عبداﷲ جاوید (ٹورانٹو۔۔کینیڈا )
عہدِطفلی تو نہیں کہوں گا البتہ بچپن ہی سے حیدر آباد کے جس چہرے سے مجھے واسطہ پڑاوہ مسجدوں والا حیدر آباد تھا ۔اس حیدر آباد سے میرا تعارف میرے والد کی وساطت سے ہوا وہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسجدوں کے ہو رہے تھے ۔میں ان کی انگلی پکڑ کر مسجد جاتا تھا ۔پہلی بار مسجد جانے کا واقعہ اب بھی ہوتا رہتا ہے ۔چھوٹی سی خوبصورت عمارت۔گھروں اور بنگلوں سے بالکل مختلف۔چھت تو بالکل ہی بدلی ہوئی۔ہرے رنگ کا گول گنبد جس کے بیچوں بیچ سنہرے رنگ کا کلس جو سورج نکلنے سے قبل کی نیم روشن ، نیم تاریک شبنمی فضا میں ،میرے بچگانہ ذہن میں ایک انجانا خوف پیدا کر رہا تھا۔اس عمارت کی ایک اور امتیازی خصوصیت ، اس کے بلند و بالا مینار تھے۔جو شاید آسمان کو چھونے کی انسانی خواہش کا استعارہ تھے ۔اس وقت تک اﷲ میاں کے بارے میں میری معلومات کچھ یوں تھی کہ وہ آسمانوں میں کسی جگہ ، کسی اونچے تخت پر بیٹھتے ہیں۔
تخت پر ہی نہیں بلکہ تخت پر بچھی کسی شاندار کرسی پر اور نورانی فرشتے ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں۔میں ان کے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔والد کے ساتھ کے باوجود ، میں ڈرسے کانپ رہا تھا۔جس دروازہ سے ہم دونوں باپ بیٹے داخل ہوئے وہ عام دروازوں سے قدرے کشادہ تھا۔اس کا ایک پٹ کھول دیا گیا تھا۔ایک ہنوز بند تھا۔مسجد یعنی اﷲ کے گھر کا صحن سنگ سیلو کا تھا۔دروازے کے پاس ہی ایک کیاری سی تھی ۔اس کیاری میں موٹا خوب تناور جنگلی بادام کا درخت اپنی موٹی موٹی شاخیں اور پتلی پتلی ٹہنیاں مسجد کی چھت سے بھی بلند تر فضامیں چاروں اور پھیلائے کھڑا تھا۔ان ٹہنیوں میں لمبے چوڑے اور دبیز دبیز پتے لگے ہوئے تھے اور جگہ جگہ موٹے موٹے ہرے جامنی دھبوں والے بادام دیکھنے والوں کی نظروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے ۔چند ایک نیچے بھی گرے پڑے تھے، وہ پھٹے پھٹے تھے۔ان کا اندر کا سرخ ، جامنی ،سخت لیکن رس بھرا ریتہ باہر جھانک رہا تھا۔اندر داخل ہو کر میں نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا ۔ میری آنکھیں اﷲ میاں کو تلاش کر رہی تھیں۔ان کا کہیں پتہ نہ تھا۔
دروازے کے بالکل قریب جوتے اتار کر چھوڑنے ہوتے تھے ۔والد نے اپنی چپلی اتار دی تھی ۔میں کھڑا رہا۔میرے جوتے والد صاحب نے اتارے اور اپنی چپلیوں کے ساتھ رکھ دئیے ۔بالآخر ہم دونوں صحیح معنوں میں اﷲ میاں کے گھر میں داخل ہو گئے ۔۔ننگے پاؤں۔۔اﷲ میاں کو جوتے شاید اس لئے پسند نہ تھے کہ ان کے تلوں کے ساتھ مٹی اور گندگی ان کے گھر آ جاتی ، اﷲ میاں کو گندگی پسند نہیں تھی ۔وہ صفائی پسند تھے میری والدہ کی مانند ۔دروازے کے پاس ایک بانس سے لپٹی ہوئی چنبیلی کے پھولوں کی ایک بیل تھی ۔ہرے رنگ کی اس بیل پر سفید کلیاں لگیں تھیں۔کھلی بھی ، ادھ کھلی بھی اور بند بھی ۔مجھے پھول پیارے لگتے تھے ۔ہر طرح کے پھول ۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ اﷲ میاں کو بھی پھول پسند ہیں۔۔۔اﷲ میاں کی اور میری پسند ایک سی ہے ۔۔۔میرے بچہ ذہن نے سوچا۔ تو کیا اﷲ میاں میرے جیسے ہیں۔۔؟۔۔میری سوچ ایک قدم اور آ گے بڑھی۔۔نہیں اﷲ میاں میرے جیسے نہیں ہو سکتے۔۔۔سب کہتے ہیں وہ بہت بڑے ہیں۔۔تو پھر مجھ جیسے کس طرح ہو سکتے ہیں۔۔؟۔۔میں تو ابھی ایک بچہ ہوں۔۔۔میں نے اپنی بچگانہ سوچ کی نفی کی اور ایک بار پھر اپنے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔اﷲ میاں دکھائی نہیں دئیے۔ایک جانب پانی کے دو مٹکے تھے ۔وضو کرنے کی جگہ تھی ، وہاں ایک ادھڑ عمر کا آدمی وضو کررہا تھا۔ایک بے حد موٹاآدمی تسبیح ہاتھ میں لٹکائے ٹہل رہا تھا ۔دو چار آدمی صحن سے اندرونِ مسجد جا رہے تھے ۔میں نے سوچا ۔۔اﷲ میاں اندر ہوں گے۔۔۔والد کے پیچھے پیچھے میں بھی اندر چلا گیا ۔اندر صفیں بچھیں تھیں۔دور ایک بڑی سی محراب تھی اس کے قریب ایک چوبی منبر تھا۔محراب کے پاس سفید ململ کا کُرتا اور آسمانی رنگ کی چار خانہ تہبند پہنے ہوئے ایک پھیلے پھیلے بدن کے گورے چٹے آدمی بیٹھے ہوئے تھے، والد صاحب نے ان کو سلام عرض کیا اور مجھے ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔وہ اﷲ میاں ہر گز نہ تھے ۔مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ اﷲ میاں آدمیوں جیسے نہیں ہوتے ۔اور یہ تو آدمی تھے۔لوگ ان کو بغدادی صاحب کے نام سے مخاطب کر رہے تھے ٹوٹی فصیل ، سلطان پورہ ، نور خان بازار میں واقع وہ مسجد بھی بغدادی صاحب کی مسجد کہلاتی تھی ۔بغدادی صاحب نے میرے سر اور کندھوں پر اپنے دونوں موٹے موٹے گوشت بھرے ہاتھ پھیرے ۔وہ ہاتھ بے حد نرم تھے جیسے ربر کے بنے ہوں۔بغدادی صاحب خود بھی ربر کے بنے ہوئے تھے ۔ایک بڑے سے گُڈے لگتے تھے ۔انہوں نے مجھے سامنے بٹھایا اور میرے چہرے اور سر پر کچھ پڑھ کر پھونکا ۔پاس رکھی ہوئی ایک سفید رنگ کی طشتری میں کچھ کھجوریں تھیں ۔بغدادی صاحب نے اس طشتری سے ایک کھجور اٹھائی اپنا منہ تھوڑا سا کھولااور نصف کے قریب کھجور اپنے دانتوں سے بڑی چترائی سے کتری اور باقی آدھی میرے منہ میں گھسیڑ دی ۔ان کے منہ کی کھجور کو میں برداشت نہ کر سکا اور فوراً تھوک دیا۔
” کندراتا ہے”بغدادی صاحب کی زبان سے نکلا ۔میری اس حرکت سے والد صاحب کو ندامت ہوئی۔ انہوں نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ ڈال دئیے اور مجھ کو اٹھا کر باہر لے گئے ۔کچھ دیر بعد اذان شروع ہوئی اور نمازی صف بستہ ہونے لگے۔کسی نمازی نے مجھے اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا اور اس طرح میں نے اپنی زندگی کی پہلی با جماعت نماز ادا کی ۔وہ بھی اس طرح کہ سب کو دیکھ کر ان کی نقل میں رکوع و سجود کرتا اٹھتا ، بیٹھتا رہا۔اس تجربہ سے مجھ پر یہ راز افشا ہو گیا کہ اﷲ کے گھر میں ، اﷲ کے بندے اﷲ کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔لیکن اس گھر میں اﷲ میاں نہیں ہوتے۔مجھے بے حد مایوسی ہوئی تھی ۔یہ ایک طرح کی زیادتی تھی ۔۔۔صاف۔۔صاف۔
ایک انجانے خوف کے باوجود جو میرے ننھے سے وجود کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا۔میں اﷲ میاں کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہو رہا تھا۔جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ ابّا جان مجھے اﷲ میاں کے گھر لے جانے والے ہیں ۔میں بے حد خوش تھا ۔بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔اﷲکے گھر میں اﷲ میاں کو نہ پا کر ۔۔میں اتنا ہی اداس ہو گیا تھا۔ایسے وقتوں میں میرا معمول تھا کہ میں خوب روتا اور بسورتا تھا۔زمین پر ٹانگیں گھس گھس کر اپنی مطلو بہ چیز مانگتا ۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی میں سیدھا دالان کے اس گوشے میں پہنچا جہاں بیٹھ کر یہ سب کچھ کرنے کا عادی تھا۔میں وہاں بیٹھ تو گیا لیکن کوشش کے باوجود نہ تو اپنی مخصوص۔۔ریں ۔ریں ۔۔شروع کر سکا اور نہ ہی ٹانگیں گھِسنے میں کامیاب ہو سکا۔میرے حلق سے ریں۔۔ریں۔۔کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی میں نے سوچا یہ مجھے کیا ہو گیا۔۔؟۔۔میں اپنی معمول کی ریں ۔۔ریں۔کرنے میں کیوں ناکام ہو رہا ہوں۔
اچانک میں نے حیرانی سے یہ محسوس کیا کہ اندر ہی اندر مجھے کچھ ہو رہا ہے۔میں کسی کو آواز دے رہا ہوں۔میں بلک بلک کر پکا رہا ہوں۔اﷲ میاں۔۔!۔اﷲ میاں۔۔!۔میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔روتے روتے میں نے اسی طرح دالان کے فرش پر سر ٹکا دیا جیسے اﷲ میاں کے گھر میں لوگ نماز کے دوران کر رہے تھے ۔سجدے کی حالت میں اﷲ میاں کو پکارتے ۔۔بغیر آواز کے لیکن آنسوؤں سے روتے ۔میں جانے کب سو گیا یا غافل ہو گیا۔مجھے یاد نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ ہی خواب میں اور نہ ہی میری غفلت کی حالت میں مجھے اﷲ میاں دکھائی دئیے۔ کروڑوں برس پہلے جب پہلی مرتبہ آدمی نے اﷲ کا گھر بنایا اور پھر بناتا ہی چلا گیا ۔میں اپنے کسی بزرگ کی انگلی تھام کر اﷲ میاں کے ہر نئے گھر میں برابر جا رہا ہوں۔اور اﷲ کے گھر میں ، اﷲ کو نہ پا کر مایوس لوٹ رہا ہوں ۔پھر کسی اور جگہ اور وقت ۔۔۔کسی اور اﷲ کے گھر میں جانے کے لئے۔ ٭٭٭
اباجی کی وفات پر ٹیپو پریشان تھا کہ داداابوجاگتے کیوں نہیں؟۔ اسے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اب نہیں جاگیں گے کیونکہ اللہ میاں نے انہیں اپنے پاس بلالیاہے۔ٹیپونے غصے سے کہا میں اللہ میاں کو ماردوں گا۔ تب چار سال کے اس بچے کو مزید سمجھاناپڑاکہ اللہ میاں کے بارے میں ایسی بات نہیں کہتے کیونکہ وہ بہت بڑا ہے۔ٹیپوکے نزدیک تو سارے خاندان میں داداابو ہی سب سے بڑے تھے چنانچہ اس نے پوچھاکیا اللہ میا ں داداابوسے بھی بڑے ہیں؟ اس پر اسے یقین دلاناپڑاکہ اللہ میاں داداابو سے بھی بڑے ہیں اور ہر کسی سے بڑے ہیں۔کوئی زیادہ سے زیادہ کتنابڑاہوسکتاہے اوراس لحاظ سے اللہ میاں کتنا بڑاہے؟یہ جاننے کے لئے ٹیپو نے اپنے دونوں بازو کھولے اورانہیں جس حد تک پیچھے لے جاسکتاتھا، لے جاکر پوچھا: کیا اللہ میاں اتنے بڑے ہیں؟۔۔ بس اسی لمحے میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے خداکے بارے میں عقائد اور تصورات مجھ پر آئینہ ہوگئے۔ مجھے محسوس ہواکہ سارے مذہبی لوگ ننھے منے معصوم بچوں کی طرح اپنی اپنی بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں۔ جس کی بانہیں جہاں تک جاسکی ہیں اس نے اسی حد تک خداکو بڑا سمجھ رکھاہے کیونکہ اس سے زیادہ بڑائی اس کی سمجھ میں ہی نہیں آسکتی۔ تاہم اس سے مجھے تمام مذاہب کی خداکے معاملے میں سچی جستجواور محبت کا احساس ضرور ہوا۔ یہ الگ بات کہ اس کی ہستی کسی بھی عقیدے اور تصور سے بڑھ کر ہے۔ (زندگی کا تسلسلاز حیدر قریشی
سے اقتباس۔۔۔۔۔بحوالہ ادبی جریدہ اوراق لاہور۔شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۴ء۔ص ۲۳۷)