الله نظر بد سے بچاۓ ماشاءلله سے بھت بھت پیاری لگ رهی ھو.——————
نور نے شفا کو محبت سے دیکھ کر کھا جو آج اپنے ولیمے پر نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رھی تھی.
شفا اور نور اسٹیج پر بیٹھی ھوئ تھیں.
آفتاب اپنے دوستوں کے درمیان موجود تھا.
آپی دعا کھاں ھے.
شفا نے آس پاس دیکھتے ھوۓ کھا.——————
وه دیکھو وه آرهی ھے دعا.
نور نے سامنے سے آتی دعا کی طرف اشاره کرتے ھوۓ کھا جو ڈارک بلو میکسی میں لائٹ سے میک اپ میں بھت پیاری لگ رھی تھی.————-
کیسی ھو دلھن صاحبه.دعا نے شفا کے پاس بیٹھے ھوۓ کھا.
دعا تم مجھ سے بات مت کرو.میں نے کھا تھا کے جلدی آنا لیکن تم اتنی دیر سے آئ ھو.جاؤ مجھے تم سے بات نھیں کرنی.تم دیکھنا اب میں
اچھا اچھا بس کیا ھو گیا.معاف کردو میری ماں غلطی ھو گئ مجھ سے.اور لوگ کیا کھیں گے کے نئ نویلی دلھن کو تو دیکھو کیسے بولے ھی چلی جا رھی ھے.
دعا نے شفا کی چلتی ھوئ زبان کو روکا.جو بنا رکے چلنا شروع ھی ھو گئ تھی.—–
دعا کی بات سن کر شفا منه پهولا کر بیٹھ گئ.
اچھا اب ناراض تو مت ھو.دیکھو میں نے تو تمھارے بھلے کے لیۓ ھی بولا تھا.
دعا نے شفا کا گال کھینچتے ھوۓ کھا.———
دعا کی اس حرکت پر شفا مسکرا دی.
اچھا یه بتاؤ کل تم میری منگنی میں آؤ گی نا.
دعا نے شفا سے پوچھا.
ھاں میں پوری کوشش کرو گی.
کوشش نھیں کرنی بلکه لازمی آنا ھے.دعا نے روب جما کر کھا.
اچھا اچھا بھئ میں لازمی آؤ گی.
شفا نے کھا.——–
اچھا میں ابھی ایک منٹ میں آتی ھوں.
دعا شفا کو که کر چلی گئ.
شفا نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑے آفتاب کو دیکھا جو اپنے دوستوں سے ھنس ھنس کر باتے کر رھا تھا.
گھنا میسنا یھا کیسے سب کے سامنے خوش اخلاقی کا مظاھره کر رھا ھے.ساری اکڑ تو مجھے ھی دیکھائ جاتی ھے.
شفا نے دل میں سوچا.
****************************
اف الله آج تو بھت تھک گئ.
شفا نے بیڈ پر بیٹھے ھوۓ کھا.
وه لوگ ابھی ولیمے سے واپس آۓ تھے.
تھکن کی وجه سے شفا جلدی کمرے میں آگئ.
جی آجائیں.
دروازه بجنے کی آواز پر شفا نے کھا.
ارے آنٹی آپ کیوں آگئ.مجھے بولا لیا ھوتا.
شفا نے اپنی ساس کو دیکھتے ھوۓ کھا.
نهیں بیٹا میں بس تمھیں کچھ دینے آئ تھی.
شفا کی ساس نے اسے بیڈ پر بیٹھاتے هوۓ کھا.
آفتاب بھی آکر صوفے پر بیٹھ گیا.
شفا بیٹا یه ھمارے خاندانی کنگن ھیں.
یه میری ساس نے مجھے میری شادی پر دیۓ تھے.آج میں یه اپنی بھو کو دے رھی ھوں.مجھے یقین ھے تم ان کو سنبال کر رکھو گی.
انھوں نے شفا کا ھاتھ پکڑ کر محبت سے کھا
جی آنٹی.شفا صرف اتنا ھی که سکی.
آنٹی نھیں امی.اگر تم مجھے امی بلاؤ گی تو مجھے خوشی ھو گی.
جی امی.شفا نے مسکرا کر کھا.
جیتی رهو.
شفا کے سر پر ھاتھ رکھ کر وه محبت سے که کر چلی گئ.
شفا اپنے ھاتھوں میں موجود کنگن دیکھ رھی تھی جب آفتاب نے اس کو دیکھ کر کھا.
بھت افسوس کی بات ھے یه جو تمھارے ھاتھوں میں ھمارے خاندانی کنگن ھیں بھت ھی کم عرصے کے لیۓ ھیں.
کیونکه ان پر صرف میری مریم کا حق ھے.جس دن وه میری بیوی بن کر میرے گھر آۓ گی میں خود اپنے ھاتھوں سے بھت مھبت سے اسے پهناؤں گا.
آفتاب نے طنزیه لهجے میں کها.
مجھے بھی کوئ شوق نھیں آپکے خاندانی کنگن پهننے کا.میں نے صرف آنٹی کی وجه سے پهنے ھیں کیونکه جتنی محبت سے انھوں نے مجھے کھا تھا میں انکار کر کے انکا دل نھیں دکھانا چاھتی تھی.
اور بھت شوق سے یه اااپنی مریم کو پهنائیے گا بلکه.میں خود اسے بھھت محبت سے پهناؤں گی اپنی جان چھوٹنے کی خوشی میں.
شفا نے بھی آفتاب کے انداز میں جواب دیا.
شفا کے جواب پر آفتاب تلملا کر ره گیا.
شفا یه که کر واشروم میں چینج کرنے چلی گئ.
*****************************************
جیسے ھی شفا نے دروازه بند کیا ایک آنسوں اس کی آنکھ سے گرا اپنی تزلیل پر .
وه آفتاب کے سامنے بھادر تو بن جاتی تھی لیکن اندر سے اپنی اتنی تزلیل پر ٹوٹ جاتی تھی.
ایسا نھیں تھا کے اسے آفتاب سے بھت محبت تھی
مھبت تو اس نے صرف ایک ھی شخص سے کی تھی اور وه بھی سچی مھبت.دکھ تو اسے صرف اس بات کا تھا کے جس شخص کے لیۓ وه اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئ تھی کیسے وه اسے ھمیشه بے مول کردیتا ھے.
بے دردی سے اسنے اپنے آنسوں پونچھے.
***************************************
شفا جب باھر آئ تو آفتاب فون پر کسی سے بات کر رھا تھا.
اسنے بیڈ سے تکیه اٹھایا اور صوفے پر لیٹ گئ.
ھاں ھاں میری جان میں کل آؤ گا تم فکر مت کرو.تم فکر مت کرو تم ھی میری پھلی اور آخری محبت ھو.تم ھی میری بیوی بن کر اس گھر میں آؤ گی.
کیا کها تم نے وه اور میری بیوی اسے میں اپنی پیر کی جوتی نا سمجھوں بیوی تو دور کی بات ھے.
بس تم اپنے پیرنٹس کو راضی کر لو.
آفتاب شفا کو طنزیه مسکراهت سے دیکھ کر اسکے کانوں میں زھر گھول رھا تھا.
شفا کو ایک منٹ نھیں لگا تھا یه جاننے میں کے آفتاب کس سے باتیں کر رھا ھے.لیکن وه پتھر بنی چپ چاپ لیٹی رھی.
اچھا جان میں باد میں بات کرتا ھوں.خدا حافظ.
پوچھو گی نھیں کے میں کس سے بات کر رھا تھا.
فون بند کرنے کے بعد آفتاب نے دل جلا دینے والی مسکراھت کے ساتھ شفا سے کھا.
میں تم سے بات کر رھا ھوں.
شفا کے جواب نا دینے پر آفتاب نے غصے سے کھا.
سنائ نھیں دیتا تمھیں کیا میں کچھ کھ رھا ھوں.
اب بھی شفا کے جواب نا دینے پر آفتاب نے غصے سے کھا.
شفا ٹس سے مس نھیں ھوئ.دل میں اسے آفتاب کی بے بسی پر ھنسی آرھی تھی.
شفا کو ویسے ھی چپ چاپ دیکھ کر آفتاب نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی اور سونے کے لیۓ لیٹ گیا——–
(Some time silence is the best answer)
****************************************
صبح جب شفا کی آنکھ کھولی تو سامنے لگے کلینڈر میں آج جی کی تاریخ دیکھ کر وه اداسی سے مسکرا دی.
******************************************