’اللّٰہ‘ کیا چیز ہے؟ لفظ اللّٰہ عربی زبان میں کس معنی کے لئے بنایا گیا؟ یہ لکڑی ہے آپ لکڑی کا لفظ بولتے ہیں، کرسی کا لفظ بولتے ہیں، آسمان کا لفظ بولتے ہیں، اللہ کا لفظ بول کر کیا چیز سمجھی جاتی ہے؟ وہ شئے ہے جس سے دو حقیقتیں مقتضی ہوتی ہیں ؛
(اوّل) ایک کا نام حُسن ہے
(دوم) ایک کا نام کمال ہے۔
حُسن اور کمال کی جامعیت کا نام ’اللّٰہ‘ ہے، کمال اور حُسن ان دونوں کے مجموعے کا نام اللہ ہے۔ کمال اور حُسن حقیقی آپ ان دونوں لفظوں کے معنی سمجھ لیں حُسن طبعیت کی مناسبت کو کہتے ہیں، حسین وہ ہے جو آپ کی طبیعت کے مناسب ہے تناسبِ اعضاء کی ضرورت نہیں۔ دوسرے کا بچہ کتنا ہی خوبصورت ہو اور اپنا کیسا ہی چیچک زدہ ہو، ناک بہ رہی ہو، مگر طبیعت کے مناسب ہے اس کو گلے سے لگا لے گا دوسرے کے خوبصورت بچے کو دھکیل دے گا، کیونکہ دوسرے کے بچے طبیعت سے وہ مناسب نہیں ہے۔ طبیعت کے حقیقی تناسب کے معنی یہ ہیں کہ کسی وقت بھی غیر مناسب نہ ہو وہ اصل ہوا۔ اسی طرح ’کمال‘ کے معنی میں بڑائی، حقیقی بڑائی وہ ہے جس بڑائی میں اضافہ نہ ہو سکے۔ جیسے یہ پِنڈال بہت بڑا ہے لیکن اس سے بڑا ہو سکتا ہے تو حقیقت میں یہ بڑا نہیں ہوا، ہر وہ بڑا کہ جس پر اضافہ ہو سکے وہ حقیقی بڑا نہیں۔ حقیقی بڑا وہ ہے جس پر اضافہ نہ ہو سکے، اس کے لئے اردو میں کہتے ہیں بڑے سے بڑا۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ میں حُسنِ حقیقی ہے یعنی ایسی مناسبت ہے کہ اس مناسبت میں کسی وقت بھی غیر مناسبت نہیں ہونے کی۔
دیکھئے آپ کے یہاں مناسب چیز یں کیا ہیں؟ کھانا ہے، لذیذ کھانا طبیعت کے مناسب ہے، پیٹ بھرنے کے بعد اس سے بہتر غذا بھی آ جائے گی نہیں کھانے کے۔ عمدہ لباس، عمدہ مکان ہر چیز کو آپ دیکھ لیجئے کچھ مدت کے بعد وہ غیر مناسب ہو جاتی ہے۔ سب سے زیادہ مناسب بیٹا ہے، بیٹے سے زیادہ کوئی شئے مناسب نہیں ہے، بیوی، بیٹا، محبوبہ ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بیوی کو طلاق دیتا ہے، بیٹے کو قتل کر دیتا ہے یا عَاق کر دیتا ہے، ذرا سی تکلیف پاتے ہی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے، بیٹے کو چھوڑ دیتا ہے، عشق کو بھول جاتا ہے۔
لیکن یہ دن رات کساد بازاری ہو رہی ہے لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی، طوفان چلے آ رہے ہیں، محنت کرتے کرتے مرا جا رہا ہے، ہیضہ پھیل رہا ہے، چوبیس گھنٹے بلائیں بھیج رہا ہے، سارے عالَم میں دیکھئے اتنی مصیبتیں اللہ تبارک و تعالیٰ نازل کر رہا ہے خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ وہ ہر سال ہمارے اُوپر مصیبتیں بھیجتا ہے، چلو اس کے متعلق سب مل کر سازش کریں یہ خیال بھی کبھی نہیں آتا۔ اُلٹا اسی سے فریاد کر رہا ہے سمجھتے ہوئے فریاد کر رہا ہے، دُکھ پہنچتے ہوئے فریاد کر رہا ہے، تو معلوم ہوا کہ اس سے زیادہ طبیعت کے مناسب کوئی ذات نہیں ہے۔
پڑھیں اپنے رب کی تحمید اَلحَمْدُ لِلّٰہ
ہر وقت جان نکل رہی ہے، گلا کٹ رہا ہے، کینسر ہو رہا ہے کسی وقت بھی خدا کو بُرا نہیں کہتا حتی کہ مر جاتا ہے یہ نہیں کہتا کہ کیا ظلم ہے؟ تو دُکھ پہنچنے کے وقت بھی وہ اتنا طبعیت کے مناسب ہے کہ اُلٹا اُسی سے فریاد کر رہا ہے۔ کوئی آپ کو تھپڑ مارے تو آپ کہیں گے کہ ہماری مدد کرنا، اس کی جان کے دشمن ہو جائیں گے۔ وہ برابر طمانچے مار رہا ہے، چھڑیاں مار رہا ہے، طاعون بھیج رہا ہے، ہیضہ بھیج رہا ہے، کساد بازاری بھیج رہا ہے، دنیا کی تکلیفیں، مصیبتیں نازل کر رہا ہے ہر وہ مصیبت کے وقت یہ کہتا ہے کہ تُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِین ہے ہمارے اُوپر رحم کر۔ طبیعت کے مناسب کوئی ذات سوائے اس کے نہیں ہے، لہذا حُسنِ حقیقی وہی ہے، طبیعت کے مناسب وہی ہے۔
کمالِ حقیقی کیا چیز ہے؟ جو بڑے سے بڑا ہو۔ یہاں کوئی شئے اس جہان میں بڑی سے بڑی نہیں ملے گی جو شئے ملے گی اس پر اضافہ ہو سکتا ہے اس پر اور بڑائی ہو سکتی ہے۔ آپ کے خیال میں بڑی سے بڑی کیا شئے ہے؟ زیادہ سے زیادہ دیکھیں گے تو وہ آسمان ہے اس سے کوئی بڑی شئے نہیں ہے۔ سورج جو تقریباً زمین سے 159 گنا ہے جو مہندسین نے تحقیق کی ہے وہ آسمان کے اندر ایک ٹکیہ سا معلوم ہوتا ہے، حقیقت میں یہ بھی بڑا نہیں ہے۔ آپ آسمان کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں آپ کی آنکھ سے جو شعاع نکل رہے ہے جو آسمان کی سطح تک پہنچ رہی ہے اس کی مسافت کے مقدار کے برابر یہ چھوٹا ہے، اگر بڑا ہوتا تو یہاں آنکھ تک آ جاتا، تو معلوم ہوا کہ حقیقی بڑے کی صلاحیت ہی اس جہان میں نہیں ہے۔
وہ اس جہان سے باہر ہے وہ سب سے بڑے اور چھوٹے کا تو حقیقت میں خالق ہے۔ اللّٰہ وہ ہے کہ جو حُسنِ حقیقی ہے اور کمالِ حقیقی ہے۔ اللہ کی تعریف ہم نے اپنے قیاس کے مطابق، اپنے شعور کے مطابق پہلے کر دی، جو لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں وہ اس سے زیادہ بیان کر دیں گے اور یہ سلسلہ لا انتہا جائے گا کسی جگہ بھی نہیں ٹھہر سکتا اور حقیقی تعریف ہو نہیں سکے گی، حقیقی تعریف وہی ہے جو وہ خود کرے اس کی تعریف کوئی نہیں کر سکتا۔
پہلے تمہید آپ کے سامنے یہ بیان کر دوں کہ ایک تو ہے عقل کا علم جس کو عقلی علم کہتے ہیں، یعنی وہ علم جو عقل سے حاصل ہو۔ مثلاً یہ مکان ہے، آپ کی عقل یہ بتا رہی ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے یہ عقلی چیز ہے۔ یا ذرا سا دھواں آپ دیکھ لیں تو آپ کی عقل یہ بتائے گی کہ یہ دھواں قرینہ ہے اس کے ساتھ کوئی اور شئے مقرون ہے جس کا نام آگ ہے۔ ہمیشہ آپ یاد رکھیں کہ عقلی علم کتنا ہی یقینی کیوں نہ ہو وہ حالی علم ہے بہت کمزور ہوتا ہے۔ کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ اسے کَل یا تین دن کے بعد پھانسی ہو گی اس کے بعد اس کا کھانا پینا بند ہو جاتا ہے اور بہت پریشانی ہوتی ہے اور آپ لوگوں کو بھی یقین ہے کہ موت آئے گی اور موت کا اس کو بھی یقین ہے۔ لیکن آپ خوب سمجھ لیں کہ آپ کبھی بھی موت سے نہ بچ سکیں گے اور وہ پھانسی کا حکم پانے کے بعد ممکن ہے بچ جائے اور پھانسی کے تختے پر نہ لٹکایا جائے، تو یہ کتنا زبردست یقین ہے جو آپ کو، مجھ کو، سب کو ہے، لیکن یہ حالی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مریں گے سب کو اپنی موت کا یقین ہے لیکن اس کو اپنی موت کا یقین حالی ہے اور وہ یقین اس یقین سے کمزور ہے، کیونکہ اس میں بچنے کا امکان ہے نا۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بچ گیا لیکن حالت میں تبدیلی ہے جو اس کی حالت ہے جو ہیبت موت کی اس پر طاری ہے وہ آپ پر نہیں ہے۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی تو یقین کافی نہ ہوا۔ علم حالی جو ہے وہ کم درجہ کا بھی علمِ عقلی سے بہت قویٰ ہوتا ہے اور بہت با اثر ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں پر اثر نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ علم حالی نہیں ہوا کرتا، وہ علم ظاہری اور عقلی ہوا کرتا ہے۔
یہاں سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کا صدر فلاں ہے ہر شخص کو یقین ہے لیکن شناخت ہر شخص کو نہیں ہے، بہت قلیل تعداد ہو گی جو صدر کو پہچان لے گی اور بہت بڑی اکثریت نہ پہچان سکے گی لیکن یقین سب کو ہے شناخت نہیں کر سکے گی۔ یقین اور چیز ہے اور شناخت اور معرفت اور چیز ہے۔
اب ایک جماعت عارفوں کی نکلے گی جو عوام کے مقابلہ میں بہت قلیل ہو گی، صدر صاحب اگر کہیں موٹر میں جائیں تو جو جانتے ہوں گے پہچان لیں گے کہ صدر جا رہا ہے۔ لیکن علاقہ ان عارفین میں سے کسی کو بھی نہیں ہو گا، تعلق کسی کو بھی نہیں ہو گا، تو تعلق معرفت سے بھی بڑی اور اونچی چیز ہے۔ جیسے حجام ہے روزانہ دس بجے صدر کی حجامت بناتا ہے، صدر کے پاس حجامت کے لئے نہ پہنچے تو صدر کو پریشانی ہو گی، کہیں گے تلاش کرو کیوں نہیں آیا؟ جب وہ آیا تو کہنے لگا کہ صاحب! کیا کریں ہماری جھُگی پر برابر والوں نے قبضہ کر لیا، مصیبت میں مبتلا ہیں، تم کو حجامت کی پڑی ہے، ہم کیسے آتے؟ فوراً سپاہیوں کو بھیج کر کہے گا کہ جاؤ اس کی مدد کرو، امداد فوراً ہو جائے گی۔ اس حجام کا جو علاقہ ہے وہ بڑے بڑے وزیروں اور منسٹروں کو بھی نہیں ہے۔ یہ سب عرفاء ہیں تو یہ اربابِ یقین جو ہے وہ سارا پاکستان ہے اربابِ معرفت بھی جو ہیں، وہ لاکھ دو لاکھ ہوں گے، لیکن اربابِ تعلق چند ہی ہوں گے۔ تو تعلق سب سے قویٰ چیز ہے اصل شئے تعلق ہے۔
دلائل سے یقین کا حاصل کر لینا یہ دشوار چیز ہے ہر شخص نہیں کر سکتا، اسی طرح معرفت بھی دشوار چیز ہے ہر شخص نہیں کر سکتا، لیکن تعلق بہت آسان چیز ہے۔ شریعت میں جہاں پر بھی حکم ہوا ہے، جو بھی حکم نازل ہوا ہے خواہ اس کا تعلق عقیدہ سے ہو یا عمل سے ہو، سب میں تعلق رکھا ہے، زیادہ زور علوم و فنون پر نہیں دیا۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اتنے علوم و فنون نہیں جانتے جتنے سو یا دوسو برس بعد کے لوگ جانتے تھے۔ بعد کے دور میں جتنے علوم و فنون کا زور تھا وہ اس زمانے میں نہیں تھانہ وہ فقہ جانتے تھے، نہ اصولِ فقہ جانتے تھے، نہ کلام جانتے تھے، نہ منطق جانتے تھے، نہ ہندسہ، فلسفہ کچھ نہیں جاتے تھے۔ ہم تو اُمتی لوگ ہیں نہ ہم حساب جانیں، نہ کتاب جانتے ہیں، تو اصل شئے ’تعلق‘ نکلا۔ وہ تعلق جو ہوتا ہے وہ اعتماد کا مبدا ہوتا ہے، سبب ہوتا ہے۔ غور کرو۔
سب سے زیادہ مہلک آلہ کیا ہے؟ چھری ہے؟ تلوار ہے؟ نہیں، بلکہ اُسترا ہے۔ استرے سے زیادہ تیز دھار کسی آلہ کی نہیں ہے اور سب سے زیادہ نازک مقام یہ شہ رگ ہے اس کے کٹنے کے بعد پھر نہیں بچتا۔ حجام کیا کرتا ہے؟ سب سے زیادہ مہلک آلہ کو سب سے زیادہ نازک جگہ پر رکھ دیتا ہے اور وہ کٹواتا رہتا ہے اس کو ذرہ برابر بھی خوف و ہراس نہیں ہوتا، اطمینان سے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کتنا مہلک آلہ اور کتنے نازک مقام پر رکھا ہوا کچھ خوف و ہراس نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ حجام سے پورا تعلق ہے اور صحیح اعتماد ہے کہ یہ گلا نہیں کاٹے گا۔ اگر آپ کو جتنا حجام سے تعلق ہے اتنا تعلق اپنے رب سے ہو جائے سارا عالَم بھی مل کر تلوار رکھ دے کبھی خوف و ہراس نہیں ہونے کا صحیح تعلق ہونا چاہیئے۔ اور اتنے تعلق کے بعد یہاں کوئی ایسا نہیں ملے گا کہ جس کو اللہ سے اتنا تعلق ہو جتنا کہ اس کو حجام سے ہے، ساٹھ (60) برس میں میرے علم میں ایک آدمی نہیں آیا۔ اور جب ایسا ہو گا تو وہ بھی گھٹیا قسم کا مشرک ہو گا کہ اس کو اپنے رب پر اتنا اعتماد ہے جتنا کہ ایک حجام پر ہے۔ دوست ہیں، احباب ہیں، استاد ہیں، پیر ہیں، مُرشد ہیں، ماں باپ، بھائی بہن ہیں یہ تمام اعتماد کے لوگ ہیں اگر اتنا اعتماد ہو جائے گا تو پھر کتنا شدید تعلق اپنے رب سے ہو گا۔ ادنیٰ تعلق کی یہ حالت ہے کہ اُسترا رکھوا لیتا ہے اسی طرح تمام عالَم تلوار رکھ دے ادنیٰ تعلق سے کبھی خوف و ہراس نہ ہو تو صحیح تعلق کے بعد آپ کچھ اندازہ ہی نہیں کر سکتے کیا حالت ہو گی؟ اپنے رب سے صحیح تعلق ہونا چاہیئے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...