“بھابھی آنکھیں کھولیں بھابھی۔”
اس نے نبض ٹٹولی جو بہت رک رک کر چل رہی تھی فرحان کے چہرے پر وحشت پھیل گئی۔
وہ چیخ کر بولا۔
“مائیکل بھائی کو بلواؤ۔”
“مام آپ بھائی کے ساتھ آئیں، میں بھابھی کو ہوسپٹل لے کر جا رہا ہوںـ” فرحان تیزی سے کار میں بیٹھا اور فراٹے بھرتے ہوۓ کار لے گیا بہلول شاور لے کر نکلا اسے کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔
“یا اللہ خیر! سرو “وہ تیزی سے باہر نکلا۔
مام رو رہی تھیں۔
بہلول ان کے پاس آیا۔
“مام کیا ہوا؟”
“بہلول دروازہ کیوں نہیں کھول رہے تھے چلو میرے ساتھ سرینہ مرنے والی ہے۔” بہلول کا رنگ سفید ہوگیا۔
“سرو۔”
“ہاں کار میں تھی تمھیں نہیں پتا چلا اس کی حالت بگڑ گئی ۔”
بہلول تیزی سے اٹھا اور بھاگا۔
“اس کو فرحان لے گیا۔”
اس نے فرنٹ رو سے چابی اٹھائی۔ مسز فرحان بھی اس کے پیچھے آئیں۔
اسے ایسا لگا کہ اس کی جان نکالنے میں ایکسیکنڈ نہیں لگے گا۔ ابھی پھنچے گا پتا لگے گا وہ نہیں رہی اس دنیا میں۔ کیا ضرورت تھی اس سے ناراض ہونے کی۔ وہ پاگل تھی سن لیتا اس کی فضول بات پری کے زیر اثر تھی۔
بہلول نے غصے سے اسٹیرنگ پر مکا مارا۔
———————
پانچ سال بعد
وہ قبر کے پاس سے اٹھا اور کار کی طرف بڑھنے لگا ، اسکا فون بجا تو مسکراتے ہوۓ فوناٹھانے لگا۔
“کب سے فون کر رہی ہوں آپ کو لیکن مجال ہےفون اٹھایئں آپ۔” وہ فون پہ غصے سے بولی۔
“بزی تھا یار، بتاو کیا کر رہی ہو؟”
“آپ کو ایک بات بتانی تھی جلدی آئیں گھر۔”
” ابھی بتا دو۔”
” نو وے جلدی آئیں۔”
” اوکے اوکے۔”
——————–
وہ گھر پھنچا گھر پر خاموشی طاری تھی وہ اسے بلانے لگا لیکن کوئی جواب نہیں اسے حیرت ہوئی۔
“عجیب لڑکی ہے پہلے بلا رہی تھی اب کہاں غائب ہو گئی ؟”
وہ ایک بار پھر بلانے لگا ڈرائنگ روم سے دروازے کی کریک کی آواز آئی بہلول مسکرایا۔ وہ اس طرف بڑھنے لگا۔ اور لائٹ آن کی سامنے دیکھا ایک ڈراونا ماسک پہن کر اسے ڈرایا گیا لیکن بہلول بالکل بھی نہیں ڈرا۔
اس نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائیل کیۓ اور اونچا کر کے اس سے ماسک اتارا۔
that was a lame prank
“مجھے نیچے اتارو ساڑھی خراب کردوگے پہلی دفعہ پہنی ہےـ” وہ گھور کر بولی۔ بہلول اسے گھمانے لگا۔
“میں تو بالکل بھی نہیں اتاروں گا۔”
“پلیز بہلول اتارو نا۔” وہ منمنائی۔
بہلول نے اسے نیچے اتارا وہ مسکرائی۔
“ویسے تمھیں شرمانا ابھی تک نہیں آیا۔” بہلول ہنستے ہوۓ بولا۔
“اچھا مسٹر آج ہماری اینورسری ہے کیک کاٹو۔”
بہلول نے سامنے دیکھا پھولوں کے پتوں سے بھری ہوئی ٹیبل کے ساتھ کینڈل لائٹ کے بیچ میں باکس تھا جس میں یقیناً کیک تھا۔
“اوہ تو تمھیں یاد تھا مجھے لگا تم بھول گئی۔”
“بھول میں نہیں تم گئے تھے، مجھے ہمیشہ ڈیٹس یاد رہتی ہیں۔”
“اچھا بتاؤ ہم نے فاسٹ اینڈ فیورس کب دیکھی تھی؟”
آٹھ سال پہلے ٹوٹنی فورجون کو
واؤ اور آج میں نے اسٹن مارٹن امریکہ سے کب لی تھی؟
تین مارچ کو چار سال پہلے
اوکے بٹ تم نے کاغذ دیکھ لیے ہوں گے اچھا یہ بتاؤ میں تم سے کب ملا؟
یہ میں کبھی نہیں بھولوں گی سیون اپریل 9 سال پہلے بلاک بی کلاس ٹو فرسٹ روم میں تم بیلو چیک والی شیٹ میں بھورے بال ماتھے پر گرے ہیزل شرارتی آنکھیں
تمارا کچھ نیا کرنے والے الفاظ کیسے بھول سکتی ہوں
مسٹر بھالو
The Person that
Smiles often
وہ آنکھیں نیچی کر کے بولی
Seriously i love u for that saru
بہلول ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا
اچھا بس بس ہو گئی باتیں جلدی سے کیک کاٹو اور پھر مجھے گفٹ دو۔سرینہ مسکراتے ہوئے بولی
پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے اس ڈبے میں بم ہے جو تم بار بار اس کو کھولنے کا کہہ رہی ہو ۔
کھولو تو سہی سرینہ دونو بازو پیچھے کر کے بولی
بہلول نے کھولا تو ایک منٹ کے لئے ساکت ہو گیا
یہ پیکچر کیک تھا جس میں بہلول نے نیو بورن فارس فرحان اور بازلہ کا بیٹا اٹھایا ہوا تھا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے ہوئے تھے لیکن سب سے زیادہ دنگ اس کے کیپشن نے کیا
Your going to be daddy soon
تم بہت جلد پاپا بننے والے ہو
سرینہ یہ سب ۔۔۔۔ بہلول نے دیکھا
سرینہ لال چہرہ اب دیکھ لو وہ شرمائی
سرینہ تم نے مجھے سب سے بسٹ گفٹ دیا، وہ اسے اٹھا کر گھمانے لگا
اچھا بس بس اب اتارو اور مجھے بھی گفٹ دو
یہ بھی تمارا ہی گفٹ ہوا نا بہلول مسکرایا
جی لیکن مجھے اس کے علاوہ چاہئے
فکر نہ کرو ایک سال بعد دے دونگا پھر سے
اف بھالو۔۔۔۔۔۔۔۔ بہلول ہنسا اور جیب سے چابی نکالی
یہ لو تمہیں کار بہت شوق تھا
فائنلی تم نے مجھے پورے پانچ سال بعد کار چلانے کی اجازت دی
سوری ابھی نہیں بے بی کے بعد
ویسے اتنی دیر کیوں لگا دی؟
پری کی قبر پر گیا تھا
سرینہ ایک دم خاموش ہو گئی
اس کے آنسو دیکھ کر بہلول نے اسے سینے سے لگایا وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر رو پڑی
کمزور ہے اسے بلڈ کی رکیوارمنٹ ہے ڈاکٹر بولا
ڈاکٹر کون سا بلڈ چاہئے بہلول تیزی سے بولا
بی پوزیٹو
بھائی ہم میں سے کسی کا بھی بی پوزیٹو نہیں ہے
بہلول کو ایک دم کچھ یاد آیا
اس کی یونی میں بلڈ ڈونیشن ہوا، تھا پریسہ نے دیا، تھا سرینہ سوئی سے ڈرتی تھی بہلول اس کا مزاق اڈایا کرتا تھا
کتنی ڈرپوک ہو سرو پری کو دیکھو کتنا نیکی کا کام کیا ویسے پری تمارا بلڈ کون سا ہے بہلول نے دلچسپی سے پوچھا
بی پوزیٹو
او مجھے تو فائدہ نہیں کسی اور کو ہو سکتا ہے میں او نیگٹو ہوں سرو تمارا کون سا ہے؟
مجھے نہیں پتہ
ہاں تمہیں کیسے پتہ ہو گا، سوئی دیکھ کر جان نکلتی ہے
بہلول نے پریسہ کا پتہ کرنے کے لیے اس کی مدر کو فون کیا
اب تمارا میری بیٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہے
پلیز انٹی یہ کسی کی زندگی کا سوال ہے بہلول پریشانی سے بولا
تماری بیوی کا نا تو میں بالکل نہیں بتاؤں گی اچھا ہے مر جائے پھر میری بیٹی کی تکلیف کا اندازہ ہو
بہلول تڑپ اٹھا
اگر آپ نے نہیں بتانا مت بتائیں مگر ایسے نہ بولیں اس نے فون بند کر دیا اور رونے والا ہو گیا
پری کا کہاں سے پتہ لگاؤں
ایک دم میسج کی بیپ پر چونکا
پریسہ کے ڈیڈ نے ہوٹل کے ساتھ اس کا نمبر سینڈ کر دیا
بہلول کو حیرانی ہوئی مگر اس نے جلدی سے کال کی
ہیلو۔۔۔
ہیلو پری۔۔۔۔
ہو از دس؟
پریسہ میں بہلول
بہلول تم
ہاں پلیز مجھے مل سکتی ہو؟
خیریت جناب بڑی بے تابی ہے بیوی سے تنگ آ گئے کیا وہ ہنسی
بہلول نے اس کے بکواس کو اگنور کیا
پلیز پریسہ اٹس ایمرجنسی
سوری مائی ایکس بٹ ائم بزی وریز بنڈ
پریسہ نے فون بند کیا
________________
تم۔۔۔۔۔
میرے ساتھ چلو
جی نہیں تماری ہمت کیسے ہوئی
پریسہ تم سرینہ کو خون دو گی اس کے پاس وقت کم ہے تماری وجہ سے بچ سکتی ہے
وسیم باہر گیا ہوا ہے بہتر ہے تم یہاں سے چلے جاؤ اس سے پہلے وہ تمہیں دھکے دے کر نکالے
پریسہ غصے سے بولی
پلیز پری سرو تماری وجہ سے بچ سکتی ہے بہلول نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے
آئی ڈونٹ کیر میری بلا، سے مر جائے
بہلول نے غصے سے اسے زور دار تھپڑ مارا
نہیں دینا مت دو تماری وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی ہے
اگر سرینہ کو کچھ ہو گیا میں دنیا کو آگ لگا، دوں گا سمجھی
وہ اسے چھوڑ کر نکل پڑا
فرحان نے بتایا کہ خون کا انتظام ہو چکا، اسکی جان میں جان آئی وہ ہسپتال کی طرف جا رہا تھا
وہ وہاں پہنچا
کس نے دیا، سرو کو خون
بھائی ایک لڑکی آئی تھی بولی میں دوں گی میرا، بی پوزیٹو ہے ابھی گئ ہے دیکھتے ہیں
ڈاکٹر سامنے آئے
ڈاکٹر کیا میں مل سکتا ہوں ڈونر سے ؟
شیور
بہلول بھاگا وہ لڑکی تیزی سے نکل رہی تھی بہلول سے ٹکرائی
پریسہ تم۔۔۔
پریسہ جانے لگی بہلول نے اسے روکا
پری thanku so much میں تمارا یہ احسان کبھی نہیں بولوں گا
مجھے معاف کر دینا، بہلول
اچانک پریسہ دھڑم سے نیچے گری
بہلول کو جھٹکا لگا
پری پری آنکھیں کھولو
____________________
بس، سرینہ کتنا، رو گی
بہلول نے پیار سے اسکے بال سہلائے
بہلول پری میری وجہ سے مری ہے سمجھتی تھی میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے لیکن زیادتی تو پری کے ساتھ ہوئی ہےاسے نہ تماری محبت ملی نہ زندگی
سرینہ نے آنسو پونچھے
وہ اس کی قسمت تھی اس کا وقت ختم ہو گیا تھا میرے اندر گلٹ ہے میں اگر پری کو فورس نہیں کرتا لیکن پھر شاید میں تمہیں کھو دیتا بس، یہ اللہ کی مرضی تھی اب ہمیں اس کے لئے دعا کرنی چاہئے
تھی تو دوست نا بے شک کتنے اختلافات ہوئے مجھے عشق ہے پری سے جس نے مجھے تم دیے
میں کبھی بھی پری کو نہیں بھول پاؤں گی بھالو مجھے زندگی دی صرف تماری خاطر
میں بھی اسے نہیں بھول پاؤں گا وہ ہمیشہ ہمارے دل میں رہے گی بہلول بے بسی سے بولا
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...