’’امّاں ،دعا کر کہ میں نعت کا مقابلہ جیت کر آؤں۔۔۔‘‘ سکینہ کی فرمائشیں دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ امّاں نے فریم سے نظریں ہٹا کر بیٹی کا پرجوش چہرہ دیکھا۔
’’پتّر،اللہ کے رسول کی محبت میں جیتنا ہے تو اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کر، اُس کے نقش قدم پر چل،یہ راہ بہت اوکھی اے کرئیےّ،تیرے میرے دے بس دا روگ نئیں۔‘‘امّاں نے ایک اور نیا سبق پڑھایا جو سکینہ کی سمجھ میں بالکل نہیں آیا تھا۔
’’لو امّاں یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔‘‘وہ بمشکل اٹھ کر بیٹھی۔
’’پتّر سوہنے رب نوں اپنے نبی نال عشق سی تے اُس نے دنیا تخلیق کیتی،اسّی کملے لوگ بس گلاّں باتاں نال ہی خوش ہوندے رہندے آں۔ حضورﷺ نے جیڑا کچھ اکھیا اے ذرا اودھے اُتے عمل تے کر،اے دنیا دی واہ واہ پترّ ایتھے ہی رہ جانی اے۔۔۔‘‘امّاں ہاتھ میں پکڑا فریم رکھ کر وضو کرنے چلی گئی تھی۔
’’امّاں جن لوگو ں کو اللہ کے رسول سے محبت ہوتی ہے وہی تو نعت پڑھتے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح امّاں کو اپنی بات سمجھائے۔
’’لو اے کی گلّ ہوئی ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ناک پر انگلی رکھ کر تعجب کا اظہار کیا۔’’ہون میری نمانی دی آواز تے پھاٹا ڈھول اے،تے مینوں نعت پڑھن دا سلیقہ وی نئی ،تے ایدھا کی مطلب اے کہ مینوں محبت نئیں۔۔۔‘‘امّاں نے تولیے سے منہ صاف کرتے ہوئے صاف اس کا مذاق اڑایا۔
’’امّاں میرا مطلب یہ تھوڑی تھا۔اب دنیا میں لاکھوں لوگوں کی آوازیں اچھی ہیں لیکن ہر کسی کو تو اللہ یہ سعادت نہیں دیتا ناں۔۔۔‘‘سکینہ نے جمیلہ مائی کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔
’’پتّر اللہ سمجھ بوجھ تے ہر بندے نوں ہی دیندا ے ناں۔۔۔‘‘اماّں نے مسکرا کر اس کا جھنجھلایا ہوا چہرہ دیکھا۔ ’’ہون تینوں اگر اللہ دے رسول نال محبت اے تے توں نعت پڑھنی اے ناں،تے فیر دفع کر دنیا دی پوزیشناں نوں۔۔پتّر مزا تے تاں اے جے اس سوہنے دے گھر وچ فرشٹ آویں،او ویلے واسطے دعا کریا کر‘‘امّاں نے الماری کے اوپر سے انتہائی عقیدت سے قرآن پاک اٹھایا۔
’’امّاں تو بس میرے لیے دعا کر۔۔۔‘‘ سکینہ نے ضد کی۔سفید ململ کے دوپٹے میں جمیلہ مائی کا سانولا چہرہ بڑا روشن اور پُر نور لگ رہا تھا۔
’’پتّر جیڑھا دل اپنے واسطے خود دعا نئیں کردا،اودھے واسطے کوئی دوجا کیوں کرئے۔۔۔؟؟؟؟‘‘امّاں نے مسکرا کر اس کا ہکا بکا چہرہ دیکھا۔
’’پتّر تینوں تکلیف ہے ناں۔۔۔؟؟؟ او پیڑ (تکلیف)تو جانتی ہے یا تیرا رب،فیر کوئی دوسراتیری تکلیف نوں محسوس کر کے کیویں سچیّ دل نال دعا کرئے گا۔؟؟؟جمیلہ مائی پراسرار انداز سے مسکرائی۔’’دوجیے نوں (دوسروں کو)دعا واسطے ضرور کہو،لیکن پتّر اپنے واسطے خود وی دعا کرو،اللہ توں کی شرمانا،سوہنا رب سب جاندا اے ،فیر وی او اکھدا اے کے میرے کولوں منگو،اودھیاں حکمتاں او ہی جانے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے قرآن پاک کھول لیا تھا اور سکینہ کو معلوم تھا کہ امّاں اب اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے گی۔
اُس نے کنکھیوں سے امّاں کا مصروف انداز دیکھا وہ قرآن پاک پڑھتے ہوئے دنیا و مافہیا سے بیگانہ ہو جاتی تھی۔ سکینہ نے اپنے دائیں جانب پڑی لوہے کی چھوٹی سی ڈرمی کھولی جو ابّا اس کی فرمائش پر سکھر سے لایا تھا۔ لوہے کے اس چھوٹے سے ڈرم میں اس کی کافی خفیہ چیزیں تھیں ۔ یہ واحد جگہ تھی جہاں وہ امّاں کو بھی ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
امّاں کو مصروف دیکھ کر اس نے ڈرمی سے فئیر اینڈ لولی نکال کر چہرے پر رگڑ رگڑ کر لگائی۔سیاہ رنگ کے سرمے دانی سے سرمے کی سلائیاں نکال کر آنکھوں پر پھیری۔امّاں لپ اسٹک لگانے نہیں دیتی تھی اس لئے سرخ رنگ کی سپاری کے چند دانے نکال کر منہ میں ڈالے اور پھر زبان سے ہونٹوں کو رنگا۔اب وہ چوری چوری لوشن نکال کر ہاتھوں پر لگا رہی تھی وہ تو شکر تھا کہ جمیلہ مائی کا چہرہ دوسری طرف تھا ورنہ وہ اس ہار سنگھار پر اس کی طبیعت سیٹ کر دیتی۔اُس نے وال کلاک پر نظر ڈالی صبح کے نو بجنے والے تھے۔ ڈاکٹر خاور کا راؤنڈ شروع ہو چکا تھا اور وہ اس کے کمرے میں آنے ہی والے تھے۔اس کے دل کی دھڑکنوں نے الگ اُسے بوکھلا رکھا تھا۔
اپنے کام سے فراغت پا کر اس نے تکیے کے ساتھ ٹیک لگائی اور اشفاق احمد کی وہ کتاب اٹھا لی جو ڈاکٹر خاور ہی اس کے لیے لائے تھے۔اُسے جب سے پتا چلا تھا کہ ڈاکٹر خاور کو مطالعہ پسند ہے وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب اپنے گود میں رکھے بیٹھی رہتی۔
’’واہ سکینہ خوب مطالعہ ہو رہا ہے۔۔۔‘‘وہ ایک دم ہی اندر آئے تھے ان کے ساتھ ڈاکٹر زویا کو دیکھ کر سکینہ کے دل پر مایوسی کے وائرس نے بڑا زور دار حملہ کیا ۔امّاں نے بھی انہیں دیکھ کر فوراً قرآن پاک بند کر دیا تھا۔
’’ماشاء اللہ ،آج تو بہت فریش لگ رہی ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اس کی فائل کو دیکھتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا،سکینہ کا رنگ ایک دم گلابی ہو کر مزید سیاہ لگنے لگا تھا۔ اس کی پلکوں پر ارتعاش کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر زویا نے بے اختیار بے چینی اور ناگواری سے پہلو بدلا ۔
’’یہ سکینہ نے ہونٹوں پر کیا لگایا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی کی جانچتی نظروں نے ایک لمحے میں بیٹی کی تیاریوں کو محسوس کیا ۔
’’بھئی سکینہ ایکسر سائز تو باقا عدگی سے ہو رہی ہے ناں۔۔۔؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا اور سکینہ کی دل کی دنیا میں زلزلہ سا آگیا ۔بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ڈاکٹر خاور کے ساتھ نگاہیں ملا کر بات کرنا۔پلکوں پر منوں بوجھ آن گرا تھا۔اس لیے اس نے سر جھکا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اپنی نعت کی بھی تیاری اچھی رکھیں۔ اگلے جمعے کو مقابلہ ہے،یاد ہے ناں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور بھی آج اُسے بار بار مخاطب کر کے اس کا امتحان لینے پر تلے ہوئے تھے۔ سکینہ نے ایک دفعہ پھر سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔
’’بھئی خیر ہے ناں،یہ آج اشاروں کی زبان سے کیوں کام چلایا جا رہا ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے ہاتھ میں پکڑے بال پوائنٹ کو حسب عادت ہلکا سا اس کے سر پر شرارت سے مارا۔یہ ان کا مخصوص انداز تھا جو ان کے خوشگوار موڈ کی عکاسی کرتا تھا۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘وہ بمشکل تھوک نگل کر بولی تھی۔ڈاکٹر زویا نے ایک دفعہ پھررسٹ واچ پر بیزاری سے وقت دیکھا اور وہ تو شکر تھا کہ ڈاکٹر خاور جمیلہ مائی سے حال احوال پوچھ کر فوراً کمرے سے نکل گئے جب کہ سکینہ سوچ رہی تھی۔
’’ایک ایسا شخص جس کی محبت خون کے ساتھ آپ کی شریانوں میں گھوم رہی ہو۔جس کو دیکھ کر دل با غی ہوجائے۔پلکیں اپنا سارا بوجھ آنکھوں پر ڈال دیں۔دھڑکنیں شرارت سے گنگنانے لگیں ۔سماعتیں اُس شخص کی آہٹوں کو بھی محسوس کرنے لگیں تو ایسے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیسے بات کی جاسکتی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’تائی یہ اپنی سکینہ آ ج ماشاء اللہ کتنی ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘جاجی جو امّاں کے لیے گرما گرم جلیبیاں لے کر ابھی ابھی پہنچا تھا سکینہ کو دیکھ کر چونک گیا۔سکینہ ایک دم ہی حقیقت کی بے رحم دنیا میں واپس آئی تو سامنے سرخ خانوں والا رومال کندھوں پر رکھے جاجی کو دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
’’جا کر اپنی آنکھوں کا علاج کروا۔۔۔‘‘ اُسے ایک دم ہی غصّہ آیا۔اس کی پرشوق نگاہیں سکینہ کو زہر لگ رہی تھیں۔
’’کیوں جی۔۔۔؟؟؟؟‘‘جاجی شوخی سے بولا۔وہ ابھی ابھی حمام سے نہا کر لٹھے کا سفید کرتا پہن کر آیا تھا۔
’’میرے پاس تیری فضول باتوں کا کوئی جواب نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ کو جاجی کی شوخ نگاہوں سے سخت الجھن ہوئی ۔جب کہ جاجی کو اس کی جھلاہٹ بہت لطف دیتی تھی ۔اس لیے وہ کرسی گھسیٹ کر امّاں کے پاس بیٹھ گیا۔ اُسے اس طرح جمے دیکھ کر سکینہ نے بے زاری سے قدرے رخ موڑ لیا۔ جب کہ جاجی کی محویت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی سکینہ کو اپنی پشت پر دو سُرمے سے بھری آنکھوں کی موجودگی سخت جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہی تھی ۔
* * *
گوالمنڈی کے مین بازار میں بنا یہ پانچ مرلے کا گھر خستگی اور بوسیدگی کا جیتا جاگتا اشتہار تھا۔اس گھر کے سامنے والے حصے میں تین دکانیں بھی تھیں۔جس کی وجہ سے پیچھے بنا گھر خاصا تنگ و تاریک سا نظر آتا تھا۔ دو کمرے چھوٹاساباورچی خانہ ، برآمد ہ اور صحن پر مشتمل اس گھر میں صرف دو ہی مکین رہتے تھے۔ایک کمرے میں ساٹھ سالہ بیمار خاتون تھیں۔جن کی نگاہوں میں انتظار جم سا گیا تھا۔جب کہ اس کے ساتھ اس کی جوان بیٹی ،جس کی شادی کی فکر نے اس بیمار وجود کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔
سامنے والے کمرے میں دو پلنگ تھے جن پر کاٹن کی پرانی اور بد رنگ چادریں بچھی ہوئی تھیں۔کمرے میں موجودواحد میز پر کتابیں ،قلم دان،روشنائی کی دوات اور ایک پرانا سا لیمپ تھا۔ اس میز کے پاس رکھی کرسی کا رنگ اڑا ہوا اور اس کی پشت ادھڑی ہوئی تھی۔
صبح ہی سے ہونے والی بارش نے ثنائیلہ کو سخت بے زار کر رکھا تھا۔برآمدے کی چھت کئی جگہوں سے ٹپکتی تھی جن کے نیچے اس نے کہیں جگ تو کہیں بالٹی وغیرہ رکھ کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت بھی وہ چھت سے دھلے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر سنبھالنے میں بے حال تھی جب کہ ٹپ ٹپ گرتے پانی کی آواز اس کے اعصاب پر ہتھوڑے کی طرح بر س رہی تھی۔
’’شہیر کا فون آئے گا تو اُسے کہوں گی کہ کہیں سے پیسوں کا بندوبست کرئے،کم از کم ان بوسیدہ چھتوں کا تو کوئی علاج ہو۔۔۔‘‘اُس نے ہزا ر بارکی سوچی ہوئی بات دل میں دہرائی تھی لیکن اُسے یہ بھی پتا تھا کہ تین سال سے کویت میں گئے بھائی سے یہ بات کرنا بھی بذات خود ایک دشوارکن مرحلہ ہے۔اسکے پاس اپنی مجبوریوں کی ایک لمبی داستان تھی جس میں سرفہرست اس کی عمر میں اس سے تیرہ سال بڑی درزن بیوی کے میکے کے مسائل تھے۔اچھے خاصے جاذب نظر بھائی کی عقل کو نہ جانے کیا ہوا تھا جو اُس نے کویت میں جاتے ہی اپنے پڑوس میں رہنے والی ایک ڈھلتی عمر کی خاتون سے دھواں دھار عشق کے بعد شادی کر لی تھی۔
’’یار میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اتنے ان رومینٹک ماحول میں رہتے ہوئے بھی تم کس طرح اتنی رومانوی کہانیاں تخلیق کر لیتی ہو۔۔۔‘‘پڑوس میں رہنے والی نابیہ دروازہ کھلا دیکھ کر سیدھی وہیں آ گئی تھی۔اُسے سیلن زدہ باورچی خانے کے فرش پر بیٹھے پیازوں کی چھانٹی کرتے دیکھ کر اس نے شرارتاً کہا۔
’’یار وہ کام بھی آجکل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے،عجیب سی بے زاری ہے ایک لفظ بھی نہیں لکھا جاتا۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے سڑے ہوئے پیاز ایک شاپر میں ڈالتے ہوئے بُرا سا منہ بنایا۔
’’دفع کرو ان سب چیزوں کو،یہ گرما گرم کڑی اور پکوڑے کھاؤ،خالہ کدھر ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘نابیہ بھی لکڑی کی پیڑھی سنبھال کر اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
’’امّی دوائی کھا کر سو رہی ہیں۔ایک تو شوگر اور اوپر سے اُن کا بی پی بھی ہائی رہنے لگا ہے۔ بیماری کی وجہ سے سخت چڑ چڑی ہو گئی ہیں۔‘‘ثنائیلہ نے فریج سے گوندھا ہوا آٹا نکالا۔ کڑی اور پکوڑے دیکھ کر اُسے بھوک کا احساس جاگ اٹھا ۔
’’خیریت۔۔۔؟؟؟پھر کوئی ٹینشن لے لی ہوگی انہوں نے۔۔۔‘‘ وہ اس گھر کے تمام حالات سے آ گاہ تھی۔اس کی بات پر ایک تلخ سی مسکراہٹ ثنائیلہ کے چہرے پر ٹھہر سی گئی ۔
’’یار ابّا کے انتقال کے بعد سے تو خیریت نام کا لفظ ہی ہماری ڈکشنری سے نکل گیا ہے۔ددھیال والوں نے ویسے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور ننھیال میں صرف ایک ماموں تھے جو سات سمندر پار جو گئے تو دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا۔‘‘ اُس کی رنجیدگی پر نابیہ کچھ بے چین ہوئی
’’یار آج کل مارکیٹ میں ایسے ہی رشتے دار آ رہے ہیں۔اس لیے ان سے تو کوئی توقع ہی نہ رکھو۔۔‘‘نابیہ نے اُسے تسلی دی۔ابّا کے انتقال کے بعدان دونوں خواتین کو پڑوس میں رہنے والی اس فیملی کا ہی آسرا تھا۔دونوں خاندان پچیس سال سے وہیں آباد تھے۔
’’یار ٹینشن ان کی نہیں شہیر کے روئیے کی ہے۔ہم دو ہی تو بہن بھائی تھے اس نے بھی کویت میں جا کر آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔۔‘‘اُس کی افسردگی پر نابیہ نے اس کے ہاتھ سے پیڑا لے کر روٹی بیلنی شروع کر دی تھی۔
’’شہیرتو شروع ہی سے انتہائی خود پسند اور خود غرض بندا تھااُس سے تو بھلائی کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ ۔۔۔‘‘ نابیہ نے بڑی مہارت سے گرم توّے پر روٹی ڈالی۔اُسے اپنی بہترین دوست کے اکلوتے بھائی کی خودغرض فطرت اور بے حسّی آزردہ تو کرتی تھی لیکن وہ اس معاملے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔
’’یار کچھ بھی تھا لیکن بھائی تو تھا ناں میرا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی مسکراہٹ میں عجیب سی بے بسی تھی۔جب کہ اس کی بات پر نابیہ تڑخ کر بولی
’’محترمہ تم نے خود ہی تو اپنی کسی کہانی میں لکھا تھا کہ دنیا میں بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کے ہونے یا نہ ہونے سے کسی دوسرے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔‘‘
’’زندگی میں بعض چیزوں کو صفحات پر لکھنا جتنا آسان ہوتا ہے حقیقی زندگی میں ان پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل،بعض الفاظ جب حقیقت کا لباس اوڑھ کر مجسم سامنے آ جائیں تو اُن کو دیکھنے سے ہی آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔اُن کو چھوکر محسوس کرنا تو بہت دُور کی بات ہے۔‘‘وہ کسی گہری سوچ کے تانے بانے میں الجھی ہوئی تھی۔
’’بعض چیزوں کی حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لیا جائے،زندگی اتنی جلدی آسان ہو جاتی ہے۔ورنہ خود کو دھوکا دے کر بندہ کتنی دیر خوش رہ سکتا ہے۔‘‘ نابیہ نے گرم گرم روٹی رومال میں لپیٹتے ہوئے ثنائیلہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’یار مسئلہ میرے سمجھنے کا نہیں ،امّی کی سمجھ کاہے ۔۔‘‘اُس کی آو از میں نمی کی آمیزش تھی نابیہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
’’انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ اُن کے صاحبزادے نے ادھیڑ عمردرزن صاحبہ سے شادی کسی مجبوری میں کی ہوگی۔۔‘‘ اس کے انداز میں کثیف سی مایوسی اور جھنجھلاہٹ تھی
’’شادی تو اُس نے واقعی مجبوری میں ہی کی ہوگی لیکن ایسی مجبوری جس میں شہیر صاحب کی اپنی کوئی بڑی آسانی چھپی ہوئی ہو گی،بُرا مت ماننا،بڑا حسابی کتابی ہے تمہارا بھائی۔۔‘‘ نابیہ کی بات پر وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔
’’یاردُکھ اس کی شادی کانہیں، اُس کی بے مروتی اور بے حسّی کاہے،اوّل تو موصوف فون ہی نہیں کرتے اور اگر کبھی ہمارا فون اٹھا لیں تو مجبوریوں کی نہ ختم ہونے والی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اُس کے پاس۔‘‘ ثنائیلہ کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ دوڑا ۔
’’امّی نے کل اُسے فون پرکہا کہ پیسے بھیجو،گھر کی مرمت کروانی ہے اُس نے بے مروّتی سے کہا کہ گھر میں آپ اور آپی ہی تو ہیں کیا ضرورت ہے؟اگر زیادہ ہی مسئلہ ہے توپھر تینوں دکانوں کا جو کرایہ آتا ہے ،اسے اس مد میں خرچ کرلیں۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر نابیہ کو اپنا سارا ضبط ہوا میں تحلیل ہوتا محسوس ہوا تھا۔
’’ اُس احمق کو یہ نہیں پتا کہ اس گھر میں رہنے والے دومکینوں کے سارے اخراجات انہی دکانوں کے کرایے سے ہی پورے ہوتے ہیں۔ابھی تو وہ قرضہ بھی اتارنا ہے جسے لے کر موصوف کویت گئے تھے بلند و بالا دعوے کر کے۔‘‘نابیہ نے غصّے سے ہاتھ میں پکڑا پیڑا باقاعدہ بیلن پر پٹخا تھا۔
’’کویت جاکر اس کی یاداشت خاصی کمزور ہو گئی ہے۔اُسے سب کچھ بھول گیا ہے یہ بھی کہ ان دکانوں کا کرایہ ہے ہی کتنا۔‘‘وہ ناخن کھرچتے ہوئے سخت افسردہ تھی۔’’اُسے یہ بھی یاد نہیں کہ پہلے بھی ان تین دکانوں کے کرائے سے گھر بمشکل چلتا تھا۔اب تو امّی کی بیماری اور وہ قرضہ بھی شامل ہو گیا ہے جو وہ خود لے کر گیا تھا۔‘‘اُس کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں پانی آئے جا رہا تھا۔
’’سب پتا ہے اُسے ایویں ڈرامے کرتا ہے۔۔‘‘نابیہ کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی ۔’’ابھی اس پراُدھیڑ عمر عورت کا عشق سوار ہے ۔اس لیے مت ماری گئی ہے اُس کی ۔ویسے بھی بڑی عمر کی عورت کاعشق جوان بندے کو نراخوار ہی کرتا ہے۔‘‘ ثنائیلہ کے لہجے میں گہرا دکھ پوشیدہ تھا۔اُس کے بہنوئی نے بھی کچھ عرصہ پہلے چوری چوری اپنے سے دس سال بڑ ی مطلقہ خاتون سے شادی رچا لی تھی جس کا گھر والوں کو چار سال بعد پتا چلا۔
’’ایک بات بتاؤں ۔۔۔؟‘‘ ثنائیلہ کے چہرے پر نمودار ہونے والی پر اسرار سی مسکراہٹ پرنابیہ نے فوراچونک کر دیکھا۔
’’جب کوئی ادھیڑ عمر مرد کسی الہڑ یا بالی عمر کی لڑکی سے محبت کرتا ہے تو اس کے پیچھے پاگل ضرورہو تاہے،لیکن اپنے حواس پھر بھی برقرار رکھتا ہے لیکن جب کوئی جوان مرد اپنے سے دگنی عمر کی عورت کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ اندھا،گونگا اور بہرا ہو جاتا ہے۔وہ اپنے دماغ کی چابی کسی اندھے کنویں میں پھینک دیتا ہے اور بس دل کے سرکش گھوڑے پر اُس وقت تک سوار رہتا ہے۔جب تک اُسے کوئی ٹھوکر نہیں لگتی‘‘ ثنائیلہ کے لہجے میں کوئی گہرا مشاہدہ چھپا ہواتھا۔
’’ویسے یار شہیر تواس عشق کے کھیل سے پہلے ہی انتہائی بد لحاظ،بے مروّت اور پیدائشی خود غرض بندہ تھا۔ نابیہ نے صاف گوئی سے کہا ’’یاد نہیں تم سے چار سال چھوٹا ہونے کے باوجود ہر اچھی چیز اچک کر لے جاتا تھا۔‘‘اُس کی یاداشت میں ماضی کے بہت سے واقعات محفوظ تھے۔ثنائیلہ کھانے کی ٹرے لے کر خاموشی سے باہر نکل آئی تھی۔
’’دفع کرو شہیر کو یہ بتاؤ کہ تم ماہم منصور کے پاس گئیں تھیں ۔۔۔‘‘ نابیہ اُس کے پیچھے ہی صحن میں تھی۔بارش کے بعد دھلا دھلایا آسمان بہت روشن اور چمکیلا لگ رہا تھا۔وہ دونوں انار کے پیڑ کے نیچے چارپائی پر بیٹھ گئیں ۔
’’ہاں یار گئی تھی بہت مہنگی سائیکلوجسٹ ہے لیکن میر ی تحریروں کی قدردان تھی اس لیے اُس نے آئندہ سیشن میں سختی سے کوئی بھی فیس اداکرنے سے منع کیا ہے۔‘‘ثنائیلہ نے خفیف ساہنس کر بتایا ،وہ ماہم کے پاس نابیہ کی کسی دوست کے توسط سے گئی تھی۔
’’میں نے سنا ہے کہ رج کہ خوبصورت ہے وہ۔۔۔‘‘نابیہ نے شوخی سے آنکھ کا کونا دبایاتو وہ اس کی شرارت پر بے اختیار ہنس پڑی۔
’’وہ اس قدر خوبصورت ہے کہ لڑکی ہو کر میرے لیے اُس پر سے نظر ہٹانا دشوار ہو رہا تھا۔چاندی جیسا اجلا جسم اوررنگت جیسے کسی نے دودھ میں ہلکا سا روح افزاء ملا دیا ہو۔‘‘
’’واقعی۔۔۔؟؟؟؟‘‘نابیہ کے تجسس کو مزید ہوا ملی ’’اور اپنے اُس نامعقول ہیرو کو دوبارہ کہیں دیکھا۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے سلاد کھاتے ہوئے عجلت میں پوچھاتھا۔
’’نہیں یار،تین دفعہ جناح سپر جا چکی ہوں،اُس کو اللہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔‘‘ ثنائیلہ کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔
’’ مجھے تو وہ تمہاری نظر کا دھوکا لگتا ہے ۔مان لو ثنائیلہ زبیر کہ تمہارا مضبوط تخیل تمہیں بے وقوف بنا رہا ہے،اور کچھ نہیں۔۔۔‘‘نابیہ نے اُسے سمجھانے کی ایک اور ناکام کو شش کی۔
’’اگر وہ تخیل اتنا طاقتور اور خوبصورت ہے تو یار مجھے نام نہاد تلخ حقیقتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘ وہ سر جھکائے ایسے بولی جیسے اپنے کسی گناہ کا اعتراف کر رہی ہو۔۔نابیہ نے سخت حیرت سے اپنے سامنے چارپائی پر بیٹھی اُس مصنّفہ کو دیکھا جو اپنے ہی لفظوں کے سحر میں گرفتار ہو گئی تھی۔
* * *
’’امّاں یہ محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘
ایک اُداس سی شام سکینہ نے اچانک ہی بڑے عجیب لہجے میں جمیلہ مائی سے سوال کیا تھا۔آسمان پر روئی کے گالوں کی طرح اڑتے بادلوں کو دیکھ کر سکینہ ضد کر کے لان میں آ گئی تھی ۔امّاں اس کی وہیل چئیر پھولوں کی کیاری کے پاس لے آئی تھی ۔جب کہ جمیلہ مائی خود سنگ مرمر کے بینچ پراپنی تسبیح لے کر بڑی فرصت سے بیٹھ گئی تھی ۔اس وقت ہوا درختوں کے پتوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھی اورنم آلود جھونکے طبیعت کو خوشگوار سا احساس بخش رہے تھے۔
’’امّاں بتا ناں، یہ محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے تتلیوں کو غنچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے دیکھ کر پوچھا۔
’’سکینہ پتر کیویں دے سوال کرنی اے۔۔۔‘‘ امّاں نے گھنے پیڑ کی آغوش میں بیٹھی کوئل کو دیکھ کر بے زاری سے کہا۔
’’امّاں بتانا ہے تو بتا دے ،ایویں نخرے نہ کیا کر۔۔۔‘‘سکینہ کی نازک مزاجی پر جمیلہ مائی ہنس کر بولی۔
’’پتّر،محبت وہ چیز ہے جواپنے رب سے ہو تو بندے کوسکون دیتی ہے اور اگر سوہنے رب کے بندوں سے ہو جائے تو نرا خوار کرتی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے سمندر کو کوزے میں بند کیا۔ اس کے جواب پر سکینہ الجھ کر آسمان پر موجود پرندوں کی ڈار کو دیکھنے لگی جو ایک ہی لائن میں محوسفر تھے۔
’’اچھا امّاں فیر یہ بتا کہ یہ عشق کیا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے روئی کے گالوں جیسے بادلوں میں سورج تلاش کر ہی لیا تھا۔
’’نی سکینہ تو آج کنّے اوکھے اوکھے سوال کر نی اے ،میں ٹھہری جاہل ،کم عقل،مینوں کی پتا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے اپنے دل میں اٹھتی کرب کی لہر کو بمشکل دبایا۔
’’امّاں بتا ناں۔۔۔‘‘سکینہ کچھ دنوں سے کافی ضدی ہوتی جارہی تھی۔اس کے لہجے میں عجلت بھرا اصرا ر تھا۔
’’پتّر تونے کبھی بکریوں کا ریوڑدیکھا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘جمیلہ مائی کے پراسراراندازپر سکینہ کو سخت تعجب ہوا۔
’’بس یوں سمجھ کہ عشق اپنے اندر کی بکری کو مارنے کا نام ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی انتہائی عجیب بات پروہ ایک لمحے کو ہکا بکا رہ گئی۔
’’لے اماں ،یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔‘‘سکینہ اس سخت بے تکی بات پر بُرا منا گئی۔اُس نے پھول کے ارد گرد گھومتے ایک آوارہ بھنورے کو بے زاری سے دیکھا۔
’’او میری جھلّی دھی ،بھلیے لوکے،یہ تو سیدھی سی گل اے،جو تیرے نکے سے دماغ میں نہیں گھس رہی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو کبھی کبھی اسے چھیڑنے میں بہت مزا آتا تھا۔
’’ہاں توخودسیدھی گل کرتی نہیں،اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ عشق اپنے اندر کی بکری کو مارنے کا نام ہے،کتنی فضول بات لگتی ہے یہ۔۔۔‘‘سکینہ نے جھنجھلا کر سر جھٹکا ۔اُسے حقیقتا امّاں پر غصّہ آ رہا تھا۔
’’میں سولہ آنے درست گل کیتی اے سکینہ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے انتہائی محبت سے اُس کا خفا خفا سا چہرہ دیکھا۔ ’’دیکھ ناں پتّر ،میں ٹھہری کملی نمانی،مجھ سے تو کیوں پڑھے لکھے لوکاں والی باتوں کی توقع رکھتی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اُسے صفائی دینے کی کوشش کی لیکن اس کا مزاج ہنوز سوا نیزے پر تھا۔
’’امّاں تو ڈھنگ کی بات کیاکرناں۔۔۔‘‘ اپنی بیٹی کے جل کر دیے جانے والے مشورے پر جمیلہ مائی ہنس پڑی۔
’’دیکھ سکینہ جس طرح بکری ہر ویلے میں ،میں کردی اے،اسی طرح عشق وچ اپنی اُسی ’’میں‘‘نوں مارنا پیندا اے میری جند جان۔عشق وچ ’’میں ‘‘دا کوئی کم نیں ہوندا،بس اے نکّی جئی گل اے،اے نکتہ سمجھ وچ آ جاوے تے عشق دے سارے گنجل کھل جاندے نے۔ ‘‘جمیلہ مائی کی اتنی سادہ بات پر وہ ششدر سی رہ گئی ۔اُس نے سخت بے یقینی سے امّاں کو دیکھا جو پھولوں کو ترنگ سے جھومتے دیکھ رہی تھی۔
’’امّاں یہ عشق دے گنجل کیسے کھلتے ہیں۔۔۔؟؟؟سکینہ نے پریشانی سے امّاں کا پرسکون چہرہ دیکھا۔
’’عشق دے گنجل کھولنے سوکھے (آسان) نہیں پترّ،بڑیاں اوکھیاں راہواں نے،عشق دا پنجہ جس گل وچ پے جاوے،او بندا ہی فنا ہو جاندا اے۔۔۔‘‘(عشق کے بھید کھولنا آسان نہیں اس کا پنجہ جس کے گلے میں پڑ جائے اُسے فنا کر دیتا ہے۔‘‘
’’امّاں مجھے تیری باتیں ککھ سمجھ ،نہیں آتیں۔۔۔‘‘سکینہ کی آنکھوں میں بے زاری کا تاثر خاصا گہرا تھا۔
’’پتّر چھڈ دے اس گل نوں،چل میری سوہنی دھی مجھے وہ نعت سنا جو تو ٹی وی پر پڑھے گی۔۔۔‘‘امّاں کی بات پر سکینہ کا دھیان تھوڑا سا بٹا تو سہی لیکن وہ ذہنی خلفشار کا شکار تھی۔
’امّاں ،اس وقت گلے میں خراش سی ہے ناں ،تو ایسا کر،شام کو سن لینا۔۔۔‘‘ سکینہ نے سراسر جمیلہ مائی کو ٹالا تھا اور وہ ٹل بھی گئی تھی۔جب کہ سکینہ اپنی وہیل چئیر پھولوں کی کیاری کے پاس لے آئی جہاں رنگ برنگی تتلیوں کو دیکھ کر وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی۔
’’ محبت کی تتلی ہر کسی کے ہاتھ نہیں آتی،اسے پکڑنے کی خواہش کرنا فضول ہے۔۔۔‘‘ کیاری پھلانگ کر اچانک ہی ڈاکٹر زویا سامنے آئیں ۔اُن کا لہجہ تلخ اور چہرے پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ دیکھ کر سکینہ کی رنگت فق ہو گئی۔ وہ جو تھوڑا سا جھک کر اڑان بھرتی تتلی کو پکڑنے ہی والی تھی اُن کی اچانک آمد سے ہکا بکا رہ گئی۔
’’یہ تتلی اُس وقت تو بالکل بھی ہاتھ نہیں آتی جب آپ کے پیروں کے نیچے زمین بھی اپنی نہ ہو۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویاکے چہرے پر ایک تمسخرانہ سا تبسّم تھا۔جمیلہ مائی بوکھلا کر کھڑی ہو گی تھی۔
’’ آپ ماں بیٹی اس وقت یہاں خیر سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔۔۔؟؟؟انہوں نے بڑے کمال سے طنز کا تیر چلایا تھا۔جمیلہ مائی خجل سی ہو کر وضاحت دینے لگی۔
’’بس پتر یہ پاگل ،نادان میری دھی ایویں ضد کر کے اس ویلے باہر نکل آئی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے خفت زدہ انداز سے وضاحت کی۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سامنے کھڑی ڈاکٹر صاحبہ کامزاج کس بات پر برہم ہے۔
’’بچّے تو ہر اچھی چیز کو دیکھ کر مچل ہی جاتے ہیں۔آپ ماشاء اللہ اچھی خاصی سیانی ہیں ،دھیان رکھا کریں۔‘‘ڈاکٹر زویا کا انداز اگرچہ ہلکا پھلکا تھا لیکن ان کی آنکھوں سے نکلنے والی تپش سکینہ کو اپنا دامن جلاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
’’بس پتر انسان ہیں ناں ،بھول چوک ہو ہی جاندی اے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کو ڈاکٹر زویا کا ’’پیغام‘‘جیسے ہی سمجھ آیا ایک فطری سی پریشانی نے دل و دماغ کا احاطہ کر لیا تھا۔جب کہ سکینہ ہراساں نظروں سے اس خوشنما تتلی کو دیکھ رہی تھی جو ڈاکٹر زویا کے خوبصورت ہاتھ پر بیٹھ چکی تھی۔وہ ہی تتلی جو کچھ دیر پہلے اُس کے اپنے ہاتھ میں آنے والی تھی۔
’’ڈاکٹر خاور کہاں ہیں آپ،بھول گئے آج منال پر ڈنر کرنا تھا ہم نے۔۔۔‘‘سیل فون کان کے ساتھ لگاتے ہوئے ڈاکٹر زویا کے لہجے میں عجیب سا استحقاق تھا۔انہوں نے دانستہ وہاں کھڑے کھڑے کال ملائی ۔
’’چل سکینہ پتّر،اندھیرا پھیل گیا اے،اندر چلیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے انتہائی افسردگی ورنجیدگی سے اپنی دھی کی وہیل چئیر کو دھکیلا ،جب کہ سکینہ کے چہرے پر صدمے کی انتہائی کیفیت تھی۔جب کہ ہاتھوں میں کپکپاہٹ سی اتر آئی ۔آنسوؤں کی لکیریں اس کی کنپٹی سے دائیں بائیں بہہ رہی تھیں۔
* * *
(صائمہ اکرم چوہدری کا یہ دلچسپ ناول ابھی جاری ہے، باقی واقعات اگلی قسط میں پڑھیے)
’’یار ایک دم فٹ اور لش سوٹ ہے یہ۔۔۔‘‘ ماہم نے ہاتھ میں پکڑا گہرے سبز رنگ کا فراک اپنے ساتھ لگا کر دیکھا۔آئینے میں اس کا وجود اتنا حسین لگ رہا تھا کہ عائشہ کافی لمحوں تک اُس پر سے ستائشی نظریں نہیں ہٹا سکی ۔
’’یار ماما،پاپا کی ویڈنگ اینورسری کے لیے یہ زبردست ہے ،ہے ناں۔۔۔‘‘ ماہم کی توصیفی نظریں سوٹ پر جب کہ عائشہ کی اس کے چہرے پرٹکی ہوئیں تھیں۔ وہ آج ضرورت سے زیادہ چمک رہی تھی لگتا تھا کہ اس نے کل کا سارا دن پارلر میں گذارا تھا۔آج اس کے والدین نے اسلام آباد آرمی کلب میں سب کو ڈنر پر انوائیٹ کر رکھا تھا۔اس کی تیاریوں نے ماہم کو بے حال کر رکھا تھا۔وہ عائشہ کو لے کر زبردستی سینٹورس مال پرآ گئی تھی جس کا آجکل اسلام آباد شہر میں خوب چرچا تھا۔
’’یار اس سوٹ کا میرون رنگ بھی شاندار ہے ۔یہ تم اپنے لیے کیوں نہیں لے لیتی۔۔۔‘‘ماہم نے اُسی سوٹ کو عائشہ کے ساتھ لگا کر دیکھا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
’’توبہ کرو ماہم میں ایسے شوخ رنگ کب پہنتی ہوں۔۔۔‘‘ ماہم کا مشورہ اُسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھااس لیے وہ عجلت میں بولی۔
’’کیوں ،شوخ رنگ تمہیں کاٹتے ہیں کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم برہمی سے گویا ہوئی۔’’اگر رات کے فنکشن میں کوئی بوڑھی عورتوں والا کلر پہن کر آئیں تو گیٹ پر ہی عبرت کا نشان بنا دوں گی۔‘‘
ماہم نے انگلی اٹھا کر اُسے دھمکی دی تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’یہ سرعام کس کو دھمکیاں دے رہی ہیں ماہم آپ۔۔۔‘‘رامس اچانک ہی سامنے مارک اینڈ اسپنسر شاپ سے نکل کر اُن کے پاس آیا ۔
’’لو یہ چٹاّ ککر کہاں سے ٹپک پڑا۔۔۔‘‘عائشہ کی بڑبڑاہٹ میں جھنجھلاہٹ اور کوفت کے سبھی رنگ تھے۔
’’تھینکس گاڈ ،کوئی توینگ بندہ مجھے نظر آیا،ورنہ یہ عائشہ تو مجھے سخت بور کر رہی تھی،کہاں گھوم رہے ہو ہینڈسم۔۔۔‘‘؟وہ ماہم کی بے تکلفی اور طوطا چشمی پر پہلو بدل کر رہ گئی۔
’’بس یار،اگلے ہفتے سے نئی جاب پر جوائن کرنی ہے،سوچا کہ کچھ شاپنگ کر لی جائے۔‘‘ وہ عائشہ کو نظر انداز کیے ماہم کو فدا ہوجانے والی نظروں سے دیکھنے میں محو تھا جو چاکلیٹ کلر کے سوٹ میں دمک رہی تھی۔اسے یوں ٹکٹکی باندھے ماہم کو دیکھتے ہوئے عائشہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھا کر نچلے فلور پر پھینک دے۔
’’دیٹس گریٹ رامس۔۔۔‘‘ ماہم نے کھلے دل سے اُسے سراہا تو عائشہ کی پیشانی پر موجود شکنوں میں اضافہ ہو گیا۔
’’یہ بتاؤ،رامس یہ سوٹ کیسا رہے گا۔۔۔‘‘ماہم نے گہرے سبز رنگ کا فراک جس پر سرخ بنارسی پٹیاّں لگی ہوئیں تھیں۔اُس کے آگے کیا۔جب کہ ماہم کی یہ حرکت عائشہ کو سخت زہر لگی تھی اس لیے وہ سامنے لگے ہینگر ز پر لٹکے سوٹوں کو زبردستی دیکھنے لگی۔
’’واؤ۔۔۔!!!امیزنگ ،بہت خوبصورت ڈریس ہے یہ۔۔۔‘‘رامس کی توصیفی نظریں سوٹ کو کم اور ماہم کو زیادہ دیکھ رہی تھیں۔
’’کمینی،میرے ہاتھوں آج قتل ضرور ہو گی۔۔۔‘‘ عائشہ نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھا جو شعلہ جوالا بنی سامنے آئینے میں وہ سوٹ اپنے ساتھ لگا کر خود کو ہر زاوئیے سے دیکھ رہی تھی۔اُس کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی بعض دفعہ عائشہ کے صبر کا خوب امتحان لیتی تھی۔
’’ڈریس اچھا ہے یا مجھ پر اچھا لگ رہا ہے۔۔۔‘‘ماہم کی خود پسندی کو باہر نکلنے کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کا تو عائشہ کو اچھی طرح اندازہ تھا۔
’’تمہاری خوبصورتی نے اس ڈریس کو زیادہ جاذب نظر بنا دیا ہے۔۔۔‘‘اُس کے ستائشی لہجے پر ماہم کھلکھلا کر ہنسی ۔
’’پھر شام کو آ رہے ہوناں ڈنر پر۔۔۔‘‘ ماہم نے سوٹ کو اچھی طرح سے دیکھتے ہوئے رامس سے پوچھا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا ماہم کی کوفت سے لبریز آواز عائشہ کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’اوہ مائی گاڈ۔عائشہ دیکھو،اس کے دوپٹے میں تو یہ چھوٹا سا سوراخ ہے۔۔۔‘‘وہ سخت پریشانی سے عائشہ کی جانب مڑی۔
’’کہاں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے جھک کر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا،یہ بہت چھوٹا سا سوراخ نہ جانے کیسے ماہم کو نظر آ گیا تھا۔
’’آپ کے پاس اسی رنگ میں کوئی اور پیس ہے۔۔۔‘‘وہ سیلز گرل کی طرف مڑی اُس کی عجلت میں ایک فطری سی بے تابی تھی۔
’’سوری میم،یہ مشہور ڈئیزائنر کا سوٹ ہے اور اس کے صرف دو ہی سوٹ آئے تھے ہمارے پاس۔۔۔‘‘سیلز گرل کے چہرے پر بڑی پروفیشنل سی مسکراہٹ چمکی۔
’’اوہ نو۔۔۔!!!!‘‘ وہ سخت مایوس ہوئی جب کہ عائشہ کو تو یہ سوچ کے ہی ہول اٹھنے لگے کہ ماہم کے ساتھ ایک دفعہ پھر بے شمار بوتیکس کی خاک دوبارہ چھاننی پڑے گی۔
’’آپ چیک تو کریں۔۔۔‘‘ماہم نے بے چینی سے کہا تو سیلز گرل اس کے بچکانہ انداز پر مسکرا دی۔
’’سوری میم،مجھے اچھی طرح سے علم ہے،آپ ایسا کریں کہ اس کا میرون کلر لے لیں۔۔۔‘‘اُس نے ایک اور تجویز سامنے رکھی جو ماہم کو بالکل پسند نہیں آئی۔
’’نو نیور،مجھے یہ ہی کلر اچھا لگا ہے،مجھے اسی میں لینا ہے۔۔۔‘‘ماہم کے لہجے میں محسوس کی جانے والی ضد تھی۔
’’ماہم،دوپٹے میں یہ سوراخ تو بہت معمولی سا ہے ،کسی کو بھی نظر نہیں آئے گا۔اگر پسند ہے تو یہی ڈریس لے لیں۔۔۔‘‘رامس کی بات پر ماہم کے چہرے پر ایک ناگوار سا تاثر بڑی سرعت سے پھیلا تھا۔
’’بے شک یہ سوراخ کسی کو بھی نظر نہیں آئے گالیکن مجھے تو پتا ہے ناں کہ اس میں نقص ہے ،چاہے چھوٹا ساہی سہی ۔۔۔‘‘ماہم کے عجیب سے انداز پر رامس حیرا ن ہوا جب کہ عائشہ کو علم تھا کہ وہ اب یہ سوٹ مفت میں بھی نہیں لے گی۔
’’لیکن یہ کوئی ایسانقص تو نہیں ،جس کے لیے اتنے اچھے سوٹ کو مسترد کیا جائے۔۔۔‘‘رامس نے قدرے بُرا مناتے ہوئے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تمہارے لیے یہ خامی بڑی نہیں ہوگی۔ ‘‘ اُس نے ناگواری سے ناک چڑ ھائی۔ ’’لیکن مجھے اپنی پسند یدہ چیز میں کوئی بھی کمی اچھی نہیں لگتی۔۔۔‘‘ماہم کے انداز پر رامس کو جھٹکا لگا۔
’’تم جتنی خوبصورت ہو اتنی ہی حیران کن بھی ہو۔۔۔‘‘رات کو ڈنر پر وہ رامس کی بات پر دلکشی سے مسکرائی۔۔سیاہ ڈنر سوٹ میں وہ خود بھی اچھا خاصا ڈیشنگ لگ رہا تھا۔
’’کیا کروں یار،میں ایسی ہی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے بڑی ادا سے اپنی راج ہنس جیسی گردن کو جھٹکا دیا ۔
’’تم تو رامس کو ایسے سب سے ملوا رہی ہو جیسے وہ تمہاری کوئی فخریہ پیشکش ہو۔۔۔‘‘عائشہ کو بعض دفعہ ماہم کی حرکتیں سخت ناگوار گذرتی تھیں اور وہ اس کا اظہار بھی فورا کر دیتی تھی۔
’’مائی ڈئیر وہ یہاں سب کے لیے اجنبی ہے۔اس لیے تعارف کروا رہی تھی۔اب بھی موحد کے حوالے کر کے آئی ہوں۔۔۔‘‘سفید رنگ میں وہ آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی۔یہ سوٹ اُس نے پورے مال کی بوتیکس چھان کر منتخب کیا تھا۔آج اُس نے خود کو سجانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔آخر کو اس شہر کی ساری کریم اس فنکشن میں مدعو تھی۔
’’تھینکس گاڈ،آج تم بھی انسانوں والے حلیے میں آئی ہو۔۔۔‘‘ماہم نے ابھی ابھی اُسے غور سے دیکھا تھارائل بلیو کلر کا سوٹ عائشہ پر جچ رہا تھا۔
’’یار ماما کے ہتھے چڑھ گئی تھی،اٹھا کر لے گئیں اپنے اُس فضول سے پارلر میں،جس نے پتا نہیں کیا کچھ میرے چہرے پر تھوپ دیا ہے۔سخت الجھن ہو رہی ہے۔۔۔‘‘وہ بہت زیادہ کوفت کا شکار لگ رہی تھی۔
’’آج ہی تو ڈھنگ کی لگ رہی ہو۔خبردار کوئی اورفضول بات کی ۔۔۔‘‘ ماہم نے بے حد طنزیہ انداز میں اُس کی بات قطع کی۔وہ دونوں سوئمنگ پول کے کنارے پر رکھے صوفوں پر برجمان تھیں۔بے تحاشا نیلی روشنیوں میں سامنے سفید ماربل کا سوئمنگ پول بڑا سحر انگیز لگ رہا تھا۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے پانی میں نیلا رنگ گھول دیا ہو۔
’’آؤ موحد کے پاس چلتے ہیں ،کہیں رامس بور ہی نہ ہو رہا ہو۔۔۔‘‘ماہم کے حواسوں پر آج ضرورت سے زیادہ رامس سوار تھا۔
’’ارے یہاں تو لگتا ہے مقابلہ خاموشی ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ وہ دونوں گھوم کر سوئمنگ پول کے دوسرے کنارے پر پہنچیں تو موحد کی وہیل چئیر کے سامنے والی کرسی پر برجمان رامس بیزاری سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ماہم کو دیکھتے ہی اُس کی آنکھوں میں ایک جوت سی جاگی ۔
’’بھئی کہاں غائب ہو گئیں تھیں تم ۔۔۔‘‘رامس کی بے تابی پر ماہم مسکرائی ۔عائشہ نے کنکھیوں سے موحد کا سپاٹ چہرہ دیکھا وہ اپنے سیل فون پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔
’’رامس تم موحد سے ملے،یہ عائشہ کا بڑا بھائی ہے۔۔۔‘‘ ماہم کی بات پر رامس نے چونک کر اُسے دیکھا جو لفٹ کروانے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’’جی میری بات ہوئی ہے ان سے،ان کے ساتھ ہونے والی ٹریجیڈی پر مجھے بہت افسوس ہے۔۔۔‘‘رامس نے کچھ محتاط انداز سے تاسف کی رسم نبھائی۔
’’لیکن میرے لیے یہ ٹریجیڈی نہیں بلکہ فخر کی بات ہے ۔میری توخواہش تھی کہ میرا پورا جسم ہی وطن کی راہ میں قربان ہو جاتا ۔۔۔‘‘موحد کا انداز کچھ جتلاتا ہوا سا تھا اور حقیقت میں ایسا ہی تھا ۔اُسے بس اپنوں کے بدلتے رویوں کا دکھ تھا۔ماحول میں ایک اعصاب شکن سی بوجھل خاموشی نے جگہ بنا لی ۔
’’آؤ رامس ،میں تمہیں ثمن آپی سے ملواتی ہوں،تم دیکھنا ذرا میرا بھانجا کتنا کیوٹ ہے۔۔۔‘‘موحد کی طنزیہ نظروں کی وجہ سے ماہم کے لیے وہاں بیٹھنا دشوار ہو گیا تھا۔اس لیے وہ بہانے سے وہاں سے اٹھی ۔
’’تمہاری دوست کا بھائی کچھ عجیب سا نہیں ہے۔۔۔‘‘ فضا میں آرکسٹرا کی دھنوں کے باوجود عائشہ نے اس کا یہ جملہ پورے دھیان سے سنا تھا جو اُس نے اپنی دانست میں قدرے آہستگی سے کہا تھا۔
وہ ماہم کا جواب نہیں سن سکی تھی۔اس کی نظروں میں موحد کا دھواں دھواں سا چہرہ تھا۔وہ کرب کی نہ جانے کن منزلوں سے گذر رہا تھا۔ ماہم اور رامس کو اکھٹے ساتھ ساتھ چلتے دیکھنا اس کے لیے کتنا اذیت ناک تھا۔عائشہ اس دکھ کا اندازہ بخوبی کر سکتی تھی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...