اِس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں
سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا
وقت بھی عجیب چیز ہے پلک جھپکتے میں گُزر جاتا ہے،یہ دولت اس سرعت کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کہ بعد میں ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔کوئی شخص اپنی شدیدخواہش اور سر توڑ کوشش کے باوجود بیتے ہوئے لمحات یا آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کا وجود ہمارے لیے سر چشمہ ٔ فیض ہوتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیتے ہیں اور ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں ۔ان کے نہ ہونے کی ہونی پر ہماری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جاتی ہیں اور دُنیا یہ سانحہ دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے ۔ ایسے بزرگوں کا سایہ جب سر سے اُٹھ جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ سورج واقعی سوا نیزے پر آ گیا ہے ۔ ان لرزہ خیز سانحات اور اعصاب شکن حالات میں دل کو سنبھالنے کی نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اپنے جذباتِ حزیں کو حرف حرف بیان کرنے کی کوئی صور ت نظر نہیں آ تی ۔لوحِ دل پر نقش ان کی دعائیں ،وفائیں اور عطائیں ہمیشہ کے لیے عز م و عمل کی ندائیںاور آلامِ روزگار کی تمازت سے بچنے کی ردائیں ثابت ہوتی ہیں ۔ان کی چشم کے مُر جھا جانے کا یہ سانحہ پس ماندگان اور احباب کے لیے زندگی بھر کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے ۔ دِ ل کے طاق میں اس عظیم انسان کی حسین یادوں کے چراغ ابِ ہمہ وقت سرِمژگاں ستاروں کے مانند جھلملاتے ہیں ۔اللہ دتہ سٹینو نے 11۔جون 2003کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔ کربلا حیدری فتح دریا جھنگ کی زمین نے انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ،خدمت خلق اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا ۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جوآٹھ عشروں تک علم و ادب کے افق پر ضو فشاں رہا وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ۔ شخص جِس کا وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید تھا اور جِس کی عظیم شخصیت سفاک ظلمتوں میں ستارہ ٔسحر کے مانند تھی اپنے ہزاروں مداحوں کو یاس و ہراس اور آہ و فغاں کے عالم میں تنہا چھوڑ کر دُور بہت ہی دُور اپنی الگ بستی بسا نے چلا گیا ۔ اُداس بام ،کُھلے در اور سنسان بستیاں احساس ِ زیاں سے بے حال اپنے رفتگاں کو پُکارتی رہتی ہیں لیکن اِس دنیا کی سرائے سے منہ موڑ کر جانے والے مسافر پھر کبھی اس طرف لوٹ کر نہیں آتے ۔ ہمارے وہم و گُمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ لوگ جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں ہمیں دائمی مفارقت دے کر زینہ ٔ ایام سے اُتر کر وقت کی تہہ میں اُتر کر قلزمِ خوں پار کر جائیں گے۔ زندگی کا کوئی بھی عکس ہو اُس میں ایسے لوگوں کے اقوال ،اعمال اور شخصیت کے خدو خال جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں اور کوئی بھی بزم ان کے ذکر سے خالی نہیں رہتی ۔زندگی کی شامِ الم میں ایسے بزرگوں کی یادوں کے ستارے اس طرح ضو فشاں رہتے ہیں کہ رہروانِ زیست کو نشانِ منزل مِل جاتا ہے اور وہ سرابوں میں بھٹکنے اور تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیے مارنے سے بچ جاتے ہیں ۔زندگی کی شبِ تاریک میں رستہ دکھانے والا ایسا ہی ایک تابندہ ستارہ اللہ دتہ سٹینو تھا جس کے اعلا کردار کی نظیر کم کم ملتی ہے ۔ ممتاز ادیب قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ ‘‘میں اللہ دتہ سٹینو کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے ۔شہاب نامہ کا مطالعہ کرنے والے کئی ادیبوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ وہ شخص جسے قدرت اللہ شہاب اور متعدد مشاہیر علم و ادب نے انسانی ہمدردی،حب الوطنی، دیانت ،شرافت اور وضع داری کا پیکر قرار دیا ہے ،اُس کے بارے میں حقائق سامنے لائے جائیں اور اس کی کتاب ِ زیست کے اوراق پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے ۔
اللہ دتہ سٹینو کا تعلق جھنگ شہر کے ایک ممتاز علمی ،ادبی اور مذہبی گھرانے سے تھا۔ وہ بیرون ممنا گیٹ جھنگ شہرکے ایک متوسط گھرانے میں27۔فروری 1925کو پیدا ہوا ۔ چار بہنوں کے اس اکلوتے بھائی کی اس کے والدین نے بڑی محبت اور محنت سے تربیت کی ۔دینی تعلیم کے لیے مسجد شاہ علیانی میں ممتاز عالم دین حافظ برخوردار خان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ناظرہ قرآنِ حکیم اور حدیث کی تعلیم حاصل کی ۔ جھنگ شہر میں واقع میونسپل کمیٹی کے مدرسہ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ میںداخلہ لیا۔ عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی اسی عظیم تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی جہاں 1926میں روشنی کے سفر کا آغاز ہوا۔یہاں اللہ دتہ اور عبدالسلام ہم جماعت تھے ۔ اللہ دتہ 1939میں میٹرک کے امتحان میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں اول آیا ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے علمی و ادبی مجلے’’ چناب‘‘ میں اس کی تخلیقی تحریر یں شائع ہوتی رہیں ۔ اس زمانے میں سردار پریم سنگھ گورنمنٹ کالج جھنگ کے پر نسپل تھے ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں اللہ دتہ کوجو اعلا علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس کے اعجاز سے اس ہو نہار طالب علم کے دل میں ایک ولولۂ تازہ پیدا ہو گیا ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے طلبا کے ایک وفد کے ساتھ اللہ دتہ نے سال 1937کے وسط میں لاہور میں علامہ اقبال سے ملاقات کی ۔اُسی سال کالج کے طلبا ایک مطالعاتی دورے پر بر صغیر کے مختلف علاقوں میں گئے ،اللہ دتہ بھی اس مطالعاتی دورے میں شامل تھا ۔اس کے ساتھ حاجی محمد یوسف ، محمد خان ،امیر اختر بھٹی ،غلام علی خان چین ، عبدالسلام ،باقر علی خان ،سلطان محمود ،حکیم احمد بخش نذیر ،میاں اللہ داد ،محمد کبیر خان اور میاں یٰسین شامل تھے ۔ رانا عبدالحمید خان ، سردار پریم سنگھ اورلال چند لالہ اور حاجی احمد بخش اس مطالعاتی دورے میں طلبا کے ساتھ تھے ۔ اس مطالعاتی دورے میں ان شاہین بچوں نے جو اہم تاریخی مقامات دیکھے ان میں تاج محل آگرہ ،لال قلعہ دہلی ، جامعہ ملیہ دہلی ،فتح پور سیکری ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ ، فورٹ ولیم کالج کلکتہ ،اجمیر ، مدراس ،پانی پت ،علی گڑ ھ مسلم یو نیورسٹی،اور لکھنو شامل ہیں ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (پیدائش :1141،وفات :1236)کے مزار پر حاضری دے کر طلبا کو روحانی اور قلبی سکون نصیب ہوا ۔لکھنو کا ذکر کرتے وقت اللہ دتہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکتا اور لکھنو شہر کے شہر خموشاں (بھیم کااکھاڑہ )سے میر تقی میرؔ کی قبر کے نشان کے معدوم ہونے کے المیے پر دلی رنج کا اظہار کرتا تھا ۔ اُردو زبان کے نامور شاعر میر تقی میر (پیدائش :1723،وفات :21۔ستمبر 1810)نے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر سال 1782میںدہلی سے لکھنومنتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے 13585نشتر جیسے موثر اشعار لکھ کر اُردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کرنے والے اس شاعر کی قبر کا نشان بھی اب لکھنو میں کہیں مو جود نہیں ۔جس شاعر نے کہا تھا کہ اس کے سرہانے آہستہ بولو اب اس کی قبر پر لکھنو ریلوے سٹیشن مو جود ہے جو بر صغیر میں غاصب برطانوی استبداد کی یاد دلاتا ہے ۔ برطانوی استعمار نے طاقت کے بل بوتے پر اُس نشان کو نیست و نابودکر دیا جس کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی عقیدت بھری یاد وابستہ تھی۔ ریل کے انجنوں کے شور محشر میں اس حساس شاعر کی آخری نشانی تہہ ظلمات چلی گئی ہے ۔میر تقی میرؔ نے کہا تھا :
مت تربتِ میر کو مٹائو
رہنے دو غریب کا نشاں تو
میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرنے کے بعد اللہ دتہ نے لاہور جا کر ایک سال تک ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کی تربیت حاصل کی ۔ اللہ دتہ نے بر صغیر میں غاصب برطانوی استعمار کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔23۔مارچ 1940کو منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک )لاہور میں مسلم لیگ کا جو تاریخی جلسہ ہوا اور جس میں قرار داد ِپاکستان منظور ہوئی اس میں جھنگ کے متعدد پر عزم نو جوان طالب علموں نے شرکت کی ان میں اللہ دتہ ، رانا سلطان محمود ،عبدالواحد ،حاجی محمد یوسف ،غلام علی خان چین ، کبیر انور جعفری ،حکیم احمد بخش نذیر اور محمود بخش بھٹی شامل تھے۔اس پر وہ زندگی بھر ناز کرتے تھے کہ انھوں نے بر صغیر کے عظیم رہنمائوںکی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پا کستان میں مقدور بھر حصہ لیا ۔ ٹائپ اور شارٹ ہینڈ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اللہ دتہ نے برطانوی حکومت میں ملازمت کی درخواست دی اور اس کا تقرر ڈپٹی کمشنر آفس جھنگ میں بہ حیثیت سٹینو ٹا ئپسٹ ہو گیا ۔اس نے سرکاری ملازمت کا آغاز 23۔ستمبر 1944کو کیا۔ محنت کی عظمت اور کام کی وقعت اور رزق حلال کی برکت پر اس خاندان کا کامل یقین تھا ۔سات سو سال سے اس خاندان کو دینی اور دنیاوی علوم کے سر چشمے کی حیثیت حاصل تھی ،جہاں سے ہزاروں تشنگان ِ علم سیراب ہوئے ۔ اللہ دتہ کا والد محمد بخش ایک عالمِ با عمل تھا جسے قرآن حکیم ،حدیث نبویﷺاور فقہ کے بارے میں کامل آ گہی حاصل تھی ۔ان کے آبا و اجداد کا تعلق ملکِ عرب سے تھا جو 712عیسوی میں محمدبن قاسم کی فوج کے ساتھ شور کوٹ سے ہوتے ہوئے اس علاقے میں پہنچے اور تبلیغ اسلام کی خاطر یہیں مستقل بسیرا کر لیا ۔ نامور ادیب امیر اختر بھٹی شہر سدا رنگ جھنگ شہر کے ممنا گیٹ کے اس علاقے کو جھنگ کا چالیسی قرار دیتے تھے ۔اس کوچہ ٔچہل دانش وراں سے ایسے ایسے یگانہ ٔ روزگار فاضل اور نابغہ ٔ روزگار انسان اُٹھے جن کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔جن نامور ہستیوں کا تعلق اس مردم خیز خطے سے تھا، ان میں حاجی محمد یوسف ، نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ،حاجی محمد بخش آڑھتی ،ملک محمد عمر حیات ،ڈاکٹر محمد عمر ،غلام علی خان چین ، حافظ میاں برخوردار خان ،میاں اللہ داد ،حکیم احمد بخش نذیر (چار آنے والے حکیم )،میاں محمود بخش بھٹی ،میاں احمد بخش بھٹی ،ملک اعجاز احمد (بنکار )اور غلام یٰسین (تاجر )کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔اللہ دتہ نے اپنے عہد کے ان زیرک ،فعال،مستعد اور فطین نوجوانوں کی صحبت میں عملی زندگی کا آغاز کیا۔
اللہ دتہ سٹینو ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ڈپٹی کمشنر کے ذاتی معاون کے ا ہم عہدے پر فائز تھا ۔ڈپٹی کمشنر کے ذاتی معاون( پی۔اے) کی حیثیت سے اللہ دتہ سٹینو نے ہمیشہ حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی ۔حریت فِکر کے مجاہد کی حیثیت سے اللہ دتہ سٹینو نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو اپنا شعار بنایا ۔آزادی سے پہلے انگریز ،ہندو اور سکھ افسروں سے بھی اس کا واسطہ پڑا لیکن اُس نے ہر حال میںاسلامی تعلیمات کو زادِ راہ بنایا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ دفتری اوقات میں وہ ظہر اور عصر کی نماز با جماعت ادا کرتا ۔وہ سلطانی ٔجمہور کا پُر جوش حامی تھا۔انسانیت کا وقار اور سر بلندی اس کا مطمح نظر تھا۔درِ کسریٰ پر صدا کرنا اُس کے مسلک کے خلاف تھا ۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کھنڈرات میںموجود جامد و ساکت حنوط شدہ لاشیں کسی کو کچھ عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ چلتے پھرتے ہوئے مُردے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ان لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور ہراساں ماحول میں سسکتی ہوئی انسانیت کے مسائل سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں ۔جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو یوں محسوس ہوا کہ منزل پر وہ استحصالی طبقہ غاصبانہ طور پر قابض ہو گیا ہے جو سرے سے شریکِ سفر ہی نہ تھا ۔الاٹوں ،پلاٹوں اور کلیموں کے ذریعے مفاد پرستوں نے لوٹ مار کی انتہا کر دی ۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں نے اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لیے ہر چور دروازہ اختیار کیا ۔جو چھوٹے تھے وہ بڑے بن بیٹھے اور بونے اپنے آپ کو باون گزا سمجھنے لگے ۔ وقت کے اس حادثے کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگا اور ہر ابلہ رواقیت کا داعی بن بیٹھا۔ا للہ دتہ سٹینو نے اس لوٹ مار سے کوئی تعلق نہ رکھا اور قناعت اور استغنا کا بھرم قائم رکھا ۔ عملی زندگی میں قناعت کو بہارِ بے خزاں سمجھنے والے اس صابر و شاکر انسان نے ملازمت کے دوران رزقِ حلال پر اکتفا کیا اور حرص و ہوس سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیا ۔ممنا گیٹ جھنگ شہر میں واقع اپنے تین مرلے کے قدیم آبائی گھر میں جو طوفانِ نوح کی باقیات کا منظر پیش کرتا ہے ،پوری زندگی گزار دی اور کبھی قصر و ایوان یا فارم ہائوس کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے نہ دیکھا۔ وہ کارِ جہاں کو بے ثبات اور اس عالمِ آب و گِل کو رہ گزرِ سیلِ حوادث کا نام دیتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اس خرابے میںاپنی رہائش کے لیے کسی پر تعیش مکان کی تعمیر کا کبھی قصد نہ کیا۔ اس نے نمود و نمائش ،تصنع و آرائش دنیاوی مال و دولت اور رشتہ و پیوند کو فریبِ سود و زیاں خیال کرتے ہوئے اس سے ہمیشہ دامن بچایا اور اللہ ہُو اور قادرِ مطلق کے حضور فغانِ صبح گاہی میں امان حاصل کی۔ توحید و رسالت کی سچی محبت اللہ دتہ سٹینو کے قلب و جاں میں سما گئی تھی ۔اللہ دتہ سٹینو کو مولانا ظفر علی خان کی نعتیہ شاعری بہت پسند تھی ۔مولانا ظفر علی خان کی کئی نعتیں اسے زبانی یاد تھیں ۔
قدرت اللہ شہاب (پیدائش :26فروری 1917وفات :24۔جولائی 1986)کو جب جھنگ میں ڈپٹی کمشنرکی حیثیت سے تعینات کیا گیا توڈپٹی کمشنر آفس جھنگ میں ملازم اللہ دتہ سٹینو نے نئے ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ اللہ دتہ سٹینو اُس وقت ڈپٹی کمشنر کے پی ۔اے کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھا۔معتبر ربط کا یہ سلسلہ قدرت اللہ شہاب کی طرف سے زندگی بھر جاری رہا ۔اُنھی دنوں میں قدرت اللہ شہاب کو معلوم ہوا کہ لاہور میں مقیم اُردو زبان کے ممتاز حقیقت نگار افسانہ نگار سعادت حسن منٹو (پیدائش :11۔مئی 1912وفات :18۔جنوری 1955)لاہور میںشدید علالت اور جگر کی خرابی کے باعث پریشانی کے عالم میں ہیں ۔ بیگم منٹو ،ممتاز مفتی (پیدائش :11۔ستمبر 1905وفات :27۔اکتوبر 1995) اور اللہ دتہ سٹینو کے مشورے سے سعادت حسن منٹو کو بہلا پُھسلا کر قدرت اللہ شہاب جھنگ لے آئے ۔اللہ دتہ سٹینو جو کہ قدرت اللہ شہاب کے ذاتی معاون کی حیثیت سے اہم خدمات پر مامور تھا ،اسے تا کید کر دی گئی کہ سعادت حسن منٹو کے علاج اور آرام و سکون پر خاص توجہ دی جائے ۔اللہ دتہ سٹینو نے سعادت حسن منٹو کے ساتھ یاد گار وقت گزارا اور اُردوافسانے کے اس با کمال تخلیق کار کو جھنگ شہر میں لایا ۔ حکیم شیر محمد ،ڈاکٹر محمد کبیر خان اور حکیم احمد بخش (چار آنے والا حکیم )نے منٹو کی طبیعت دیکھی تو مشورہ دیا کہ مریض کو روزانہ باغ میں صبح کی سیر پر مائل کیا جائے ،تازہ پھل اور سبزیاں کھلائی جائیں ،ستُو ( بُھنے ہوئے جو کے آٹے اور شکر کا شربت )پلایا جائے اور ہر قسم کی نشہ آور چیزوں اورنشہ آور مشروبات سے مکمل پر ہیز کیا جائے تا کہ مجرب ادویات اپنا اثر دکھا سکیں ۔سعادت حسن منٹو شہر کے نواح میں واقع گھوگھے والا کنویںکے حوض میں نہاتا،غلام علی خان چین اس کے لیے نزدیکی گائوں پکے والا سے بھینس کا خالص دودھ ،کنگ ا ور دیسی گھی لاتا ،چودھری دل میرخان کے کھیتوں سے تازہ سبزیاں آ جاتیں،تازہ پھل بھی فروٹ مارکیٹ سے منگوا لیے جاتے اور ایک مقامی ماہی گیر کُنڈی لگا کر دریائے چناب سے تازہ مچھلی پکڑ کر لاتا اور بکرے کا گوشت منظور قصاب سے خریدا جاتا ۔ مقامی ادیبوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی چل نکلا اور سب احباب نے سعادت حسن منٹو سے ٹُوٹ کر محبت کی ۔ امیر اختر بھٹی ، سید مظفر علی ظفر ،خادم مگھیانوی ،کبیر انور جعفری ،رام ریاض ،دیوان الیاس نصیب ،محمد شیر افضل جعفری ،سید جعفر طاہر ،غلام علی خان چین ، سید تحمل حسین ،ملک عمر حیات اور الحاج سید غلام بھیک نیرنگ نے سعادت حسن منٹو کی عیادت کی اور اردو افسانے کے اس عظیم تخلیق کار کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی ۔ محتاط میزبان کی طرف سے یہ سخت پابندی یہ تھی کہ سعادت حسن منٹو سگریٹ نوشی اور شراب کے نزدیک ہر گزنہیں جا سکتا اور بے راہ روی کے شکار افراد سے کوئی رابطہ نہیں رکھ سکتا۔سعادت حسن منٹواپنے میزبان قدرت اللہ شہاب اور ان کے معتمد معاون اللہ دتہ سٹینو کے حُسنِ اخلاق اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا ۔حسنِ فطرت سے لبریز اس نئے ماحول میں سعادت حسن منٹو ابتدا میں تو خوش و خرم دکھائی دیتا تھا لیکن پر ہیز کے نام پر اُسے جن سخت پابندیوں کا سامنا تھا وہ ان سے سخت ناخوش و بے زار تھا،چوتھے دِن اچانک اُس کے تیور بدل گئے اور وہ چُپکے سے لاہور چلا گیا ۔ منٹو نے اپنے تلخ شام و سحر میں اِک گونہ بے خودی کی جستجو میںمے نوشی شروع کی۔ وہ مے نوشی کو ترک نہیں کر سکتا تھااور جھنگ میں اس کی مے نوشی کی کوئی صورت موجود نہ تھی ،منٹو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
مے سے غرض نشاط ہے کِس رو سیاہ کو اِک گُونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
سعادت حسن منٹو نے اگرچہ جھنگ میں محض چند روز قیام کیا لیکن اللہ دتہ سٹینو اکثر سعادت حسن منٹو کو یاد کرتا اور اس کی ز ندگی کے الم ناک حالات پر دل گرفتہ رہتا ۔وہ کہا کرتا تھا کہ سعادت حسن منٹو اردو افسانے کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی کا نام ہے ۔ وہ ایک وسیع النظر افسانہ نگار ہے ،کوہ سے لے کر کاہ تک زندگی کا کوئی معاملہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہتا ۔سعادت حسن منٹو کو کثرت مے نوشی نے جس طرح مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا وہ اسے ایک سانحہ سے تعبیر کرتا ۔ 18۔جنوری 1955 کوجب منٹو نے بیالیس سال کی عمر میں دنیاکو خیر باد کہا تو اللہ دتہ سٹینو فرط غم سے نڈھال تھا۔وہ سعادت حسن منٹو کے اسلوب کا مداح تھا اس کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ ،’’ہتک ‘‘اور’’ ٹھنڈا گوشت ‘‘ اسے پسند تھے ۔مجید امجد کی نظم ’’ منٹو‘‘ کے یہ اشعار پڑھتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔
میں نے اُس کو دیکھا ہے
اُجلی اُجلی سڑکوںپر اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی بِھیڑ کے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے :
’’دُنیا تیرا حُسن ،یہی بد صورتی ہے !‘‘
دنیا اُس کو گُھورتی ہے
ا للہ دتہ سٹینوکو پروردگارِ عالم کی طرف سے جو بصیرت اور ذوقِ سلیم عطا ہوا تھااس کا اظہار اس کے طرزِ عمل ،گفتگو اور معیارزندگی سے ہوتا تھا ۔اپنی مصروفیات کے باعث وہ تخلیقِ ادب پر زیادہ توجہ نہ دے سکا لیکن مطالعۂ ادب میںاُس نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ اُردو ،فارسی،عربی ،ہندی اور انگریزی ادب کا اس نے وسیع مطالعہ کیا تھا ۔اس کی دلی تمنا تھی کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے لوک ادب کو انگریزی کے قالب میں ڈھالا جائے تا کہ پُوری دنیا اس ادب کی ثروت سے آ گاہ ہو سکے ۔ما بعد الطبیعات سے اس کی دلچسپی کا ایک عالم معترف تھا ۔داستانوی علامات ،استعارات ،تشبیہات اور استعارات کو اس نے ہمیشہ گہری معنویت کا حامل قرار دیا ۔ زرقا الیمامہ کی پیشین گوئیوں اورالف لیلہ ہزار داستان کے دو نسوانی کرداروں فرخندہ اور شہر زاد کو وہ بہت فعال قرار دیتا جوموت سے بھی خوف محسو س نہیں کرتیں ۔ کئی داستانوی علامات مثلاً یاجوج ماجوج ،ساتواں در اور کوہِ ندا کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں ۔ اپنی زندگی کی یادوں کو اس نے صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل کیا ۔اس کے پاس مشاہیر ادب کے بہت سے خطوط موجود تھے ۔حیف صد حیف کہ یہ سب کچھ1973میں دریائے چناب کے قیامت خیز سیلاب کی بھینٹ چڑھ گیا ۔دریائے چناب کے طوفانی ریلے نے جھنگ کے گرد حفاظتی بند کو توڑ دیا اور دریا کا پانی شہر میں داخل ہو گیا ۔ شہر میں سیلاب کے پانی کی سطح آٹھ فٹ بلند تھی ۔ سیلاب کے باعث کئی گھر بے چراغ ہوگئے اور آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔اللہ دتہ سٹینو اور اس کے اہل خانہ اپنی جان بچانے میں تو کام یاب ہو گئے مگر بہت سا بیش قیمت سامان ،مسودات اور مخطوطے نہ بچائے جا سکے ۔اللہ دتہ سٹینو کو اس علمی وادبی زیاں کا بہت قلق تھا۔ اس کے ذاتی کتب خانے میں قرآن حکیم کی تفسیر ،حدیث پاک کی اہم کتب ،تاریخ اسلام اور علم بشریات پر کئی مفید کتب موجود تھیں ۔اس کتب خانے میں نادر کتب کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کا کتب خانہ جس میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب کتب مو جود ہیں، اللہ دتہ سٹینو وہاں با قاعدگی سے جاتا اور مہتمم کتب خانہ محمد شریف خان کی وساطت سے اپنے ذوقِ سلیم کے مطابق مطلوبہ کتب عاریتاً حاصل کرتا اور اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کی صور ت تلاش کر لیتا ۔عالمی کلاسیک کے تراجم کو اُس نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔پاکستان کی قومی زبان اردو اور تمام علاقائی زبانوں کے ادب کے بارے میںاُسے کامل آ گہی حاصل تھی ۔ خوش حال خان خٹک ،شاہ عبداللطیف بھٹائی ،رحمٰن بابا،مست توکلی ،قلندر مہمند ،بلھے شاہ ،سلطان باہو ،شاہ حسین،وارث شاہ اور میاں محمد بخش کا کلام اس نے نہایت توجہ سے پڑھا۔ بے ساختگی ،بر جستگی اور شگفتہ مزاجی اللہ دتہ سٹینو کی شخصیت کے امتیازی وصف تھے ۔انتہائی کٹھن حالات میں بھی اس نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور کبھی بلاوجہ تشویش ،تفکرات اور وسوسوں کا شکار نہ ہوا ۔اس کی صحت مند شخصیت نے اسے آزمائش کی ہر گھڑی میںحالات کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کا حوصلہ دیا۔اس کا کردار اس قدر مثالی تھا کہ ہوائے جورو ستم میں بھی اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شمع وفا کو فروزاں رکھااور کبھی مصلحت اندیشی کی پروا نہ کی ۔سال 1973 کے اوائل میں اس نے اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھنے کا آغاز کیا ۔ رام ریاض نے اس خود نوشت کا عنوان ’’میری حیات کا افسانہ ‘‘تجویز کیا ۔ اس نے لکھا کہ میری آنکھوں نے برطانوی استعمار کی غلامی کے ہراساں شب و روز دیکھے ،آزادی کی صبحِ درخشاں طلو ع ہوتے دیکھی۔آگ اور خون کا دریا عبور کر کے قافلۂ حریت ساحل عافیت تک پہنچااور دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت کی حیثیت سے پاکستان کا نام مثل خورشید اُبھرا ۔افسوس کہ اس سورج کو گہن لگ گیا اور 1971میں یہ ملک عالمی سازش کی وجہ سے دو لخت ہو گیا۔سقوط ڈھاکہ پر اللہ دتہ سٹینو پُھوٹ پُھوٹ کر رویا۔اس نے کچھ عرصہ ڈھاکہ ،چٹا گانگ اور کُھلنا میں گزارا تھا۔وہ اکثر کہتا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد زندگی کی ایک ایسی شام سے واسطہ پڑا ہے جس کی صبح اب کبھی نہ ہو گی ۔اپنی خود نوشت میں اس نے اپنی زندگی کے وہ اہم واقعات سپردِ قلم کیے جن کے اس کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش مرتب ہوئے ۔ خود نوشت کا عنوان’’میری حیات کا افسانہ ‘‘ احباب کو بہت پسند آیا۔ اس خود نوشت کا انتساب اس نے اپنے والدین کے نام کیا جن سے وہ بہت محبت کرتا تھااوراپنی زندگی کی خوشیوں کو ان کی دعا کا اعجاز سمجھتا تھا۔ پیرایہ ٔ آغاز میں یہ شعر درج کیا :
میری حیات کا افسانہ دیکھنے والو
کہیں کہیں سے یہ قصہ پڑھا نہیں جاتا
اللہ دتہ سٹینو کی خود نوشت ’’میری حیات کا افسانہ‘‘ کا اب کہیں سراغ نہیں ملتا ، گمان ہے کہ خود نوشت کا یہ مخطوطہ بھی سال 1973 کے اواخرمیں آنے والے دریائے چناب کے قیامت خیز سیلاب کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی زندگی کے نشیب و فراز جن میں قومی تاریخ کے مدو جزر کی لفظی مرقع نگاری کی گئی تھی ان پر ابلق ایام کے سُموں کی گرد کچھ ایسے پڑ گئی ہے کہ تمام حقائق خیال و خواب بن کررہ گئے ہیں۔بے شمار واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب گئے ہیں۔تحریک پاکستان کا ایک جری کارکن اور تعمیر پاکستان کا ایک چشم دید گواہ خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔ موت کے بے رحم ہاتھوں نے ہنستے بولتے چمن کو جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ہر ایک کے ساتھ اخلاق اوراخلاص سے لبریز سلوک کرنے والا عظیم انسان کیا گیا کہ بہار کے دن مستقل طور پر ہم سے روٹھ گئے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر ہر قربانی دینے والے اس محسن کو ہر دور میں یاد رکھا جائے گا ۔جذبہ ٔ اِنسانیت نوازی اللہ دتہ سٹینو کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی کی اساس پر جو قلبی رشتہ اس نے استوار کیا،اُسے زندگی بھر علاج گردشِ لیل و نہار سمجھا۔انسانی ہم دردی کے جذبات سے سر شار ہوکر اس نے زندگی کے تلخ خارجی حقائق کو بدلنے کی مقدور بھر سعی کی اس کا یہ انداز فکر جہاں اس کی عظمت کی دلیل ہے وہاں انسانی نفسیات اور زندگی کی اقدارِ عالیہ کے بارے میں اس کی فکر پرور بصیرت بھی اس میں جلوہ گر ہے ۔ اس نے اپنے علاقے کے مکینوں پر واضح کر دیا تھا کہ باہمی کھٹ پٹ اور مجنونانہ مقدمے بازی سے ہمیشہ دُور رہیں ۔مقدمہ بازی کو اس نے ایک ایسا جنون قرار دیا جس کے پسِ پردہ سادیت پسندی (Sadism)کے مکروہ خیالات کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ مقدمہ بازی ایک ذہنی عارضے کی علامت ہے جس میں مبتلا افراد دوسروں کو دُکھ دے کر خُوشی سے پُھولے نہیں سماتے ۔یہ حرکت ان کی بے بصری ،کور مغزی اور خست و خجالت کی مظہر ہے ۔مقدمہ بازی کو وہ گھر پُھونک کر تماشا دیکھنے والے قبیح دھندے سے تعبیر کرتا تھا۔ 1973میں جھنگ میں دریائے چناب کے سیلاب سے متاثر ہونے والے بے بس انسانوں کے لیے محدود ذاتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لباس ،پناہ گاہ ، غذا اور ادویات فراہم کرنے کے سلسلے میںا للہ دتہ سٹینو نے اپنے قریبی عزیزوں ،دوستوں ،ہمسایوں اور رفقائے کار سے مل کر خدمت خلق کے جو کام کیے اُنھیں سیلاب زدگان نے ممنو نیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ سیلاب سے متاثرہ بے گھر خاندانوں کی پردہ دار خواتین اپنے کم سِن بچوں کو گود میں لے کر کھلے آسمان کے نیچے حسرت و یاس کی تصویر بنی بے بسی کے عالم میں بیٹھی تھیں۔ تقدیر کی تو پہچان ہی یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔سیلاب سے قبل جو لوگ اپنے گھر میں آرام و سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے آج وہ در بہ در اور خاک بہ سر تھے اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ سیل زماں کے تھپیڑوں میں ان کا سب اثاثہ بہہ گیا۔ اب وہ خواتین اپنی عزت بچانے کے لیے میلی اور بوسیدہ چادروں میں لپٹی سہمی بیٹھی تھیں ۔ان خواتین اور بچوں کی بسی دیکھ کر اللہ دتہ سٹینو کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا اور اس کی آنکھیں پُر نم ہو گئیں ۔ اللہ دتہ سٹینو نے اپنے دیرینہ ساتھی اور محرم رازغلام علی خان چین سے مشورہ کیا اور ان خواتین اور بچوں کو اپنے گھر ممنا گیٹ جھنگ شہر لایا ۔غلام علی خان چین نے ان کے لیے اپنا گھر خالی کر دیا اور خود اپنے اہل خانہ کے ہمراہ چند روز کے لیے اپنے مویشیوں کے باڑے میں منتقل ہو گیا۔ ایثار کی ایسی مثالیں اب کہاں مل سکتی ہیں ۔ ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی یہ ہستیاں کہیں نہ ملیں گی ایسے عظیم لوگ بلا شبہ نایاب ہوتے ہیں۔ اللہ دتہ سٹینو نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی ، امانت ،دیانت ،فرض شناسی اور محنت کو شعار بنایا یہی وجہ ہے کہ ضلع کے تمام افسر اور اکابرین شہر اس کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ اللہ دتہ سٹینو کی شخصیت اس قدر ہر دل عزیز تھی کہ وطن عزیز کی متعدد نامور شخصیات نے اس شخص کی حب الوطنی اورفرض شناسی کا بر ملا اعترا ف کیا۔ انتظامی امور کے بارے میں اللہ دتہ سٹینو سے مشاورت کو سب کلیدی اہمیت کا حامل سمجھتے تھے ۔ضلع جھنگ کی تاریخ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اہم منصب پر طویل ترین خدمات انجام دینے کے بعد خدمت اور ایمان داری کا اس قدر بلند معیار پیش کر کے اس نے لائق صد رشک و تحسین مثال پیش کی ۔اس نے جو طرز عمل اپنایا وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ساٹھ سال کی مدتِ ملازمت کی تکمیل کے بعدبھی اسے توسیع ملتی رہی۔یہ توسیع مسلسل پانچ برس پر محیط ہے ۔ریٹائر منٹ کے بعد اللہ دتہ سٹینو کو مختلف اداروں اور سرکاری شعبوں کی جانب سے کنٹریکٹ پر ملازمت کی پیش کش ہوئی مگر اس نے معذرت کر لی اور اپنا وقت عبادات کے لیے وقف کر دیا ۔اپنے زہد و ریاضت کے اعجاز سے وہ معرفت خداوندی کے عظیم منصب پر فائز ہوا ۔ اپنی انا اور خود داری اُسے دل و جان سے عزیز تھی ۔اس کی سوچ تعمیری ہی رہی کسی کی تخریب سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔غیبت کرنے والے اور مارِ آستین قماش کے مسخروں کو وہ سخت نا پسند کرتاور اس امر کی کوشش کرتا کہ کسی طرح ان کا طرزِ عمل بدل جائے ۔دردمندوں ،ضعیفوں ،بیماروں ،یتیموں،مسکینوں،معذوروں اور مفلس بیوائوں کی پریشاں حالی اور درماندگی کے عالم دست گیری کے سلسلے میں اللہ دتہ سٹینو کی خدمات نصف صدی کے عرصے پر محیط ہیں ۔اس نے جو کچھ کمایاو ہ فلاحی کاموں پر بے دریغ خرچ کیا۔
اپنی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے اللہ دتہ سٹینو ایک ہر دل عزیز شخصیت کا مالک تھا۔اس کی گُل افشانیٔ گفتار کی وجہ سے محفل کشتِ زعفران بن جاتی ۔سال 1973میں دریائے چناب میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اس نے جھنگ میں بہت تباہی مچا دی ۔ہر ی بھری فصلیں ،کھیت اور کھلیان ،مویشی اور گھروں کا قیمتی سامان سب کچھ نیست و نابود ہو گیا ۔متعدد خاندانوں کو کٹھن امتحانات اورسخت مقامات سے گزرنا پڑا۔ان حالات میں غلام قاسم خان جو پہلے بوسکی اور کے۔ ٹی جیسے قیمتی کپڑے کے لباس پہنتا تھا بہت پریشان ہوا ۔ ناچار اس نے کما لیہ سے سفید کھدر کا ایک تھا ن منگوایا جو انتہائی کم نرخ پر دستیاب تھا ۔ اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیے شلوار اور قمیص کا لباس جھنگ شہر کے نیک دل خیاط مختار سے سلوایا ۔ یہ خیاط بھی عجیب شخص تھا جو صرف نیک لوگوں کا لباس سی کر روزی کماتا تھا ۔ کالا دھن کمانے والے سفہا ،اجلاف وارذال ،ساتا روہن اور خفاش قماش کے درندوں پر تین حرف بھیجتا اور کبھی ان کا کام نہ کرتا۔مختار خیاط نے اپنی دُکان میںسامنے دیوار پر جلی حروف میں یہ تحریر ایک چارٹ پر لکھوا کر آویزاںکر رکھی تھی ’’سگان ِ راہ ،گوسفندانِ سیاہ،بگلا بھگت خسیس اور ماہیِ کثیف کے کفن سینے سے معذرت ‘‘ شہر کے متقی اور پر ہیز گار لوگ اس محنت کش کی انسان دوستی کے معترف تھے ۔مختار خیاط بھی اللہ دتہ سٹینو کا معتقد تھا اور اس کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا تھا۔جمعہ کی نماز پر غلام قاسم خان کو خلاف معمول سفید کھدر کے معمولی لباس میں ملبوس دیکھ کر اللہ دتہ سٹینو نے بر جستہ کہا :
’’سیلاب نے غلام قاسم خان کی زندگی میں انقلاب بر پا کر دیا ہے ۔سیلاب سے پہلے تو یہ رنگ برنگے ملبوسات کا شیدائی تھا۔ لیکن سیلاب کے بعد اس نے سفید رنگ کے ملبوسات پہننا شروع کر دیا ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد غلام قاسم خان کا شمار ہمارے معاشرے کے سفید پوش طبقے میں ہونے لگا ہے ۔یہ بات بلا شبہ قابل فخر اور لائق صد رشک ہے ۔اب اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے اسے چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔‘‘
غلام قاسم خان نے بڑے تحمل سے یہ بات سنی اور بولا ’’واقعی مجھے تو آٹے دال کا بھائو اب معلوم ہوا ہے ۔ حالات کی زد میں آنے سے پہلے ان کے مسموم اثرات سے بچنے کی موثر منصوبہ بندی نا گزیر ہے
۔انسان کو عیش میں کٹھن حالات کو اور طیش میں خالقِ کائنات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چا ہیے۔‘‘
غلام قاسم خان نے زندگی بھر اللہ دتہ سٹینو کے ساتھ عقیدت کا تعلق بر قرار رکھا۔غلام قاسم خان اس وقت روحانیت اور معرفت کی جس دولت سے متمتع ہے وہ اللہ دتہ سٹینوجیسے درویش منش اولیا کے فیضان نظر کی عطا ہے ۔جب اللہ دتہ سٹینو کا آخری وقت آ پہنچا تواس وقت غلام قاسم خان اوراس کے اہل ِ خانہ موجود تھے ۔اللہ دتہ سٹینو جب اپنے آخری سفر پر روانہ ہوا تو گھر میں کوئی جمع پونجی موجود نہ تھی ۔اس کی تجہیز و تکفین ا س کے عبادت گزار اور سعادت مند بھانجوں نے کی ۔دنیاوی مال ودولت سے بے تعلقی کا یہ معیار اب عنقا ہو چکا ہے ۔
اللہ دتہ سٹینو اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چُھپا کرز ندگی بسر کرتا رہا اور دوسروں کے رنج و غم دیکھ کر تڑپ اُٹھتا اور ان کی ہمت بندھاتا ۔ صبر کی روایت میں اس نے لبِ اظہار پر تالے لگا رکھے تھے لیکن جبر کے سامنے سِپر انداز ہونا اُس کے مسلک کے خلا ف تھا۔اس کا یہ طرز عمل نفسیاتی ،اخلاقی اور تاریخی حوالے سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش تھی ۔اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو نئی نسل تک منتقل کرنا اس کا نصب العین تھا ۔مادی دور کی لعنتوں نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ زندگی مشینوں میں ڈھل گئی ہے ۔دکھی انسانیت کے مسائل و مصائب کے بارے میں سوچ بچار اور ان کی تکالیف کے ازالے کے لیے غور و فکر کی جانب کسی کا دھیان ہی نہیں ۔ خالق ِ کائنات نے اپنے نیک بندے اللہ دتہ سٹینوکو ایک مسحور کن قلبی اور روحانی تحریک سے متمتع کیا تھا۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ طبعی تحریک کے زیر اثر انسان زر و مال کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے جب کہ روحانی تحریک کے اعجاز سے انسان اپنے خالق کے حضور سر بہ سجود ہو کر گوِہر مراد پا لیتا ہے۔ روحانی تحریک انسان کومحتاجِ ملُوک ہونے سے بچا لیتی ہے اور اس کے اندر جذبہ ٔ اِنسانیت نوازی نمو پاتا ہے ۔ اقلیم معر فت کا یہ پر اسرار بندہ ایک ایسا عالمِ با عمل تھا جس کی دعائیں بارگاہ رب العزت میں ہمیشہ قبول ہوتی تھیں اس کے معاصرین میں کئی اور بھی پر اسرار بندے تھے جن کی روحانی بصیرت کا ایک عالم معترف تھا۔ان کے کشف و کرامات سے تقدیریں بد ل جاتی تھیں ۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘میں جھنگ کے جس پُر اسرار موچی کا ذکر کیا ہے ،وہ اللہ دتہ سٹینو کا قریبی ساتھی اور محرم راز تھا۔اس کا نام کرم دین تھا اور وہ کرموں موچی کے نام سے مشہور تھا۔اس کے علاوہ میاں مراد علی (میاں مودا) ،حاجی محمد یوسف،غلام علی خان چین اور اللہ دتہ سٹینو کے آپس میں گہرے مراسم تھے ۔اقلیم معرفت کے ان پُر اسرار بندوں کے درمیان خلوص اور دردمندی کا جو تعلق تھا وہ انسانیت کی بے لو ث خدمت کی اساس پر استوار تھا ۔ اس کے ایک عقیدت مند رانا عزیز احمد کا خیال تھا کہ اللہ دتہ سٹینو ایک کامل ولی اللہ تھا ۔اس نے دنیا داری کے پردے میں اپنی درویشی اور کشف و کرامات کو موقع پرست اور زمانہ ساز لوگوں سے چُھپا رکھا تھا۔یہ باتیں اپنی جگہ درست سہی لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اللہ دتہ سٹینو کی شخصیت کے پیچھے کوئی نا دیدہ مافوق الفطرت قوت ضرور تھی جس کی وجہ سے متمول تاجر،کلیدی عہدوں پر فائز سول اور ملٹری کے بڑے بڑے دبنگ افسر بھی اس سے ملنے کے لیے کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے اور اس سے رہنمائی اور دعا کی استدعا کرتے ۔یحیٰی خان نے جب پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا تو اللہ دتہ سٹینو زار و قطاررونے لگا اور اس فوجی اقدام کو ملک کے لیے بہت بُرا شگون قرار دیا۔قدرت اللہ شہاب نے یحیٰی خان سے شدید اختلافات کے بعد اپنی مرضی سے جلاوطنی اختیار کی اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا توا للہ دتہ سٹینو نے آمریت کے اس دور کو نظام سقہ کے منحوس دور کا نام دیا جس میں مجبورعوام کے چام کے دام چلانے کا ظالمانہ سلسلہ پوری شدت سے جاری رہا ۔اس کا خیال تھا کہ ان شقاوت آمیز ناانصافیوں کے باعث ملک دو لخت ہوگیا۔وہ ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا متمنی تھا۔وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ اس کی والہانہ محبت اورقلبی وابستگی اس کا امتیازی وصف تھا۔
اللہ دتہ سٹینو کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔اس نے مظلوم ،مجبور اور محروم انسانوں کی زندگی سے مایوسیوں کی تاریکی ختم کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی ۔تعلیم نسواں کا وہ زبردست حامی تھا ۔اپنے علاقے کی بچیوں کی تعلیم پر اس نے اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔ تعلیم نسواں اور خواتین کو پردے کا پا بند بنانے کے سلسلے میں اللہ دتہ سٹینو نے جو کو ششیں کیں وہ ثمر بار ثابت ہوئیں اور آج اس علاقے میں ہر بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہے اور پردے کی پا بند ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیکڑوں غریب اور یتیم بچیاں اعلا تعلیم مکمل کر کے مختلف محکموں میں قومی خدمات انجام دے رہی ہیںاور تعمیر وطن میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں ۔جھنگ شہر میں تعلیم نسواں کے فروغ کے سلسلے میں اللہ دتہ سٹینو کی خدمات اس علاقے کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔جھنگ کے تعلیم یافتہ بے روزگار طلبا و طالبا ت کو ٹائپ ،شارٹ ہینڈ اور کمپیوٹر میں مہارت حاصل کرنے پر مائل کر کے اللہ دتہ سٹینو نے بہت جدو جہد کی اس کی سوچ اقتضائے وقت کے عین مطابق تھی ۔اس وقت شہر کے ہزاروں نو جوان زندگی کے مختلف شعبوں میں موثر اور فعال کردار ادا کر رہے ہیںاور رزقِ حلال کما کر محنت کی عظمت کی درخشاں مثال پیش کر رہے ہیں۔ممنا گیٹ جھنگ شہر میں مقیم اپنے عزیزوں اور قریبی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اللہ دتہ سٹینو نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی فلاحی کام کیے ۔اس نے نیکی کر دریا میں ڈال کا اصول ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اس نے دُکھی انسانیت سے جو عہد وفا استوار کیا اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھتے ہوئے سدا حرزِ جاں بنائے رکھا۔مجبوروں ،مظلوموں اور ستم رسیدوں کے ساتھ درد کا یہ رشتہ ا س نے زندگی بھر بر قرار رکھا۔کئی مفلس و قلاش خاندانوں کی یتیم بچیوں کے جہیز کے لیے اس نے اپنے ذاتی وسائل سے امداد کی اس کے علاوہ بیت المال سے بھی رابطہ کیا اور اس طرح وہ بچیاں عزت اور وقار کے ساتھ اپنے سسرال میں پہنچیں ۔ فاقہ کش غریبوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ فنڈ کے ذمہ دار افسروں سے ا للہ دتہ سٹینو مسلسل رابطے میں رہتا اور اس امر کی کوشش کرتا کہ جس طرح ممکن ہو ان الم نصیبوں کی مالی امداد کی کوئی صورت تلاش کی جائے ۔ اس کی یہ نیکیاں کبھی بُھلائی نہیں جا سکتیں ۔قحط الرجال اور قحط بصارت کے موجودہ زمانے میں جب دکھی انسانیت کے مسائل سے شپرانہ چشم پوشی کا وتیرہ عام ہے ، اس طرح صرفہ ٔجاں کر کے سسکتی ہوئی انسانیت کے دکھوں کا مداواکرنے والے دردمند انسان کہاں ملیں گے ؟اللہ دتہ سٹینو کو اس بات کا قلق تھاکہ اقتدار ، جبر اور اختیار کے مارِ سیاہ نے بے بس انسانیت کی مت مار دی ہے ۔ عقابوں کے نشیمن بد قسمتی سے زاغوں کے تصرف میں ہیں ۔فسطائی جبر کے دورِ خجالت میں بے بس انسانیت پر جو کوہ ِستم ٹُو ٹتے ہیںان کے باعث غریبوں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو جاتی ہے اور ان مجبوروں کی صبح شاموں کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ اس نے انسانیت کی خدمت میں گزارا ۔سلسلہ ٔ روز و شب ازل سے جاری ہے اور ابد تک یہ جا ری رہے گا ،لوح ِجہاں پر ایسے لوگوں کے نام جلی حروف میں کندہ ہو جاتے ہیں جن کی زندگی اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے کاموں میں صرف ہوتی ہے ۔جب بھی ایثار اور انسانی ہمدردی کے واقعات کا بیان ہو گا، اللہ دتہ سٹینو کو اہلِ درد یاد رکھیں گے اور اس کے فقید المثال فلاحی کام او ر عظیم نام کی توقیر جاری رہے گی ۔
مقدر نے اللہ دتہ سٹینو سے عجب کھیل کھیلا ۔وہ شخص جس نے زندگی بھر لوگوں کے گھروں میں امیدوں کے پھول کھلائے اس کے اپنے گھر کے آنگن میں کوئی پھول نہ کھل سکا ۔ اس کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں لیکن اس نے کبھی دل بُرا نہ کیا بل کہ ہر حال میں مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔اگر چہ اس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لیکن اس نے اپنے بھانجوں اور بھانجیوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی ۔اللہ دتہ سٹینو کے فیضانِ نظر کے اعجاز سے یہ ہو نہار بچے اعلا تعلیم کے مدارج طے کرنے کے بعد مختلف محکموں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔یہ سب عجز و انکسار کے پیکر اور توقیر کی مجسم صورت ہیں ۔ان
سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا ہے ۔اپنے ماموں کی طرح عجز و انکسار ،خلوص و دردمندی کو شعار بنا کر یہ سب نو جوان افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہاں ِ تازہ تک رسائی کی جدو جہد میں مصروف ہیں ۔ان کا آہنگِ گفتگو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے رفتگاں کی حسین یادیں اپنی روح میں بسا رکھی ہیںاور اپنے دلوں کو ان سے مرکزِ مہر و وفا کرنے کے آرزو مند ہیں ۔وہ شہر کے سب بچوں کے ساتھ محبت کرتا تھا ۔سب بچے اسے چچااور ماموں کہہ کر پُکارتے تھے۔یہی محبتیں اس کی زندگی کا اثاثہ بن گئیں ۔زندگی بلا شبہ بے ثبات ہے لیکن محبت کے یہ معیار سیلِ زماں کی مہیب موجوں سے ہمیشہ محفوظ رہیں گے ۔
11۔جون2003کی شام جھنگ شہر کے لوگوں کے لیے شام ِالم ثابت ہوئی ۔اس شام اللہ دتہ سٹینو نے اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر ملک عدم کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ اجل کے تند و تیز بگولوں نے شہر ِآرزو کے خورشید ِ جہاں تاب کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا۔شہر کا شہر اس سانحے پر سو گوار تھا۔ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی اور ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ لفظ ہونٹوں پر پتھرا کر رہ گئے کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس سانحہ پر کس کو پُرسا دیں کس سے تعزیت کریں ۔وہ تو سب کا برابر کا محترم بزرگ تھا۔شہر بھرکے تجارتی مر کز بند ہو گئے اور ہر مکتبہ ٔفکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس عظیم انسان کے جنازے میں شریک ہوئے ۔وہ شخص اس دنیا سے چلا گیا جو کہنے کو تو اپنی تنہا ذات میں سمٹا ہوا تھا لیکن اس کے نحیف جسم میں سمندر کے مانند بے کراں وسعت تھی۔بیش بہا تجربوں اور بصیرتوں کا دائرۃالمعارف پیوندِ خاک ہو گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے اس کے اقوا ل و افعال بے لوث محبت اور سدا بہار نیکیاںاس کے وجود کا اثبات کرتی رہیں گی ۔اس کی لوح ِ مزار دیکھ کر دل کی ویرانی کا احساس بڑھ جاتا ہے ۔وہ شخص جو زندگی بھر اپنے کھنڈر نما بوسیدہ مکان کے دیوار و در بدلنے پر آمادہ نہ ہوا ،اس نے اس قدر دور شہر خموشاں میں اپنا نیا گھر بسا لیا ہے کہ اب یاد رفتگاں پر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔اس کی دائمی مفارقت کا یہ روگ ایک پل کا نہیں بل کہ زندگی بھر کا ہے۔ غم کی جان لیوا کیفیات میں بھی صبر کا دامن تھام کر مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہمارے مذہب کا درس ہے ۔ صبح کا وقت تھا میں غلام قاسم خان کے ہمراہ اللہ دتہ سٹینو کی لحد کے پاس کھڑا تھا ۔اس کی دعائے مغفرت کے بعد معاً یہ خیال ذہن میں آیا کہ سیر جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔اس کی لوح ِ مزار پر شبنم کے قطرے سورج کی پہلی کرن پڑنے پر موتیوں کی طرح جگمگا رہے تھے ۔آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کر کے اس کی وفات پر اشک بہا رہا تھا ۔ہماری نگاہ لوح مزار پر پڑی تو بے اختیارآ ٓنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی اور دل سے ایک ہُوک سی اُٹھی ۔میں سوچنے لگا کہ اجل کے ہاتھوں چاند چہرے کس طرح تہہ خاک چلے جاتے ہیں ۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں زندگی کا یہ عکس دیکھ کر دل بیٹھ گیا ۔
لوحِ مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...