۔۔دو دن تک سوچ لو۔۔۔پھر جواب دے دینا۔وہ چاہتے تھے کہ وہ دل سے مانے۔
بھائی بات میری رضا کی ہے۔اور بابا میری وجہ سے اُداس ہیں۔بس آپ بابا کو جا کر بول دیں کہ مجھے کوئی عتراض نہیں۔عتماد واپس لوٹ آیا
تھا۔شادی جب کرنی ہی تھی۔تو اب کیوں نہیں۔بابا کی خواہش پہ کیوں نہیں۔۔۔
شیور؟
ہم م م وہ سر ہلا گئی۔بھائی کا چہرہ مسکرایا تھا۔انہوں نے اس کا سر تھپتھپایا اور اُٹھ گئے۔۔۔
اللہ میری گڑیا کو خوش رکھیں۔میں بابا کو بتا کر آتا ہوں۔تم تیار ہو جاؤ۔آج ہم ڈنر باہر کریں گے ۔بابا اور بابر کو بھی بتا دیتا ہوں۔وہ بھی چلیں۔سارا پلین وہ منٹوں میں بنا چکے تھے۔
اس ایک فیصلے نے انکو تروتازہ کر دیا تھا۔اسے حیرت ہوئی تھی۔
میں فریش ہو کر آتی ہوں۔اپنی وجہ سے بھائی کو مسکراتا دیکھ کر اسے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔
…………..
سویٹزرلینڈ میں سردی اس وقت پورے زوروں پر تھی۔محض خشک سردی نہ تھی۔اس کے ساتھ برف باری بھی بھر پور انداز میں ہو رہی تھی۔اپنے کمرے کی کھڑکی سے وہ ہر چیز کو سفید پڑتے دیکھ رہا تھا۔سڑکیں عمارتوں کی چھتیں سٹریٹ پولز غرض باہر کی موجود ہر چیز سفیدی اوڑھے ہوئے تھی۔جتنی برف باہر پڑتی جمود پیدا کر رہی تھی۔اس سے کہیں زیادہ کھڑکی میں کھڑے وجود کی آنکھوں میں جمود تھا۔جو آسانی سے دیکھا اور پڑھا جا سکتا تھا۔
سردی میں بھی وہاں کے لوگ گھروں میں بیٹھنے کی بجائے باہر سڑکوں پہ لمبے لمبے کوٹ پہنے چہل قدمی کرتے نظر آرہے تھے۔جن میں بوڑھے جوان سب موسم سے اٹکیلیاں کرتے نظر آ رہے تھے۔مگر اس سب میں ایک واحد وہی شائد شخص ہو ۔جو اس سمیں کمرے میں بند آنکھوں میں نفرت کی لہر لئے کھڑا کھڑکی سے پار ہر منظر کو دیکھ رہا تھا۔گویا کسی کے وجود کو تلاش کر رہا ہو۔
نتاشا بی بی نفرت ہے مجھے تم سے شدید نفرت ۔جس طرح تم میری زندگی میں آئی ہو۔اسی طرح میں تمہیں دھکے دے کر اپنی زندگی سے باہر نہ نکال دوں تو میرا نام بدل دینا۔اس کے لہجے کی کاٹ ایسی تھی۔کہ خشک فضاء میں اس کی آواز اور جملوں نے دراڑیں پیدا کر دی تھیں۔ماحول چٹخنے لگا۔گویا تپتی بھٹی میں مکئ کے دانے چٹختے ہوں۔
میرے زندگی کو تم نے مزاق بنانے کی کوشش کی مجھے تباہ کرنے کی جو تم نے کوشش کی ۔اگر میں خود تمہاری زندگی کو مزاق نہ بنا دوں ۔تمہاری زندگی کا تماشا نہ بانا دوں تو۔سمجھنا کہ میں دوھکے کے ہی قابل تھا۔مگر ایک بات یاد رکھنا میں اپنی آنکھوں دیکھی مکھی کسی صورت نہیں نگلوں گا۔اور اس کے ساتھ حساب بھی برابر لوں گا۔اس کے لہجے میں معمول سے ہٹ کر کاٹ تھی۔زبان اس لہجے سے آشنا نہ تھی۔اسی لئے جملے بے ربط ادا ہو رہے تھے۔
اس کے اندر کا اشتعال بڑھا تو اس نے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو پوری شدت سے دیوار پہ دے مارا۔اور پھر تیزی سے کھڑکی کے سامنے سے ہٹ گیا۔دیواریں اس شخص سے خوفزدہ ہوتیں سہم کر آنکھیں ڈھامپتی سمٹ گئیں تھیں۔
چند پل صوفے پہ بیٹھ کر اس نے گہرے گہرے سانس لے کر اپنے اندر کی کسافت کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی اور پھر کمرے کا دروازہ کھولتا باہر نکل گیا۔اس کا رخ ہوٹل کے بزنس ائریا کی جانب تھا۔جہاں سے کچھ دیر قبل میٹنگ کے دوران ہی خراب طعبیت کا بہانا کر کے وہ اُٹھ آیا تھا۔اور جہاں سے ابھی چند لمحے پہلےاکمل نے اسے مسج کر کے واپس آنے کا بولا تھا۔کہ یوں کمرے میں بند ہو جا نا بہتر نہ تھا۔اور کچھ اہم پیپرز پہ اس کے سائنز کی بھی ضرورت تھی۔
—————-
رات کا دوسرا پہر شروع ہونے کے قریب تھا۔جب اس کی سیاہ رنگ کی کار سرخ اینٹوں کے پورچ میں آ رکی ۔باہر نکل کر اس نے سیاہ کوٹ بھی پہلو کی سیٹ سے اُٹھایا اور گھر کی جانب بڑھا۔
گاڑی کے رکنے کی آواز پہ آپی نے افسوس سے نفی میں سر ہلا کر مغرب کی دیوار پہ لگی گھڑی پہ وقت دیکھ کر دادی کو دیکھا۔جن کا رخ لاوئج کے داخلی دروازے کی ہی جانب تھا۔اور جو بغیر کسی قسم کے تاثر کو ظاہر کئے تسبیح کا ورد کرنے میں مصروف تھیں۔اسے انکا یوں بیٹھنا بے چین کر رہا تھا۔تو چڑھ کر بول گئ۔دادی اگر آج آپ نے اپنے لاڈلے کو کچھ نہ بولا ناں تو میرے سے بات کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے۔غضب خدا کا ۔یاد ہے آپ کو کس قدر مان سے ہم انکے گھر رشتہ لے کر گئے تھے۔انہوں نے تو ہمیں نہیں فورس کیا تھانا۔جو یوں ہم انکی بیٹی کی زندگی اپنے بے کار سے لڑکے کے لئے خراب کر دیں۔انسانیت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ہیروں جیسی لڑکی کو رشتوں کی کمی تو نہ ہو گی ناں۔مریم آپی جو نان سٹاپ بولنے لگیں تو انہیں اسے اشارہ دے کر خاموش کروانا پڑا تھا۔کہ وہ آ چکا تھا۔اور یوں دونو خواتین کو انتظار میں دیکھ کر بے اختیار اس کی نظر کلائی پہ بندھی گھڑی پہ پڑی تھیں۔رات کا دوسرا پہر چڑھنے کے قریب تھا۔دل چاہا اپنا ماتھا پیٹ لے۔۔۔۔
اسلام علیکم!لہجے کو قدرے بردبار بنا کر اس نے سلام کیا تو۔دادی نے سر ہلا کر جواب دیا جبکہ مریم آپی نے محض گھور کر دیکھا تھا۔وہ مسکراہٹ دبا گیا۔جانتا تھا کہ اس وقت دونو خواتین کے مزاج سخت خراب تھے۔وہیں کرسی گھسیٹ کر انکے قریب ہی بیٹھ گیا۔اور بیٹھنے سے پہلے دادی کے ماتھے کا بوسہ بھی لے ڈالا۔یہ غصہ کم کرنے کو ایک طرح کی چھوٹی سی تدبیر تھی۔
ذریت اپنی گھڑی مجھے دے دو۔تم جیسے وقت کی پابندی سے نابلد انسان کی کلائی پہ یہ جچتی نہیں۔اور نہ تم اس کے قابل ہو۔مریم آپی نے سب سے پہلے بات شروع کی تھی۔وہ اپنے بھائی کی عادات سے سخت عاجز دکھتیں تھیں۔انکا بس چلتا تو وہ راتو رات اس کے سارے کَس بل نکال دیتیں۔مگر افسوس یہ اب وہ والا ذریت نہیں رہا تھا۔جو خاموشی سے ڈانٹ سن لیتا تھا۔
سوری ۔۔۔۔کام میں وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔اس کے لہجے سے ہلکی سی شرمندگی بھی نہیں جھلک رہی تھی۔
ذریت بچے یہ کوئی زندگی گزارنے کا اصول تو نہ ہوا ناں۔نہ کھانے کی حوش اور نہ میرا کوئی خیال۔چلو مجھے چھوڑو وہ جسے تم بیاہ کر لا رہے ہو۔اس بیچاری کو کیوں اپنی اس ہڈدھرمی کی وجہ سے اذیت میں مبتلا کرنا۔وہ اس وقت خاصی پریشان تھیں۔ذریت محض گہری سانس لے کر رہ گیا۔
ذریت ایک بات یاد رکھنا۔اگر تمہاری یہی عادات رہیں۔تو میں جانے سے پہلے دادی کو ساتھ لے جاؤں گی۔تم کونسا گھر پہ رہتے ہو۔سو تمہیں کیا فرق پڑنا۔بلکہ موجیں مارنا کوئی روکنے والا ہی نہیں ہو گا۔پھر بے شک شادی بھی نہ کرنا۔ویسے بھی تمہاری حرکتیں دیکھ کرماہ نور کے گھر والوں نے خود ہی انکار کر دینا۔مریم آپی جو بولنے لگیں تو کون تھا جو انہیں روک دیتا۔
آپی غصہ مت کریں ۔اور بات بات پہ دادی کو بیچ میں مت لایا کریں بول تو دیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔وہ کچھ تلخ ہوا تھا۔مریم آپی کے ماتھے پہ اور بل نمودار ہوئے۔
ذریت حسن میرے سامنے موڈ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔اور میں دادی کو بار بار اس لئے بیچ میں لا رہی ہوں کیونکہ ایک وہی ہیں ۔جنکو تمہاری وجہ سے تنہائی کاٹنی پڑ رہی ہے۔پتہ نہیں تم نے کیا کِیا ہے کہ ادھر سے ہلتی ہی نہیں ہیں۔مگر تم عجیب خودغرض ہو رہے ہو۔
سوری آپی پکا اگلی بار خیال رکھوں گا۔میٹنگز میں اتنا مصروف ہوں کہ کچھ اور سوجھ ہی نہیں پاتا۔عادت کے بر خلاف وہ صفائی دے رہا تھا۔
ہاں کام تو سارا تم کرتے ہو۔تم ہی واحد انوکھے بزنس مین ہو۔جو اپنے ملازمین سے زیادہ خود کام کرتا ہے۔اگر اتنا ہی کام کا شوق ہے۔ تو ہٹا دو سارے مازمین۔ کیوں مفت میں تنخواہوں پہ پیسہ بہا رہے ہو۔
بولا تو ہے سوری ۔اور کیا کروں اب۔۔۔سارے دن کا تھکا ہوا آیا ہوں۔آرام کرنا چاہتا ہوں اور آپ کی انویسٹیگیشن ہی ختم نہیں ہو رہی۔وہ اپنے موڈ میں واپس لوٹ آیا تھا۔تبھی چڑھ کر جواب دیا ۔
پتہ ہے مجھے جو تم کام کرتے ہو اور جو تمہاری میٹنگز ہوتی ہیں۔کل سے تم سیدھے آٹھ بجے گھر نہ آئے تو یاد رکھنا گھر میں گھسنے نہیں دوں گی۔پھر کرنا پورا شوق باہر گھومنے کا۔وہ بس خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا ۔
ذریت میری بات سن لو اہم ہے۔پھر سونے چلے جانا۔دادی نے تسبیح وہیں میز کے ایک جانب رکھ کر کہا تو وہ بھی ان کی جانب دیکھنے لگا۔
کل میں ماہ نور کی طرف جا رہی ہوں۔کچھ جولری خریدی ہے ۔سوچا بچی کو دیکھا دوں۔تم بھی ساتھ چلنا۔بہتر رہے گا۔اور ہو سکتا ہے ۔مریم بھی ساتھ ہو۔اسے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔یہ ادھر سے مارکٹ چلی جائے گی۔تو تم اپنے سارے کل کے کام ترک کر دو۔
اتنی لمبی بات کے جواب میں وہ خاموش رہا ۔تو آپی کو غصہ آنے لگا۔بولو بھی۔گم سم بیٹھنے کو نہیں بولا۔
اچھا۔۔۔مختصر جواب
کیا اچھا؟
بول تو دیا کہ اچھا لے جاوں گا۔اب اور کیا کروں۔وہ یک دم چڑھ گیا۔
دادی ذرا موڈ دیکھیں اپنے لاڈلے کا۔
دادی میں سونے جا رہا ہوں ۔جدھر بولیں گی لے جاوں گا۔اجازت دیں ۔وہ جوابً خاصا چڑھ گیا تھا۔ہر وقت غصے میں رہنے والی طعبیت نے اسے عجیب سا اکڑ مزاج سا کر دیا تھا۔
ہاں جاؤ۔وہ بھی مریم آپی کا ہاتھ پکڑتیں اس کا ماتھا چومتیں کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔کہ رات کافی بیت چکی تھی۔اور صبح انہیں جانا تھا۔
ذریت انکے جانےکے چند لمحوں بعد پانی پی کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔اس وقت وہ کچھ سوچ رہا تھا۔اور قدم پُر سوچ انداز میں اٹھتے تھے۔
————-
آنٹی روٹی آپ بنا دیں بس۔ باقی سب میں کر لوں گی۔وہ کھانا بنانا سیکھ چکی تھی۔اور آج مہمانوں کے آنے کا سن کر خود خاص احتمام سے بنا رہی تھی۔کہ بابا کا حکم تھا۔کہ اپنے سسرالیوں کے لئے کھانا وہ خود بنائے۔وہ سب بابا کے حکم سے ہی تو کر رہی تھی۔انکی خوشی ہی تو تھی۔جس نے اسے شادی کے لئے ماننے پہ راضی کیا تھا۔ورنہ وہ اس گھر کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔جہاں ساری زندگی اس نے گزاری تھی۔اور جہاں کی ایک ایک اینٹ سے اسے عشق تھا۔
وقت کس قدر تیزی سے بدلتا ہے ناں۔آج جس گھر کو میں اپنی زندگی کا سکون اور اپنے تحفظ کی چھت بول رہی ہوں۔ کل یہ گھر میرے لئے پرایا ہو جائے گا۔پھر شائد میرا سسرال میرے لئے یہ سب ہو۔آنٹی بتول سے نہ جانے کس جزبے کے تحت وہ کہہ گئی تھی۔وہ مسکرا کر سنتی رہیں۔
اصل میں بیٹا یہ گھر آپ کے لئے پرایا نہیں ہو گا۔بس مہمان گاہ کی طرح بن جائے گا۔میکہ پرایا نہیں ہوتا۔یہ تو دوسرا گھر ہوتا ہے۔بس یہاں روز روز ٹھرا نہیں جاتا۔اور سسرال کا سکھی رہے بھی کیوں۔
بتول آنٹی کی بات پہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔اسے بے اختیار فر ح یاد آئی تھی۔جس سے کل ہی اس نے بات کی تھی۔وہ کل کا سوچ کر مسکرانے لگی۔
کل جب وہ کچن میں روٹی بنانے کی پریکٹس کر رہی تھی۔تبھی لاؤنج میں چلتے ٹی وی کی تیز آواز میں فون کی گھنٹی کی آواز گونجی تو اسے آنا پڑا۔مگر اس سے پہلے کے وہ فون اٹھاتی ابرار بھائی فون اٹھا چکے تھے۔
فرح جو بہت خوشی سی ماہ نور کی آواز کے انتظار میں تھی۔وہی پیچھلی غیر آشنا آواز سن کر پر یشان ہو گئ۔آخر یہ نمبر بار بار غلط کیوں مل رہا ہے۔اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
اسلامُ علیکم۔۔۔۔جی آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟ابرار فرح کی آواز پہچان چکا تھا۔مگر اس کا گھبرانا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔اور وہ ٹیکنالجی سے بھی خاصی ناواقف معلوم ہوتی تھی۔
آآآ۔۔۔۔کیا یہ ماہ نور ابتسام کا نمبر ہے؟آخر تنگ آ کر اس نے پوچھ ہی لیا۔
ابرار کے ہونٹ مسکرائے ۔ساتھ ہی دور کھڑی ماہ نور کو بھی بلا لیا ۔جو واپس جانے کا سوچ رہی تھی۔
جی ہے لیکن آپ کون؟اسے دلچسپی ہوئی تھی۔اگلا ری ایکشن دیکھنی کی۔۔۔۔
تو پھر دیں اسے آپ ادھر کیا کر رہے ہیں ۔جواب رکھائی سے آیا تھا۔ابرار مسکرایا اور فون ماہ نور کی جانب بڑھا دیا۔جو خاصی دلچسپی سے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔
فون پکڑا کر وہ وہیں صوفے پہ بیٹھ گیا۔اور ٹی وی کی آواز دھیمی کر لی ۔کہ دھیان سارا فون پہ بات کرتی ماہ نور کی جانب تھا۔جو دھیمی آواز میں اسے اپنے اور ذریت کے رشتے کے بارے میں بتا رہی تھی۔
ہائے ماہا۔۔۔وہ اکڑو؟وہ لفٹ والا؟ماہ نور کو اس کے اندازوں پہ ہنسی آئی تھی۔
ہاں وہی۔۔۔
ہائے ماہا مزاق تو نہیں کر رہی۔اسے ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
بہت خوب اب کیا میں تم سے اس قسم کے مزاق کروں گی؟
ہاں! مطلب تُو سچ بول رہی؟یار یہ پیس تمہارے گھر والوں کو کدھر سے مل گیا؟وہ سننے کو بے چین تھی۔اور اس نے بھی خاصی تفصیل سے سب کچھ بتایا تھا۔اورفرح کو لگا جیسے وہ کوئی کہانی سن رہی ہے۔کہانیاں بھی تو زندگی سے ہی جنم لیتی ہیں۔سو اس میں حیرانی کی کیا بات۔۔۔۔
ماہا بیٹا مہمان آ گئے۔۔۔سوچنے میں اس قدر مصروف تھی کہ آنٹی کی بات پہ وہ چونکی تھی۔
اوہ میں تو بہت بُری حالت میں ہوں۔اس وقت اس کی حالت خاصی میلی سی ہو رہی تھی۔بتول آنٹی نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھ اور پھر آٹا فریج میں رکھنے لگیں جو کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے گوندھا تھا۔
آپ مل کر چینج کر لینا تب تک میں چائے تیار کرتی ہوں۔بتول آنٹی کی بات میں اسے دم لگا ۔تو وہ سر ہلاتی ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئ۔جدھر سے مریم آپی کی پُر جوش آواز سنائی دے رہی تھی۔وہ مسکرا کر ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی ۔مگر بلکل سامنے بیٹھے حضرت کو دیکھ کر وہ گڑبڑا گھئ ۔ذریت کے آنے کی اسے اُمید نہیں تھی۔اسی لئےیک دم پریشان ہو گئ۔اور اسی پریشانی میں اسے سمجھ ہی نہ آ یا کہ اندر جائے یا پھر وہیں سے مُڑ جائے سو۔ اسی شش وپنج میں دروازے میں ہی کھڑی تھی ۔جب دادی کی نرم اور میٹھی سی آواز پہ اسے انکی جانب جانا پڑا۔
بچے ادھر کیوں رک گئیں؟
وہ مجھے سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔کہ میں اندر جاوں یا باہر۔اس قدر معصومیت سے دئے گئے معصوم سے جواب نے جہاں مریم آپی کو ہنسنے پہ مجبور کیا تھا ۔وہیں دادی بھی مسکرائیں تھیں۔اور اس معصومیت پہ اس کے ماتھے پہ بوسہ لے ڈالا۔ذریت نے پہلو بدلا تھا۔لو آگئ ایک اور حصے دار
اندر داخل ہوتی ماہ نور پہ ذریت نے محض ایک ہی لا تعلق سی نظر ڈالی تھی۔خوبصورت تھی معصوم بھی دکھی تھی۔مگر پھر بھی اسے اس میں ایسا کچھ نہیں دکھا تھا۔جس کی وجہ سے دادی اور آپی اس چھوٹی سی لڑکی پہ فدا تھیں۔اس نے تو دوسری نظر تک نہ ڈالی تھی۔ایسا ہے ہی کیا تھا۔اس میں جو وہ دوبارہ اسے دیکھنے پہ مجبور ہوتا۔
ماہ نور چند منٹ بیٹھ کر ہی اٹھ آئی ۔اپنے حولئے پہ اسے سخت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔کچھ ذریت کی موجودگی کا اثر تھا شائد۔سو وہ جلد ہی اٹھ کر باہر آگئ۔باہر آ کر اس نے ایک نظر کچن کو دیکھا اور پھر سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئ۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے واڈروب سے نیلا سوٹ نکالا ۔جو ابھی کل ہی اس نے پریس کر کے لٹکا یا تھا۔
واش روم سے نکلنے اور بال درست کرنے میں اسے محض چھ یا سات منٹ کا عرصہ لگا تھا۔کمرے سے نکلنے سے پہلے اس نے شیشے کے سامنے رک کر اپنا عکس دیکھا۔نیلا سوٹ اس کی شفاف دمکتی رنگت سے امتزاج کھاتا خوب جچ رہا تھا۔باہر نکلنے سے پہلے اس نے بالوں کو باندھ کر ہم رنگ دوپٹے کو حجاب کی صورت چہرے کے گِرد لپیٹا اور باہر نکل آئی۔
وہ سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔جب ذریت ڈرائنگ روم سے نکلا تھا۔اس نے اسے خاص نوٹس کیا تھا۔وہ اس وقت سیاہ شلوار سوٹ میں ملبوس تھا۔جس میں اس کا قد خوب نمایاں ہو رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں فون تھا۔اور رخ لان کی جانب ۔۔۔۔شائد کال سننے جا رہا تھا۔اس کا دل چاہا بلند آواز میں بولے شوخے۔۔۔اسنے اور فرح نے جب کبھی ایک یا دو بار اسے یاد کیا تو اسی لفظ سے یاد کیا تھا۔اب بھی اسی لفظ کو دوہرانے کو خوب دل چاہا۔مگر وہ اپنی اس حسرت کو دباتی کچن کی جانب بڑھ گئ۔
اس کے خیال میں یہ صحیح وقت تھا۔کہ وہ ذریت کی غیر موجودگی میں ریفریشمنٹ ڈرائنگ روم میں لے جاتی۔اور سب کو چائے پکڑا کر خود وہاں سے غائب ہو جاتی۔اسی خیال کے تحت وہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔اور ابھی اس نے چائے کے کپ سب کو پیش کئے ہی تھے۔جب دادی کی بات پہ وہ یک دم گڑبڑا گئ۔
ماہ نور بچے۔۔۔ذریت کو بھی بلا لو۔اب گیا تو گھنٹے بعد ہی لوٹے گا۔
جی؟بے اختیار اس نے بابا کی جانب دیکھا ۔جو جانے کا اشارہ کر رہے تھے۔اس نے مدد طلب نظروں سے دونوں بھائوں کو دیکھا ۔اور پھر ہری جھنڈی دیکھ کر مجبوراً اسے خود ہی جانا پڑا ۔
لاؤنج سے نکلتے ہی دور درخت کے سائے تلے وہ کھڑا تھا۔
شوخا۔۔۔دل پھر سے چاہا تھا کہ بلند آواز سے لفظ شوخا بولتی۔اور پھر وہاں سے بھاگ جاتی۔مگر افسوس کچھ حسرتیں محض حسرتیں ہی ہوتی ہیں۔
باری صاحب سے میٹنگ فائنل کر دو۔کل دوپہر کی میٹنگ رکھنا۔اور رات کی سب میٹنگز کینسل کر دو۔وہ تیز تیز اپنے سیکٹری کو آڈرز دے رہا تھا۔چند پل تو وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی رہی۔مگر پھر اس کے احکامات کی بڑھتی لسٹ دیکھ کر اسے گلا صاف کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا جس میں وہ خاصی کامیاب ہوئی تھی۔
ابھی جو بولا وہ کرو۔کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔فون رکھ کر وہ سیدھا اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
وہ آپ کو سب اندر بلا رہے ہیں۔۔۔ چائے پہ۔آپس میں دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو ملائےوہ آنے کا مدع بیان کر رہی تھی۔اس بار ذریت نے اسے خاص نوٹس کیا۔
چلیں میں آ رہا ہوں۔انداز ہمیشہ کی طرح خشک تھا۔اس کا جواب سُن کر وہ سر ہلا کر مُڑی ہی تھی۔جب ذریت نے اسے پھر سے پکار تھا۔
سنو۔۔۔اس کا لہجہ بالکل بھی ایسا نہیں تھا۔جو اسے نرم شخصیت کا تاثر بخشتا۔
جی؟
کیا ہم باہر مل سکتے ہیں؟
جی؟میرا مطلب کیوں؟اسے حیرت ہوئی تھی۔وہ تو سیدھا ڈیٹ کی آفر دے رہا تھا۔
مجھے تم سے بات کرنی ہے۔
کونسی بات؟۔۔۔۔
یہ تو میں وہیں بتاوں گا۔اب کی بار انداز روکھا تھا۔
لیکن میں تو اپنے بھائی یا بابا کے سوا کسی کے ساتھ باہر نہیں جاتی۔اس قدر صاف گوئی کی ذریت کو ہر گز اُمید نہیں تھی۔
تو پھر پوچھ لو ان سے۔اور بے فکر رہو۔میں آدم خور بالکل بھی نہیں ہوں۔اسے اس لڑکی کا رویہ ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔تبھی بغیر لگی لپٹی کہہ دیا۔بُرا تو ماہ نور کو بھی لگا تھا۔اور سب کچھ بُرالگا تھا۔مگر محض گہری سانس لے کر رہ گئ۔
میں آدم خور چیزوں سے ویسے ڈرتی ہر گز نہیں ہوں۔لیکن میں اپنے خاندان کے اور اپنے اُصولوں کو ساتھ ہی رکھتی ہوں۔آپ کو جو بھی بات کرنی ہے۔کریں میں سُن رہی ہوں۔اور اگر نہیں کر سکتے تو پھر انتظار کے سوا کچھ نہیں۔وہ اتنا کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔ماہ نور ابتسام کی شان کے خلاف تھا۔کہ وہ بغیر کسی وجہ کے۔کسی غیر مرد سے باتیں سنتی۔اور ذریت تو اسے باہر ملنے کا بول رہا تھا۔جو اس کے مزاج کے سخت خلاف تھا۔اسی لئے بغیر کسی لیحاظ کے کہہ کر رستہ ناپتی واپس مُڑ گئ۔
جکہ ذریت کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔کہ چھٹانک بھر لڑکی اسے باتیں سنا جائے گی۔اسے جس کے پیچھے شہر کی آدھی لڑکیاں دیوانی۔۔۔اس سے شادی کے جاگتے میں خواب دیکھتی تھیں۔اور یہ لڑکی جس سے بات بھی پہلی بار اس نے ابھی چند منٹ پہلے کی تھی۔اور جس سے اس کا رشتہ طہ پایا تھا۔کس طرح باتیں سنا گئ تھی۔اس نے ایک ناگوار نظر دور جاتی ماہ نور ابتسام پہ ڈالی اور فون جیب میں ڈالتا۔اسی رستے سے واپس مُڑ گیا جس سے آیا تھا۔
————-
انکل میں ماہ نور کو مارکٹ ساتھ لے جاوں۔اصل میں کچھ شاپنگ ہے۔جیسے جوتے وغیرہ۔۔۔۔تو سوچا ماہ نور ساتھ چل کر خود لے لے زیادہ بہتر رہے گا۔آپی کی بات پہ ذریت نے گہرا سانس لیا تھا۔اس نے ہی انہیں بولا تھا۔کہ وہ ماہ نور سے ملنا چاہتا ہے۔
کیا بات کرنی ہے؟جو اس طرح باہر بلا رہے ہو۔انہیں اس پہ کچھ شک گُزرا تو جھٹ پوچھا۔
کرنی ہے کچھ۔بس پوچھیں انکل سے۔۔۔
بات سنو اپنی نا کام محبت کے قصے ہر گز مت سنانا سمجھے۔۔۔وہ ان کی بات سُن کر محض مسکرایا ۔تو آپی کا ماتھا ٹھنکا تھا۔مگر پھر اس کے بار بار بولنے پہ انہیں پوچھنا ہی پڑا۔ماہ نور بتول آنٹی کے ساتھ برتن سمیٹ رہی تھی۔تبھی ٹھٹکی مگر مصروف ظاہر کرتی رہی۔
جی بیٹا ۔۔۔آپ ماہ نور کو لے جائیں۔بابا کی معصومیت پہ اس کا دل چاہا ماتھا پیٹ لے۔لڑکے کی بہن باہر لے جانے کی اجازت کیوں مانگ رہی تھی۔انہیں سمجھنا چاہے تھا۔
بھائی بابا کو بولیں میں نے نہیں جانا۔کچن میں برتن رکھتے اس نے میسج کر کے ابرار بھائی کو بلا لیا تھا۔اور اب ان کے سامنے منہ لٹکائے کھڑی تھی۔
کیوں؟یار ماہا لڑکیاں تو شاپنگ کی دیوانی ہوتی ہیں۔اور ایک تم ہو۔اپنی ہی شادی کی شاپنگ نہیں کرنا چاہتی۔ابرار بھائی کی بات پہ وہ گڑبڑا گئ ۔
وہ بات نہیں ہے۔بس مجھے عجیب لگ رہا ہے۔
پاگل اگر انکار کیا تب زیادہ بُرا لگے گا۔اس طرح تھوڑی اچھا لگتا ہے۔۔۔۔چلے جاؤ ۔جلدی واپس آ جانا۔ابرار بھائی اتنا کہہ کر وہاں رکے نہیں تھے۔تیزی سے واپس مُڑ گئے۔
————-
مال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔عصر کا وقت تھا۔جب وہ اور آپی شاپنگ سے فارغ ہوئی تھیں۔ہر چیز آپی نے اس سے مشورے کے بعد لی تھی۔اسے بہت عجیب فیل ہو رہا تھا۔آپی جس قدر پیار سے اس کے لئے سب خرید رہی تھیں اسے خامخواہ شرمندگی گھیرے جارہی تھی۔اس نے بہت بار منع کیا کہ جتنی شاپنگ کی کافی ہے۔مگر آپی نے اس کی ایک نہ سنی اور کافی کچھ خرید ڈالا۔اصل تو وہ تب گڑ بڑائی جب آپی اسے برائڈل ڈریس لینے کا بولنے لگیں۔۔۔۔
آپی وہ آپ اپنی مرضی سے لے لیں۔اسے بے حد شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔
ارے پگلی پہنا تم نے۔اور لوں میں۔۔۔۔ایسا تھوڑی ہو گا۔چلو آؤ۔۔۔جو اچھا لگے فوراً بتانا۔۔۔شرمانے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے۔
اس قدر پیار پہ اس کو کافی سکون محسوس ہوا تھا۔ورنہ عجیب سا محسوس ہو رہاتھا۔
اور پھر ایک گھنٹے کی محنت کے بعد وہ شادی کا جوڑا بھی خرید ہی چکی تھیں۔اور اب تھکی وہیں مال کے ریستوران میں بیٹھیں تھیں۔خب مریم آپی کا میز پہ پڑا فون گنگنایا اُٹھا۔انہوں نے ایک نظر سکرین کو دیکھا اور پھر فون اُٹھا کر کھڑی ہو گئں۔
میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں پریشان مت ہونا۔تم نے کچھ اور کھانا تو بتاو۔۔۔آپی کے پوچھنے پہ وہ نفی میں سر ہلا کر اردگرد چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھنے لگی تھی۔جب کوئی اس کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تو وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔ آپی جا چکی تھیں۔وہ جانتی تھی اس نے آنا ہی تھا۔وہ انہیں مال کے باہر چھوڑ کر کسی کام کا بول کر چلا گیا تھا۔اور اب تین چار گھنٹوں بعد واپس اس کے سامنے بیٹھا تھا۔کچھ گھنٹوں پہلےسیدھے سیاہ قیض کے بازو اب کلائیوں سے کچھ موڑے جا چکے تھے۔
ماہ نور کے چہرے پہ اس وقت کوئی تاثر نہیں تھا۔ہاں البتہ اندر سے وہ خاصی جزبز ہو رہی تھی۔اور کچھ دیر پہلے کے اس کے رویے کو بھول چکی تھی۔پہلی بار وہ بابا یا بھائی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ادھر ہوٹل میں بیٹھی تھی۔
تم شادی سے انکار کر دو۔اس کے الفاظ تھے یا بمب۔اس کے سارے جزبات یکدم ہوا ہوئے تھے۔
جی؟
ہاں تم شادی سے انکار کر دو۔
کیوں؟وہ ماہ نور ابتسام تھی۔کسی کے آگے نہ جھکنے والی فطرت کی مالک۔ساکھ پہ آتا سوال دیکھ کر جھٹ سوال کیا۔
کیونکہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔آرام سے کہا گیا۔
مجھ سے صرف نہیں کرنی ؟یا کسی اور سے بھی نہیں کرنی؟بڑے ٹھہرے انداز میں اس نے اس سے پوچھا تھا۔ذریت کی نظریں جو ہوٹل کا جائزہ لے رہی تھیں۔ٹھٹک کر نیلے سوٹ میں ملبوس کم عمر لڑکی پہ ٹِک گئیں۔وہ سامنے بیٹھی عتماد سے پوچھ رہی تھی۔
تم سے اور نہ کسی اور سے۔خشک انداز میں جواب دے کر اسے دیکھاتھا۔کہ ضرور مضطرب کر دے گا۔مگر وہ پُرسکون ہی رہی۔
ٹھیک ہے تو پھر کر دیں انکار۔اس نے بھی تحمل سے جواب دیا ۔اور پھر کچھ جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔
دیکھو اس سے سراسر نقصان تمہارا ہو گا۔میرا کچھ نہیں جائے گا۔مجھے کسی عورت پہ بھی عتماد نہیں ہے۔مجھے شادی اب کرنی ہے اور نہ کسی اور وقت۔اب تم سمجھ جاو میرے ساتھ رہ کر تم کس قسم کی زندگی گُزاروگی۔اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو کبھی گھاٹے کی ڈیل نہ کرتا۔اندر کے غصے کو دبا کر عادت کے برخلاف اس نے خاصے تحمل سے سمجھانا چاہا تھا۔
لیکن میں آپ نہیں ہوں۔اور نہ ہی یہاں کوئی بزنس میٹنگ چل رہی ہے۔جو آپ ڈیل کی بات کر رہے ہیں۔شادی سے یا لڑکی سے جس سے بھی آپ کو پرابلم ہے۔مجھے نہیں ہے۔شادی میرے لئے حکم ہے۔بابا کا بھی اور خاص طور پہ میرے ربّ کا۔سو میں یہ حکم ضرور مانوں گی۔اب چاہے آپ ہوں یا کوئی اور مجھے فرق نہیں پڑتا۔پرابلم آپ کو ہے۔سو آپ کی مرضی کر دیں انکار۔اسے اس کے الفاظ نےخاصہ دکھ دیا تھا۔پتا نہیں اسے کس چیز کی اکڑ تھی۔
ٹھیک ہے اب میں جو بھی کروں۔وہ میری مرضی ہے۔تم مجھ سے سوال کرنے کا حق کھو چکی ہو۔اس نے اب کی بار ڈرانے کی کوشش کی ۔مگر وہ خاموشی سے اس پہ لاپر وا سی نظر ڈال کر ارد گرد آتے جاتے لوگوں کو دیکھتی رہی۔گویا وہاں کسی اور کے بارے میں بات ہو رہی ہو۔
ایک ناگواری کا احساس تھا۔جو اس کے اندر سے اُٹھا تھا۔آخر یہ لڑکی خود کو سمجھتی کیا تھی۔اتنی کوئی خوبصورت بھی نہیں ہے۔جو ایسے بن رہی ہے۔جیسے کسی ریاست کی ملکہ ہو۔اسے اس کا انداز ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
ماہ نور اگرچہ خود کو خاصا پُرسکون ظاہر کر رہی تھی۔مگر اندر سے وہ جس قدر افسردہ تھی۔یہ وہی جانتی تھی۔یاپھر مالک۔۔۔۔اندر سے دکھ کا ایک اُبال تھا۔جو بار بار اُٹھ رہا تھا۔وہ ہر چیز کی اُمید کر سکتی تھی۔مگر شادی سے انکار کے بارے میں اس نے سوچا تک نہیں تھا۔
ابرار بھائی آچکے ہیں۔۔۔میں چلتی ہوں۔آپ آپی کو بتا دیجئے گا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے میسج کر کے انہیں بلایا تھا۔اور اب ان کا رپلائے آیا تھا۔کہ باہر کھڑا ہوں آ جاو۔۔۔۔
اس نےشوپنگ بیگ اُ ٹھائے اور وہاں سے اُٹھ کر سیڑھیاں اترتی باہر آ گئی۔بھائی سامنے ہی کھڑے تھے۔سو ڈھونڈنا نہیں پڑا ۔
کیا سارے جزباتی میرے گھر ہی جمع ہونے ہیں۔پتہ نہیں ان سب کو شادی کا اتنا جنون کیوں چڑھ گیا ہے۔کام نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بڑبڑاہٹیں عروج پہ تھیں۔چند منٹوں بعد آپی کو بلا کر وہ بھی گھر کا رستہ ناپ رہا تھا۔جہاں کچھ دیر پہلے وہ دادی کو چھوڑ کر آیا تھا۔
سارے رستے آپی اس سے پوچھتی رہیں۔کہ کیا بات ہوئی۔مگر اس کے ماتھے کی رگیں تنی رہیں۔اور ایک لفظ بھی منہ سے نہ بولا۔پوچھ پوچھ کر آخر وہ بھی چپ ہو گیں۔کہ خود ہی بعد میں ماہ نور سے پوچھ لیں گی۔
– —————
شام کے سائے ڈھلنے کے قریب تھے۔نارنجی سورج کی آسمان پہ آگ کی لپٹیں جلتی محسوس ہو رہی تھیں۔سورج زوال کی طرف تیزی سے محوِسفر تھا۔اس نے عصر کی نماز ابھی ابھی پڑھی تھی۔اور دُعا مانگتی نیچے پھوپھو کی طرف کچن میں آگئ جہاں وہ تیزی تیزی سے کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔
ہوگئ ہو فارغ تو ذرا یہ پیاز کاٹ دو۔ مغرب سے پہلے کھانا بنانا ہے۔ابھی کل کے انتظامات باقی ہیں۔کل پھوپھو کے سسرالیوں نے ان کی شادی کی ڈیٹ فائنل کرنے آنا تھا۔اور وہ آدھے آج اور کل میں کام بانٹ چکی تھیں۔تاکہ زیادہ پرابلم نہ ہو۔
میرے سے نہیں کٹتے پیاز ویاز۔۔۔۔رہ رہ کر پھوپھو کے جانے کا غم اسے ڈسے جا رہا تھا۔دوسری طرف ماہ نور بی بی کی بھی منگنی ہو چکی تھی۔صدمہ سا صدمہ تھا۔اور پھوپھی بیگم کو ابھی تک پیازوں کی فکر تھی۔اور اس سے پیاز کٹوانے کی فرمائیشیں ہو رہی تھیں۔
اوہو ۔۔۔۔لڑکی یہ منہ کس کے غم میں لٹکا رکھا۔ذرا مجھے بھی تو بتاو۔کونسی فکر ہے۔جو میری مانو بلی کو تنگ کر رہی ہے۔وہ جب بھی ناراض ہوتی وہ اسے ایسے ہی الفاظ سے مخاطب کرتیں۔
پاکستانی وزیرِداخلہ باہر لان میں آیا بیٹھا ہے۔اور نواز شریف کی سالگرہ کے فنگشن کی لسٹوں میں لکھے گئے مہمانوں کے نام بتا رہا ہے۔پوچھ رہا ہے۔مودی کا نام لسٹ میں ڈالوں یا رہنے دوں۔جواب اس قدر منہ بگاڑ کر دیا تھا۔کہ پھو پھو ہنستی چلی گئیں۔
واہ مجھے نہیں پتا تھا۔کہ تمہاری حکومت تک بھی رسائی ہے۔کہ وزیر مشیر ہماری موٹی سے مشورے کرنے آتے ہیں۔
ہاں ناں۔۔۔۔کل ڈونلڈ ٹرمپ آیا بیٹھا تھا۔کہہ رہا تھا۔اس کے گھر دعوت پہ آ کر اسے عزت بخشوں۔لیکن میں نے انکار کر دیا کہ نہیں۔کل میں مصروف ہوں۔کل میری پھوپھو کے سو کولڈ سسرالیوں نے آنا ہے ۔سو میرے پاس وقت نہیں ہے۔
لفظ سوکولڈ پہ ذہرہ نے مُڑ کر اسے دیکھا تھا۔اب وہ سمجھ چکی تھیں کہ کیوں منہ لٹکا ہوا تھا۔
اچھاااا اب میں سمجھی کہ میڈم کا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے۔انہوں نے اچھا کو لمبا کیا تھا۔
چلو شکر ہے۔منہ بگاڑ کر سامنے پڑے دھلے دھلائے ٹماٹر کاٹنے لگی۔
انکو کیوں بیچاروں کو سوکولڈ بول رہی ہو۔اپنی اماں سے بول دو تمہیں بھی رخصت کر دیں۔چاہو تو جہیز میں۔۔۔میں تمہیں اپنے ساتھ بھی لے کر جاسکتی ہوں۔مسکرا کر انہوں نے کٹے ہوئے ٹماٹر ہنڈیا میں ڈالے اور ساتھ بات بھی کرتی ہیں۔
نہیں۔۔۔۔میں جہیز کو لانت سمجھتی ہوں۔آپ کرو شادی۔اور جب سسرال میں جا کر ہر روز س سے ساس کے ہر صبح ڈنڈے کھنے پڑیں گے ۔جب وہ ہر صبح سر میں ڈنڈا مار کر اُٹھایا کرے گی ناں۔تو یقین مانو پھوپھی بیگم میں تمہارے رونے نہیں سنوں گی۔بلکہ وہ سب س سے ساس کو بتایا کروں گی۔اور آدھی باتیں اپنے پاس سےبھی لگایا کروں گی۔تب اصل مزہ آئے گی۔اس کے منصوبے سن کر انکا منہ کھل گیا تھا۔
ہائے فری یہ کونسے بدلے ہیں۔جو تم مجھ سے لو گی۔
پھوپھی بیگم میں آپ کو حقیقت سے آگاہ کر رہی ہوں۔جو جلد ظاہر ہونے والی ہے۔اس کے لفظ پھوپھی بیگم پہ بے اختیار وہ ہنسی تھیں۔جو باہر سے گزرتی بوا نے صاف سنی تھی۔
لڑکی !بن بیاہی لڑکیاں یوں دانت نکالتی کچھ اچھی نہیں لگتیں۔اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔شام کا وقت ہے۔بوا کچن میں آ کر جو بولیں تو جہاں پھوپھو گڑبڑائیں تھیں۔وہیں فرح کا بھی منہ بن گیا ۔ایک تو ان کو اپنے گھر چین نہیں ہے۔وہ ابھی وہیں دروازے میں کھڑی تھیں۔جب فرح نے دھیمی آواز میں تبصرا کیا تھا۔ذاہرہ گڑبڑا گیئں
جی جی بوا۔آپ نے صحیح کہا۔میں خیال رکھوں گی۔گڑبڑا کر بات سمنبھالنے لگیں۔پتہ نہیں اب بوا نے سنا تھا یا نہیں۔وہ اندازہ نہ لگا سکی ۔
ہمم! بوا سر ہلا کر مڑ گئی۔مگر ایک ناگوار نظر فرح پہ ضرور ڈالی تھی۔اسے بڑی بیگم کی لڑکی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔بس مجبوری کے تحت آ جاتیں تھیں۔کہ جب تک پیٹ کی ہر بات یہاں سے وہاں نہ کر دیتیں انکو چین نہ ملتا تھا۔رات کو نیند نہ آتی تھی۔کروٹیں بدل بدل کر رات بیت جاتی تھی۔
تمیز کرو فری اگر وہ سن لیتیں تو؟
تو سن لیتیں۔ہم اتنے فارغ نہیں ہیں۔کہ ایویں ہر ایرے غیرے کی فکریں پالتے پھریرں۔کہہ کر وہ وہاں رکی نہیں تھی۔اُٹھ کر باہر آ گئ۔جہاں چچی اپنے بیٹے کو پڑھا رہی تھیں۔آجکل اس کو اور بہت فکریں تھیں۔
————-
اسلامُ علیکم! ماہ نور نے بجتے فون کو اُٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ فیشن میگزین دیکھتی رہی۔ابھی ابھی وہ لنچ سے فارغ ہوئی تھی۔
وعلیکم اسلام !ماہ نور کیسی ہو؟آپی نے مسکرا کر احمد کو کارپٹ پہ کھیلتے ہوئے دیکھ کر جواب دیا تھا۔
ٹھیک آپی آپ کیسی ہیں؟ماہ نور کو ذریت کی باتیں بھولی نہیں تھیں۔
گھر پہ سب کیسے ہیں؟
جی جی سب اچھے ہیں۔آپ بتائیں دادی جان کیسی ہیں؟
صدقے جاوں۔دادی جان بھی فٹ فاٹ ہیں۔وہ اصل میں ماہا بیٹا مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی۔وہ اس وقت خاص سوچ سوچ کر بول رہی تھیں۔
جی جی آپی میں سن رہی ہوں ۔۔۔اسے عجیب سا محسوس ہوا تھا۔
بیٹا بات کچھ عجیب سی ہے۔میری خواہش ہے۔کہ آپ اس بارے میں کسی سے بات مت کرنا۔سمجھ رہی ہو ناں۔انداز خاصا محتاط تھا۔
جی سمجھ گئی۔وہ میگزین چھوڑ کر سیدھی ہو بیٹھی۔بات ضرور سریس تھی۔
وہ اصل میں۔۔۔۔وہ رکیں۔۔۔کیا۔۔۔۔میرا مطلب ذریت نے کل آپ کو شادی سے انکار کرنے کو بولا تھا؟ہوسکتا ہے ۔میں غلط سمجھی ہوں۔تم بُرا مت ماننا۔اگر اس طرح کی بات ہے ۔تو پلیز مجھے بتا دو۔ماہ نور حیرت سے منہ کھولے سن رہی تھی۔وہ اپنے بھائی کو کتنا اچھا سمجھتی تھیں۔
آپی انہوں نے مجھے شادی سے انکار کرنے کو بولا تھا۔اسی لئے انہوں نے مجھے بلایا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا لیکن میں نے انکار کر دیا۔۔۔۔اب وہ انہیں ساری بات بتا رہی تھی۔اسے یہی صحیح لگا تھا۔وہ کیوں بےعزتی برداشت کرتی۔اس کے گھر والوں کو پتا ہونا چاہے کہ وہ کیا کرتا پھرتا ہے۔
مریم آپی سب خاموشی سے سنتی رہیں۔مگر شرمندگی اور غصے نے ان کے چہرے کو سرخ کر دیا تھا۔
ماہ نور میری تم سے گُزارش ہے۔تم یہ بات کسی سے مت کرنا۔اور شادی کے معملے میں بے فکر ہو جاو۔ذریت کے معملے میں پریشان مت ہونا۔اس کا علاج میں کر لوں گی۔بس میرے پہ یقین رکھنا۔آپی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔کہ وہ کیسے شرمندگی کو کم کریں۔کن الفاظ میں معزرت کریں۔اس لڑکے نے انہیں سخت شرمندہ کروایا تھا۔
آپی میں نے ابھی کسی سے اس بارے میں بات نہیں کی۔آپ ذریت کو مت بتائے گا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے۔ماہ نور کو کچھ حوصلہ ہوا ۔
میں جانتی ہوں ۔گڑیا تم بے فکر رہو۔خُدا تمہیں خوش رکھے۔دادی نے ایک بہترین لڑکی منتخب کی تھی۔انہیں اندازہ ہو چکا تھا۔
……..
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...