جی ماما۔
عفت بیگم کی کال تھی۔ حازم نے سلامتی بیجھنے کے ساتھ ہی ان کو پکارا۔ وہ اسے پولیس سٹیشن میں کم ہی فون کرتی تھیں۔
وعلیکم السلام!
بچے آپ کب تک واپس آ رہے ہو؟
بس تھوڑی دیر تک نکل رہا ہوں۔
وہ فون کان سے لگائے ساتھ فائل دیکھنے میں مصروف تھا۔
کیوں کوئی کام تھا؟
جی۔
وہ میں نے کہنا تھا کے آتے ہوۓ عنیزہ کے لیے کچھ لیتے آنا۔ مطلب کوئی گفٹ وغیرہ۔ بچی بہت اداس ہے۔
صبح سے تو پھر بھی کافی ٹھیک تھی پر اب وہ اداس لگ رہی ہے۔ ابراھیم نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے۔ وہ بھی کہ رہا تھا مجھے۔
لیکن ماما میں اس کے لیے کیا لے کر آؤں گا۔
حازم نے فائل بند کرتے حیرت سے پوچھا۔
کیا مطلب کیا لے کر آؤ۔ آپ میچور ہو سمجھدار ہو۔ اور اسپیشلی اب آپ میرڈ ہو۔ مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود خیال کرنا چاہیے اپنے سے جڑے دوسرے شخص کا۔
ماما جان میں کون سا بہت ایکسپیرینسڈ ہوں یار۔ اور مجھے کیا پتہ لڑکیوں کا۔ انھیں کیا پسند ہے اور کیا نہیں۔
وہ خوفگی سے بولا۔
حازم مجھے کوئی ایکسکیوز نہیں چاہیے۔
جلدی گھر پہنچو اور مجھے خالی ہاتھ آتے ہوۓ نظر نا آؤ۔
عفت بیگم نے تنبیہ کی۔
اوکے۔
آتا ہوں تھوڑی دیر تک۔
اللّه حافظ۔
دسری طرف سے اللّه حافظ سنتے ہی اس نے فون کان سے ہٹا کر ٹیبل پر رکھا۔
منہ پر ہاتھ رکھ کے وہ پر سوچ سا بیٹھ گیا۔
کیا سوچا جا رہا ہے بھئی؟
ابھی تھوڑی دیر پہلے فون پر مصروف تھے اور فون بھی کافی لمبا تھا کہیں بھابھی کا تو نہیں تھا؟
بابر اندر آ کر کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔
ہاں تھا تو بھی بات کر لیتا بات۔
اوئے ہوئے۔۔
لگتا ہے کافی پیار بھری گفتگو ہو رہی تھی۔
جو فون بند ہوتے ہی ایسے سڑا ہوا منہ بنا لیا ہے۔
سو سیڈ۔۔
چلو خیر ہے اب گھر ہی جا رہے ہو سکون سے ساری رات باتیں کرتے رہنا۔
وہ آنکھ دبا کر بولا۔
یار تمھے ان باتوں کے علاوہ کوئی اور بات نہیں آتی کیا؟
ہر ٹائم تجھے آ جا کے یہی ٹوپک ملتا ہے۔
جگر کیا کروں۔
تجھے اداس دیکھ کے میرے سے رہا نہیں جاتا۔ بس پھر۔۔
وہ معصومیت سے کہتا اسے ہنسنے پر مجبور کر گیا۔
یہ ہوئی نا بات۔۔
بابر نے اسے ہنستا دیکھ کے کہا۔
اور بتا کیا ہوا تھا؟
جو ایسے منہ بنا کے بیٹھے ہوۓ تھے۔
کچھ نہیں یار بس ویسے ہی۔
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
اچھا.
اور تو نے گھر کب تک جانا ہے؟
حازم نے آنکھیں اچکا کر پوچھا۔
میں تو ابھی نہیں جا رہا۔ ضروری کام ہے کچھ۔
اچھا ٹھیک ہے۔
میں چلتا ہوں۔
حازم اٹھ کھڑا ہوا۔
بابر بھی اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
اوکے اللّه حافظ۔
اپنا خیال رکھنا۔
حازم نے اس کے گلے لگ کر کہا۔
اور تو بھی خیال رکھی۔ جاتے ہوۓ ادھر ادھر دیکھنے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو شادی شدہ ہے۔ سیدھا گھر جانا ہے۔ راستے میں کہیں رکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور آخری بات۔۔
اگر کوئی کچھ دے تو لینا نہیں۔
وہ چہرے پر سنجیدگی سجائے روانی سے بول رہا تھا۔
اوکے ماں جی۔۔
حازم شرارت سے کہتا اس سے الگ ہوا۔
دونوں کا قہقہ بلند ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا لوں۔۔
کیا لوں۔۔
وہ جب سے پولیس سٹیشن سے نکلا تھا مسلسل سوچ رہا تھا لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں تھی آ رہی۔
ماما نے آج سہی امتحان میں ڈالا ہے۔
چلو دیکھتے ہیں کچھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کرنے کے بعد عنیزہ کمرے میں آ گئی۔ آج صبح سے تقریباً وہ نیچے ہی تھی۔ بہت کم کمرے میں آئی تھی۔
یہ حازم آج ابھی تک نہیں آیا؟
اس نے لاشعوری طور پر سوچا۔
ہو گا کہیں۔
ضرور آج بھی روڈ بلاک کر کے کھڑا ہو گا۔ یہی تو ان کے پاس ایک کام ہے۔
وہ منہ کے زاویے بناتے سوچ رہی تھی۔
اوہ ہو۔
میں کیا سوچ رہی ہوں۔
اور بھائی جان بھی تو پولیس میں ہیں۔
فورا اس کے ذہن میں خیال اوندھا۔
تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ جو جہاں ہے رہے مجھے کسی سے کوئی لینا دینا نہیں۔
وہ بربرائی اور ساتھ ہی صوفے سے کشن اٹھا کر دیوار میں مارا۔
وہ اٹھی ورڈراب سے ٹراوئزر شرٹ لے کر واش روم میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم گھر آیا تو ہر طرف خاموشی تھی۔
وہ سیدھا کمرے میں چلا گیا۔
کمرے میں داخل ہوا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئیں چیزیں ٹیبل پر رکھیں۔
سارا کمرہ خالی تھا۔ نظر دوڑانے پر وہ اسے کہیں نظر نا آئی۔
ابھی مڑا ہی تھا جب پیچھے سے آواز سنائی دی۔
تم کب آئے؟
عنیزہ نے اسے دیکھ کے حیرت سے پوچھا۔
السلام علیکم۔۔
اس نے مڑ کے کوئی بھی جواب دیے بغیر سلام کیا۔ جیسے کہنا چاہ رہا ہو سب سے پہلے سلام۔
اوہ سوری۔
السلام علیکم۔
اسے آج ہی عفت بیگم نے سمجھایا تھا کے جب بھی کوئی باہر سے گھر آِئے یا بڑے اکھٹے بیٹھے ہوں تو سب سے پہلے سلام کرتے ہیں۔ باقی سب بعد میں۔
وعلیکم السلام۔
اور میں ابھی آیا ہوں۔
حازم کی طرف سے جواب آیا۔
اچھا۔
کہتی وہ میرر کی طرف بڑھ گئی۔
یہ تمھارے لیے کچھ چیزیں ہیں انہیں اٹھا لینا۔
وہ کہتا الماری کی طرف چلا گیا۔ اس کا ارادہ چینج کرنے کا تھا۔ جب سے آیا تھا یونیفارم میں ہی تھا۔
وہ بال سیٹ کرتی ٹیبل کی طرف آئی۔
جہاں حازم نے اسے چیزوں کا اشارہ کیا تھا۔
اوہ واؤ۔۔
واٹ آ بیوٹیفل۔
ٹیبل پر بکیٹس کو دیکھ کے وہ چلائی۔
حازم نے چونک کے اس کی طرف دیکھا۔
یہ سچ میں میرے لیے ہیں؟
اس نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے پوچھا۔
نہیں یہاں ایک تھرڈ پرسن بھی ہے اس کے لیے ہیں۔
کیا میں دیکھ سکتی ہوں؟
عنیزہ نے اجازت لینا ضروری سمجھا۔
ہمم۔۔
حازم اتنا ہی بولا۔
وہ آگے بڑھی بکیٹس اٹھائے اور ان کی سمیل لی۔
اسے بکیٹس شروع سے ہی پسند تھے۔ وہ نیچے رکھ کے اس نے بیگ اٹھایا۔
اس کے اندر جھانکا تو اسے مختلف قسم کی چوکلیٹس نظر آئیں۔
حازم سچ سچ بتاؤ یہ سارے گفٹس کس گرلفرینڈ کے لیے لائے ہو۔
اور سب کچھ اسے دے دینا پر یہ بکیٹس میرے ہیں۔
آخر دوست کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے۔
وہ بیگ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ بولی۔
تمھے کس نے کہا یہ میری گرلفرینڈ کے لیے ہے۔ اور یار میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے کے گرلفرینڈز بناؤں۔
وہ اس کے سامنے آ کر بولا۔
یہ سب تمھارے لیے ہے۔
ہماری نیو فرینڈشپ ہوئی ہے تو میں نے سوچا کیوں نا کوئی چھوٹا سا گفٹ دے دوں۔ ایسے اور مضبوط ہو جائے گی۔
واہ۔۔
تم تو بہت سمجھدار ہو۔
اس بیگ میں کیا ہے؟
اس نے سوچا اور ہینڈ بیگ اٹھایا۔
اندر دیکھا تو اس میں سٹولرز تھے۔
یہ بھی میرے لیے؟
وہ حیرانگی سے بولی۔ کیوں کے اس نے تو کبھی حجاب کیا ہی نہیں تھا اور نا ہی اسے کرنا آتا تھا۔ اس کے گھر میں صرف عفاف کرتی تھی۔
جی۔
ایک لڑکی اس کے بغیر نا مکمل لگتی ہے۔
دوپٹہ تمھے سہی سے لینے نہیں آتا تو میں نے سوچا سٹولرز لے لیتا ہوں۔ اس سے آسانی رہے گی۔ چھوٹا ہے آسانی سے کیری بھی ہو جائے گا۔
لیکن اس سے تو حجاب ہوتا ہے۔ اور پہلی بات حجاب مجھے کرنا نہیں آتا۔ دوسری بات میرا سانس بند ہوتا ہے حجاب کرنے سے۔
اس نے دلیل دی۔
جب اللّه کی رضا کے لیے کوئی کام کیا جاتا ہے تو پھر سانس بند نہیں ہوتا ۔۔ اللّه خودی آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں۔ اللّه کی رضا کو اپنی رضا بناؤ گی تو زندگی کی ہر دوڑ میں کامیاب رہو گی۔ پھر سانس بند ہونے کا ڈر بھی نہیں ہو گا۔
اچھا ٹھیک ہے۔
میں رکھ لیتی ہوں۔ اگر کبھی ضرورت پڑی تو میں استعمال کر لوں گی۔
اور میں ہرگز بھی شکریہ ادا نہیں کروں گی۔
کوز ہم فرینڈز ہیں۔
اوکے۔
نا کرو۔
ایک اور بات؛!
مجھے اب یاد آئی۔۔
صبح جو تم۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم بہت تیز ہو حازم۔۔
عنیزہ نے منہ بسورتے کہا۔
کیوں؟ میں نے کیا کیا۔۔
حازم نے کندھے اچکائے۔
تم مجھے صبح اٹھا سکتے تھے نا؟
خود آرام سے اٹھ گئے اور مجھے سوتا رہنے دیا۔ پتہ نہیں انکل کیا سوچ رہے ہوں گے۔
انکل کچھ نہیں سوچ رہے۔
اور تم نے کونسا مجھے کہا تھا کے میں اٹھا دوں تمھے۔
حازم کف اوپر کرتا بولا۔
ایک روم میٹ دوسرے کو اٹھا دیتا ہے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہوتی۔
اوکے یار۔
میں آئندہ اٹھا دیا کروں گا۔
حازم نے خود ہی ہار مان لی۔ اسے پتہ تھا مقابل کبھی بھی اپنی غلطی نہیں مانے گی۔
میں سونے لگی ہوں پلیز یہ لائٹ اوف کر دینا۔
عنیزہ نے لیٹتے ہوۓ کہا۔
اچھا کر دوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے جب عنیزہ نیچے آئی۔
السلام علیکم۔
آتے ہی اس نے سب کو سلام کیا۔
وعلیکم السلام۔
تمام نفوس یک زبان بولے۔
آج جلدی اٹھ گئے بچے؟
فواد صاحب نے پیار سے پوچھا۔
جی انکل۔
وہ بھی مسکرا کے بولی۔
نوال بچے آپ اٹھ کے اپنی ماما کے پاس چلی جاؤ یہاں بھابھی کو بیٹھنے دو۔
اچھا جی۔
وہ اٹھ کے عفت بیگم کے پاس چلی گئی۔
یہاں پر آ جاؤ آپ عنیزہ۔
فواد صاحب نے اپنے پاس خالی کروائی گئی چیئر پر اشارہ کر کے کہا۔
وہ آ کر بیٹھ گئی۔
بیٹھتے ہوۓ اس نے حازم کو گھورنا ضروری سمجھا۔
حازم نے نا سمجھی میں سر ہلایا جسی پوچھنا چاہ رہا ہو کیا ہوا۔
عنیزہ اسے اگنور کرتی کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگ گئی۔
ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کے حازم کو کھانسی کا پھندا لگا۔
سب اس کی طرف متوجہ ہوۓ۔
اس نے فوری پانی کا گلاس منہ کو لگایا۔
کیا ہوا حازم؟
عفت بیگم نے حیرانی سے پوچھا۔
کچھ نہیں ماما بس وہ مجھے لگتا ہے نوالہ پھنس گیا تھا۔
وہ آہستہ سے بولا اور عنیزہ کی طرف دیکھا۔
وہ کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ جیسے کھانے کے علاوہ اور کوئی کام ہو ہی نا۔
دیہان سے کھاؤ ۔
اوکے۔
ماما یار اب بھائی کا دیہان کھانے پر کہاں سے ہو گا۔ اب تو ادھر ادھر سائیڈ پر ہی ہو گا۔
نا چاہتے ہوۓ بھی ابراھیم کے منہ سے پھسلا۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔
حازم اسے گھور کے بولا۔
میرا مطلب پولیس سٹیشن میں۔
ہر ٹائم آپ کا دیہان ادھر ہی تو رہتا۔
ابراھیم نے فورا بات بدلی۔
اچھا۔
پوری جنگلی بلی ہو۔
روم میں جاؤ پھر بتاؤں گا۔
حازم عنیزہ کی طرف منہ کر کے دھیمی آواز میں بولا۔ جو اس تک بھی بامشکل ہی پہنچی۔
ہاں تو۔
میں کونسا ڈرتی ہوں۔
تم بھی آؤ روم میں سہی سے بتاؤں گی۔
ایک نمبر کے جھوٹے ہو۔
ایک نمبر بھی کیوں دس نمبر کے۔
وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
حازم ادھر ادھر دیکھ کے بولا۔
مطلب تمھے سب ہی پتہ ہیں اب معصوم نا بنو۔
اچھا۔۔
ایک چوری اوپر سے سینا زوری۔
حازم جھنجھلا کے بولا۔
غلطی خود کی اور سنا وہ اسے رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھ گئے تھے۔
آج سنڈے تھا تو سب گھر ہی تھے۔ حازم نے جانا تھا لیکن لیٹ ۔
سنڈے کو وہ لوگ چائے ناشتہ کرنے کے بعد اکھٹے بیٹھ کے پیتے تھے۔
عنیزہ عفت بیگم کے ساتھ کچن میں چلے گئی تھی۔
کچن کا کام تو اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا وہ ویسے ہی ان کے ساتھ آ گئی تھی۔
ابھی تک وہ انہی سے مانوس ہوئی تھی۔ ان سب کے درمیان بیٹھنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔ اس لیے وہ اٹھ کر چلے گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں لاؤنج میں آ گئی تھیں۔
ان کے پیچھے زاہدہ ٹرولی لے آئی۔
عنیزہ آپ سرو کریں گی؟
عفت بیگم نے پیار سے کہا۔
میں۔۔۔
عنیزہ آنکھیں کھولے حیرت سے بولی۔
جی۔
انہوں نے اتنا ہی کہا۔
اچھا جی۔
وہ کہتے اٹھ گئی۔
نیچے بیٹھ کے چائے بنائی۔
بنا کر اس نے عفت بیگم کی طرف دیکھا۔
اب حازم کو دیں کیوں کے اس نے جانا ہے۔ اور بعد میں سب کو۔
وہ اسے سمجھانے کے انداز میں بولیں۔
جی اچھا۔
اس نے کپ اٹھایا اور حازم کی طرف بڑھ گئی۔
اسے پکڑا کے مڑنے ہی والی تھی جب عفت بیگم کی آواز آئی اب انکل کو دیں۔
وہ مڑنے کی بجائے حازم سے کپ پکڑنے لگ گئی۔
حازم چہرے پر حیرت لیے اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔
عنیزہ وہاں اور بھی کپس موجود ہیں اور چائے بھی۔
وہ فورا پیچھے ہوئی اور بولی۔
اوہ سوری۔۔
سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
کوئی بات نہیں بیٹا۔
فواد صاحب سنجیدگی سجائے بولے۔
پھر باری باری اس نے سب کو چائے سرو کی۔
آخر میں اپنا کپ اٹھا کر نوال کے ساتھ بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...