“مریم مجهے اپنا موبائل فون دو پلیز”
انٹری ٹیسٹ کے لئے تیار کهڑی ماہین نے مریم سے کہا جو بستر سمیٹ رہی تهی
“کیوں؟ تمهارا کیا کام موبائل سے ”
وہ حیران ہوئی
“افففف! اگر ٹیسٹ میں آج لیٹ ہو گئی تو کم از کم ابو کو کال ہی کر لو گی اور آج میں نے واپسی پر اکیڈمی بهی جانا ہے صبا کے ساتھ”
وہ تفصیل بتاتے ہوۓ بولی
“اکیڈمی کیوں جانا ہے”
“ڈائری لینے اپنی میری ڈائری سر کےپاس ہے نا”
“اوکے لے جاؤ فون اور مما اور ماهم کو بتاتی جانا ”
“اوکے اوکے باۓ”
فون اٹهاتے ہوۓ وہ باہر نکل گئی۔
••••••••••••••••••••
ماہم، مریم اور ماہین تینوں بہنیں تهیں ماہم سب سے بڑی تهی پهر مریم اور پهر ماہین تهی
اللہ پاک نے فاطمہ بیگم اور ایاز شاہ کو اولادِ نرینہ سے محروم رکها تها انہوں نے بهی کبهی اس بات کا شکوہ نہیں کیا اور اللہ کی رضا میں راضی رہ کر اپنی تینوں پریوں کی پرورش میں کهو گئے
ایاز شاہ ڈاکڑ کے پیشے سے منسلک تهے ماں باپ بچپن میں ہی چل بسے تهے بہن بهائی کوئی تها نہیں انکی پرورش انکے بابا کے ایک دوست نے کی انکی ہاؤس جاب مکمل ہوتے ہی انہوں نے ایاز شاہ کی شادی اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ سے کر دی۔ انکی شادی کے ایک ماہ بعد ہی ایاز شاہ کے محسن اور فاطمہ بیگم کے والد بزرگوار نے ہمیشہ کے لئے آنکهیں بند کر لیں انکی وفات پر دونوں میاں بیوی عرصے تک دکهی رہے
بہرحال وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے ایاز شاہ کی زندگی میں ماہم کی پیدائش تازہ ہوا کے جهونکے جیسی تهی اس ننهے وجود میں فاطمہ بهی کهو کر رہ گئی
دو سال بعد جب فاطمہ بیگم دوبارہ امید سے ہوئیں تو دونوں کے دل کے کونے میں بیٹے کی چاہت انگڑائیاں لینے لگی مگر جب مریم انکی گود میں آئی تو دونوں میاں بیوی نے اس پری کو سینے سے لگا لیا ماہین کی پیدائش پر فاطمہ بیگم کافی کمزور ہو گئی تهیں دونوں نے ان تین رحمتوں پر رب کا شکر ادا کیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“ماہی، ماہین، ماہین۔۔۔”
مریم موبائل ہاتھ میں پکڑے پوری قوت سے چلا رہی تهی
“کیا مصیبت ہے اتنا کیوں چیخ رہی ہو مما اگر گهر میں ہوتی نا تو تمهارے لاؤڈ اسپیکر کے سیل ہی نکال دیتیں۔”
ماہین نے اسکے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا
“تمہیں تو میں قتل کر دوں گی ماہین کی بچی کیا ضرورت پڑ گئی تهی تمہیں نمبر دینے کی اس لئے دیا تها تمہیں اپنا موبائل میں نے”
مریم غصے میں چلا اٹهی
“میں تو اپنی ڈائری لینے گئی تهی وہاں سر نے کہا بهول ہی گئے ہو تم لوگ تو کوئی رابطہ نمبر بهی نہیں ہے تو وہاں صبا نے جهٹ سے اپنا نمبر دے دیا تو مجهے بهی مجبوراً آپکا نمبر دینا پڑا”
مسکین سی شکل بنا کر بولی تو نا چاہتے ہوۓ بهی ہنسی آ گئی
“مگر تم نے بالکل بهی اچها نہیں کیا ایسے ہی نمبر پکڑا دیا”
وہ سیریس ہوتے ہوۓ بولی
“وہ بہت اچهے ٹیچر ہیں مجهے اور صبا کو بہن کہتے ہیں یہ بات ساری اکیڈمی کو پتہ ہے اور سچی بات ہے مجهے ان کے جیسا بهائی ہی چاہیے تها”
بات مکمل کرکے وہ دهپ سے بستر پر بیٹھ گئی___
“ماہین پهر بهی تمہیں نمبر نہیں دینا چاہیے تها”
مریم کی سوئی ابهی تک اسی بات پر اٹکی ہوئی تهی
“کیا نہیں کرنا چاہیے تها اسے بهئی”
ماہم جو ابهی ابهی فریش ہو کر آئی تهی مریم کی آخری بات سن کر پوچھ بیٹهی اور بدلے میں مریم نے اے ٹو زی سب بتا دیا
“بجو وہ میرے بهائی کے جیسے ہیں آپ سمجهاؤ نہ مریم کو”
ماہین کمزور سی آواز میں بولی اور مریم “اونہہ بهائی” کہہ کر منہ پهیر کر بیٹھ گئی
“اٹس اوکے مریم وہ ڈیڑھ سال سے پڑھ رہی تهی اس اکیڈمی میں جانتی ہے سب ٹیچرز کو تم ٹینشن مت لو اور موڈ ٹهیک کرو مما آنے والی ہوں گی میں کهانا لگاتی ہوں تم دونوں بهی آ جاؤ”
ماہم انہیں کہتی ہوئی اٹھ گئی اور دونوں نے سر ہلا دیا۔
•••••••••••••••••••
ماہم اور مریم میں دو سال کا فرق تها جبکہ ماہین مریم سے پانچ سال چهوٹی ہونے کی وجہ سے گهر بهر کی لاڈلی تهی
ماہم اور مریم دونوں نے یکے بعد دیگر گریجویشن مکمل کیا جبکہ ماہین نے حال ہی میں کالج میں ایڈمیشن لیا ہے
ماہین کے اصرار پر ہی ایاز شاہ نے اسے ڈیڑھ سال قبل لنیگویج سنٹر میں داخلہ دلوایا تها ماہین کی دیکها دیکهی صبا نے بهی داخلہ لے لیا تها اور ایک ماہ قبل ہی ان دونوں نے اپنا ڈپلومہ لے کر اکیڈمی کو خداحافظ کہہ دیا تها پڑهائی کے ساتھ ساتھ ماہین کو ٹیچر کی صورت میں سر ولید شاہ جیسے بهائی بهی میسر آ گئے تهے۔
••••••••••••••••••••
ماہم اور ماہین شکل صورت میں تقریباً ایک جیسی تهیں گندمی رنگت پر کالی آنکهیں جس میں ذہانت ٹپکتی تهی کالے سیاہ بال چهوٹی سی ناک دونوں کافی کیوٹ تهیں جبکہ مریم دونوں سے یکسر مختلف تهی
دودھ سی رنگت سبز آنکھیں اٹهی هوئی ستواں ناک براؤن بال متناسب سراپا کے ساتھ وہ کسی سلطنت کی شہزادی لگتی مگر اپنی خوبصورتی سے بے نیاز تهی کئی کئی دن ایک ہی جوڑا پہنے رکهتی فاطمہ بیگم اس بات پر اکثر اسے ڈانٹتی رہتیں تھیں “مریم کبهی تو ڈهنگ کے کپڑے پہن لیا کرو جب دیکهو یہی دو جوڑے چڑها لیتی ہو اپنی بہنوں سے سیکهو” فاطمہ بیگم کا مریم کو دیکھ کر پهر سے پارا چڑھ گیا جو پهر سے نہا دهو کر بلیک فراک میں آئینے کے آگے کهڑی کنگهی کر رہی تهی کسی کام سے کمرے میں آتی فاطمہ بیگم نے اسے دیکھ کر دروازے پر ہی اپنا سر پیٹ لیا
“کیا مما کتنا اچها تو ہے اور فل کمفرٹبیل بهی ہے دیکهیں”
وہ انہیں گهوم کے دکها رہی تهی
“آج کے بعد تمهیں نہ دیکهو اس جوڑے میں آج شام کو ماہم کے ساتھ جاکر ڈهنگ کے کپڑے بهی لے آنا اپنے لئیے سمجهیں”
مریم نے بولنے کے لئے منہ کهولا ہی تها کہ فاطمہ بیگم اسے حکم دیتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں
“میں کوئی نہیں جا رہی بازار وزار تم ماہی کو لے جانا ساتھ اور میرے لئے ایک دو لائٹ سے کلر لے آنا اوکے”
اس نے جهٹ پٹ پروگرام ترتیب دیا اور کچن میں کام کرتی ماہم کو سنا دیا
“توبہ ہے کتنی آدم بیزار ہو تم___ لڑکیوں والے کوئی شوق نہیں تم میں کیا بنے گا تمہارا”
ماہم اسکی حالت پر افسوس کرتی ہوئی بولی “جو بهی بنے گا میں دیکھ لوں گی فی الحال جو میں نے تمہیں کہا وہ سن لیا نہ تم نے”
اسکی بات کو یکسر نظرانداز کرتی ہوئی بولی ۔۔۔ “جی سن لیا مگر آپکے آنے سے پہلے ہی مما مجهے آڈر دے کر جا چکی ہیں افسوس کہ آپ لیٹ ہیں مس مریم ایاز شاہ”
وہ مزے سے چاۓ کپ میں ڈالتے ہوۓ بولی “اففففف! کیا مصیبت ہے بھئ”
وہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی جبکہ ماہم اسکے بچپنے پر مسکراتی چاۓ کی ٹرے لے کر فاطمہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“پاپا پیسے دیں ہمیں ذرا آپکی لاڈلی کی حالت درست کرنی ہے”
ماہم نے شرارت سے مریم کو دیکهتے ہوۓ بولا جو بلیک چادر میں منہ پهلائے کهڑی تهی
“کیا مطلب کیا ہو گیا میری پری کو”
ایاز شاہ نا سمجهی سے ماہم کو دیکهتے ہوۓ بولے اور بدلے میں ماہم نے ساری رام کتها تشریح سمیت سنا دی
“تم لوگ تو ہر وقت بس میری بیٹی کے پیچهے پڑے رہتے ہو کتنی پیاری تو ہے ”
وہ اسے ساتھ لگاۓ پیار سے بولے
“اپکے اسی لاڈ پیار نے بگاڑا ہے نہ پہننے کا ڈھنگ ہے نہ اوڑهنے کا سلیقہ”
چاۓ لاتی فاطمہ بیگم اندر کا منظر دیکھ کر سلگ اٹهیں
“آ جاۓ گا سلیقہ بهی اچها یہ لو کافی ہیں اتنے”
انہوں نے پیسے نکال کر ماہم کو دیتے ہوۓ کہا
“جی پاپا چلو مریم”
“بیٹا خیال سے جانا ماہی کو بهی ساتھ لے جانا اور جلدی واپس آنا”
فاطمہ بیگم نے جاتے ہوۓ ماہم کو کہا اور وہ سر ہلا کر ماہین کے روم کی طرف بڑھ گئی
سردیوں کی آمد آمد تهی مارکیٹ میں آج رش معمول سے کچھ زیادہ تها وہ تینوں کپڑوں کی بڑی سی شاپ میں داخل ہوئیں ماہم نے سیاہ عبایا جبکہ مریم نے سیاہ چادر سے چہرہ ڈهانپ رکها تها ان کے برعکس ماہین نے دوپٹہ نماز کے انداز سے چہرے کے گرد لپیٹ رکها تها نقاب میں بهی مریم کی آنکهوں سے زمانے بهر کی بےزاری عیاں تهی ماہین ریڈی میڈ گارمنٹس کی طرف بڑھ گئی جبکہ ماہم اسے کپڑے پسند کرنے کا کہہ کر خود بهی ماہین کی طرف بڑھ گئی
“بهائی آپکی شاپ پر کوئی لائٹ کلرز ہیں بهی یا نہیں”
آدهے گهنٹے تک ہر کپڑے کو کهول کهول کر دیکهنے کے بعد جب کچھ پسند نہ آیا تو چڑ کر بولی جس پر دکاندار حیران سا رہ گیا
“میڈم یہ سب لائٹ کلرز ہی ہیں”
اپنی حیرت پر قابو پاتے کاروباری مسکراهٹ کے ساتھ بولا
“آپ یہ سکاۓ بلیو اور بلیک پرنٹ پیک کر دیں اور یہ براؤن شال بهی”
مزید پندرہ منٹ کی چهانٹ کے بعد اسے دو سوٹ پسند آ ہی گئے یہاں بهی وہ اپنی ماں کو نہیں بهولی تهی
مریم نے ایک نظر فاصلے پر کهڑی اپنی دونوں بہنوں پر ڈالی جہاں ماہم دکاندار سے بحث میں مصروف تهی
“یہ لیں میڈم”
اس نے شاپنگ بیگ مریم کی طرف بڑهاتے ہوۓ کہا
“کتنے پیسے ہوۓ”
شاپرز تهامتے ہوۓ اس نے پوچها
“ساڑهے پانچ ہزار میڈم”
دکاندار نے شائستگی سے کہا اس نے چپ چاپ پیسے نکال کر کاوئنڑ پر رکهے اور شاپرز اٹها کر دکاندار کو حیران چهوڑ کر ماہم کی جانب بڑهی
“ہو گئی خرایداری”
مریم کو دیکھ کر ماہم نے پوچها
“ہاں چلو چلیں”
“ہاں چلتے ہیں دس منٹ روکو”
وہ اسے کہہ کر پهر سے سوئیڑز کی جانب متوجہ ہو گئی جبکہ مریم جی جان سے سلگ اٹهی
“میں باہر ویٹ کر رہی ہوں جلدی آنا”
جواب سنے بنا ہی اس نے باہر کی جانب قدم بڑها دئیے باہر آکر قدرے فاصلے اور سنسان جگہ پر پڑے بینچ کی طرف بڑهی کہ پوری قوت سے کسی سے ٹکڑائی اس سے پہلے کہ وہ گرتی کسی نے اسے بہت آرام سے تهام لیا
“اففففف!!!میرا سر…..آپکو نظر نہیں آتا آنکهیں ہیں یا بٹن بلڈوزر جیسی باڈی لے کر گهومتے ہوۓ شرم نہیں آتی افففف مما.”
اچها خاصا سنا کر اپنا سر پکڑ کر بے اختیار زمین پر بیٹهتی گئی دوپٹہ سر سے ڈهلک گیا پهر اسے ہوش کہاں تها
“ایم سوری بٹ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا”
اسکے صبیح چہرے کو دیکهتے ہوۓ بولا
“چپ کریں آپ ایک تو میرا سر توڑ دیا اوپر سے اپنی غلطی مان کر بهی نہیں مان رہے”
درد کی شدت سے اسکی آنکهوں میں آنسو تیر گئے
“آپ روئیں تو مت بہت درد ہو رہا ہے کیا”
“نہیں بہت مزا آ رہا ہے اسٹوپڈ”
ساتھ ہی اسے اپنی چادر کا خیال آیا اور بجلی کی سرعت سے ایک منٹ میں اس نے اپنے آپکو ڈهانپ لیا
“جائیں آپ یہاں سے اور اپنا یہ بلڈوزر سینہ سائیڈ پر لے کر گهوما کریں”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اپنے سر پکڑے ماہم کی جانب بڑھ گئی اور وہ کتنی ہی دیر اسکی باتوں اور چہرے کوسوچتے ہوۓ مسکراتا رہا
بلڈوزر….
اپنے سینے کو دیکهتے ہوۓ زیرلب دہرایا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
گهر پہنچتے پہنچتے مریم کا چہرہ زرد پڑگیا ایاز شاہ اور فاطمہ دونوں اسے دیکھ کر ٹهٹهک گئے
“مریم کیا ہوا بچے چہرہ کیوں ہلدی ہو رہا ہے”
فاطمہ بیگم نے پریشانی سے کہا جبکہ ایاز شاہ بهی قریب آ گئے
“کچھ نہیں مما بس سر درد ہے تهوڑا”
ماں باپ کو پریشان دیکھ کر جلدی سے بولی
“اسطرح اچانک سر درد”
ایاز شاہ نے الجهے ہوۓ لہجے میں کہا
“ماہی بہن کے لئے پانی لاؤ اور ماہم میرے کمرے سے فرسٹ ایڈ بکس اٹها کر لاؤ”
ایاز شاہ نے کہا اور مریم کی جان حلق میں آ گئی فرسٹ ایڈ کا مطلب انجکشن
“بلڈوزر تم دوبارہ مل جاؤ ذرا تم سے بدلہ نہ لیا تو میرا نام بھی مریم شاہ نہیں”
دل ہی دل میں اسے دهمکاتے خوفزدہ نظروں سے قریب آتے انجکشن کو دیکها اور جهٹ سے آنکهیں بند کر لیں.
“بیٹا تم ریسٹ کرو تهوڑا انشاءاللہ تهوڑی دیر میں ٹهیک ہو جاۓ گا”
ایاز شاہ نے انجکشن لگا کر مریم سے کہا تو اس نے بهی سر ہلا دیا اور سب کمرے سے باہر نکل گئے.
“اندها کہیں کا”
آنکهیں بند کرتے ہوۓ ایک بار پهر سے اسکی شان میں قصیدہ پڑهنا ضروری سمجها
% % % % % % % % %
گهر میں ماہم کے رشتے کی بات چلی فاطمہ بیگم نے ملازمہ کو بلا کر گهر اچهی طرح سے صاف کروا لیا تها
ایاز شاہ کے دیرینہ دوست وقار احمد کی ہی فیملی آج ماہم کو دیکهنے آ رہے تهے ••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ایاز اور وقار دونوں بچپن کے دوست تهے شومئی قسمت دونوں سکول سے یورنیورسٹی تک ساتھ رہے جب ایاز شاہ ہاؤس جاب کے لئے ملک سے باہر گئے تب سے دونوں میں رابطہ کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہو گیا آج اچانک دونوں مارکیٹ میں مل گئے کتنے ہی پل دونوں ایک دوسرے کو سینے سے لگاۓ کهڑے رہے
“چل یار وہاں بیٹھ کر چاۓ پیتے ہیں”
وقار صاحب نے قریبی ہوٹل کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا اور دونوں ہوٹل کی جانب چل دئیے
“اور یار تو سنا بالکل غائب ہی ہو گیا تها تو، واپس آکر میں تیرے گهر گیا تها پتہ چلا تم لوگ شہر چهوڑ کے چلے گئے ہو سب خیریت تهی نہ”
ایاز شاہ نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ کہا تو وقار صاحب ٹهندی سانس بهر کے رہ گئے پهر گویا ہوۓ
“تیرے جانے کے دوسال سب ٹهیک رہا پڑهائی مکمل کرتے ہی والد صاحب کا بزنس سنبهالا اسی دوران والدین نے میری شادی کر دی بیوی بچوں کی ایسی ذمہ داری پڑی کہ ہوش گم ہو گئے پهر والد صاحب کی اچانک موت نے کمر توڑ دی والد کے بعد گهر اور بزنس سنبهالا بہن کی شادی کروائی آہستہ آہستہ چهوٹے بهائی وقاص کو بهی بزنس کے گر سکهاۓ ماں نے اسکی بهی شادی کروا دی شادی کے بعد وقاص کی بیوی کو گهر چهوٹا لگنے لگا آۓ دن اس بات پر جهگڑا رہنے لگا باہم مشورے سے اس گهر کو کراۓ پر چڑھا کر یہاں شفٹ ہو گئے ایک سال بعد وقاص کی بیوی بچے کی پیدائش پر جان کی بازی ہار گئی اس بات کو وقاص نے ایسا دل پر لیا کہ چھ ماہ بعد وہ بهی ہمیں اور اپنے لخت جگر کو چهوڑ کر اس دنیا سے منہ موڑ گیا”اخری جملہ کہتے ہوۓ انکا لہجہ بهیگ گیا
“حوصلہ رکھ یار ایسے ہمت مت ہار”
ایاز شاہ نے اسے حوصلہ دیتے ہوۓ کہا
“وقاص کے بیٹے کا کیا ہوا کہاں ہے وہ”
“وہ ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے اب تو ماشاءاللہ سے جوان ہوگیا ہے”
وہ سرشار لہجے میں بولے
“ماشاءاللہ… اور سنا کتنے بچے ہیں تیرے”
“میرے دو بیٹے ہیں بس بڑے کی شادی کر دی اور چهوٹے کے لئے تلاش جاری ہے۔۔۔ تو اپنا بتا کب شادی کی تو نے کتنے بچے ہیں”
وہ نارمل لہجے میں بولے
“ہاؤس جاب کے بعد شادی کر لی ماشاءاللہ تین بیٹیاں ہیں اب تو”
“شادی تو نہیں ہوئی نہ تیری بیٹی کی”
“نہیں یار ابهی تک نہیں”
“بس تو پهر اس سنڈے میں تیرے گهر آ رہا ہوں تیری رحمت چرانے تجهے کوئی اعتراض ہے بهی تو مجهے تیرے اعتراض کی بالکل پروا نہیں ابهی تو میرے ساتھ میرے گهر چلے گا حسنین سے ملے گا پهر فصیلہ کرنا چل اٹھ”
وہ جهٹ پٹ پروگرام ترتیب دےکر اٹهتے ہوۓ بولے جبکہ ایاز شاہ اپنی جگہ فریز ہی ہو گئے
“مگر اتنی جلدی اور تو نے میری بیٹی کو دیکها بهی نہیں اسطرح اچانک…….”
وہ اب بهی حیران تهے
“تجهے دیکها ہے بس بہت ہے اور بیٹیاں سب کی سانجهی ہوتی ہیں تو اٹھ چل کوئی بہانہ نہیں”
وہ اسے اٹهاتے ہوۓ بولے اور وہ خوشی اور حیرت کی ملی جلی کفیت لئے وقار احمد کے گهر کی طرف روانہ ہوگئے
“ماہین آج تم کالج سے آف لے لو گهر میں کام پڑا ہے”
مریم نے بستر سے منہ نکال کر ماہین کو کہا جو کالج جانے کی تیاریوں میں تهی
“آپ اور بجو ہو نہ آپ دونوں سنبهال لینا اچها ہے آپکو بهی پریکٹس ہو جاۓ گی اگلا نمبر آپکا ہی ہے”
ماہین نے گهڑی پہنتے ہوۓ کہا
“شٹ اپ تمهاری باری آۓ مجهے کوئی شوق نہیں شادی وادی کا ہونہہ اور تم پلیز چهٹی کرلو نہ آج پلیز پلیز ”
بستر میں لیٹے لیٹے امید بهرے لہجے میں بولی
“سوری بهئی میں تو چلی ملتے ہیں لنچ پر باۓ
“وہ بیگ اٹهاۓ دروازے کی طرف بڑهی”آئندہ سے پهر مجهے بهی کام کہنا کوئی تم”
وہ پیچهے سے دهاڑی اور کمبل منہ پر لے کر پهر سے سونے کی کوشش کرنے لگی
“مریم! تم ابهی تک بستر میں پڑی ہوئی ہو اٹهو دیکهو کتنا کام پڑا ہے بہن اکیلی خوار ہو رہی ہے اٹهو شاباش میرا بچہ”
فاطمہ بیگم نے اسکے منہ سے کمبل کهینچتے هوۓ کہا
اچها نا مما اٹھ گئی ہوں”
اور وہ منہ کے زاویے بگاڑتی اٹھ کر واش روم کی طرف روانہ ہو گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...