نام تو اس کا علاؤالدین تھا مگر اب سبھی لوگ اسے ’’الٰہ دین‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اسے بھی یہ مختصر نام بہت پسند آنے لگا تھا، اور تو اور اب تو اس نے مستقبل میں یہی نام بطور تخلص استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ علاؤالدین دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ بہت کاہل لڑکا تھا، محنت سے جی چراتا تھا اور ہمیشہ خیالی پلاؤ پکاتا رہتا تھا۔ اسے ایک پُر آسائش اور مزے دار زندگی کی طلب تھی۔ یہ منزل تو مثالی تھی، مگر وہ یہ منزل محنت کے بغیر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے سبھی ہم جماعت امتحانات کی تیاریوں میں مگن تھے اور دن رات ایک کیے ہوئے تھے مگر الٰہ دین خیالی دنیا میں کھویا رہتا تھا۔ کبھی اس کے ننھے سے دل میں یہ خواہش جنم لیتی کہ کاش اس کے ہاتھ وہ مرغی لگ جائے جو سونے کے انڈے دیا کرتی تھی تو کبھی اس کے دل میں یہ امنگ پیدا ہوتی کہ کاش اس کے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ لگ جائے تو سارے مسائل ہی حل ہو جائیں۔
’’الٰہ دین!! او الٰہ دین بات سنو!!‘‘
اسے کہیں دور سے آواز سنائی دی۔ وہ چونک گیا اور یہ آواز اسے حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔ اس نے دیکھا اس کا ’’پڑھاکو دوست‘‘ کامل اسے پکار رہا تھا۔
’’بولو‘‘
اس نے برا سا منھ بنایا۔
’’بولو کے بچے!! صبح سے مراقبے میں بیٹھے ہو، کچھ تو تیار کر لو، دیکھ نہیں رہے، امتحانات سر پہ ہیں اور سر شمشاد صاحب بھی جلال میں ہیں۔‘‘
کامل نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟ کیا مل جائے گا مجھے؟ نہیں پڑھنا مجھے۔‘‘
الٰہ دین بے زاری سے بولا۔
’’ارے میاں! میٹرک میں اچھے نمبرز آئیں گے تو آگے کے لیے آسانیاں ہوں گی، سمجھ آئی؟؟۔‘‘
کامل نے ہاتھ نچا نچا کر اسے سمجھایا تھا۔
’’آگے!!! آہا ا ا ا ا ا ا ا‘‘
الٰہ دین نے لفظ ’’آگے‘‘ کو کھینچ کر اپنی دوگز کی جمائی بھی اس میں شامل کر لی تھی۔ اس کی یہ بھونڈی حرکت دیکھ کر کامل نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور اپنی کتاب پہ جھک کر پھر سے پڑھنے لگا جب کہ الٰہ دین اپنی خیالی دنیا میں کھو گیا، اب کی بار وہ قدیم دور کا خزانہ تلاش کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
اسکول سے چھٹی ہو چکی تھی۔ الٰہ دین نے بے دلی سے اسکول بیگ کندھے پہ ڈالا۔ اپنی سائیکل پہ بیٹھا اور اسے جہاز تصور کرتے ہوئے تیز رفتاری سے بھگانے لگا۔ چونکہ آج اس کا گھر جانے کا بالکل بھی جی نہیں کر رہا تھا، لہذا اس نے سائیکل کا رخ جنگل کی طرف موڑ دیا اور ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزر کر جنگل میں داخل ہو گیا۔ یہاں درختوں کی بہتات تھی اور چاروں طرف خود رو پودے اُگے ہوئے تھے، جن کی بدولت یہ علاقہ بہت سرسبز اور حسین نظر آتا تھا۔ اس نے ایک جگہ سائیکل روکی، اسے زمین پہ پٹخا اور خود بھی گھاس پہ لیٹ گیا۔ حسب سابق اس کی خیالی دنیا کے دریچے کھلنے لگے تھے۔ ابھی وہ اپنی خیالی دنیا میں پوری طرح کھویا نہیں تھا کہ اسے دور سے ایک چیز دکھائی دی۔ وہ زور سے چونکا۔ اس نے بغور دیکھا تووہ سیاہ رنگ کا بیگ تھا۔ الٰہ دین کا تجسس بیدار ہو گیا۔ اس نے فوراً ہی اس جانب دوڑ لگا دی، تھوڑی دیر بعد وہ اس چیز کے قریب پہنچ چکا تھا۔ یہ ایک بیگ ہی تھا۔ سیاہ رنگ کا بڑا سا بیگ!!
الٰہ دین نے دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا، اگلے ہی لمحے وہ زور سے اچھلا۔ اس کے سامنے ایک خوب صورت لیپ ٹاپ پڑا تھا۔
’’اوہ‘‘
اس کے منھ سے تحیر آمیز آواز نکل گئی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے لیپ ٹاپ کو ہاتھ لگایا اور اسے گود میں لے کر بیٹھ گیا۔ اب اس نے اس کا جائزہ لینا شروع کیا۔ یہ تو بالکل نیا لیپ ٹاپ تھا۔ اس نے دائیں بائیں سائیڈوں کو دیکھا کہ اسے آن کرنے کا بٹن ڈھونڈ سکے اور پھر اسے بٹن مل ہی گیا۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کر دیا۔ بٹن دباتے ہی لیپ ٹاپ پہ رنگ برنگی روشنیاں ناچنے لگیں اور پھر سکرین پہ کچھ لکھا ہوا نظر آنے لگا۔ الٰہ دین کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل چکی تھیں۔ اس نے نمودار ہونے والے الفاظ پڑھے تو وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، لکھا تھا:
’’الٰہ دین کے چراغ کے بعد اب پیش خدمت ہے الٰہ دین کا رو بوٹ‘‘
’’اف!! یہ کیا ہو گیا، مل گیا، آخر مجھے مل ہی گیا، شکر خدایا شکر!!!‘‘
الٰہ دین کے منھ سے مسرت بھرے بے ربط سے جملے نکلے۔ اس نے دیکھا، سکرین پہ ’’اوکے‘‘ کا بٹن ظاہر ہو گیا تھا۔ اس نے وہ بٹن دبا دیا، فوراً ہی ایک اور عبارت نمودار ہوئی:
’’آپ رو بوٹ کی ملکیت حاصل کرنے کے اہل ہیں، پلیز اپنی تفصیلات کا اندراج کیجیے اور خود کو رجسٹر کیجیے۔‘‘
الٰہ دین کی سانسیں تیز تیز چلنے لگی تھیں۔ اس نے سکرین پہ آنے والے خالی کالمز کو پُر کرنا شروع کر دیا، جس میں اس نے نام پتہ لکھنا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اوکے کا بٹن ظاہر ہوا تو اس نے وہ بٹن دبا کر رجسٹریشن مکمل کر لی، اب ایک اور عبارت اس کے سامنے تھی اور یہ عبارت پڑھتے ہوئے الٰہ دین خوشی سے جھوم اٹھا، وہاں لکھا تھا:
’’مبارک ہو! آپ کا رو بوٹ تیار ہے، رو بوٹ بلانے کے لیے ایک دبائیے!!‘‘
الٰہ دین نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، بٹن دبا دیا، فوراً ہی سیٹی کی تیز آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی لیپ ٹاپ کی سکرین پہ مختلف روشنیاں جگمگانے لگیں۔ الٰہ دین کو ہلکا سا خوف محسوس ہو رہا تھا کہ نجانے اب کیا ہو گا، اچانک اس نے فضا میں ایک تیز بھنبھناہٹ جیسی آواز سنی، جیسے شہد کی مکھیاں اس کے سر کے اوپر منڈلا رہی ہوں، اس نے حیرت اور خوف سے اوپر دیکھا تو وہ ششدر رہ گیا، اس کے عین اوپر ایک چھوٹا سا رو بوٹ اڑ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ رو بوٹ زمین پہ اتر آیا اور الٰہ دین کے سامنے آ رکا، ساتھ ہی اس کی مشینی آواز الٰہ دین کی سماعتوں سے ٹکرائی:
’’علاؤالدین عرف الٰہ دین، میرے آقا!! تمہارا رو بوٹ حاضر ہے۔‘‘
’’شش۔۔ ۔ شکریہ رو بوٹ!!‘‘
الٰہ دین بری طرح ہکلا گیا تھا۔
’’آقا!! حکم کیجیے!!‘‘
رو بوٹ نے مشینی انداز میں پوچھا۔ الٰہ دین سوچنے لگا کہ کیا کہے، آخر اس نے پہلا حکم جاری کیا:
’’مجھے گرما گرم پیزا چاہیے اور ساتھ میں کولڈ ڈرنک بھی!!‘‘
’’جو حکم آقا!!‘‘
رو بوٹ نے کہا اور پھر وہ فضا میں معلق ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضا میں گم ہو گیا۔ اب الٰہ دین سنبھل چکا تھا، اب اس کا دماغ تیزی سے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ رو بوٹ کام کرتا ہے تو اسے اگلا حکم کسی بڑے کام کا دینا چاہیے، عین اسی وقت رو بوٹ کسی جن کی مانند اس کے سامنے اترا، اس کے مشینی ہاتھوں میں ایک پیک شدہ پیزا اور کولڈ ڈرنک تھی۔
’’رو بوٹ حاضر ہے آقا‘‘
رو بوٹ نے اپنے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا۔ الٰہ دین کی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جل اٹھے تھے۔ اس نے وہ چیزیں وصول کیں اور بیٹھ کر کھانے پینے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ایک لمبی سی ڈکار لی اور شکر الحمد للہ پڑھا۔ اب تو اسے ہری ہری سوجھ رہی تھیں۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر رو بوٹ کو کہا:
’’مجھے ایک ایسا ’’اے ٹی ایم‘‘ کارڈ چاہیے جس میں لاکھوں روپے ہوں۔‘‘
’’جو حکم آقا، یہ کام تو میں ابھی کیے دیتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اپنے بازو پہ لگا ایک بٹن دبایا، اگلے ہی لمحے اس کے بازو پہ ایک سکرین نمودار ہو گئی۔ اس نے اس پہ کچھ ٹائپ کرنا شروع کر دیا، تھوڑی دیر بعد اس نے پھر بٹن دبایا تو وہ سکرین غائب ہو گئی۔ اب رو بوٹ نے اپنے سینے پہ لگا ایک بٹن دبایا تو اس کے سینے سے ایک چمکتا دمکتا اے ٹی ایم کارڈ نکل آیا۔
’’کارڈ حاضر ہے آقا!!‘‘
اس کے منھ سے مشینی آواز نکلی۔
’’اف خدایا!!‘‘
الٰہ دین کے منھ سے کانپتی آواز نکلی۔ اس نے وہ کارڈ اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور رو بوٹ کو واپس بھیجنے کے لیے بٹن دبانے لگا۔ جب رو بوٹ واپس چلا گیا تو الٰہ دین نے وہ لیپ ٹاپ بیگ میں ڈالا اور شہر کی راہ لی، تھوڑی دیر بعد وہ اپنا اے ٹی ایم کارڈ ایکٹو کر چکا تھا، یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں کہ اے ٹی ایم میں دس لاکھ کی خطیر رقم موجود تھی۔ الٰہ دین نے پہلے تو جی بھر کر شاپنگ کی، نئے کپڑے اور جوتے خریدے، پھر اس نے شہر سے باہر جانے اور سیر سپاٹے کا فیصلہ کیا اور سفر پہ چل پڑا۔ اگلے دو ہفتوں میں اس کی زندگی بدل چکی تھی، اب اس کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ وہ ملک کے تمام بڑے شہر گھوم چکا تھا۔ جب بھی اس کا بینک بیلنس کم ہونے لگتا، تو وہ رو بوٹ کو بلا کر مزید رقم منگوا لیتا۔ اس طرح اس کی زندگی پر آسائش ہو گئی تھی۔
ادھر اس کے دوست پہلے کی طرح پڑھ رہے تھے اور اپنا دماغ کھپا رہے تھے۔ اس کا سب دوستوں سے رابطہ تھا۔ اس کا دوست کامل تو بہت ہی زیادہ پڑھ رہا تھا۔ وہ ان سب کا خوب مذاق اڑاتا تھا۔ دن گزرتے گئے۔ ایک روز الٰہ دین وہ لیپ ٹاپ اٹھائے ایک کھلی جگہ پہ بیٹھا تھا۔ وہ رو بوٹ کو بلا کر کچھ کام لینا چاہتا تھا، یہ ایک وسیع وعریض میدان تھا۔ دور دور تک سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ اچانک فضا میں عجیب سی آواز ابھری، اس سے پہلے کہ الہ دین کچھ سمجھتا، اس کے سامنے ایک بڑی سی اڑن طشتری آن اتری، اس نے سوچا کہ یہ اڑن طشتری بھی رو بوٹ سے منسلک ہو اور شاید رو بوٹ اس کے لیے کوئی نیا تحفہ لایا ہو، مگر یہ تو کسی اور سیارے کی مخلوق تھی، مشینی مخلوق!!۔ اس مخلوق نے اترتے ہی الٰہ دین کو گھیر لیا۔
’’کیا کر رہے ہو تم؟ کون ہو تم؟؟‘‘
الٰہ دین نے غصے سے چیخ کر انہیں خبردار کیا۔
’’اے انسان!! یہ لیپ ٹاپ دے دو، یہ ہمارا ہے۔‘‘
آنے والی مخلوق نے مخصوص مشینی لہجے میں کہا تو الہ دین زور سے اچھلا، یہ سن کر تو گویا اس کی جان نکل گئی تھی، وہ یوں لرز رہا تھا جیسے اس کی جان اسی لیپ ٹاپ میں بند ہو۔
’’نن۔۔ نہیں۔۔ نہیں یہ میرا ہے۔‘‘
وہ ہذیانی انداز میں چیخا۔
’’نہیں انسان، جھوٹ نہ بولو، یہ ہمارے سیارے کا ہے، یہ ہم سے غلطی سے گر گیا تھا، ہم اسے واپس لے کر جا رہے ہیں، یہ اچھی چیز نہیں ہے، ہم اسے ختم کر دیں گے۔‘‘
مشینی مخلوق نے رک رک کر کہا۔
’’کک کیوں۔ یہ تو کام کی چیز ہے، تم ایسا کرو، یہ مجھے دے دو، خدا کے لیے یہ مجھے دے دو!!۔‘‘
الٰہ دین نے منتیں شروع کر دی تھیں۔
’’نہیں انسان!! یہ چیز ہمیں بے عمل بناتی ہے۔ یہ دنیا تو عمل سے آباد ہے، عمل، حرکت اور محنت سے کائنات چل رہی ہے، اے انسان غور کرو، ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے تو اس کا پانی مسحورکن گیت اور نغمے بکھیر رہا ہوتا ہے، اور جب ندی بہنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی رونق اور اس کے ساز سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، لہذا خود کو عمل سے با رونق بناؤ انسان!!!۔‘‘
مشینی مخلوق نے تو الٰہ دین کو باقاعدہ لیکچر دے ڈالا تھا۔
اس سے پہلے کہ الٰہ دین کچھ کرتا، مشینی مخلوق حرکت میں آئی اور وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر اپنی اڑن طشتری میں گھس گئی اور دوسرے ہی لمحے الٰہ دین اچھل پڑا کیوں کہ چشم زدن میں ہی وہ اڑن طشتری غائب ہو چکی تھی، گویا وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ الٰہ دین نے گہری سانس لی، وہ سمجھ چکا تھا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا، لہذا اس نے بچی ہوئی نقدی استعمال کی اور واپس اپنے شہر آ گیا۔ اس وقت میٹرک کے پیپر ہو رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ امتحان میں شرکت تو کروں، اس نے امتحان تو دیا مگر اس کی تیاری تو تھی ہی نہیں، لہذا وہ سب مضامین میں فیل ہو گیا، جب کہ کامل نے محنت کر کے بورڈ میں دوسری پوزیشن لے لی تھی۔ اگلے روز کے اخبارات میں کامل کی ہنستی مسکراتی تصویر چھپی تھی جس میں وہ انعام میں ملنے والا لیپ ٹاپ بھی تھامے ہوا تھا۔ الٰہ دین نے تصویر دیکھی اور پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن اب وہ خیالی دنیا کے خیالی منصوبے نہیں بنا رہا تھا بلکہ خود کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے عمل کی راہیں تلاش کر رہا تھا۔
٭٭٭