لاک ڈاؤن کے بعد جب سیاحت کی غرض سے میرا ایک سرسبز و شاداب وادی میں جانے کا اتفاق ہوا تو کچھ وقت ایک ساتھ گزارنے کے بعد ہمراہ ساتھیوں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے الگ تھلگ ہو کر میں نے ذہنی سکون اور ٹرپ کے لطف کو دوبالا کرنے کی غرض سے ایک راستے پر جو کہ اندرونی وادی کی طرف گامزن تھا پر چہل قدمی کرنے کی غرض سے قدم بڑھا دئیے۔میں اونچے نیچے راستے پر چلتے ہوئے گاہے بگاہے اپنے اردگرد موجود ہریالی، سرسبز اونچے درختوں ،بلند پہاڑوں، چہچہاتے پرندوں اور گھنے درختوں کے درمیان کہیں جھانکتے نیلگوں آسمان کی جانب دیکھتی رہی۔سب کچھ کس قدر سحر انگیز ہے۔۔میں نے ایک گہری سانس سے ہوا کی تروتازگی کو محسوس کرتے ہوئے سوچا تھا۔ لوگوں کے رش، چہل پہل اور رونق سے ہٹ کر قدرتی مناظر سے آراستہ اس وادی کے سکون اور حسن نے جیسے میرے ذہن کو پرسکون اور روح کو ترو تازہ کر دیا تھا۔جیسے ہی میں نے دو پتھروں کے درمیان بہتے قدرتی پانی کے جھرنے کو دیکھا میرے قدم وہیں رک گئے۔ایسے لگا جیسے ذہن کے کینوس پر مختلف رنگوں کے امتزاج سے مزین اس لینڈسکیپ کی محفوظ ہوتی یاد میں بس اسی جھرنے کی کمی تھی جو پوری ہو گئی تھی۔یہ سوچتے ہوئے پرسکون سی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی ،میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی اور وادی کے اس حسن کو مزید اپنی آنکھوں میں جذب کرنے لگی کچھ پل ان سحر انگیز احساسات کے ساتھ گزارنے کے بعد میرے ذہن میں ایک عجیب سوال نے جنم لیا جیسے ہی میں نے دل میں سوال دہرایا نہ صرف چہرے پر پہلی مسکراہٹ معدوم ہو گئی بلکہ جیسے ساری حسّات ایک ساتھ بیدار ہو گئے ہو ں۔میں سوچنے لگی کہ خود میں بھی وہی ہوں اور ایسا بھی نہیں یہ درخت، ہریالی، پھول پودے، پہاڑ اور پانی کا وجود کہیں اور میں نے نہ دیکھا ہو۔۔۔پھر ایسی وادیوں میں ایسا کیا ہے کہ جیسے سکون کا ایک سمندر امڈ آیا ہو ،جیسے چین کی بانسری نے اپنے سارے سر انہی وادیوں کو عطیہ کر دیئے ہوں،جیسے قوس قزح نے اپنے سبھی رنگ انہیں نظاروں پر نچھاور کردیئے ہوں۔ہر حسن ہی رب تعالی کی عطا اور بخشش ہے مگر ان نظاروں اور وادیوں کو خالق و مالک نے ایسی کیا تاثیر بخشی کہ یہ جگاہیں سکون کا مسکن اور تروتازگی کی آماجگاہ بن گئیں۔ذہن میں اٹھتے ان سوالوں کے ساتھ میری نگاہیں جواب کی کھوج میں کبھی بلند و بالا پہاڑوں پہ جا رکتیں تو کبھی ہرے بھرے اونچے اونچے درختوں پر ،کبھی پتھروں کے درمیان بہتے پانی کے جھرنے پر اور کبھی رنگ برنگے ننھے پھولوں پر کبھی ہری بھری گھاس اورکبھی مختلف رنگ و ہیئت کے چھوٹے بڑے پہاڑی پتھروں پر۔دل جواب کا متلاشی تھا۔میں نے سر اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا ،آسمان کی بے نقص وضع اور اس کی وسعتوں میں اٹکیلیاں کر تے سپید بادلوں کو محسوس کرتے ہوئے جیسے ہی نظریں واپس سامنے موجود منظر پر پڑیں ، محسوس ہوا جیسے ہر شے ایک معنی خیز انداز میں مسکرا رہی ہو ،جیسے ارد گرد موجود ہر شے نے میرے ذہن میں اٹھتے ان سوالوں کو بھانپ لیا ہو اور سب کے پاس کہنے کو کچھ ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان سوالوں کا جواب یہیں کھڑے کھڑے ملنے والا ہے۔میں ہمہ تن گوش تھی۔ہاں۔۔۔۔یہ سب صبر ، شکر اور قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں ،اچانک ذہن میں کوئی گرہ کھلی تھی اور میرے ذہن کا تناؤکچھ کم ہونے لگا۔ذہن میں ایک کے بعد ایک سوچوں کا نزول شروع ہونے لگا ذہن کی تخیل سے اس بات چیت کے دوران میں نے مزید جانا کہ نہ کسی درخت کو گھاس کی طرح زمین پر بچھنے کی خواہش ہے ،نہ گھاس کو درخت کی طرح تن کر کھڑے ہو جانے کا خبط، نا پہاڑوں کو زمین پر پڑے چھوٹے بڑے پتھروں کی جگہ لینے میں دلچسپی ،نہ ان پتھروں کو بلند و بالا پہاڑوں کی طرح آسمان سے جا لگنے کی چاہ، نہ آسمان کو سر بلندی کا کوئی زعم، نہ زمین کو قدموں میں بچھے ہونے پر احساس کمتری ،نہ پانی کو ہوا بن جانے کی فکر اور نہ ہی پانی کو اپنی شفافیت اور نرمی سے منہ موڑ کر کسی سخت یا غائب وجود کی تمنا کا غم۔نہ پرندوں پر پرواز کوئی بوجھ اور نہ نرم و نازک پھولوں کا زمین کی سختی سے نبرد آزما ہو کر تخلیق پانے پر کوئی شکوہ۔ہر ایک اپنے وجود اور حقیقت پر صابر ،شاکر اور قانع۔۔۔ہر ایک اپنی تخلیق پر نازاں و مطمئن ،جو اپنی حقیقت اور اپنے اندر کے سچ کو جانے اور سمجھے بنا ممکن نہیں۔ذہن میں ایک ایک کر کے گرہیں کھلتی چلی جا رہی تھیں سکون اور طمانیت کے احساس کے ساتھ اردگرد موجود ہر شے سے مجھے پہلے سے بڑھ کر انسیت محسوس ہونے لگی۔مجھے یہ سب کے سب” اللہ کے ولی” لگنے لگے تھے۔۔۔جیسے سبھی اولیاء اللہ خود شناسی سے مستفید ہوکر ناسازگار حالات میں بھی صبر و شکر کے ساتھ قناعت پسندی اختیار کرتے ہیں۔اپنے وجود کی تخلیق و بقاء پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے شکر بجا لاتے ہیں۔ہر قسم کے دنیاوی حرص و طمع ،رشک و تمنا اور افراتفری سے ماوراء اپنے علم و آگاہی اور سکون کی دولت سے ہر خاص و عام کو مستفید کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کی محفل میں بھی دل کے سکون اور روح کی سرشاری کا یہی عالم ہوتا ہے۔انسان انتہائی سکون اورمکمل رضامندی کے ساتھ خدا اور خود کے بیچ حائل فاصلے میں کمی محسوس کرتا ہے۔ان قدرتی مناظر میں بھی ایسی ہی تاثیر ہے۔ اپنے رب کی رضا پر راضی یہ سراپائے صبر مناظر یوں ہی مجسمہ حسن اور امن کے پیکر نہیں بن جاتے۔ ایسے ہی تو نہیں مسائل سے دوچار،زندگی میں الجھے ہوئے پریشان حال اور روز مرہ کی افراتفری سے بیزار ، سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے لوگ ان حسین وادیوں میں وقت گزار کر گھڑی دو گھڑی کا سکون حاصل کرتے ہیں۔نہ آپ کچھ ان سے کہتے ہیں نہ یہ آپ سے بولتے ہیں بس خاموشی سے اپنے اندر موجود سکون کی عطا سے آپ کو مستفید کر دیتے ہیں۔اب اطمینان کے اسی احساس کے ساتھ میں نے واپس چلنے کا سوچا مجھے میرے سوالوں کے جواب مل چکے تھے اور میں نے بہت دل سے اللہ تعالی سے یہ دعا کی کہ سکون کی تلاش میں ان وادیوں کا رخ کرنے والا ہر شخص اس راز کو پا لے کہ اللہ کا ولی بننا یا ان سے ملنا اور مستفید ہونا اتنا بھی مشکل نہیں بس اگر دل دماغ اور آنکھیں کھلی رکھیں تو کہیں بھی آپ کی ملاقات ان سے ہو سکتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...