“تمہاری ٹرین کہیں رکتی بھی ہے؟”
عشال کو کہنا پڑا۔
“یہ صرف منزل پر پہنچ کر دم لیتی ہے۔”
زعیم کہاں باز رہ سکتا تھا؟
“اسی لیے اکثر پٹری سے اتر جاتی ہے۔”
نورین نے لقمہ دیا۔ اس کی توجہ اب شہیر کی طرف نہیں تھی۔ اگرچہ وہ شہیر کی نظریں محسوس کررہی تھی مگر دانستہ خاموش تھی۔
“اونہوں!!! پٹری بدل لیتی ہے، ویسے آج تک حادثے کا شکار نہیں ہوئی۔”
زعیم نے نورین کی بات پلٹا دی۔ سامنے سے ٹرے ہاتھ میں لیے آبریش چلی آرہی تھی۔
سیاہ رنگ پہنے۔ دوپٹہ سلیقے سے جمائے۔
“توبہ ہے زعیم،!!!بس بھی کرو،”
نورین نے اسے ہلکی سی چپت رسید کی۔
“لیجیے؟ اب آزادئیء اظہار پر بھی پابندی؟”
نورین سمیت کوئی بھی اس کی بات پر مسکراہٹ نہ روک سکا۔
بھائی چائے!
آبریش نے شہیر کے سامنے ٹرے رکھی۔
شہیر نے چائے ہاتھ میں لیتے ہی ایک گھونٹ میں ختم کی اور تھکن زدہ لہجے میں بولا۔
اوکے پھر مجھے تو اجازت دیں؟ میں ذرا فریش ہو لوں!
اس کے ساتھ ہی اٹھ گیا۔
نورین الجھن زدہ سی بیٹھی رہ گئی۔
پتہ نہیں شہیر کیا جانتا تھا اور کیا نہیں؟ نورین بھی اندر سے کھٹک گئی تھی۔
*************************
“اگر اللہ کچھ بھی کرسکتا ہے تو وہ تمہارے دل میں میری محبت کیوں نہیں ڈال دیتا۔۔۔؟”
چلو یہ نہیں تو میرے حافظے سے تمہاری صورت کیوں نہیں مٹا دیتا۔۔۔؟” اور میں فقط اتنا جانتا ہوں، تمہارے اللہ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ، یا پھر یہ میرے ہی حق میں ایسا ہوا ہے؟” کیوں اللہ؟” تو نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟” اور اگر تو ایسا نہیں؟ تو پھر کیسا ہے؟ مجھے بتا دے؟”
وہ نہ جانے کب سے اس بت کے سامنے کھڑا اپنے پیدا کرنے والے سے سوال جواب کررہا تھا۔ جب سے اس کے سامنے وہ اللہ کی چاہت کا دعوی کرکے گئی تھی، وہ بے کل تھا۔ ان گذرے ماہ وسال میں بھی اس کا شکوہ خالق سے کم نہیں ہوا تھا۔ وہ آج بھی اسی مقام پر تھا۔ جہاں وہ مایوس ہوکر گرا تھا۔
حالانکہ وہ اس کا نقطہءآغاز تھا، جسے وہ ضائع کرچکا تھا۔
****************
“پتہ نہیں، اس بندر کو مجھ سے کیا دشمنی ہے؟ جو ہمیشہ میرے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا ضروری سمجھتا ہے، ماما بھی ناں، ہمیشہ اسی کی سنتی ہیں، ان کا لاڈلا جو ہوا، اور میں تو جیسے سوتیلی ہوں۔۔۔۔ہونہہ!!”
آبریش پھولے منہ کے ساتھ تیز تیز دوپٹے پر استری رگڑ رہی تھی۔ اور جلے دل کے پھپھولے بھی پھوڑنے میں مصروف تھی، جب عشال کا ادھر سے گذر ہوا۔ اس کے چہرے کے زاویے دیکھ کر رک گئی۔
“کیا ہوا میری گڑیا؟
چھوڑیں عشال آپی! یہاں سب کو اپنی فکر ہے، آپ کو بھی! میں جانوں اور میرا مسئلہ!
وہ سر جھٹک کر دوبارہ مصروف ہوچکی تھی۔ عشال تھوڑا سا خجل ہوئی۔ کہ بہر حال اتنے دنوں میں اسے بھی تو آبریش کا خیال نہیں آیا تھا۔
” تم کیوں پریشان ہو؟ مجھے بتاؤ! تم تو میری بہت پیاری سی گڑیا ہو ناں؟”
عشال نے پیار سے اس کی تھوڑی چھوئی۔
اور وہ قدرے پسیج گئی۔
“کیا بتاؤں، آپی! میرا مسئلہ یہ زعیم ہے۔ ہمیشہ ماما کو میرے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔”
آبریش کا چہرہ ہی اس کے جذبات کا غماز تھا۔
عشال کی سانس بحال ہوئی کہ چلو معاملہ کوئی زیادہ سنجیدہ نہیں تھا۔
“پھر بھی کچھ بتاؤ تو سہی!”
آپی! اتنی مشکل سے مجھے آرٹ پڑھنے کی اجازت ملی ہے، اور زعیم نے میری بک لے جاکر ماما کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اس میں ہیومن ہسٹری پر جو کام ہوا ہے، وہ۔۔۔۔ اور دو کی دس لگا کر انھیں میرے پیچھے لگادیا ہے، کہہ رہا تھا۔ یہ شرفاء کی تعلیم ہے۔۔۔؟اب آپ ہی بتائیں، شرفاء اینا ٹومی پڑھ سکتے ہیں لیکن آرٹ کی ہسٹری نہیں؟”
میرا جی چاہ رہا ہے، زعیم کا قتل کردوں، آخر وہ میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتا؟”
عشال نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ اب کیا بتاتی جو زعیم کی آنکھیں کہتی تھیں۔ محبت کا ایک رنگ شاید یہ بھی تھا۔ محبوب کی توجہ حاصل کرنے کا ایک بہانہ۔ مگر وہ آبریش کو فی الحال یہ نہیں سمجھا سکتی تھی۔
“تم ابھی نہیں سمجھو گی۔ زعیم بے وقوف ہے، جو ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہے۔ لیکن ایک بات کہوں؟ وہ دنیا میں سب سے زیادہ تمہارا خیر خواہ ہے۔”
عشال اسے یہی کہہ سکتی تھی۔
“خیر خواہ! اور وہ۔۔۔۔؟ آج تک مجھ سے دشمنی نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جناب نے۔ دنیا میں اگر مجھے کسی سے نفرت ہے تو، زعیم مرتضی سے ہے۔ میری ماما تک چھین لیں مجھ سے۔”
اس کا چہرہ سرخ پڑگیا تھا۔
“ایسا مت کہو!”
بے اختیار عشال نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھاتھا۔
“نفرت ایک بیماری ہے، اپنے دل کو کبھی اس کی کھیتی نہ بننے دینا۔”
“نفرت اور محبت پر اختیار کب ہوتا ہے، عشال آپا! یہ تو خود رو جھاڑیوں کی طرح آپ ہی آپ اگ آتی ہے۔”
“آپ کسی سے پوچھ کر محبت کرتے ہیں یا نفرت؟”
وہ استری شدہ دوپٹہ اٹھاتی، تیز قدموں سے جاچکی تھی۔
پیچھے عشال اس کے گلابی رنگ بکھیرتے دوپٹے کو حیران آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی تھی۔
“یہ کیا ہورہا ہے؟ پروردگار؟ یہاں کاتب تقدیر کوئی نئی کہانی تو نہیں لکھنے جارہا؟”
عشال نے دہل کر سوچا تھا۔
**************
پرتپش دن اپنا آدھا سفر طے کرچکا تھا۔ جب شہیر نے مرتضی صاحب کے ٹھنڈے لاؤنج میں قدم رکھا تھا۔ جہاں نورین پہلے سے موجود تھی۔
“لیجیے جناب! مابدولت تمہارے سامنے ہیں، پوچھ سکتی ہوں ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ تم شام تک انتظار نہیں کرسکتے تھے۔ اتنی جلتی بھنتی دوپہر میں آنا ضروری تھا کیا؟”
نورین نے جان بوجھ کر ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
“ہاں! بہت ضروری تھا۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے درمیان ہونے والی بات چیت مرتضی انکل کے علم میں آئے۔”
شہیر کے تیور دیکھ کر نورین کو سنجیدہ ہونا پڑا۔
“تم کیا کہنا چاہتے ہو شہیر؟”
“تم نے عشال کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیوں کیا؟ نورین! تم نے اس۔۔۔۔۔۔گھٹیا شخص کا ساتھ دیا؟ عشال کی بربادی سے تمہیں کیا حاصل ہوگیا! تم نے کیوں کیا ہم سب کے ساتھ یہ؟”
شہیر کے لفظ نہیں تھے،انگارے تھے جو نورین کے کانوں میں وہ انڈیل رہا تھا۔
“مم۔۔۔ میں نے۔۔۔۔۔؟ کیا کہہ رہے ہو تم؟”
نورین کے حلق میں الفاظ پھنسنے لگے۔
“ہاں تم!”
جوابا شہیر نے چند کاغذ اس کی طرف پھینکے تھے۔
نورین نے جھک کر ایک کاغذ اٹھایا۔۔۔وہ نورین کے موبائل کا ریکارڈ تھا۔
وہ وہیں ڈھے گئی۔ اس کے بھرم کا بت بالآخر پاش پاش ہوگیا تھا۔ جسے وہ اتنے سالوں سے بمشکل تھامے ہوئے تھی۔
*****************
شافعہ بے بسی سے ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں، جو خاموشی سے اپنے معمولات نمٹارہا تھا۔ کئی دنوں سے اس نے شافعہ سے نہ کوئی بحث کی تھی نہ فرمائش! وہ جو کچھ بنا دیتیں خاموشی سے کھالیتا۔ نہ کمرہ بکھرا ہوتا نہ کوئی اور چیز، یعنی وہ شافعہ کو بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔ انھیں یاد تھا۔ وہ بچپن سے کس قدر شور شرابا برپا رکھتا تھا۔ صارم کو وہ سمجھا بجھا کر اپنی بات منوالیتی تھیں۔ لیکن وقار؟ وہ تو اپنی پسندیدہ چیز نہ پکنے پر ایک ہنگامہ کھڑا کردیتا تھا۔ اور آج؟ انھوں نے جان بوجھ کر کدو کی بھجیا بنائی تھی۔ کسی بہانے سہی، لیکن وہ بولے تو، چاہے کھانے پر ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ ہو،
مگر اس نے بلا اعتراض پورا ڈونگا یوں صاف کیا تھا، جیسے یہ من وسلوی ہو۔
اور۔۔۔۔ شافعہ کا دل کٹ کٹ گیا تھا۔
اس وقت بھی وہ خاموشی سے پیکنگ میں مصروف تھا۔
اور شافعہ جیسے تماشائی۔
وقار! کہیں جارہے ہو؟”
وہ اچھی طرح اس سوال کا جواب جانتی تھیں۔ مگر۔۔۔
“جی! کوریا!”
لیکن آپ کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔”
اس نے بغیر تاثر کے انھیں تسلی دی۔
“وقار!”
ان کی برداشت جواب دے چکی تھی۔ اس کا رخ زبردستی اپنی جانب موڑا۔
“تمہیں ذرا بھی اپنے بھائی پر رحم نہیں آتا؟”
“کیا کہہ رہی ہیں، ماما؟”
وہ اب بھی پرسکون تھا۔
“تم اچھی طرح جانتے ہو، آخر اس سب کا کیا مطلب ہے؟”
“میں نے کیا کیا ہے، ماما؟ جیسا آپ چاہتی تھیں، ویسا ہی تو کیا ہے۔”
“میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں اور۔۔۔۔۔ صارم کو بھی!”
شافعہ نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو لہرارہے تھے۔
“میں خوش ہوں ماما! آپ بھائی کی فکر کریں۔”
وہ دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہوچکا تھا۔ وہ اپنے ضروری ڈاکیومنٹس ارینج کررہا تھا۔
“مجھے تم بھی اتنے ہی عزیز ہو، خدا گواہ ہے، میں نے آج تک تم دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا۔۔۔۔، کوئی بھی ماں نہیں کرتی۔ ہر بچے کو پیدا کرنے کا درد ایک سا ہی ہوتا ہے۔”
وہ بے بسی سے کہہ رہی تھیں۔۔
وقار اٹھ کر ان کے پاس آگیا۔ ماں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے تسلی دی۔
“آپ کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے، ماما! میں جانتا ہوں۔ اسی لیے تو آپ کی خواہش کا احترام کیا ہے۔”
شافعہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں اس کے چوڑے سینے پر سر رکھ کر رو دیں۔
“میرے دونوں بیٹوں کو عشال نے برباد کردیا۔ خدایا تو اسے برباد کردے۔۔۔۔”
شافعہ کے دل سے ایک آہ نکلی۔
*****************
“مممم۔۔۔۔مجھے معاف کردو شہیر! وہ سب کچھ ایسے نہیں ہوا تھا، جیسا تم سوچ رہے ہو! پلیز میری بات سنو!”
نورین منہ پھیرے کھڑے شہیر سے مخاطب تھی۔
**************************
“پلیز میری بات سنو!
نورین کی آنکھیں اور لہجہ بھیگ گیا تھا، لیکن شہیر کا وجود گویا پتھر میں ڈھل چکا تھا۔
“کہتی رہو!”
شہیر نے مسلسل بجتے فون کو آف کردیا تھا۔ اس کا لہجہ انتہائی کٹھور تھا۔ جو نورین کے حوصلے پست کررہا تھا مگر وہ بولنے پر مجبور تھی۔
“مجھے وہ پسند تھا۔۔۔۔ بہت پسند! میں نے کبھی اسے لڑکیوں سے فلرٹ کرتےنہیں دیکھا تھا۔ اس کی پرسنیلٹی میں عجیب سی جاذبیت تھی۔ جو لوگوں کو اس کی طرف کھینچتی تھی۔ مجھے وہ مختلف لگتا تھا، اسی لیے۔۔۔۔ اسی لیے۔۔۔جب اس نے۔۔مجھے عشال کے لیے اپروچ کیا تو۔۔۔۔،”
شہیر نے بے اختیار گردن گھما کر اسے دیکھا، مگر کہا کچھ نہیں۔
“میں چاہتی تھی۔۔۔ عشال بھی اس کے لیے سیریس ہو جائے اور بس۔۔۔ کیونکہ میں نے دیکھا تھا۔۔۔ وہ عشال کے لیے سیریس تھا۔ لیکن۔۔۔ اس کے ارادے کیا ہیں؟ یہ سمجھنے میں مجھے دیر ہوگئی۔ اس رات۔۔۔ابشام کی آخری بار کال آئی تھی۔۔۔۔۔
نورین کی داستان جاری تھی۔ اور شہیر کے اندر اشعر کے لفظ ٹھوکریں ماررہے تھے۔ نورین کو اندازہ نہیں تھا وہ کہاں تک چلاگیا تھا۔ اشعر کی بات نے اس کے دماغ کی چولیں ہلاڈالی تھیں۔ اسی لیے اس نے اشعر ہی کی مدد سے آٹھ سال پرانا ریکارڈ حاصل کیا تھا۔ لیکن آگے اس کے کیا ارادے ہیں، اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں تھا۔
**************
ائیر پورٹ پر معمول کی گہماگہمی تھی۔ Arivel سے مسافر برآمد ہوتے اور اپنوں کی طرف لپک رہے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو تنہا ہی آگے بڑھ جاتے تھے۔ ایسا ہی ایک تنہا مسافر ایلیویٹر پر کھڑادکھائی دے رہا تھا۔ اس کا مختصر سامان کندھے سے لٹکے بیگ میں کافی تھا۔ پھولدار شرٹ کے گریبان میں گاگلز اٹکے ہوئے تھے۔ وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر آگے بڑھا اور سفید لوفرز میں قید دونوں پیر زمین پر جما کر یقین کرنا چاہا کہ وہ لوٹ چکا ہے۔
اپنے یقین کو تقویت دینے کے بعد اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، اس کی منزل کس طرف تھی؟ “شہیر ولا! ہاں یہی ایڈریس تھا شاید۔”
*************
ڈھلتی سہ پہر ایک بار پھر وقت کی رفتار کو دھکیلتی آگے بڑھ رہی تھی۔ ضیاءالدین صاحب اس وقت اپنی نرسری کے وسیع میدان میں پودوں کے درمیان کھڑے تھے۔ وہ کسی آرڈر کی لوڈنگ اپنی نگرانی میں کروارہے تھے۔ ایک ہاتھ میں سیل فون تھا۔ ان کا مینیجر بھی ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ان کے لیے یہ بہت مصروفیت کا دن تھا۔ اسی دوران ان کے سیل فون پر مرتضی صاحب کا نمبر چمکا۔ ضیاءالدین صاحب نے نمبر دیکھا اور معاملات مینیجر کے حوالے کرتے ہوئے، واپس آفس کی طرف چل دیے۔
“ہاں کہو مرتضی!”
وہ رسمی علیک سلیک کر چکے تھے۔
“شام کو بزی تو نہیں؟ مجھے ایک ضروری کام ہے۔”
مرتضی صاحب نے جواب دیا۔
” نہیں! مصروف تو نہیں ہوں، کیا کوئی خاص بات ہے؟”
ضیاءالدین صاحب کو حیرت ہوئی تھی۔ مرتضی صاحب اس وقت کال نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ وقت ان کے لیے بھی بھرپور مصروفیت کا ہوتا تھا۔
“بات تو خاص ہی ہے، دراصل سیف اللہ نے اپنے بھتیجے کے لیے کسی رشتہ کا کہا ہے، اگر تم مناسب سمجھو تو عشال کے لیے بات کی جائے۔ کیا کہتے ہو؟
“سیف اللہ! عائز کے والد؟”
ضیاءالدین صاحب نے تصدیق چاہی۔
ہاں وہی! اچھا خاندان ہے، اس کا بھتیجا یتیم ہے۔ میرے دیکھے بھالے ہیں، کافی ڈیسنٹ لوگ ہیں۔”
مرتضی صاحب نے اطمینان سے انھیں بتایا۔
“اور لڑکا؟”
اسی لیے کہہ رہا ہوں، شام کو مل لیتے ہیں۔ اطمینان سے ساری باتیں ہوجائیں گی۔ ایک بات اور بھی ہے۔ سیف بتارہا تھا۔
لڑکا انھی کے ساتھ رہتا ہے۔
باقی ساری باتیں بعد کی ہیں، پہلے ہم آپس میں تو بات کرلیں۔”
مرتضی صاحب کے کہنے پر ضیاءالدین صاحب خاموش سے ہوگئے۔
“کیا سوچ رہے ہو؟ ضیاء!”
مرتضی صاحب نے ان کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
“یہی کہ اللہ میری بچی کا مقدر اچھا کرے۔ کہیں اس کا ماضی نہ سامنے آکھڑا ہو۔”
ضیاءالدین صاحب کن اندیشوں کا شکار ہیں، مرتضی صاحب سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا۔
” پریشان مت ہو، ابھی اس سب میں بہت وقت ہے، اور میرے پاس اس کا ایک حل ہے۔ مل کر بات کرتے ہیں۔”
اور خدا حافظ کہہ کر رابطہ منقطع کردیا۔
ضیاءالدین صاحب کے چہرے پر تفکر کی لکیریں گہری ہوگیئیں۔
**************
نورین کے گھر سے نکل کر شہیر کا رخ کسی ریستوران کی طرف تھا۔ نورین کی سنائی ہوئی داستان نے اس کی برداشت کا اچھا خاصا امتحان لیا تھا۔ وہ گھر جانے سے پہلے کچھ دیر تنہا گذارنا چاہتا تھا۔ اس کی بھوک پیاس مرچکی تھی۔ وہ فقط تنہائی چاہتا تھا۔ یہی سوچ کر وہ کونے کی ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ ویسے بھی ریستوران خالی خالی سا تھا۔
شہیر نے سیل نکال کر چیک کیا۔ تو عمر گل کا نمبر دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ جن دنوں شہیر کراچی ہوتا تھا، عمر گل اسے انتہائی مجبوری کے بغیر کال نہیں کرتا تھا۔ اس نے میسیج بھی چھوڑا تھا۔ شہیر نے فورا سے پیشتر کال بیک کی تھی۔
“السلام علیکم عمر! آپ کال کررہے تھے؟”
“جی!سر ادھر ایک مسئلہ ہوگیا ہے، سر!”
کیسا مسئلہ؟
“شاہدہ باجی کی شادی ہورہی ہے جی۔”
شہیر کو سمجھ نہ آئی اس میں مسئلے والی کیا بات ہے؟ اور اس نے پوچھ بھی لیا۔
“کیا کہہ رہے ہیں یار عمر؟ شاہدہ کی شادی سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟”
“مسئلہ تو جی آپ کو ہوگا ناں؟ میرا کیا ہے، جی! کوئی ہور نوکری ڈھونڈ لوں گا۔ ویسے آپ جیسا باس کوئی ہور ہو ائی نیئیں سکدا۔ آپ وکھرے ہی ہو جی۔”
“کام کی بات کریں یار، کہنا کیا چاہ رہے ہیں آپ؟”
شہیر زچ ہوا تھا۔
“بات دراصل یہ ہے سرجی! شاہدہ باجی نے صاف جواب دے دیا ہے۔ کہتی ہیں، مر جاؤں گی شادی کے بعد نوکری نیئیں کروں گی۔ نان نفقہ آدمی کی ذمہ واری ہے۔”
وہ اب پھوٹ کے دیا تھا کہ اصل مسئلہ ایمپلائے کا ہے۔
“ٹھیک ہے، میں دیکھ لوں گا۔ تب تک بچوں کو آپ سنبھال لیں۔”
میں۔۔۔۔؟”
عمر کی فلک شگاف “میں” نے شہیر کے کان کی چولیں ہلادیں۔
ناں جی ناں! وہ اتنے کمینے بچے ہیں، میں نے تو جی ایک ہی دن میں کان پکڑلیے ہیں،
جلدی کچھ کریں ان کا۔
مجھے تو یہ خبیث پاگل کر چھوڑ سن۔”
اچھا! اچھا! میں آتا ہوں تو کرتا ہوں کچھ، تب تک آپ کو انھیں سنبھالنا ہی پڑے گا۔”
اتنا کہہ کر شہیر نے کال بند کردی۔ پیچھے عمر گل پر جو گذری سو گذری۔ شہیر کو اس سے سروکار نہیں تھی۔
اب اسے اک عدد بے بی سیٹر کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ پہلے ہی ایڈمنسٹریٹر کا مسئلہ درپیش تھا۔
****************
“سچ تو یہ ہے، لڑکا میں نے نہیں دیکھا۔ سیف کی فیملی میں سیف کی دونوں بیٹیوں اور مسز سے ہی ملا ہوں، اکثر پارٹیز میں ہم دونوں اپنی فیملیز کے ساتھ ہی شریک ہوتے ہیں۔ لیکن وجدان سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ملاقات تو عائز سے بھی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ وجدان اور عائز دونوں شارجہ میں ہی ہوتے ہیں۔ وجدان وہاں بینکر ہے اور عائز سوفٹ ویئر انجینئر۔
سیف نے عشال کو دیکھا تو نہیں، لیکن کئی بار ہنستے ہنستے کہہ چکا ہے اپنی فیملی میں کوئی لڑکی میرے بھتیجے کے لیے بھی دیکھو۔ تم کہو تو عشال کی بات کرلیتے ہیں۔”
ہونم! ضیاءالدین صاحب نے پرسوچ ہنکارا بھرا۔
ابھی بات مت کرو۔ پہلے میں لڑکے کو دیکھنا چاہوں گا۔ اگر مناسب لگا تو، تم بات کرلینا۔”
ضیاءالدین صاحب نے محتاط انداز میں کہا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عشال کو ایک بار پھر ریجیکشن کا صدمہ اٹھانا پڑے۔
“آج کل میں وہ لوگ آنے والے ہیں، ڈیٹ فکسنگ کے لیے۔ تم وجدان سے مل لینا۔ اس طرح اس کے مزاج کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔”
“ٹھیک! یہی میں بھی سوچ رہا ہوں۔ خدا کرے عشال بھی اب ضد چھوڑ دے۔”
ضیاءالدین صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ صارم کے بعد عشال نے دنیا سے منہ موڑلیا تھا۔ شادی کا فیصلہ ہرگز بھی اس کے لیے آسان نہیں تھا۔
“تم اس سلسلے میں شہیر سے بات کیوں نہیں کرتے؟ صاحبزادے کو ویسے بھی فلاحی و اصلاحی کاموں سے خاصی دلچسپی ہے۔”
مرتضی صاحب نے شہیر کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر ضیاءالدین صاحب کو مشورہ دیا۔
“چلو ایک بار شہیر کو بھی آزما لیتے ہیں۔”
ضیاءالدین صاحب نے ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا تھا۔
***************
زعیم آج پھر بلاوجہ شہیر ولا میں موجود تھا۔ اور انہماک سے ایزل سجائے آبریش کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر دھیمی سی شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔
آبریش کی ساری توجہ اپنے شاہکار کی طرف تھی۔ اسی لیے اسے زعیم کی موجودگی کا بھی احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ اوپری منزل کی بالکونی میں کھڑی تھی۔ اور سمندری ہوا اس کے چہرے کو چھورہی تھی۔
زعیم نے آہستگی سے کھنکھار کر اسے متوجہ کیا۔
اوہ۔۔تم؟ مجھے لگا کوئی بھوت ہے۔
وہ بری طرح چونکی اور پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
“یہ کیا ہے؟”
زعیم نے اس کی بات کا نوٹس لیے بغیر کینوس پر بکھرے رنگوں کو آنکھیں چنی کرکے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” یہ نااہل اور بدذوق افراد کی سمجھ دانی سے اونچے معیار کی چیز ہے۔ تمہارے بس کی بات نہیں۔”
آبریش دوبارہ مصروف ہوچکی تھی۔
زعیم نے دیکھا۔ ایک شہزادی پورے تھان کا لباس پہنے سرپٹ گھوڑا دوڑا رہی ہے۔ اور جنگل کی مست ہوا اس کے لباس اور سرخ بالوں کو بکھرائے چلی جارہی ہے۔
مس جینئس صاحبہ! آپ ہی اپنے شاہکار کی گتھی سلجھادیجے، کہ ہم تو ٹھہرے نرے جاہل، گنوار!”
آبریش کا چہرہ اس بیان پر کھل گیا اور زعیم پر احسان فرماتے ہوئے بولی۔
“اس کا ٹائٹل
Wind at my back۔
ہے۔ اور یہ شہزادی ہوا کے دوش پر اپنی اصل دنیا کی تلاش میں نکلی ہے۔ ایک دن یہ اس جہاں کو تلاش کر لے گی۔ جو فقط اس کے لیے ہے۔”
زعیم نے ایک بار پھر بغور تصویر کو دیکھا جس میں شہزادی کا چہرہ تو مکمل تھا مگر باقی منظر کا صرف خاکہ دکھائی دے رہے تھا۔
“کیسی لگی؟”
آبریش نے برش کی نوک منہ میں دبائے اس کا اشتیاق دیکھ کر پوچھا۔
“اللہ معاف کرے۔۔۔۔توبہ! توبہ!”
وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔ آبریش کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
“کیوں؟ اس میں توبہ کی کیا بات ہے؟ صاف ستھری تصویر ہے۔”
“انھی صاف ستھری تصویروں میں قیامت کے دن جان ڈالنی پڑے گی، تب کیا کروگی؟”
توبہ!توبہ!”
آبریش نے زورسے برش پلیٹ میں پٹخا اور اس کی طرف خطرناک ارادوں سے بڑھی۔
“جان ڈالنے کا تو پتہ نہیں لیکن آج تمہاری جان نکال ضرور دوں گی۔”
وہ سخت غصے میں تھی۔
“ارے وہ تو تم ہر بار یونہی نکال لیتی ہو، یہ کون سی نئی بات ہے۔”
آبریش یکدم ساکت ہوئی۔ اسے زعیم کا لہجہ کچھ اور ہی محسوس ہوا۔
“کک۔۔کیا مطلب؟”
آبریش ڈھیلی پڑی۔
“مطلب کہ تم خالہ جان کا جیٹ فائٹر ہو۔ جو ہر وقت گولہ باری میں مصروف رہتا ہے”
وہ کہہ کر ٹھہرا نہیں۔
“بہت ہی فضول ہے یہ زعیم!”
وہ خود سے الجھتی وہیں ٹھہرگئی تھی۔
****************
رات سبک خرامی سے اتری تھی۔ شہیر کی آنکھوں سے نیند ضیاءالدین صاحب کی باتوں نے چھین لی تھی۔
وہ کھانا کھا کر اٹھنے کو ہی تھا کہ ضیاءالدین صاحب نے اسے اسٹڈی روم میں بلایا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ضیاءالدین صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں کہ اس کا ذہن عمر گل کی کہی باتوں میں الجھ گیا تھا۔ ساتھ ہی وہ نورین کے معاملے کو بھی ہضم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
“جی بابا!
وہ سوالیہ نظریں لیے ان کے سامنے نشست سنبھال کر بیٹھ گیا تھا۔
“آج مرتضی آیا تھا، میرے پاس!”
ضیاءالدین صاحب نے تمہید باندھی۔
“جی میں جانتا ہوں، کوئی مسئلہ ہے کیا؟”
شہیر کا ذہن ایک بار پھر نورین کے کارناموں کی طرف چلاگیا تھا۔ اور مرتضی صاحب بھی کچھ کم نہیں تھے۔
“نورین کی سسرال میں کسی رشتے کا ذکر کررہا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ یہ معاملہ آگے بڑھے، ضروری ہے کہ عشال کو ذہنی طور پر شادی کے لیے آمادہ کیا جائے۔ تم نے کہا تھا وقار درانی کے علاوہ تم کسی کے لیے بھی میرا ساتھ دو گے۔ تو اب تم میرا ساتھ دو۔ اگر لڑکا مجھے پسند آیا تو میں انکار نہیں کروں گا۔ لیکن اس کے ساتھ میں عشال پر زبردستی بھی نہیں کرنا چاہتا۔ بہتر ہے تم اسے آمادہ کرلو۔ ورنہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔”
شہیر نے بغور ان کی بات سنی اور سنبھل کر گویا ہوا۔
“مجھے عشال کی شادی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں تو خود اسے زندگی میں خوش اور آباد دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں عشال سے بات کرکے دیکھتا ہوں۔”
انھیں تسلی تشفی دے کر وہ ٹہلتا ہوا لان میں چلا آیا تھا۔ اسے خوشی تو تھی، لیکن اندیشہ بھی۔۔۔ جانے زندگی اب کون سا امتحان لینے کے درپے تھی؟ سوچتے سوچتے اس نے یونہی نگاہ اٹھا کر عشال کے کمرے کی طرف دیکھا تھا۔ جہاں بالکونی خاموش تھی۔ وہ پلٹنے کو ہی تھا کہ اس کی آہٹ پر رک گیا۔
“عشال؟ میں تمہاری ہی طرف آ رہا تھا۔”
شہیر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
“خیریت؟ کچھ کام تھا؟”
عشال نے ذرا حیرت سے پوچھا۔
“کیا اب ہماری بات صرف کام تک محدود رہ گئی ہے؟”
شہیر نے گلہ کیا۔
ایسی کوئی بات نہیں، بس ہم اپنی اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ اب بات کرنے کے بھی جواز ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔”
“میں یہی کہنا چاہتا تھا، تم نے اپنی زندگی کو کیا بنا لیا ہے؟ دکھوں کا اشتہار! کیا تمہاری خودداری تمہیں اس کی اجازت دیتی ہے؟”
شہیر بہت تلخ بات کہہ گیا تھا اس سے جس کا اسے احساس تھا، مگر وہ اسی طرح اس میں جونک لگاسکتا تھا۔
“شہیر! تم زیادتی کررہے ہو میرے ساتھ!”
حسب توقع وہ بلبلا اٹھی تھی۔
“تم خود اپنے ساتھ کیا کررہی ہو؟ کبھی سوچا ہے؟”
شہیر نے ایک قدم بڑھ کر اس کی جھلملاتی آنکھوں میں جھانکا تھا۔
“کیا چاہتے ہو، آخر تم مجھ سے؟”
وہ شکست خوردگی سے بولی تھی۔ شہیر سے فرار اب اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔
“تمہاری خوشی، تمہیں آباد دیکھنا چاہتا ہوں۔”
شہیر نے اسے شانوں سے تھام کر بھیگے لہجے میں کہا۔
“آباد دیکھنا چاہتے ہو مجھے؟”
شہیر کے بازو جھٹک کر وہ چیخی تھی۔
“تو پھر جاؤ! ابشام زبیر کو ڈھونڈ لاؤ! میں شادی کروں گی تو اسی سے۔۔۔۔!”
شہیر کو لگا اسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔۔۔۔ وہ عشال کے الفاظ کا یقین نہیں کرسکتا تھا، مر کر بھی نہیں۔۔۔۔وہ سن سا کھڑا رہ گیا۔ چند ثانیوں تک وہ عشال کی بہتی آنکھوں کو تکتا رہا۔ وہ یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس نے عشال کے منہ سے ابشام زبیر کا نام سنا ہے۔
عشال کی نظروں میں ایسی قطعیت تھی کہ وہ گنگ ہو کر رہ گیا۔
“ایکسکیوز می!”
شہیر کے اعصاب ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ ایک اجنبی لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
لمحوں کی گھمبیرتا میں وہ دونوں اسقدر کھوگئے تھے کہ انھیں نووارد کی آمد کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔
*******************
صبح مرتضی صاحب کے گھر میں معمول کے مطابق ہی اتری تھی۔ وہ سیڑھیاں اترتے فون پر بات کرتے آرہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں سفید لفافہ تھا۔ جس کے کونے پر ملٹری کا مخصوص نشان تھا۔
نورین اس وقت سے لاؤنج کے صوفے پر ہی گم صم حالت میں بیٹھی تھی۔ اس کی نظریں شیشے کے پار لان میں اترتی دھوپ پر جمی تھیں۔ اور ذہن شہیر کے تند وتیز الفاظ کی آندھی میں چکر پھیریاں کھا رہا تھا کہ مرتضی صاحب کی بات پر کان کھڑے ہوگئے۔
“اچھا؟ میں نے تو تمہاری پریشانی دیکھ کر ایک حل سوچا تھا۔ فکر مت کرو، کبھی نہ کبھی اس کی مزاحمت دم توڑ ہی دے گی۔ تم مایوس مت ہونا۔۔۔!
اووف! یہ سگنلز۔۔۔ بہت پرابلم کرنے لگے ہیں۔
ان کی لائن کٹ گئی تھی شاید!
کیا ہوا ڈیڈ؟
نورین نے فکرمندی سے پوچھا۔
وہ ضیاءالدین صاحب سے بات کررہے تھے۔ اتنا تو اسے اندازہ ہوچکا تھا۔
مبارک ہو! عشال نے پھر شادی سے انکار کردیا ہے۔
نورین کے اندر غصے کا ابال اٹھا۔
آخر یہ عشال چاہتی کیا ہے؟
اسی لمحے مرتضی صاحب کا سیل فون دوبارہ بج اٹھا تھا۔ جسے کان سے لگائے وہ گھر سے نکل گئے تھے۔
نورین سے مزید برداشت نہ ہوا وہ گاڑی لے کر فورا ہی نکل گئی تھی۔ آج اس نے عشال سے دوٹوک بات کی ٹھانی تھی۔ اسے شہیر کی بھی پرواہ نہیں تھی۔
***************
وہ ابلتی کھولتی لاؤنج میں داخل ہوئی تھی۔ لیکن اندر کا منظر حیران کن ہی نہیں ناقابل یقین تھا۔
اس کی imagination کے مطابق اس وقت سطوت آراء کو منہ بسورے کچن میں برتن پٹخنے چاہیے تھے۔ ضیاءالدین صاحب کو اپنی نرسری روانہ ہوجانا چاہیے تھا۔ عشال کو اپنے کمرے میں اور شہیر کو لان میں ٹہلتے ہوئے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی تھی۔
سب ہنسی خوشی ناشتہ کرنے میں مصروف تھے، ضیاء الدین صاحب کا قہقہہ اس نے اپنے گناہگار کانوں سے سنا تھا۔ حد تو یہ تھی، عشال کے چہرے پر بھی بشاشت تھی اور وہ سب کو ناشتہ چن رہی تھی۔
ایسا لگتا تھا وہ ماضی میں کھڑی ہے اور کوئی پرانا منظر اس کے سامنے ہے۔
“ارے آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ ہمیں نظر لگائیں گی کیا؟
آبریش کی سب سے پہلے اس پر نظر پڑی تھی۔
السلام علیکم!
نورین آگے بڑھی تو ایک اجنبی کو دیکھ کر چونکی۔ پھر اشتیاق سے پوچھا۔
” آپ کی تعریف؟”
“آپ خود ہی کر لیجیے۔۔۔”
اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
I geused!
آپ۔۔۔۔؟ ضیغم ہیں ناں؟
ضیغم مصطفی!
ضیغم نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
“آپ اچانک کیسے؟”
نورین نے خوشگوار حیرت کا مظاہرہ کیا۔
تم بیٹھو میں تمہارے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔
عشال نے نورین کے لیے کرسی کھینچ کر گنجائش بنائی۔
نورین مسکراتی ہوئی سب کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
البتہ شہیر کا چلتا ہوا منہ سست پڑگیا تھا۔ وہ بالکل خاموش ہوکر یوں بیٹھا تھا گویا زبردستی بٹھا دیا گیا ہو۔
“رضا کار ہوں، حادثے مجھے کھینچ ہی لیتے ہیں۔”
عشال نے نشست سنبھال لی تھی۔
ضیغم نے نورین کے سوال کا جواب دیا تھا۔
خیر آپ کی آمد کی جو بھی وجہ ہو، ہماری طرف سے موسٹ ویلکم ضیغم صاحب!”
ضیغم فقط مسکرایا تھا۔
****************
اس نے جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا، عائشہ حیران نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
“اوہ شامی! میں نے کتنا مس کیا تمہیں میری جان!”
اور اس کے گلے لگ گئی۔
“کہاں تھے تم؟”
عائشہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور کچھ ٹھٹک سی گئی۔
وہ عجیب بے حسی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“شامی؟ ایسے کیوں بی ہیو کررہے ہو؟”
عائشہ اسے سمجھ نہیں پارہی تھی۔
“آئی ایم سوری مام! مجھے پیدا کرنا آپ کا دوسرا غلط فیصلہ تھا۔”
اور عائشہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر پرے جھٹک دیا۔
ابھی وہ کچھ سمجھی ہی نہیں تھی کہ شامی کے عقب سے کچھ لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لیڈی آفیسر نے عائشہ کو بازو سے پکڑا تھا۔
“شامی۔۔۔؟”
عائشہ نے بھیگی آنکھوں سے ایک بار بے یقین نظروں سے بیٹے کو دیکھا۔ جس کے چہرے پر ان گنت شکوے تھے۔
عائشہ رستی آنکھوں کے ساتھ سر جھکا کر آگے چل پڑی تھی۔
وہ بہت بچپن میں ہی اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ وہ اپنے والدین کی غلطی کا نتیجہ تھا۔ اور ان سے اس سے بہتر انتقام وہ کیا لیتا کہ ان کی ناجائز کمائی انھی کے منہ پر دے مارتا۔
وہ بہت پہلے ہی وعدہ معاف گواہ بن چکا تھا۔ اس وقت اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری اپنی ذات کا تحفظ تھا۔
شامی نے چند گہری سانسیں لیں۔ لاؤنج کادروازہ بند کیا اور خود کو وہیں دبیز قالین پر گرا دیا۔
*****************
“مرتضی صاحب نے ابھی ابھی انٹرکام کا ریسیور کریڈل پر رکھا تھا۔ اور اپنے سامنے رکھی فائلوں کے پلندے کا بغور جائزہ لینا شروع کیا۔
” آپ نے یاد کیا سر؟”
ایک دھان پان سے شخص نے اندر جھانکا۔ بظاہر وہ سادہ سا ایک انسان دکھائی دیتا تھا۔ مرنجان مرنج۔ اور ناک کی سیدھ میں چلنے والا۔۔۔،لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
“ہاں مجاہد! مجھے تم سے ضروری کام ہے۔”
“آف کورس سر!”
اس کی شکرے جیسی آنکھوں میں بلا کا عتماد تھا۔
“عدالت سے ہمیں مسٹر عثمانی کا ایک ہفتے کا ریمانڈ ملا ہے۔ اس ایک ہفتے کے لیے زبیر عثمانی کو اپنی پراپرٹی سمجھو۔ کچھ بھی کرو، ہم نے اس کا کانفیڈنس توڑنا ہے۔ از اٹ کلئیر؟”
“نو پرابلم سر! مسٹر عثمانی کے لیے دودن بھی زیادہ ہیں۔”
اس نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
“مجھے کوئی جلدی نہیں۔۔۔۔ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس!”
اور مجاہد کی آنکھوں میں بھوکے درندے جیسی چمک پیدا ہوئی تھی۔ اور وہ ایک وحشی تھا، جس کو شکار کے ساتھ مقفل کردیا گیا تھا۔
مجاہد کے جانے کے بعد مرتضی صاحب دوبارہ کاغذوں پر جھک گئے تھے۔
***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...